آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
ایٹمی جنگ کی آگ سے بچاؤ میں ایک احمدی کا کردار
(قارئین الفضل کے لئے ایک خصوصی تحریر)
حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔آپ کے ذریعہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی اشاعت تمام دنیا میں ہونا مقدر تھی۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’اگر کوئی مر کر واپس آ سکتا تو وہ دو تین صدیوں کے بعد دیکھ لیتا کہ ساری دنیا احمدی قوم سے اس طرح پُر ہے جس طرح سمندر قطرات سے پُر ہوتا ہے‘‘
(تشحیذ الاذہان ماہ جنوری 1913صفحہ 39)
قیام جماعت پر 133 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصہ میں اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ 210 سے زائد ملکوں میں داخل ہو چکی ہے۔ دنیا کی مذہبی تاریخ میں اتنی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلنے والا کوئی اور مذہب یاجماعت نہیں۔ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اسلام کا پُر امن پیغام پہنچایا جا چکا ہے۔ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت ہو چکی ہے۔ اسکے علاوہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر سال چھوٹا بڑا لٹریچر شائع ہو کر تقسیم کیا جا رہا ہے گھر گھر پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔ دنیا کے کناروں تک ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کے ذریعہ تبلیغ اسلام ہو رہی ہے تمام دنیا میں مساجد کا جال بچھایا جا رہا ہے جہاں دن رات اللہ کی عبادت ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ وقت کے امام اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی اور اقتدا میں ہو رہا ہے۔ گویا دنیا بھر میں جگہ جگہ امن و سلامتی کے جزیرے ابھر رہے ہیں جو بنی نوع انسان کی آخری پناہ گاہ ثابت ہوں گے۔ ان شاء اللّٰہ
غلبہ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں
اگر دنیا کی آبادی کو دیکھا جائے تو ابھی بہت بڑی تعداد نے اس امن کے حصار میں داخل ہونا ہے۔ تمام الہی تحریکات کی طرح احمدیت کی راہ میں بھی بے شمار رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ مذہبی دنیا میں اندھی تقلید اور مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا (بقرہ :71) کی روش ہے جو انکو اپنے غلط نظریات اور بد عقائد کو چھوڑنے نہیں دیتی۔ مذہبی لیڈر اپنے مفادات کے غلام بن کر سچائی اور حقیقت کو قبول کرنے سے منکر ہیں۔ مادی دنیا مادیت کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ انکے غرور اور تکبر کے بلند و بالا پہاڑ سے آگے انکی نظر یں نہیں جاتیں۔ ہر کوئی اپنے دنیاوی مفادات کے طوق میں گرفتار ہے۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ تمام دنیا ہی بے حیائی اور بداعمالیوں کے سیلاب میں اندھا ہو کر بہتی چلی جا رہی ہے، تقوی اور پاکیزگی کے تصور سے بھی ناآشنا ہیں۔ الغرض شیطانی طاقتیں دنیا کی بھاری اکثریت کو اپنے جال میں پھنسا کر حق سے دور کر رہی ہیں۔ بہرحال یہ وہ جہاد ہے جسکی خبر پہلے سے دی گئی تھی کہ شیطان جس کے آخری فتنہ کو دجال کے نام سےیاد کیا گیااور رحمان کی فوجوں کے درمیان یہ آخری جنگ ہے جس میں شیطان کا سر کچلا جائے گا۔ شرک شکست کھا جائے گا اور توحید کا ہر طرف غلبہ ہو گا۔
دجال اور یاجوج ماجوج کی پیشگوئی
قرآن کریم اور احادیث میں دجال اور یاجوج ماجوج کے عظیم فتنوں کا بڑی تفصیل سے ذکر ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مغربی عیسائی قوموں کا پہلا حملہ دجال کے عنوان سے ہو گا اس حملہ میں مسلمانوں کو ورغلا کر عیسائیت کی آغوش میں لے جایا جائے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے معاًقبل عیسائی مشنریز ساری دنیا میں نکل کر عیسائیت کی تبلیغ میں مصروف تھے خاص کر مسلمان ممالک اور ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ پورے جوبن پر تھی۔ انکے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میدان میں اترے اور وفات مسیح ثابت کر کے نیز دوسرے زبردست دلائل سے عیسائیت کو ایسی عبرتناک شکست سے دوچار کیا کہ پھر عیسائیت کا بت ہمیشہ کے لئے پاش پاش ہو گیا۔ وہ چرچ جو مسلمانوں کو نگلنے کے لئے پوری قوت کےساتھ عالم اسلام پر حملہ آور تھا اس عبرتناک شکست کے بعد وہی چرچ آج اپنی عبادتگاہیں بیچنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ چنانچہ پیشگوئیوں کے مطابق دجال کے اس حملہ کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ناکام بنا دیا گویا اسکا قتل ہو گیا۔ آج عیسائیت تبلیغ کے اعتبار سے ایک مردہ مذہب کے طور پر جانا جاتا ہے۔
