• 26 اپریل, 2024

احادیث قدسیہ

حدیث قدسی سے کیا مراد ہے؟

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ احادیث اصطلاحی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک حدیث نبویؐ اور دوسری حدیث قدسی یا حدیث الٰہی۔

حدیث قدسی سے مراد ایسی حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے بیان کریں اور حدیث نبویؐ جو حضورؐ نے خود بیان فرمائیں۔

(کشاف الاصطلاحات والفنون از شیخ محمد علی فاروقی جزء 1 صفحہ629 بحوالہ الفتح المبین فی شرح الحدیث الرابع والعشرین)

علامہ طیبی کےمطابق حدیث قدسی وہ ہے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ الہام یا رؤیا اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اپنے الفاظ میں بیان کی۔

(الفوائدوالفرائد لحفید التفتازانی۔قلمی نسخہ)

علامہ کرمانیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن جبرائیلؑ کے واسطے سے نازل شدہ کلام اور معجزہ ہےجبکہ حدیث قدسی جبرائیلؑ کےواسطہ کے بغیربھی ہوسکتی ہے جسے معجزہ قرار نہیں دیاگیا۔اسے حدیث الٰہی اور حدیث ربّانی بھی کہتے ہیں۔

(البخاری بشرح الکرمانی کتاب الصوم الجزء التاسع صفحہ79،داراحیاء التراث العربی۔بیروت،1981ء)

سید شریف جرجانی حدیث قدسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حدیث قدسی وہ ہے جو معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو اور لفظ کے اعتبار سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے،اس نص کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام کے ذریعہ یا خواب میں دی پھر آپؐ نے اسے اپنے الفاظ میں تعبیر کیا۔حدیث قدسی پر قرآن کو بہرحال فضیلت ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ بھی اللہ کی جانب سے نازل کردہ ہیں۔‘‘

(التعریفات صفحہ45، الدار التونسیة لنشرتونس۔1971ء)

حدیث قدسی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور جلال و جمال سے ہوتا ہے۔علامہ طیبی نے بھی ان معنی کی تائید کی ہے۔

علامہ طیبی نےمزیدکہاکہ احادیث قدسیہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معراج کی رات وحی فرمائیں۔جو اسرار الوحی سےبھی موسوم ہیں۔

(حاشیة جلبی علی التلویح للتفتازانی۔قلمی نسخہ)

حضرت ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
’’حدیث قدسی وہ ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے روایت کریں۔ (یہ روایت) کبھی جبرائیلؑ کے واسطے سے ہوتی ہے،کبھی وحی،الہام یاخواب کےو اسطے سے،اس کے نص کی تعبیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوتی ہے کہ جن الفاظ میں چاہیں اس کو بیان کریں۔‘‘

(الاحادیث القدسیة الاربعینیۃ صفحہ2،المطبعة العلمیة، حلب1927ء)

علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ:
’’وحی قرآنی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے رب سے مروی احادیث قدسی میں بہرحال فرق ہے اور ان کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔‘‘

(الفتح المبین شرح الاربعین جزء1صفحہ 432دارلمنھاج جدہ 2008ء)

بعض علماء نے تکرارکےساتھ چارسوتک احادیث قدسی بیان کی ہیں۔جبکہ بعض دوسرے علماء نے تکرار کے علاوہ ضعیف اور موضوع احادیث قدسی شامل کرکے اس سے دگنی تعداد بھی شمار کی ہے۔

اس جگہ قریباً یکصد سے زائد احادیث قدسی کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔جس میں بغرض اختصار تکرار والی ایسی احادیث شامل نہیں جن کو معمولی الفاظ کے فرق سے کسی اور راوی یا محدّث نے بیان کیا ہو۔وضاحت کی خاطر اس فرق کا ذکر کردیا گیا ہے۔

ذکر الٰہی کا بیان
حدیث نمبر 1: ذکر کی فضیلت

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:
’’اللہ تعالیٰ کے فرشتےمختلف راستوں میں گھومتے پھرتے اہل ذکرکو تلاش کرتے رہتےہیں۔پھر جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پالیتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتےہوئے کہتے ہیں، اپنے مقصد کی طرف آجاؤ۔

(راوی نے) کہا: پھر وہ ان لوگوں کو اپنے پروں کے ساتھ ورلے آسمان تک گھیر لیتے ہیں۔(راوی نے) کہا:پھر ان (فرشتوں سے) ان کا رب سوال کرتا ہے،حالانکہ وہ ان کو خوب جانتا ہےکہ میرے بندے کیا کہہ رہے ہیں؟(راوی نے) کہا:وہ(فرشتے) جواب دیتے ہیں: وہ تیری تسبیح کرتےاور تیری بڑائی بیان کرتے ہیں اور تیری حمداور تیری عظمت بیان کرتے ہیں۔اس پروہ( اللہ تعالیٰ)فرماتا ہے:کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟(راوی نے) کہا: وہ(فرشتے) کہتے ہیں:نہیں،خدا کی قسم! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔(راوی نے) کہا: پھر وہ(اللہ) فرماتا ہے:تو اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو کیسا ہو؟(راوی نے) کہا: وہ(فرشتے) کہتے ہیں:اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو وہ اس سےزیادہ تیری عبادت کرتےاور اس سے بڑھ کر تیری عظمت اور تعریف بیان کرتے اور اس سے بھی زیادہ تیری تسبیح کرتے۔

(راوی نے) کہا پھر وہ(اللہ) فرماتا ہے:تووہ(میرے بندے)مجھ سے کیا سوال کرتے ہیں؟ (راوی نے )کہا: وہ تجھ سے جنت مانگتے ہیں۔پھر (راوی نے) کہا : وہ(اللہ)فرماتا ہے اور کیا انہوں نے اس (جنت )کو دیکھا ہے؟(راوی نے) کہا:وہ کہتے ہیں نہیں۔اللہ کی قسم،اے ہمارے رب ! انہوں نے اس (جنت) کو نہیں دیکھا۔وہ(اللہ) فرماتا ہے:اگر یہ اس (جنت )کو دیکھ لیں تو پھر ان کا کیا حال ہو؟راوی نے کہا: وہ(فرشتے) کہتے ہیں:اگر وہ اس جنت کو دیکھ لیتے تو وہ اس سے بھی زیادہ اس کی خواہش کرتے۔اور اس سے کہیں بڑھ کر اسے طلب کرتے اور اس سے کہیں زیادہ اس(جنت) کی رغبت کرتے۔

وہ(اللہ) فرماتا ہے:اور وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟راوی نے کہا:وہ (فرشتے)کہتے ہیں:وہ آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔(راوی نے )کہا:اللہ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے اس (آگ) کو دیکھا ہے؟(راوی )نے کہا کہ وہ کہتے ہیں نہیں،خدا کی قسم! اے(ہمارے) رب!انہوں نے اس کو نہیں دیکھا۔

(راوی نے) کہا:وہ(اللہ) فرماتا ہے:اگر وہ اس جہنم کو دیکھ لیتے تو کیا ہوتا؟(راوی نے) کہا وہ کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتاتو اس سے بھی زیادہ شدت سے اس سے(دور) بھاگتے اور اس سے کہیں زیادہ اس (جہنم)سے ڈرتے۔

(راوی نے) کہا:پھر اللہ فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے ان (سب ذکر کرنے والوں)کو بخش دیا۔(راوی نے) کہا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے: ان میں ایک شخص ایسا ہے جو ان(ذکر کرنے والوں) میں سے نہیں ہے۔ وہ محض اپنے کام کے لیے آیا تھا۔اللہ فرماتا ہے:یہ سب ہم نشین ہی تو ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی بدبخت نہیں ہوتا۔‘‘

(صحیح البخاری کتاب الدعوات بَابُ فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ)

یہی روایت صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے بیان ہوئی ہے۔جس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اے ہمارے رب! ان میں ایک ایسا گناہگار شخص بھی ہے جو وہاں سے گزررہا تھا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔راوی نے کہا:اللہ فرماتا ہے:میں نے اسے بھی بخش دیا۔یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشین بھی بدبخت نہیں ہوتا۔

(صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ مَجَالِسِ الذِّكْرِ)

ترمذی میں یہ روایت حضرت ابو ہریرہ ؓکے علاوہ حضرت ابو سعید خدریؓ سے بھی مروی ہے۔جس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ ان میں فلاں گناہگار بھی ہے جس کا ارادہ ان کے ساتھ بیٹھنے کا نہیں تھا وہ تو اپنے کام کےلیے آیا تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یہ (ذکر الٰہی کرنے والے) ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشین بھی بدبخت یامحروم نہیں ہوتا۔

(ترمذی ابواب الدعوات بَابُ مَا جَاءَ إِنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الأَرْضِ)

حدیث نمبر 2 : جب بندہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، یعنی کوئی معبود نہیں کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے:
میرے بندے نے سچ کہا

حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ کہتا ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ یعنی کوئی معبود نہیں مگر اللہ اور اللہ (ہی) سب سے بڑا ہے۔ تو اللہ عزّوجلّ فرماتاہے:میرے بندے نے سچ کہا۔ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا وَأَنَا أَكْبَرُ یعنی کوئی معبود نہیں مگر میں۔اور میں (اللہ ہی) سب سے بڑا ہوں۔اور جب بندہ کہتا ہے : لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے۔اللہ فرماتا ہے:میرے بندے نے سچ کہا۔کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر صرف میں ایک۔اور جب وہ کہتا ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وحدہ لَا شَرِيكَ لَهُ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،وہ ایک ہےاس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ(اللہ)فرماتا ہے:میرے بندے نے سچ کہا: کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر میں اور کوئی میرا شریک نہیں۔اور جب وہ کہتا ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔حکومت یا بادشاہت اسی کی ہے۔اسی کےلیے تمام تعریف ہے۔وہ(اللہ)فرماتا ہے:میرا بندہ سچ کہتا ہے: کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر میں۔بادشاہت میری ہے اور تمام تعریف میرے لیے ہے اور جب وہ کہتا ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور کوئی طاقت اور قوت حاصل نہیں مگر اللہ کو۔ تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا: کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر میں اور نہ کوئی طاقت اور قوت سوائے میرے کسی کو حاصل ہے۔

(آخر میں راوی نے) کہا جس کو موت کے وقت یہ کلمات (کہنے) نصیب ہوئے اسے آگ نہیں چھوئے گی۔

حدیث نمبر 3:حمدکرنے والوں کی فضیلت

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنےبیان فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یہ کہا : يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَلِعَظِيمِ سُلْطَانِكَ یعنی اے میرے رب! سب تعریف تیرے لیے ہے۔جیساکہ تیرے چہرے کا جلال اور تیری بادشاہی کی بڑائی ہونی چاہیے۔یہ الفاظ دو فرشتوں کو مشکل معلوم ہوئے اور ان دونوں کو سمجھ نہ آئی کہ یہ کلمات کیسے لکھیں۔ وہ دونوں آسمان کی طرف بلند ہوئے اور انھوں نے کہا کہ اے ہمارے رب! تیرے ایک بندے نے یہ بات کہی۔ ہم نہیں جانتے کہ اسے کیسے لکھیں؟ اللہ عزّوجلّ نےجو اپنے بندے کے قول کو زیادہ جانتا تھا،فرمایا:میرے بندے نے کیا کہا۔ان دونوں نے کہا:اے رب! اس نے کہا: يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَعَظِيمِ سُلْطَانِكَ۔ اللہ عزّوجلّ نے ان دونوں کو فرمایا کہ ان کلمات کو ایسے ہی لکھ لو جیسے میرے بندے نے کہایہاں تک کہ جب اس کی مجھ سے ملاقات ہو،میں اسے اس کی جزاء دوں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب فضل الحامدین)

سنن ابن ماجہ کے علاوہ یہ معجم الاوسط للطبرانی،شعب الایمان للبیھقی اور کنز الاعمال میں ہے۔

حدیث نمبر 4:رسول اللہؐ کاکثرت سےتسبیح و تحمید
اور توبہ و استغفار کرنا

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ یہ کلمات دہراتے تھے: سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ یعنی اللہ اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے میں اللہ سے بخشش طلب کرتا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔اس پر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ یہ کلمات بہت زیادہ پڑھتے ہیں: سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ یعنی اللہ اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے میں اللہ سے بخشش طلب کرتا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا: میرے رب عزّوجلّ نےمجھے یہ خبر دی تھی کہ میں اپنی امت میں نشان دیکھوں گا۔ پس جب میں کوئی نشان دیکھتا ہوں تو کثرت سے یہ ذکر کرتا ہوں: سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ یعنی اللہ اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے میں اللہ سے بخشش طلب کرتا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔اور میں نے وہ نشان دیکھ لیا ہے: اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ ۙ﴿۲﴾ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۳﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَاسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ﴿۴﴾

(النصر: 2-4)

یعنی جب اللہ کى مدد اور فتح آئے گى اور تُو لوگوں کو دىکھے گا کہ وہ اللہ کے دىن مىں فوج در فوج داخل ہو رہے ہىں۔ پس اپنے ربّ کى حمد کے ساتھ (اس کى) تسبىح کر اور اُس سے مغفرت مانگ۔ ىقىناً وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ مَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ)

مسلم کی دوسری روایت میں یہ زائد الفاظ بھی ہیں: اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي۔ يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ

یعنی سورة النصر میں تسبیح و حمد اور استغفار کے حکم کی تعمیل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي پڑھتے تھے۔یعنی اے اللہ! مجھے بخش دے۔

(صحیح مسلم کتابالصلاة بَابُ مَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ)

حدیث نمبر 5:اس شخص کے بارہ میں جو لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کی گواہی دیتے ہوئے فوت ہو

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھمایہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ قیامت کے روزمیری امت میں سے ایک شخص کو تمام مخلوق کے سامنے الگ کرے گا اور اس کے لیے ننانوے رجسٹر پھیلادے گا۔ایک رجسٹرتاحدنظر ہوگا۔پھر اللہ فرمائے گا: کیا ان میں سے تو کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے لکھنے اور محفوظ کرنے والوں نے تجھ سے کوئی کوتاہی کی؟ تو وہ کہے گا کہ نہیں، اے میرے رب! اس پر اللہ فرمائے گا کہ کیا تیرا کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! پھر اللہ فرمائے گا: کیوں نہیں،یقیناً تیرے لیے نیک(اجر)ہے اور آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔پھر ایک صفحہ نکالا جائے گا جس میں (لکھا) ہوگا: اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔

پھر اللہ فرمائے گاکہ اب اپنا(باقی) وزن پیش کر و۔وہ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب!یہ ایک صفحہ ان رجسٹروں کے مقابل پر کیا ہوگا؟اس پراللہ تعالیٰ فرمائے گا:یقیناً تیرے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا۔(راوی نے) کہا: پھرتمام رجسٹر ایک پلڑے میں اور(کلمہ شہادت والا) صفحہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو سب رجسٹر ہلکے ہوجائیں گے اور وہ ایک صفحہ بھاری ہوگااور اللہ کے نام کے مقابل پرکوئی اورچیز بھاری نہیں ہوگی۔

(ترمذی ابواب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ يَمُوتُ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ)

یہی روایت ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہماسے مروی ہے۔البتہ اس میں یہ الفاظ زائد ہیں:اللہ تعالیٰ بندے سے پوچھے گا کہ کیا ان (گناہوں)کے علاوہ تمہاری کوئی نیکی بھی ہے؟جس پر وہ شخص ڈر جائے گا اور کہے گا:نہیں۔تب اللہ فرمائے گا کہ کیوں نہیں،تیری بہت نیکیاں ہیں۔یقیناً آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ مَا يُرْجَى مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)

