• 24 اپریل, 2024

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال
بحیثیت والدین آپ کے لئے کن باتوں کا جاننا ضروری ہے؟

اسّی کی دھائی میں پروان چڑھنے والی ہم وہ آخری نسل ہیں جس نے خطوط لکھنے، پڑھنے اور پوسٹ کرنے کا زمانہ دیکھ رکھا ہے۔ ٹیلی فون کی سہولت اور اس کے بعد عام صارف تک موبائل فون جیسے سستے اور تیز ترین رابطہ کی سہولت نے خطوط کے ذریعے رابطوں کو تاریخ کاحصہ بنا دیا ہے۔ باہمی رابطے کا یہ جدید ذریعہ جس طرح عام ہوتا جا رہا تھا اسی طرح خطوط والا یہ سلسلہ بھی رفتہ رفتہ دم توڑتا رہا۔ موجودہ صدی کے آغاز تک ترقی پذیر ممالک میں بھی محض خیریت و پرسش احول کی غرض سے خطوط لکھنا تقریباً ناپید ہوچکا تھا جو مزید سمٹ کر اب محض دفتری اغراض تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ گو کہ کافی حد تک ای میل اور دستاویزات کی آن لائن ترسیلات کے باعث اس میں بھی کمی آ چکی ہے۔

انسانی ارتقاء کے دوران متنوع زبانوں کے وجود میں آنے کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو خط و کتابت نے محض رابطہ کی ضرورت سے آگے بڑھتے ہوئے ادبی صنف کی حیثیت اختیار کر لی۔ کم و بش دنیا کی ہر بڑی زبان میں خطوط ادب کا لازمی حصہ ہیں۔ کئی مکتوبات کو تاریخی دستاویزات کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ایسے بے شمار مکتوبات کی ایک طویل فہرست ہے جو جامعات کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں اور خطوط کا تذکرہ محض تعلیمی نصابی سرگرمیوں کا حصہ ہی رہ گیا ہے۔

موجودہ نوجوان نسل جس نے رابطوں کے لیے مہیا جدید ترین سہولیات کے دور میں آنکھ کھولی ہے، ان کے والدین نے خطوط کا وہ زمانہ دیکھ رکھا ہے جس میں غلط روابط کا امکان بہت حد تک کم تھا۔اس کے برعکس رابطوں میں جدت آنے سے صورتحال زیادہ سنگین ہو گئی ہے۔دو اشخاص کے درمیان باہمی رابطوں میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس سے ان کےبارے میں جاننا نہایت آسان ہوتا ہے۔ بالخصوص تب جب دو انجان شخص ایک دوسرے سے رابطے میں ہوں تو دھوکہ دہی کا امکان سو فیصد تک موجود ہو سکتا ہے۔

انٹرنیٹ نے باہمی رابطوں کو جس طرح سہل بنا دیا ہے اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔البتہ جہاں اس کے مثبت پہلوؤں سے انکار ممکن نہیں وہیں اس کی بے شمار قباحتیں نوجوان نسل کے والدین کو پریشان کئے رکھتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ والدین کا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال سے بالکل نا بلد ہونا ہے۔

پاکستان جیسا ملک جہاں شرح خواندگی ہی 60 فیصد ہے۔ یعنی کل آبادی کا 40 فیصد تو ایک طرف رکھ دیں اور جو باقی 60 فیصد پڑھا لکھا طبقہ ہے ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کے استعمال سے ہی ناواقف ہے۔حتٰی کہ عام مشاہدہ کی بناء پر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کی سدھ بدھ رکھنے والے والدین کی جو تھوڑی بہت تعداد ہے ان کی اکثریت بھی انٹرنیٹ کے استعمال کو صرف واٹس ایپ اور فیس بک کی حد تک ہی جانتی ہے یا محض وڈیو یا آڈیو کال کرنے کوہی انٹرنیٹ کی کل کائنات سمجھتے ہیں۔ایسے والدین انٹرنیٹ سرفنگ کے بارے میں نہیں جانتے، وہ نہیں جانتے کہ سرچ انجن کون کون سے ہیں اور ان کا کیا استعمال ہوتا ہے۔اے پی کے ایپس اور وی پی این کیا ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کون کون سی ایپ ہیں جن کی مدد سے چیٹنگ اور آڈیو، وڈیو کالز کی جا سکتی ہیں۔