دجال کا دوسرا حملہ یاجوج ماجوج کی صورت میں مقدر تھا۔ یہ اسکا سیاسی اور مادی حملہ تھا احادیث میں لکھا ہے کہ جب مسیح انکے مقابلہ کا ارادہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو ان کا ظاہری مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ کوئی دنیا کی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی فرمایا لَايَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ یعنی کوئی دو ہاتھ ایسے نہیں جو ان سے مقابلہ کر سکیں۔ اس لئے تو اپنی جماعت کو لے کر کوہ طور پر چلا جا اور دعاؤں میں لگ جا۔ وہ ایام بہت سخت اور بڑے ابتلا کے ہوں گے۔ پھر اچانک وہ کیا دیکھیں گے کہ یاجوج ماجوج خود ہی یوں نابود ہو گئے ہیں جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ اسکے بعد مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے اسلام کا ساری دنیا پر غلبہ ہو جائےگا۔ دجال اور یاجوج ماجوج کی شکست تو بہرحال مقدر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انکی شکست اور احمدیت کا عالمگیر غلبہ کیسے ہو گا۔ مستقبل کے بارے میں کوئی شخص بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔جب پیشگوئی پوری ہوتی ہے تو اسکی حقیقت کھلتی ہے۔ ہاں پیشگوئیوں کو دیکھ کر اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ پیشگوئیوں پر نظر کرنے سے اسکی دو صورتیں نکلتی ہیں۔
غلبہ اسلام کی دو صورتیں
ایک صورت تو یہ ہے کہ وعظ و نصیحت، دعوت و تبلیغ اور پرسوز دعاؤں کے نتیجے میں دنیا کی آنکھیں کھلتی چلی جائیں اور بالآخر يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللّٰهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ ہو اور دنیا کی بھاری اکثریت اس امن کے حصار میں امن اور سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائے۔ اور یہ مسیح موعود ؑ اور انکی جماعت کی دعاؤں کی بدولت اور انکی قربانیوں کی بدولت ہو گا۔ جیسا کہ پیشگوئی میں ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ انکو فرمائے گا کہ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ یعنی میرے بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا۔ طور وہ پہاڑ ہے جہاں موسیؑ سے اللہ نے ملاقات کی تھی اور اسکی تجلیات کا نزول ہوا تھا۔ پس جماعت احمدیہ کی دعاؤں اور تعلق باللہ اور تبلیغ و ارشاد کے لئے وسیع قربانیوں کے نتیجے میں بالآخریہ شیطانی قوتیں کمزور پڑ جائیں گیں اور لوگ دن بدن حق کے قبول کرنے کی طرف مائل ہوں گے یہاں تک کہ مادیت کے یہ پہاڑ خود ہی بھربھرے ہو کر بے اثر ہو جائیں گے جیسے ایک زمانے میں عیسائیت کا چرچ ایک سیلاب کی طرح ہر طرف تلاطم برپا کر رہا تھا مگر آج وہی چرچ اپنا اثرو رسوخ کھو چکا ہے اور برائے نام رہ گیا ہے۔ آج خلیفہ وقت جماعت احمدیہ کو یہی نصیحت فرما رہے ہیں کہ دنیا کی ہدایت کے لئے دعائیں کریں اور تدبیر کے لئے ظاہری کوششیں بھی کریں اور ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہیں تاکہ دنیا نجات پا سکے۔
عالمگیر خوفناک ایٹمی جنگ
دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ دجالی قوتیں جو یاجوج ماجوج کی شکل میں مشرقی اور مغربی طاقت کے روپ میں ظاہر ہوئی ہیں یہ خود ہی ایک خوفناک تصادم کی صورت میں تباہ و برباد ہو جائیں، انکے غرور خاک میں مل جائیں، انکے مادیت کے بت پارہ پارہ ہو جائیں۔ دہریت اوردنیا داری کی نحوستیں ملیا میٹ ہو جائیں انکے تکبر کے پہاڑ اڑا دیئے جائیں۔ اس خوفناک تباہی کے بعدبچ جانے والے لوگوں کے دل نرم ہو جائیں گے اور جلد جلد اسلام کے عافیت کے حصار میں داخل ہو جائیں گے۔ اس کی طرف قرآن کریم میں بھی اشارہ ہے۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا لَا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ (طہ: 106-109) وہ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا رب انکو ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اور انکو ایک چٹیل میدان بنا چھوڑے گا۔ نہ اس میں کوئی کجی ہو گی نہ ہی نشیب و فراز۔ اس دن وہ اس داعی الی اللہ کی پیروی کرنے لگیں گے۔