حدیث نمبر 6:میں تمہیں گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے اپنے بندے کے رجسٹر کے دونوں اطراف کے درمیان جو کچھ تھااسے بخش دیا

حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی بھی دو لکھنے والے محافظ(فرشتے)جنہوں نے رات یا دن کے وقت حفاظت کی ہوتی ہے،اللہ کی طرف بلند نہیں ہوتے مگر اللہ تعالیٰ ان کے صحیفہ کے شروع میں اوراس کے آخر کےسوا کوئی نیکی نہیں پاتا۔پھر اللہ فرماتا ہے:میں تمہیں گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے اپنے بندے کے رجسٹر کے دونوں اطراف کے درمیان جو کچھ تھا۔وہ اسے بخش دیا۔

(ترمذی أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

حدیث نمبر 7:ذکرالٰہی اور خدا سے خوف

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص نے ایک دن بھی مجھےیاد کیا تھا یا میرےمقام سے وہ ڈرا تھااسے آگ سے باہر نکال دو۔

(ترمذی ابواب صفة جھنم بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ لِلنَّارِ نَفَسَيْنِ، وَمَا ذُكِرَ مَنْ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ)

حدیث نمبر 8:عبادت الٰہی میں مشغول ہونا
اور توکل علی اللہ

حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے ابن آدم! تو میری عبادت کےلیے فارغ ہوجا،میں تیرا سینہ غنا سے بھردوں گا اور تیری غربت دور کروں گااور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے دونوں ہاتھ کام میں مصروف رکھوں گا اور تیرا فقر دور نہیں کروں گا۔

(ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

حدیث نمبر 9:میرے اس بندے کو دیکھو کہ اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے یہ مجھ سے ڈرتا ہے

حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ تیرا رب ایک بکریوں کے چرواہے سے تعجب کرتا ہے۔جو کسی پہاڑ کی چوٹی کے کنارے پر نماز کےلیے اذان کہتا اور نماز پڑھتا ہے۔تو اللہ عزّ وجلّ فرماتا ہے کہ میرے اس بندے کو دیکھو کہ اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے یہ مجھ سے ڈرتا ہے۔یقیناً میں نے اپنے بندے کوبخش دیا اور میں نے اسے جنت میں داخل کیا۔

(سنن نسائی کتاب الاذان باب الْأَذَانُ لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ)

حدیث نمبر 10: میں نے اپنے سب بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے

حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطاب میں فرمایا:سنو! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ وہ باتیں جو آج اس نے مجھے سکھائی ہیں وہ تمہیں سکھاؤں جنہیں تم نہیں جانتے۔ہر وہ مال جو میں بندے کو دیا حلال ہے اور یقیناً میں نے اپنے سب بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے اور یقیناً ان کے پاس شیاطین آئے جنہوں نے انہیں ان کے دین سے ہٹا دیا اور ان پر حرام کردیا جو میں نے ان پر حلال کیا تھا اور انہوں نے انہیں حکم دیا کہ وہ میرا شریک ٹھہرائیں جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔یقیناً اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف دیکھا تو ان کے عربوں سے بھی ناراض ہوا اور عجمیوں سے بھی سوائے اہل کتاب میں سے رہے سہے لوگ اور فرمایا میں نے تجھے صرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ تجھے آزماؤں اور تیرے ذریعہ آزماؤں اور میں نے تجھ پر ایک کتاب اتاری ہے جسے پانی دھو نہیں سکتا اور تو اس کو سوتے بھی اور جاگتے بھی پڑھتا ہے۔یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قریش کو بھڑکاؤں تو میں نے کہا اے میرے رب !تب تو وہ میرا سر توڑدیں گے اور اسے روٹی کی طرح کرچھوڑیں گے۔(اللہ نے)فرمایا: ان کو نکال جیسے انہوں نے تجھے نکالا تھا اور ان سے لڑائی کر ہم تیری مددکریں گے اور تو خرچ کرہم تجھ پر خرچ کریں گے۔تو ایک لشکر بھیج ہم اس جیسے پانچ لشکر بھیجیں گے اور تو اپنے اطاعت گزاروں کے ذریعہ نافرمانوں سے لڑائی کر۔اللہ نے فرمایا: جنت والے تین قسم کے ہیں۔ایک تو وہ بادشاہ جو انصاف کرنے والا،صدقہ کرنے والا اور جسے نیکی کی توفیق دی گئی ہے اور(دوسرا) وہ شخص جو ہر قرابت والے اور ہر مسلمان پر رحم کرنے والا نرم دل ہے۔اور (تیسرا) وہ شخص جو پاک دامن ہے، سوال سے بچنے والاہے، عیال دار ہے۔

آپؐ نے فرمایا :آگ والے پانچ قسم کے ہیں(ایک تو)وہ کمزورجو تم میں سے بے عقل اور تمہارے ماتحت ہیں اور اہل و عیال اور مال کے حصول کی طلب نہیں کرتے اور(دوسرا)وہ خیانت کرنے والا جس کی طمع ڈھکی چھپی نہیں اگرچہ وہ بہت معمولی ہو وہ اس کی بھی خیانت کرلیتا ہے اور(تیسرا)وہ شخص جو تیرے اہل و عیال اور تیرے مال کے بارہ میں صبح شام(ہروقت)تجھے دھوکا دیتا ہے(اورچوتھے نمبر پر)آپؐ نے بخل یاجھوٹ کا ذکرفرمایا اور(پانچویں نمبرپر)بداخلاق فحش بولنے والے کا ذکرفرمایا۔

دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ یقیناً اللہ نے میری طرف وحی کی کہ تم عاجزی اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور اس روایت کا یہ فقرہ کہ ’’وہ لوگ جوتمہارے تابع ہیں اورکوئی اہل و عیال اور مال طلب نہیں کرتے‘‘ سن کر راوی نے کہا کہ اے ابوعبد اللہ! کیا یہ بھی ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں،اللہ کی قسم! میں نے ان کو زمانہ جاہلیت میں اسی طرح دیکھا ہے اور ایک شخص قبیلہ کی بکریاں چراتا جس کا اسے کوئی صلہ نہ ملتا سوائے ان کی لونڈی کے جس سے وہ تعلق قائم کرتا تھا۔

(صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ الصِّفَاتِ الَّتِي يُعْرَفُ بِهَا فِي الدُّنْيَا أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ)

حدیث نمبر 11: ابن آدم زمانہ کو برابھلا کہتا ہے

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے۔وہ زمانہ کو گالی دیتا ہےاور زمانہ میں ہوں۔حکومت میرے ہاتھ میں ہے۔میں رات اور دن کوپھیرتا ہوں۔

(بخاری کتاب ا لتفسیر تفسیرسورة الجاثیة بَابُ{وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ} (الجاثية: 24) الآيَةَ)

یہی روایت صحیح بخاری کتاب الادب اور کتاب التوحید میں بھی آئی ہے اور مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے بھی اسے بیان کیا ہے۔

مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زائدہیں: يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ یعنی زمانہ کا برا ہو۔حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں۔جو اس کے دن اور رات پھیرتا ہوں۔

(صحیح مسلم كتاب الْأَلْفَاظِ مِنَ الْأَدَبِ وَغَيْرِهَا بَابُ النَّهْيِ عَنْ سَبِّ الدَّهْرِ)

حدیث نمبر 12: ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے
اور یہ اسے مناسب نہیں

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کےلیے مناسب نہ تھااور وہ مجھے برا بھلا کہتا ہےحالانکہ یہ اس کے لیے جائز نہیں۔اس کا مجھے جھٹلانا اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مجھے پہلےپیدا کیا،اب وہ پھر مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرےگاحالانکہ اس کے دوبارہ پیداکرنے کی نسبت اس کو میرا پہلی بار پیدا کرنا آسان نہ تھااور اس کا مجھے گالیاں دینا اس کا یہ کہناہے کہ اللہ نے بیٹابنالیا ہے حالانکہ میں اکیلا بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں جناگیا ہوں اور نہ ہی کوئی میری برابری کرنے والا ہے۔