حقیقت ہوش ربا ہے، آج پندرہ سال کے ایک بچے کو پندرہ منٹ میں اتنے فحش مواد تک بالکل مفت میں رسائی حاصل ہے اور وہ اتنا کچھ دیکھ سکتا ہے جتنا ماضی میں ایک امیر ترین شخص اپنی ساری دولت خرچ کرکے بھی نا دیکھ پاتا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انٹرنیٹ،سمارٹ فون اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا شمار سماجی رابطوں کے تیز ترین ذرائع میں ہوتا ہے اور ہر قسم کی معلومات تک آسان رسائی سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہوا ہے۔آن لائن کئی طرح کی نوکریاں دستیاب ہیں اور گھر پر رہتے ہوئے پیسہ کمانے کا ایک وسیع میدان آپ کی ہتھیلی پر موجود ہے۔ اپنی تمام تر مفید خصوصیات کے باوجود نوجوان نسل کا نشے کی حد تک اس کا عادی ہونا اور اس کا منفی استعمال پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا۔ اس میں روز افزوں ترقی اور نت نئی اصلاحات کی وجہ سے ایسا تو تقریباً نا ممکن ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اس کے استعمال سے بالکل ہی روک دیں۔ البتہ اس حوالہ سے آپ اپنے بچوں کے بارے میں تشویش میں مبتلاء ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس کے استعمال سے بے راہ روی کا شکار نا ہوں اور کسی کے بہکاوے میں نا آئیں توں چند باتوں کا آپ کے علم میں ہونا نہایت ضروری ہے۔

اگر آپ نے بلوغت میں قدم رکھ رہے اپنے بچوں کو بالکل آزادانہ انٹرنیٹ کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ان کی رسائی فحش مواد تک ہوچکی ہے۔اسے چیک کرنے کا طریقہ آپ کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس کے فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ وغیرہ میں موجودبراؤزر جن میں گوگل، یوسی، اوپیرا، یاہو، فائر فوکس وغیرہ کی سرچ ہسٹری بالکل صاف ہے یا ان ایپس کو لاک لگا ہوا ہے تو یہ دیکھ کر آپ کو بالضرور تشویش میں مبتلاء ہو جانا چاہیے۔ اگر ہر دو دن بعد براؤزر کی سرچ ہسٹری صاف ہو رہی ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ کچھ ایسا ضرور دیکھ رہا ہے جس کے بارے میں وہ چاہتا ہے کہ آپ کو اس کا پتہ نا چلے۔اگر وہ میسجنگ ایپس جن میں واٹس ایپ،فیس بک میسنجر، انسٹاگرام، ٹیلی گرام وغیرہ کے مسیجز باقاعدگی سے ڈلیٹ کرتا ہے تو یقیناً وہ ان پر ایسی گفتگو کر رہا ہے جسے وہ آپ سے خفیہ رکھنا چاہتا ہے اور چند احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے ان مضمرات سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے بطور والدین آپ کو خود سمارٹ فون،ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کے بارے میں بنیادی معلومات ہونا ضروری ہیں اور پتہ ہونا چاہیے کہ انہیں چلانا کیسے ہے اور چیک کیسے کرنا ہے۔

آج کئی طرح کے سرچ انجن اور براؤزر دستیاب ہیں۔ کوشش کریں کہ گوگل سرچ ہی فون، ٹیبلٹ وغیرہ میں انسٹال ہو یہ نسبتاً محفوظ ہے اور اس پر مرضی کی سیٹنگ رکھنا آسان ہے۔

سرچ ہسٹری چیک کرنے کا طریق یہ ہے کہ آپ بچوں کے موبائل فون،لیپ ٹاپ،کمپیوٹر وغیرہ میں موجود براؤزر کھولیں اور اس کی سرچ ہسڑی کھول کر دیکھیں۔کم و بیش تمام براؤزرز میں ایک جیسا انٹرفیس ہی ہوتا ہے، اوپر دائیں کونے میں تین نقطے ہوتے ہیں ان پر کلک کرنے سے ایک باکس کھل جائے گا۔اس میں بہت سارے آپشن کے ساتھ History کا بھی آپشن ہوتا ہے اس پر کلک کرنے سے ان تمام ویب سائٹس کی لسٹ آ جائے گی جو اس میں سرچ کی گئی ہوں گی۔اسی طرح اگر آپ کے بچے نے موبائل فون میں موجود چیٹنگ ایپس جیسا کہ واٹس ایپ، فیس بک میسنجر،انسٹاگرام اور ٹیلی گرام وغیرہ کو لاک کر رکھا ہے تو یہ بھی فکر والی بات ہے۔ اگر ان ایپس کو لاک نہیں کیا ہوا لیکن اس کے کونٹیکٹ میں موجود کوئی ایسا فرد ہے جس کے ساتھ وہ بات کرتا لیکن بات کرنے کے بعد چیٹ ڈلیٹ کر دیتا ہے تو اس کا واضح مطلب کہ وہ اس کے ساتھ ایسی باتیں کر رہا جنہیں وہ خفیہ رکھنا چاہتا ہے۔

موبائل فون میں کوئی بھی APK apps انسٹال نا ہوں۔اے پی کے ایپس نان آفیشل ہوتی ہیں جو نا صرف موبائل فون سے ڈیٹا چراتی ہیں بلکہ غیر معیاری اور نازیبا مواد کو بھی دکھاتی رہتی ہیں۔

GB whatsapp بھی ’’اے پی کے‘‘ ایپ ہے جو اپنے منفرد فیچرز کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔ واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر اسے ہرگز استعمال نا کریں۔

سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کو ہر وقت موبائل فون ہاتھ میں نا رکھنے دیں۔ بلکہ کوشش کریں کہ ان کو پرسنل فون رکھنے کی اجازت بھی نا ہو، وہ والدین میں سے ہی کسی کا فون استعمال کریں اور اس کے لیے بھی مخصوص اوقات ہوں۔اگر آپ بچوں کو ان کے ذاتی سمارٹ فون مہیا کر رکھے ہیں تو آپ اپنے موبائل فون سے بھی ان کے فون پر ہونے والے تمام حرکات پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے کافی ساری ایپس آپ کو مل جائیں گی۔ایسی ہی ایک ایپ FamiGuard کے نام سے گوگل پلے اسٹور پر موجود ہے۔اپنے سمارٹ فون میں انسٹال کرکے یوٹیوب سے اسے استعمال کرنے کا طریقہ باآسانی سیکھ سکتے ہیں۔اس ایپ کی مدد سے آپ اپنے بچے کے فون میں ہونے والی تمام حرکات پر نظر رکھ سکیں گے۔اس کی موجودہ لوکیشن جان سکیں گے۔ناپسندیدہ ایپس کو بند کر سکیں گے۔بچہ صرف انہی کونٹیکٹس سے رابطہ کر سکے گا جن کی اجازت آپ نے دی ہوگی۔ حتٰی کہ آپ بچے کے فون استعمال کرنے کے اوقات کو بھی سیٹ کر سکیں گے۔ ان اوقات کے علاوہ بچے کا فون لاک رہے گا اور صرف مخصوص اوقات میں ہی ان لاک ہوگا۔آپ کے ہاتھ میں انتخاب ہوگا کہ بچہ فون سے کیا اور کس قسم کی سرچ کرے اور کس طرح کی سرچ کے نتائج اس کے فون میں شو ہی نا ہوں۔نیز اسی طرح کے کئی آپشن ہیں جن کا طوالت کے خوف سے ذکر عمداً چھوڑ دیا ہے۔

گھر میں موجود کمپیوٹر، لیپ ٹاپ ایسی جگہ رکھیں جہاں آتے جاتے اسکرین پر آپ کی نظر اس پر پڑتی رہے۔ تیرہ سے سترہ سال کی عمر ایسی ہوتی ہے جس میں بچے، بالخصوص بچیوں کے بڑی آسانی سے کسی سے متاثر ہو کر بہکاوے میں آنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ بچوں کو اپنے سکول ٹیچرز سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ان سے رابطہ کرنا ناگزیر ہو تو اس بات کو ممکن بنائیں کہ وہ آپ کے سامنے اور آپ نگرانی میں ان سے بات کریں۔اور آن لائن کلاسز کی صورت میں بھی اپنے سامنے کلاسز میں حاضری کو ممکن بنائیں۔

یہ ضروری نہیں کہ بچے فحش مواد عمداً سرچ کرکے دیکھیں۔بالعموم انٹرنیٹ پر سکرول کرنے کے دوران بعض نامناسب اشتہارات خودکار طریقےسے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔انٹرنیٹ کا الگورتھم اس طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے کہ ایک بار اگر کوئی چیز سرچ کی جائے یا ایسے ہی کسی لنک کو یا اشتہار پر کلک کرکے اسے کھول لیا جائے تو سرفنگ کے دوران اسی سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے اشتہارات، ویب سائٹس وغیرہ دکھائی دینےلگتی ہیں۔بچوں کے زیر استعمال موبائل،ٹیبلٹ وغیرہ کے براؤزر میں درج ذیل تبدیلیاں کر کے اس ممکنہ مسئلہ سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے۔براؤزر (گوگل وغیرہ) کو کھولیں اوپر دائیں کونے پر موجود تین عمودی نقطوں (dots) پرکلک کریں،سیٹنگ پر کلک کریں،پھر جنرل کے آپشن پر کلک کریں گے تو کافی سارے آپشن آجائیں گے، انہیں میں سے ایک آپشن Safe Search سرچ پر کلک کرکے اسے enable کر دیں۔ایسا کرنے سے نا مناسب مواد خواہ وہ وڈیو، تصاویر یا ویب سائٹس کی صورت میں ہو اسکرین پر دکھائی نہیں دیں گی۔(ہر براؤزر کی سیٹنگ اور اس میں موجود ان آپشنز کے نام الگ ہو سکتے ہیں)

بچوں کا اپنی عمر سے بڑے دوستوں، عزیر و اقارب سے موبائل فون پر رابطہ میں ہونا بالکل غیر ضروری ہے اس حوالے بھی بچے کا جائزہ لیں اور اس بات کو ممکن بنائیں کہ وہ اپنے سے بڑی عمر کے افراد کے ساتھ سوشل میڈیا (میسجنگ ایپ) پر ہرگز رابطے میں نہ ہو۔

بلوغت میں قدم رکھ رہے بچوں کے والدین کو اس بات کا ادراک ہوجانا چاہئے کہ اب ان کا وہ خطوط والا زمانہ نہیں رہا۔بچوں کے بہتر مستقبل اور ان کی تربیت میں اس پہلو کو مد نظر رکھ کر مرور زمانہ انہیں جدید ایجادات اور ان کے استعمال سے واقف ہونا از بس ضروری ہو گیا ہے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام پیغام

اگلا پڑھیں

فی امان اللہ