یاجوج ماجوج جو امریکہ اور رشیا اور انکے اتحادیوں کی طاقت کا نام ہے۔ کے بارے جو پیشگوئی اوپر درج ہے کہ وہ خود ہی پگھل جائیں گے۔ اسکی ایک تشریح یہ بھی ممکن ہے کہ انکے خوفناک تصادم سے انکی تباہی ہو گی۔ روایت میں مزید ذکر ہے کہ پھر جب مسیح موعود ؑ اور انکی جماعت طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے تو کیا دیکھیں گے کہ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، کہ یاجوج ماجوج کی تمام فوج اس طرح فنا ہو گی جیسے ایک شخص مرتا ہے یعنی آناً فاناً انکی تباہی ہو گی فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ، اور دنیا میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہوں گیں۔ زمین کا ایک بالشت حصہ بھی ان کے گند اور بدبودار مردار سے خالی نہیں ہو گا۔ تب مسیح موعود اور انکی جماعت اللہ سے دعائیں کرے گی کہ اس مکدر فضا کو صاف کر دے۔ تو اللہ تعالیٰ آسمان سے پرندے اتارے گا جو انکی لاشوں اور گندگی کو اٹھا کر وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ چاہے گا۔ ابھی بھی انکے تعفن کے آثار باقی ہوں گے تب اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا جو دنیا کے ہر گھر تک پہنچے گی اور زمین کو اس تباہی کے اثرات سے پاک صاف کر دے گی۔ اسکے بعد دنیا میں برکتوں کا دور شروع ہو جائے گا (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال) اس پیشگوئی کے ساتھ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل پیشگوئی کو ملا کر پڑھیں تو مضمون مزید واضح ہو جاتا ہے۔ فرمایا
’’اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی۔ ۔۔اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوحؑ کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوطؑ کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ268-269)
آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے
طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ خوفناک تباہی آ گئی تو ہم کیسے بچیں گے۔ اسکا بھی جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی اقتباس میں دے دیا کہ جیسے نوح علیہ السلام بچائے گئے۔ ویسے ہی اگر تم بھی نوح کی کشتی میں داخل ہو جاؤ تو بچائے جاؤ گے۔ آپ علیہ السلام کو اللہ نے نوح کا خطاب دے کر یہ الہام کیا کہ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا (تذکرہ) کہ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنا۔ چنانچہ آپؑ نے بھی کشتی بنائی جو اس میں سوار ہو جائے گا وہ اس طوفان سے محفوظ رہے گا۔ یہ کشتی کیا ہے؟ یہ آپ کی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے ہر کوئی اس آسمانی کشتی میں سوار ہو سکتا ہے۔
جنگ کی اس خوفناک آگ کے بارے میں بھی آپ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ ’’آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے‘‘ آپ کو ابراہیمؑ کا بھی خطاب دیا گیا۔ جب ابراہیم علیہ السلام کو بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ (انبیاء: 70) اے آگ !میرے پیارے ابراہیمؑ کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا۔ پس اگر ہم اس خوفناک تباہی سے بچنا چاہتے ہیں توہمیں مسیح پاک کی تعلیمات پر عمل کر کے ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔
پیارے امام کی تحریک
ہمارے پیارے امام نےہمیں تلقین فرمائی ہے کہ کثرت سے استغفار کر یں تاکہ ہم ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہو جائیں کیونکہ گناہوں کی آلائشوں کے ساتھ ہم اللہ کا پیار حاصل نہیں کر سکتے۔ کثرت سے درود شریف پڑھیں تاکہ اللہ کا پیار اور اسکا فضل پا سکیں۔ کثرت سے وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا کریں تاکہ وقت آنے پر اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ابراہیمؑ کی طرح اس خوفناک آگ سے نجات عطا کرے۔ ہمیں مسیح پاک کی پاکیزہ تعلیم پر عمل کر کے اسکی روحانی کشتی میں سوار ہونا ہو گا۔ اپنی اصلاح اور دعاؤں کے ذریعہ اللہ کی محبت اور پیار کو جذب کرنا ہو گا کہ ہم مسیح پاک کے روحانی فرزند کہلا سکیں تبھی ہم انکے روحانی گھر میں داخل ہو سکیں گے جسکے بارے اللہ نے خوشخبری دی کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ میں ہر اس شخص کی خود حفاظت کروں گا جو تیرے گھر میں ہو گا۔ اگر ہم خدا کے پیارے بن جائیں تو اللہ تعالیٰ ایسے عجائبات ظاہر کرے گا جو آج دنیا کی نظر میں ناممکن ہے لیکن اللہ اسے ممکن بنا دے گا اور اپنی خاص قدرت کا کرشمہ دکھاتے ہوئے اپنی عافیت کے حصار میں لے لے گا۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار
(در عجم)