(بخاری کتاب التفسیرتفسیرسورة الاخلاص)

اسی مفہوم کی روایت نسائی میں بھی ہے۔جس میں یہ زائد ہے کہ حالانکہ دوسری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔

(نسائی کتاب الجنائز باب أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ)

حدیث نمبر 13: میرے بندے مجھ پر ایمان اور کفر کی حالت میں صبح کرتے ہیں

حضرت زید بن خالد جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ میں رات ہونیوالی بارش کے بعد صبح کی نماز کے وقت یہ بات بیان فرمائی۔آپؐ نے (نماز سے)سلام پھیرا اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر انہیں فرمایا:کیا تم جانتے ہو؟تمہارے رب نے کیا فرمایاہے؟انہوں نے کہا:اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔(آپؐ نے بیان کیا کہ اللہ نے)فرمایا:میرے بندوں نے مجھ پر ایمان اور انکار کی حالت میں صبح کی ہے پس جس نے تو یہ کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لانیوالا اور ستارے کا انکاری ہے۔اور جس نے یہ کہا کہ ہم پر بارش فلاں فلاں ستارے کے فلاں فلاں جگہ آنے کی وجہ سے ہوئی تو وہ میرا انکار کرنے والا اور ستارے پر ایمان لانیوالا ہے۔

(بخاری ابواب الاستسقاء باب قول اللہ و تجعلون رزقکم انکم تکذبون)

یہی روایت بخاری کتاب التوحید کے علاوہ امام مالک نے اپنی کتاب مؤطا میں حضرت زید بن خالد جہنیؓ سے بیان کی ہے جبکہ نسائی نے حضرت زید بن خالدؓ کے علاوہ حضرت ابوہریرہؓ کی نسبتاً مختصر روایت بھی بیان کی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ عزّوجل فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں پر کوئی نعمت نہیں کرتا مگر ان میں سے ایک فریق اس کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ستارہ کے ذریعہ ہوا۔

(سنن نسائی کتاب الاستسقاء باب كَرَاهِيَةُ الِاسْتِمْطَارِ بِالْكَوْكَبِ)

حدیث نمبر 14: اور اس سے زیادہ ظالم
کون ہوسکتاہے جو میرے تخلیق
کرنے کی طرح تخلیق کرنے لگے

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو میری تخلیق کی طرح تخلیق کا دعویٰ کرے(جو میری طرح پیدا کرنا(بنانا)چاہے)۔پھر چاہیے کہ وہ ایک ذرّہ پیدا کرکے دکھائیں یا ایک دانۂ گندم یا جوکا پیدا کریں۔

(بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ} [الصافات: 96])

بخاری کتاب اللباس میں حضرت ابوزرعہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ مدینہ کے ایک گھر میں داخل ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی بلندی پر ایک مصور تصویر بنارہا تھا۔اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے یہ حدیث سنائی۔پھر حضرت ابوہریرہؓ نے پانی کا ایک لگن منگواکر اپنے بازوبغلوں تک دھوئے۔میں نے ابوہریرہؓ سے کہا کہ یہ بات آپ نے خود رسول اللہﷺ سے سنی ہے۔انہوں نے کہا: میں نے جہاں تک زیور پہنایا جاسکتا ہے وہاں تک دھویاہے۔

مسلم کی روایت میں حضرت ابوزرعہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ مروان کے گھر گیا اور انہوں نے وہاں تصاویر دیکھیں۔اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ اس سے زیادہ کون ظالم ہوسکتا ہے جو میرے تخلیق کرنے کی طرح تخلیق کرنے لگے! پس چاہیے کہ اب وہ کوئی ذرہ پیدا کریں کوئی دانہ پیدا کریں یا کوئی جو(کا دانہ) پیدا کریں۔

ایک اور روایت ابو زرعہ سے مروی ہے کہ میں اورحضرت ابوہریرہؓ ایک ایسے گھر میں گئے جو مدینہ میں سعید یا مروان کےلیے بنایا جارہا تھا۔راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس گھر میں ایک مصور کو تصویر بناتے دیکھا تو کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے پھر اسی طرح روایت بیان کی۔

(مسلم کتاب اللباس بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ)

حدیث نمبر 15 : یقیناً تیری امت سوال کرتی رہے گی کہ یہ کیا یہ کیا یہاں تک کہ وہ اللہ پر سوال کریں گے

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یقیناً تیری امت بدستور سوال کرتی رہے گی کہ یہ کیا؟یہ کیا؟یہاں تک کہ وہ یہ سوال کریں گے کہ یہ اللہ ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟

(مسلم کتاب الایمان بَابُ بَيَانِ الْوَسْوَسَةِ فِي الْإِيمَانِ وَمَا يَقُولُهُ مَنْ وَجَدَهَا)

مسلم کی دوسری روایت میں یہ زائد الفاظ ہیں کہ جو اس سے کوئی (سوال) پائے تو وہ کہے اٰمنتُ باللّٰہ یعنی میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں۔

(مسلم کتاب الایمان بَابُ بَيَانِ الْوَسْوَسَةِ فِي الْإِيمَانِ وَمَا يَقُولُهُ مَنْ وَجَدَهَا)

اسی طرح مسلم کی ایک اور روایت میں یہ اضافہ ہے کہ شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ کس نے فلاں فلاں کو پیدا کیا۔یہاں تک کہ وہ اسے کہتا ہے تیرے رب کو کس نے پیدا کیا۔پس جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ کی پناہ طلب کرے اور باز آجائے۔

(مسلم کتاب الایمان بَابُ بَيَانِ الْوَسْوَسَةِ فِي الْإِيمَانِ وَمَا يَقُولُهُ مَنْ وَجَدَهَا)

حدیث نمبر 16: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: کون ہوتا ہے مجھ پر قسم کھانے والا کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا

حضرت جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا کہ ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ فلاں کو نہیں بخشے گا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کون ہوتا ہے مجھ پر قسم کھانیوالا کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا۔یقیناً میں نے فلاں کو بخش دیا اور تیرے عمل ضائع کردئیے یا جیساراوی نےکہا۔

(مسلم کتاب البروالصلة والآداب بَابُ النَّهْيِ عَنْ تَقْنِيطِ الْإِنْسَانِ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو شخص بھائی بنے ہوئے تھے ان میں سے ایک گناہ کرتا تھا اور دوسرا عبادت میں کوشش کرتا تھااور عبادت میں کوشش کرنیوالا ہمیشہ دوسرے کو گناہ پر دیکھتا تھا اور اسے کہتا تھا:بس کرویا باز رہو۔ایک دن اس(عبادت گزار) نے اسے (گناہگار کو)گناہ کرتے پایا تو اس سے کہا: باز رہ۔ تو دوسرے (گناہگار)نے کہا: مجھے اور میرے رب کو اکیلے چھوڑ دو،کیا تم مجھ پر نگران مقرر کیے گئے ہو؟تو پہلے نے کہا کہ خدا کی قسم! اللہ تجھے نہیں بخشے گا یا تمہیں جنت میں داخل نہیں کرے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی روحیں قبض کرلیں اور وہ دونوں ربّ العالمین کے پاس اکٹھے ہوئے۔اللہ نے عبادت میں کوشش کرنے والے سے فرمایا: کیا تم مجھے جانتےتھے؟ یا تم اس پر قدرت رکھتے تھے جو میرے ہاتھ میں ہے اور گناہگار کو فرمایا:جاؤ،میری رحمت سے جنت میں داخل ہوجاؤ اور دوسرے کو فرمایا:اسے آگ میں لے جاؤ۔

حضرت ابوہریرہؓ نے کہا:اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے ایسی بات کی جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ کردی۔

(سنن ابو داؤد کتاب الادب بَابٌ فِي النَّهْيِ عَنِ البَغْيِ)

حدیث نمبر 17: اللہ کے کرم سے اعمال صالحہ کی کئی گنا جزا جو نیکی یا بدی کا ارادہ کرے

حضرت ابن عباسؓ نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں جو آپﷺ نے اپنے رب عزوجل کے متعلق بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:یقیناً اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور بدیاں لکھ چھوڑی ہیں پھر ان کو کھول کر بیان کردیاہے۔پس جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کےلیے اپنے پاس ایک مکمل نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر وہ اس (نیکی) کا ارادہ کرکے اس پر عمل بھی کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کےلیے اپنے پاس دس نیکیوں سے لے کر سات سوگنا سے کئی گنا تک لکھ لیتا ہے اور جوشخص کسی برائی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے۔اللہ تعالیٰ اس کےلیے ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر وہ اس کا ارادہ کرکے اس پر عمل کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک برائی ہی لکھتا ہے۔

(بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ أَوْ بِسَيِّئَةٍ)

اس بارہ میں بخاری کی اسی مضمون کی دوسری روایت حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیان کیا کہ اللہ فرماتا ہے:جب میرا بندہ ارادہ کرتا ہے کہ کوئی برائی کرے تو وہ اس وقت تک نہ لکھو جب تک وہ ا س پر عمل نہ کرلے اگر وہ اس پر عمل کرگزرے تو اسے ایک (برائی کے)برابر لکھ لو اور اگر وہ میری خاطر وہ برائی چھوڑ دے تو اس (برائی کو) اس کے لیے نیکی لکھ دو اور جب میرا بندہ نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرسکے تو اس کےلیے ایک نیکی لکھ دو اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو اسے اس کےلیے دس گنا سے سات سو گنا تک لکھ لو۔

(بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} [الفتح: 15])

مسلم کی ایک اورحدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہؓ یہ زائد الفاظ ہیں کہ فرشتے کہتے ہیں:اے رب! یہ تیرا بندہ ایک برا کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کو زیادہ بہتر دیکھنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کی نگرانی کرتے رہو اگر یہ بدی کرلے تو اس کے برابر لکھ دینا اور اگر یہ اس بدی کا خیال ترک کردے تو اسے اس کےلیے ایک نیکی لکھ دینا کیونکہ اس نے اس (بدی) کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑا ہے۔

(مسلم کتاب الایمان بَابُ إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ كُتِبَتْ، وَإِذَا هَمَّ بِسَيِّئَةٍ لَمْ تُكْتَبْ)

مسلم کی ایک اور روایت میں بدی کے ارادہ کے بعد اسے کرلینے پر ایک بدی لکھنے کے بعد یہ زائد الفاظ ہیں: اللہ تعالیٰ اس بدی کو بھی مٹادیتا ہے(یعنی توبہ سے)اور اللہ(کی اس رحمت) کے باوجود سوائے (واقعی) ہلاک ہونے والے کے کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔

(مسلم کتاب الایمان بَابُ إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ كُتِبَتْ، وَإِذَا هَمَّ بِسَيِّئَةٍ لَمْ تُكْتَبْ)

ابن ماجہ میں حضرت ابوذرؓ سے روایت کہ رسول اللہﷺ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو شخص ایک نیکی کرے گا اس کو اسی طرح دس نیکیوں کا ثواب ملے گااور میں اس پر زیادہ بھی کر سکتا ہوں اور جو بدی کا مرتکب ہوتو ایک بدی کا بدلہ اس کے برابر ہے یا میں (وہ بھی) بخش دوں۔اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں اس سے ایک ہاتھ برابر قریب ہوتا ہوں اور جو ایک ہاتھ برابر مجھ سے قریب ہوتا ہے میں اس سے دوہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کے پاس دوڑتے ہوئے آتا ہوں اور جو مجھ سے زمین بھربدیاں لےکر ملاقات کرتا ہے اس حال میں کہ وہ میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں ٹھہراتا تو میں اس کے ساتھ اسی قدر بخشش سے ملاقات کرتا ہوں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ فَضْلِ الْعَمَلِ)

حدیث نمبر 18 :اللہ تعالیٰ سے حسن ظن

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کاذکر کرتا ہوں۔اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہوتو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوجاتا ہوں اور وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہو تو میں اس سے دوگنایعنی دو ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے پاس چلتے ہوئے آئے تو میں اس کی طرف دوڑتے ہوئے آتا ہوں۔

(بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ} [آل عمران: 28])

مسلم کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب وہ دوہاتھ برابر میرے قریب ہوتا ہے تو میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے اس کے پاس آتا ہوں۔

(مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ الْحَثِّ عَلَى ذِكْرِ اللهِ تَعَالَى)

ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔

(ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِي حُسْنِ الظَّنِّ بِاللّٰهِ)

ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے دونوں ہونٹ میری خاطر جنبش کرتے ہیں۔

(ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ فَضْلِ الذِّكْرِ)

حدیث نمبر 19:اللہ نے اپنے نیک بندوں کےلیےجو تیار کررکھا ہے

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے:میں نے اپنے نیک بندوں کےلیے وہ وہ (نعمتیں) تیار کی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا۔اگر تم چاہو تو یہ(آیت) پڑھو: فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ (السجدہ: 18) کوئی نفس بھی نہیں جانتا کہ آنکھوں کی کیا کیاٹھنڈک ان کےلیے چھپا کررکھی گئی ہے۔

(بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ)

بخاری کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: ذُخْرًا بَلْهَ، مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَيْهِ یعنی جو ذخیرہ اللہ تعالیٰ نےجمع کررکھا ہے اس کے مقابل پر اس کو چھوڑو جس کی تمہیں اطلاع کی گئی ہے۔

(بخاری کتاب التفسیربَابُ قَوْلِهِ: {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ} [السجدة: 17])

حدیث نمبر 20: اللہ تعالیٰ کا بندوں کو پکارنا کہ وہ اس سے دعا کریں اور اس سے امید رکھیں
ہمارا رب ورلے آسمان کی طرف اترتا ہے

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک و تعالیٰ جو برکت والا اور بلند ہے، ہر رات کو ورلے آسمان کی طرف اترتا ہے۔جب رات کا آخری حصہ باقی رہ جاتا ہے،وہ فرماتا ہے کہ کون ہے جومجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں؟

(بخاری کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ)

مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر رات کو جب رات کا پہلا ایک تہائی حصہ گزرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ورلے آسمان کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں،میں بادشاہ ہوں۔کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں؟اسی طرح ہوتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہوجاتی ہے۔

(مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرھابَابُ التَّرْغِيبِ فِي الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَالْإِجَابَةِ فِيهِ)

ایک اور روایت میں ہے کہ جب آدھی رات یا رات کے دو حصے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہے کوئی سوالی جسے دیا جائے ؟ہے کوئی دعا کرنیوالا جس کی دعا قبول ہو؟ہے کوئی بخشش مانگنے والا جسے بخشا جائے؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔

(مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرھابَابُ التَّرْغِيبِ فِي الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَالْإِجَابَةِ فِيهِ)

اور ایک اور روایت میں یہ زائد الفاظ ہیں: پھر اللہ تعالیٰ اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو اللہ کوقرض دے جو نہ تہی دست ہے اور نہ ہی مظلوم ہے؟

اور ایک روایت میں یہ فقرہ ہے :ہے کوئی توبہ کرنے والا؟

(مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرھابَابُ التَّرْغِيبِ فِي الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَالْإِجَابَةِ فِيهِ)

حدیث نمبر 21: اے ابن آدم!
یقیناً تو نے مجھ سے جو دعا کی اور مجھ سے امید رکھی
میں نے تجھے معاف کردیا

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! یقیناً تو نے مجھ سے مانگا اور مجھ سے امید رکھی۔میں نے تجھے وہ سب معاف کردیا جس میں تو مشغول رہا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے ابن آدم! اگر تو زمین کی وسعت کے برابر بدیاں لے کر آئے پھر اس حال میں مجھے ملے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوتو میں زمین کی وسعت کے برابر تجھے مغفرت عطا کروں گا۔

(ترمذی ابواب الدعوات بَاب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ بِعِبَادِهِ)

حدیث نمبر 22 :15؍شعبان کی رات کے بارہ میں

حضرت علیؓ بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جب شعبان کے نصف یعنی 15 تاریخ کی رات ہوتو اس رات کو قیام(عبادت) کرو اور اس کے دن کا روزہ رکھو یقیناً اللہ تعالیٰ اس میں سورج غروب ہونے کے ساتھ ورلے آسمان کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی رزق کا خواہاں نہیں جسے میں رزق دوں؟ کیا کوئی مصیبت زدہ بیمار نہیں جسے میں اچھا کردوں (یا اس کی مصیبت دور کروں) کیا کوئی ایسا نہیں؟کیا کوئی ایسا نہیں؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلاہ والسنة فیہا بَابُ مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ)

حدیث نمبر 23: اللہ کی بندہ سے محبت اور اس کا اثر محبت مخلوق میں
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیلؑ کو آواز آتی ہے

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیلؑ کو آواز آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو جبرائیلؑ اس سے محبت کرنے لگتا ہے پھر جبرائیلؑ آسمان والوں میں اعلان کرتا ہے:اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو پھر اہل آسمان بھی اس (شخص) سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس (شخص) کےلیے زمین میں مقبولت رکھ دی جاتی ہے۔

(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکة)

مسلم کی روایت میں یہ زائد الفاظ ہیں:
اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو حضرت جبرائیلؑ کو بلاکر فرماتا ہے میں فلاں سے ناراض ہوں تم بھی اس سے ناراض ہوجاؤ۔اس پر جبرائیلؑ بھی اس سے ناراض ہوجاتا ہے پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے ناراض ہے تم بھی اس سے ناراضگی ظاہر کرو۔(راوی نے) کہا پس وہ سب اس سے ناراض ہوتے ہیں پھر اس کےلیے زمین میں نفرت پھیل جاتی ہے۔

(مسلم کتاب البر والصلة والآداب بَابُ إِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا حَبَّبَهُ لِعَبَادِهِ)

اور مؤطا امام مالک میں یہ بات اس فرق کے ساتھ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے۔۔۔امام مالک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے بغض یا ناراضی کے بارہ میں ایسے ہی ارشاد فرمایا۔

ترمذی میں یہ زائد الفاظ ہیں کہ جب جبرائیلؑ آسمان میں کسی شخص سے اللہ کی محبت کا اعلان کرتا ہے پھر اہل زمین میں اس کی محبت نازل ہوتی ہے اور یہی مطلب اللہ کے اس ارشاد کا ہے: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا (مريم: 97) ىقىناً وہ لوگ جو اىمان لائے اور نىک اعمال بجا لائے اُن کے لئے رحمان محبت پىدا کردے گا۔

اس کے بعد اسی طرح ناراضگی کا ذکر ہے۔

(ترمذی ابواب تفسیر القرآن باب و من سورة مریم)

حدیث نمبر 24: اللہ کے دوستوں سے دشمنی اور
اللہ کے قرب کےلیے سب سے افضل چیز

جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میرا اس سے اعلان جنگ ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ عزّ و جل فرماتا ہے: جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور بندہ میری سب سے پیاری چیز فرائض کے سوا اور کسی چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کرتا اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ بھی بدستور قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ا سے عطا کرتاہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتاہوں اور میں جو کام کرنیوالا ہوں اس میں مجھے کچھ بھی تردّد نہیں ہوتاجتنا تردّد مجھے اپنے مومن بندے کی جان لینے سے ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور اس کی ناپسندیدگی مجھے گوارا نہیں۔

(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع)

حدیث نمبر 25: خشیت الٰہی اور اس کا خوف گناہوں سے مغفرت کے اسباب میں سے ہیں

حدیث: ایک شخص نے اپنے اہل خانہ کو اس کی موت کے بعد اسے جلانے کاحکم دیا

حضرت عقبہ بن عمروؓنے حضرت حذیفہؓ سے کہا:کیا آپ ہمیں رسول اللہﷺسے سنی احادیث بیان نہیں کریں گے۔انہوں نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرتﷺ کو فرماتے سنا:یقیناً جب دجال نکلے گا تو اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی۔تو وہ چیز جسےلوگ سمجھیں گے کہ وہ آگ ہے،وہ ٹھنڈا پانی ہوگا۔اور وہ چیز جسے لوگ سمجھیں گے کہ وہ ٹھنڈا پانی ہے وہ جلانے والی آگ ہوگی۔پس تم میں سے جو یہ پائے۔تو وہ اس میں داخل ہو جسے وہ سمجھے کہ وہ آگ ہے۔تو یقیناً وہ میٹھا ٹھنڈا پانی ہوگا۔

حضرت حذیفہؓ نے (مزید) یہ بیان کیا کہ اور میں نےآپؐ کو یہ (بھی) فرماتے سنا:تم میں سےپہلوں میں سے ایک شخص تھا اس کے پاس فرشتہ آیا تاکہ اس کی روح قبض کرے۔اسے پوچھا گیا کیا تم نے کوئی نیکی کی ہے؟اس نے کہا : میں نہیں جانتا۔اسے کہاگیا:دیکھ لو۔اس نے کہا مجھے کچھ بھی یاد نہیں سوائے اس کے کہ میں دنیا میں لوگوں سے خرید و فروخت کرتا تھا۔میں ان سے اچھا معاملہ کرتا تھا اورصاحب حیثیت کو مہلت دیتا تھا اورتنگ دست سے درگزر کرتا تھا تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کردیا۔

اور حضرت حذیفہؓ نے بیان کیا کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے سنا: ایک شخص کی موت کا وقت آگیا۔جب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا۔تو اس نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے لیے لکڑیاں جمع کرنا اور ان میں آگ جلانا یہاں تک کہ وہ (آگ) میرا گوشت کھاجائے اور میری ہڈیوں کو پہنچے اور وہ بھی جل کر راکھ ہوجائیں۔پھر وہ راکھ لے کر پیس دینا۔پھر کسی ایسے دن کا انتظار کرنا جس میں ہوا چل رہی ہو۔اور اس(راکھ) کو دریا میں بکھیر دینا۔انہوں نے ایسا ہی کیا۔اللہ تعالیٰ نے اسے جمع کیا اور اسے فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟اس نے کہا تیرے ڈر سے۔تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

حضرت عقبہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت حذیفہؓ کو یہ بھی کہتے سنا کہ وہ شخص قبروں سے کفن چوری کرتا تھا۔

(بخاری کتاب بدء الخلق باب ماذکر عن بنی اسرائیل)

بخاری کی دوسری روایت حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے۔جس میں یہ ذکر ہے:تم سے پہلے ایک شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا تھا۔ بوقت وفات اس نے اپنے بچوں سے کہا : میں تمہارا کیسا باپ تھا؟انہوں نے کہا: بہترین باپ۔اس نے کہا میں کبھی کوئی نیکی نہیں کرسکا۔پھر مرنے کے بعد اس کی نعش کو جلانے اور بکھیرنےکی وصیت کے ذکرکے بعداللہ تعالیٰ کی طرف سے سوال پر اس کا جواب تھا کہ تیرے خوف سے ایسا کیا۔تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ رحمت کا سلوک کیا۔

(بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ حَدِيثِ الغَارِ)

اس بارہ میں بخاری کی تیسری روایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے اس فرق کے ساتھ ہے کہ ایک شخص اپنے نفس پر بہت زیادتی کرتا تھا۔پھر اس کے بعد اولاد کو اس کی وصیت کا ذکر ہے کہ اس نے کہا:خدا کی قسم! اگر میرے رب نے مجھ پر قدرت پالی تو وہ ضرور مجھے ایسا عذاب دے گاجو اس نے کسی کو بھی نہیں دیا ہوگا۔اس کی وصیت پر عملدآمد کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا سبب پوچھنے پر اس نے جواب دیا کہ اے میرے رب تیری خشیت نے مجھےا س پر آمادہ کیا اس پراللہ نے اسے بخش دیا۔

(بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} [الفتح: 15])

حضرت ابوہریرہؓ کی بخاری کی ایک روایت میں یہ زائد مضمون بھی ہے کہ اس شخص کی وصیت تھی کہ اس کی نعش کو جلا کر نصف راکھ خشکی میں اور نصف سمندر میں بکھیر دی جائے۔اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نےسمندر اور خشکی کو حکم دیا کہ اس کے ذرات جمع کیے جائیں اوراس سے فرمایا :تم نے ایسا کیوں کیا؟اس نے کہا تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے تیری خشیت کی وجہ سے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

(بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} [الفتح: 15])

نسائی میں حضرت حذیفہؓ کی روایت میں یہ ذکر ہے کہ تم میں سے پہلوں میں ایک شخص تھا جو اپنے اعمال کے بارہ میں خوش فہم نہ تھا۔اس نے بوقت وفات اپنے اہل خانہ کو نعش جلاکر سمندر میں بکھیرنے کی وصیت کی۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوحکم دیا تو انہوں نے اس کی روح کو لاکر پیش کیا۔اللہ تعالیٰ نے اس سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا:اے میرے رب! میں نے یہ کام صرف تیرے خوف کی وجہ سے کیا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

(سنن نسائی کتاب الجنائز باب ارواح المومنین)

حدیث نمبر 26: تخلیق آدم کے بارہ میں حدیث

حضرت ابوہریرہؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا ان کی لمبائی (قد) ساٹھ ہاتھ تھی۔ پھر فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں میں سے کچھ کو سلام کہو اور جواباً جو دعائیہ تحفہ وہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو دیں اسے توجہ سے سنو۔حضرت آدمؑ نے (ان فرشتوں کو) کہا:تم پر سلامتی ہو۔فرشتوں نے کہا: آپ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔انہوں نے اللہ کی رحمت کے الفاظ زائد کہے۔پس حضرت آدمؑ کی شکل میں جو بھی ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا۔پھر تخلیق(انسانی) میں تب سے اب تک کمی ہوتی چلی آئی۔

(بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَذُرِّيَّتِهِ)

یہی روایت مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے ہمام بن منبہ نے روایت کی ہے جس میں زائد یہ ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آدم کو ساٹھ ہاتھ لمبائی کے ساتھ پیدا کرچکا تو اسے ایک مجلس میں موجود فرشتوں کو سلام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: ان کا جواب غور سے سننا جو تیرے لیےاور تیری ذریت کےلیے تحفہ ہوگا۔ملائکہ نے جواباً اللہ کی رحمتوں کا بھی ذکر کیا۔راوی نے کہا کہ (اس دعا کی برکت سے) ہر وہ شخص جو آدم کی شکل کا ہے جسکی لمبائی ساٹھ ہاتھ ہوگی جنت میں داخل ہوگا۔پس اس کے بعد سے اب تک تخلیق انسانی (جسامت وغیرہ) میں کمی واقع ہوتی گئی۔

(مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَقْوَامٌ أَفْئِدَتُهُمْ مِثْلُ أَفْئِدَةِ الطَّيْرِ)

ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ کی اس روایت میں زائد الفاظ یہ ہیں:
جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا تو اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو اس کی پشت سے ہر روح جسے وہ قیامت تک پیدا کرنیوالا تھا، (نکل کر)گرپڑی۔اور اس نے ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کے درمیان نور کی ایک چمک رکھی۔پھر ان (روحوں) کو آدم کے سامنے پیش کیا۔اس نے کہا اے میرے رب! یہ کون لوگ ہیں؟فرمایا:یہ تمہاری ذریت ہے۔اس نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کے درمیان (زیادہ)چمک پر تعجب کیا اور اس نے کہا: اے میرے رب! یہ کون ہے؟ اللہ نے فرمایا کہ یہ تیری ذریت میں سے آخری امتوں میں سے ایک شخص ہے جسے داؤد کہتے ہیں۔ آدم نے کہا: اس کی عمر میں میری عمر سے چالیس سال اور بڑھا دے۔

جب آدمؑ کی عمر ختم ہوئی تو اس کے پاس موت کا فرشتہ آیا اور آدمؑ نے اس سےکہا: کیا میری عمر کے چالیس سال باقی نہیں؟اس نے کہا :کیا آپ نے یہ عمر اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دی تھی؟راوی کہتے ہیں: آدمؑ نے انکار کیا اور اس کی ذریت نے بھی انکار کیا اور وہ بھول گئے اور ان کی ذریت بھی بھول گئی اور آدمؑ سے خطا ہوئی اور اس کی ذریت سے بھی خطا ہوئی۔

(ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الأَعْرَافِ)

ترمذی کی دوسری روایت حضرت ابوہریرہؓ میں یہ زائد الفاظ ہیں کہ:
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بوقتِ پیدائشِ آدمؑ اس میں روح پھینکی تو ان کو چھینک آئی جس پر انہوں نے الحمدللہ کہا اور اللہ کے اذن سے اس کی حمد کی تو اسے اس کے رب نے کہا:اے آدمؑ! تجھ پر اللہ رحم کرے۔پھر انہیں ملائکہ کی مجلس میں جاکر سلام کرنے کا ذکر ہے۔

تب اللہ تعالیٰ نے جب کہ اس کے دونوں ہاتھ(کی مٹھیاں) بند تھیں، آدمؑ سے فرمایا:ان دونوں میں سے جو چاہو چن لو۔اس نے کہا میں اپنے رب کے دائیں(ہاتھ) کو اختیار کرتا ہوں اور میرے رب کے دونوں ہاتھ ہی خیر اور برکت والے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹھی کو کھولا تو کیا دیکھا کہ اس میں آدمؑ اور اس کی اولاد تھی اور ہر انسان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) لکھی تھی پھر سب سے روشن پیشانی والے داؤدؑ کا ذکر ہے جسے آدمؑ نے اپنی ایک ہزار سالہ عمر میں سے 60 سال دے دئیے۔پھر آدمؑ کے جنت میں اللہ کی مشیئت کے مطابق رہنے اور پھر وہاں سے نکالے جانے کا ذکر ہے۔ اور آدمؑ اپنی عمر کے سال گنتے رہتےتھے پھر ملک الموت کے آنے اور حضرت آدمؑ کے انکار کے ذکر کے بعد راوی کا بیان ہے کہ تب سے (وعدے) لکھنے اور گواہوں کا حکم ہوا۔

(ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ:94)

اور دوسری روایت میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کے ایک ہزار سال پورے کیے اور داؤدؑ کے ایک سو سال مکمل کیے۔

(الاتحافات السنیة فی الاحادیث القدسیة)

ترمذی میں مسلم بن یسار جہنی سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب سے اس آیت کے بارہ میں پوچھا گیا:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ

(الأَعراف: 173)

ترجمہ: اور (یاد کرو) جب تیرے ربّ نے بنى آدم کى صُلب سے ان کى نسلوں (کے مادّہء تخلىق) کو پکڑا اور خود انہىں اپنے نُفوس پر گواہ بنادىا (اور پوچھا) کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں انہوں نے کہا کیوں نہیں! ہم گواہى دیتے ہیں مبادا تم قیامت کے دن یہ کہو کہ ہم تو اس سے یقىناً بے خبر تھے۔

تو حضرت عمرؓ بن الخطاب نے کہا :میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سوال ہوتے سنا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:یقیناً اللہ نے آدم کو پیدا کیا پھر اپنا دایاں ہاتھ اس کی پشت پر پھیرا تو اس سے اس کی ذریت باہر نکل آئی تو (اللہ نے)فرمایا میں نے ان لوگوں کو جنت کےلیے پیدا کیا ہے اور یہ جنت والے عمل کریں گے۔پھر اللہ تعالیٰ نےدوبارہ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو پھر اس سے ذریت نکلی تو (اللہ نے)فرمایا:ان (لوگوں) کو میں نے آگ کےلیے پیدا کیا ہے اور یہ آگ والوں کے کام کریں گے۔

ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ ایک بندہ کو جنت کےلیے پیدا کرتا ہے تو اسے اہل جنت کے کام پر لگادیتا ہے۔یہاں تک کہ اسے اہل جنت کے اعمال پر موت آتی ہے اور اسے وہ (اللہ تعالیٰ) جنت میں داخل کردیتا ہے اور جب وہ (اللہ تعالیٰ) کسی بندہ کو آگ کےلیے پیدا کرتا ہے تو اسے آگ والوں کے عمل پر لگادیتا ہے۔یہاں تک کہ اسے اہل نار کے اعمال پر موت آتی ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ آگ میں داخل کردیتا ہے۔

(ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الأَعْرَافِ)

یہی روایت مؤطا امام مالک میں بھی عبد الحمید بن عبد الرحمان بن زید بن الخطاب سے مروی ہے۔

(مؤطا کتاب الجامع باب النهي عن القول بالقدر)

حدیث نمبر 27 :ابن آدم کی
اس کی ماں کے پیٹ میں تخلیق

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ صادق و مصدوق نے فرمایا :تم میں سے ہرایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن اور چالیس رات میں ہوتی ہے۔ وہ ایک علقہ(لوتھڑا) اسی (عرصہ) کے برابر رہتا ہے۔پھر اسی کے برابر عرصہ وہ مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) ہوتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتہ بھیجتا ہے جسے چار باتوں کی اجازت دی جاتی ہے۔ پس وہ اس کا رزق اور اس کی اجل (عمر) اور اس کا عمل لکھتا ہے اور یہ کہ وہ بدبخت ہوگا یا خوش بخت۔پھر وہ (فرشتہ) اس (مضغہ)میں روح پھونکتا ہے۔

پس یقیناً تم میں سے ایک شخص اہل جنت کے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ جنت اور اس شخص میں صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس شخص پر لکھی ہوئی (تقدیر) غالب آجاتی ہے اور ایک شخص اہل نار کے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور آگ کے درمیان ایک ہاتھ باقی رہ جاتا ہے سو اس پر لکھی ہوئی (تقدیر) غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے عمل کرتا ہے اور وہ اس میں داخل ہوجاتا ہے۔

(بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ)

یہی روایت حضرت حذیفہؓ بن ابی اسید غفاری سے بھی مروی ہے جس میں یہ زائد الفاظ ہیں کہ:
رحم میں نطفہ کے چالیس یا پینتالیس دن قرار پکڑنے کے بعد ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے: اے میرے رب! بدبخت یا خوش بخت؟ پھر وہ لکھا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے: اے میرے رب! لڑکا یا لڑکی؟اور اس کا عمل اور اثر اور اس کی اجل (یعنی عمر) اور اس کا رزق لکھے جاتے ہیں پھر صحیفے لپیٹے جاتے ہیں اور نہ ان میں زیادہ کیا جاتا ہے اور نہ کم کیا جاتا ہے۔

(مسلم کتاب القدربَابُ كَيْفِيَّةِ خَلْقِ الْآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ)

یہی روایت صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے بواسطہ عامر بن واثلہؓ مروی ہے۔وہ کہتے تھے بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں بدبخت ہوگیا اور خوش بخت وہ ہے جو اپنے علاوہ دوسرے سے نصیحت حاصل کرے۔اس کے بعد عامر صحابیٔ رسولﷺ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری کے پاس آئے اور ان کو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی یہ بات بتائی اور ان سے کہا کہ ایک شخص عمل کے بغیر سےبدبخت ہوگا؟ تو حذیفہؓ نے اس سے کہا کہ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے؟میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جب نطفہ پر بیالیس راتیں گزرجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اسے شکل دیتا ہے اور اس کی شنوائی اور بینائی اور جلد اور اس کا گوشت اور ہڈیاں پیدا کرتا ہے پھر وہ کہتا ہے: اے میرے رب! لڑکا یا لڑکی؟ پس تیرا رب جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔

پھر وہ پوچھتا ہے اے میرے رب! اس کی عمر؟ پھر تیرا رب جو چاہتا ہے فرماتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔پھر فرشتہ اپنے ہاتھ میں صحیفہ(رجسٹر) لے کر نکل جاتا ہےپھر وہ اس پر کچھ زیادہ یا کم نہیں کرتا۔

(مسلم کتاب القدربَابُ كَيْفِيَّةِ خَلْقِ الْآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ)

مسلم میں حضرت حذیفہؓ کی ایک اور روایت میں یہ زائد الفاظ بھی ہیں کہ فرشتہ یہ سوال بھی کرتا ہے اے میرے رب! مکمل انسان یا نامکمل؟ تو اللہ تعالیٰ اسے مکمل یا نامکمل قرار دیتا ہے۔

(مسلم کتاب القدربَابُ كَيْفِيَّةِ خَلْقِ الْآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ)

اسی طرح حضرت حذیفہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ یقیناً ایک فرشتہ رحم کی نگرانی کےلیے مقرر ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ وہ چالیس سے کچھ اوپر راتوں میں اپنے اذن سے کوئی چیز تخلیق فرمائے۔

(مسلم کتاب القدربَابُ كَيْفِيَّةِ خَلْقِ الْآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ)

حضرت انس بن مالکؓ کی مرفوع روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ رحم پر ایک فرشتہ مقررفرماتا ہے اور رحم کہتا ہے: اے میرے رب!نطفہ۔اے میرے رب! علقہ(لوتھڑا)۔اے میرے رب! مضغہ (بوٹی)۔پھر جب اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ وہ کسی تخلیق کا فیصلہ فرمائے تو فرشتہ مذکر و مونث اور شقی و سعید کے بارہ میں سوال کرتا ہے اور رزق اور عمر کے بارہ میں سوال کرتا ہے پھر اسی طرح اس کی ماں کے پیٹ میں لکھا جاتا ہے۔

(مسلم کتاب القدربَابُ كَيْفِيَّةِ خَلْقِ الْآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ)

حدیث نمبر 28: رب العزت سے
رحم کی درخواست

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور جب وہ اس سے فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہوا اور اس نے رحمان(خدا) کو ازار سے پکڑا اوراللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا:رکو۔اس نے کہا:یہ قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنیوالے کی حالت ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں کہ جو تجھ سے رشتہ جوڑے میں اس سے تعلق قائم کروں۔اور جو تجھ سے رشتہ توڑے میں اس سے قطع تعلق کردوں۔اس نے کہا: کیوں نہیں اے میرے رب۔اللہ نے فرمایا:پس یہ تیرے لیے ہے۔حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (محمد: 23) ترجمہ: کىا تمہارے لئے ممکن ہے کہ اگر تم متولّى ہو جاؤ تو تم زمىن مىں فساد کرتے پھرو اور اپنے رِحمى رشتوں کو کاٹ دو (ہرگز نہىں)۔

(بخاری کتاب التفسیر تفسیرسورة محمدؐ)

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ فرماتا ہے:میں اللہ ہوں اور میں رحمان ہوں۔میں نے (ہی)رحم کو پیدا کیااور میں نے اس (رحم) کو اپنی صفت (رحمان) سے اشتقاق کیا (یعنی نکالا)۔پس جس نے اس کو جوڑا میں اس کو جوڑوں گا جس نے اسے کاٹا میں اس سے قطع تعلقی کرلوں گا۔

(ترمذی ابواب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ)

ابوداؤد میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ سے یہی روایت ہے جس میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے میں رحمٰن ہوں اور یہ رحم ہے اور میں نے اس کو اپنی صفت (رحمان) سے ایک نام دیا جو اس سے رشتہ جوڑے گا میں اس سے تعلق قائم کروں گا اور جو اس کا رشتہ کاٹے میں اس سے رشتہ تعلق ختم کردوں گا۔

(ابو داؤد کتاب الزکاة بَابٌ فِي صِلَةِ الرَّحِمِ)

(علامہ ایچ۔ ایم۔ طارق)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام پیغام

اگلا پڑھیں

فی امان اللہ