خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت، اس پر ایمان و ایقان اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا توکل و اعتماد دعا کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ خدائی فضلوں اور احسانات کا مورد بننے کے لئے رحمتوں اور برکتوں کو جذب کرنے کےلئے دعا ہی مفید و کارآمد ہے۔ نیک مقاصد کا حصول بھی اس کے بغیر ممکن نہیں۔
دین کی اشاعت اور غلبہ کو اپنا بنیادی مقصد قرار دینے اور اس کے حصول کی خاطر دعا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:
’’اے ہمارے ربّ تیرے بھولے بھٹکے بندوں کو ہم تیرے آستانہ پر لاسکیں۔ سب سے پہلے اپنے نفس کو۔ پھر اپنے اہل و عیال کو پھر دوستوں کو پھر ساری دنیا کے لوگوں کو جو صرف نام کے بندے ہیں تیرےحقیقی بندے بنا سکیں۔ جن کے دل سیاہ ہیں ان کے دل سفید کردیں۔ تاکہ قیامت کے روز ان کے چہرے کالے نہ ہوں۔ بلکہ بے عیب و روشن ہوں۔ تو ہم سے خوش ہو جائے کہ ہم تیرے گمراہ بندوں کو تیرے آستانہ پر لائے اور ہم تجھ سے خوش ہوں کہ تو ہم سے راضی ہوگیا… میں دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر اسی طرح جس طرح میں نے ابھی کہا ہے دعا کریں۔ بےشک اپنے لئے بھی دعا کریں مگر دین کی اشاعت اور غلبہ کےلئے ضرور دعا کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو ۔‘‘
(الفضل یکم جنوری 1942ء)
اپنی اولاد اور جماعت کےلئے ایک جامع دعا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
’’اے میرے ربّ! تو کتنا پیارا ہے۔ نامعلوم میری موت کب آنے والی ہے اس لئے میں آج ہی اپنی ساری اولاد اور اپنے سارے عزیز و اقارب اور احمدیہ جماعت تیرے سپرد کرتا ہوں۔ اے میرے ربّ تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہو جائیں۔ میری آنکھیں اور میری روح ان کی تکلیف نہ دیکھیں۔ یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کر دیں اور نیک نسلیں چھوڑ کر جو ان سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں۔‘‘
(سیرت ام طاہرصفحہ 276)
قبولیت دعا اور تائید الٰہی کا ایک نہایت لطیف واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ ہے کہ دلیری بڑی چیز ہے تم موت کےلئے تیار ہو جاؤ موت تم سے بھاگنے لگے گی۔ جیل خانوں کےلئے تیار ہو جاؤ تو مارنے والے تم سے دور بھاگنے لگیں گے۔ پس دلیر بن جاؤ اور یقین رکھو کہ ہر چیز تمہاری خادم ہے اور تمہیں کوئی چیز گزند نہیں پہنچا سکتی۔ اسی کی طرف … اشارہ ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آٓگ نہ صرف ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔یعنی چونکہ ہم آگ سے ڈرتے نہیں اس لئے آگ نہ صرف ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے۔ سچی بات یہ ہےکہ جب کوئی قوم یہ فیصلہ کرلیتی ہے کہ ہم نے کسی سے نہیں ڈرنا تو تمام قومیں اس سے ڈرنے لگتی ہیں پس اپنے دلوں سے بزدلی نکال دو اور یاد رکھو کہ جس دن تم نے بزدلی دور کردی اسی دن تمام قومیں تم سے ڈرنے لگیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دُعائیں بھی کرو۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہوں اس وقت ایسے ایسے رنگ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ابھی چند دن پہلے کا واقعہ ہے مجھے ایک مشکل درپیش تھی اور میرے ذہن میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا۔ طبیعت میں ایک قسم کی گھبراہٹ تھی اور میں حیران تھا کہ کیا کروں۔ دل میں خیال آیا میں نے کاغذ اور قلم رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی میرے پاس اس مشکل کا کوئی حل نہیں اور میرے واہمہ میں بھی نہیں آتا کہ میں اس کا کیا حل نکالوں تو خود ہی اپنے فضل سے میری رہبری فرما۔ صرف ایک منٹ میں نے دعا کی ہوگی ۔ پھر میں اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔
ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ مشکل جس کاحل میرے واہمہ میں بھی نہیں آتا تھا حل ہوگئی۔
یعنی پانچ منٹ کے اندر ہی میرے دروازے پر دستک ہوئی اور جس مشکل کی وجہ سے میں گھبرا رہا تھا اس کا حل حاصل ہو گیا۔ پس جو اللہ تعالیٰ کے حضور گرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اعانت کرتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد کا پورا یقین ہونا چاہئے اور جس وقت یقین سے دعا کی جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سے رد نہیں کی جاتی بلکہ قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(الفضل 11جون 1931ء)
اپنے ایک خطاب کے آخر میں دعا کی تلقین کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا:
’’پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عظمت اور اپنے جلال اور اپنی بے انتہا قدرتوں کا مظہر بنادے اور اس کی شان اور عظمت تمام دنیا اور اس کے ہر گوشہ میں ظاہر ہو۔ اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے لئے اور اس کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کردیں اور ہماری نسلوں کو بھی توفیق عطا فرمادے اور کوئی وسوسہ ہمیں اس سے جدا نہ کرسکے۔ وہ ہمارا ہو اور ہم اس کے ہو جائیں۔آمین۔‘‘
(الفضل 3جنوری 1925ء)
تقسیم ملک سے قبل قادیان کے آخری جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے خدا تعالیٰ سے اس طرح التجا کی:
’’ہمارا ذہن اور ہماری ذمہ داری ہمیں اس طرف بلاتی ہے کہ باوجود اس کے وعدوں کے ہم اپنی کمزوریوں اور بے بسیوں کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اس سے التجا کریں کہ اے ہمارے ربّ تو نے ہمیں ایک ایسے کام کےلئے کھڑا کیا ہے جس کے کرنے کی کروڑواں اور اربواں حصہ بھی ہم میں طاقت نہیں۔ اے ہمارےرب تو نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم اپنے غلام سے کوئی ایسا کام لو جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو خود اس کے ساتھ مل کر کام کرو ورنہ اس سے ایسا کام نہ لو۔ اےہمارے رب تو نے جب اپنے بندوں کو جن کی طاقتیں محدود ہیں یہ حکم دیا ہے کہ کسی کے سپرد کوئی ایسا کام نہ کرو جو اس کی طاقت سے بالا ہو تو اے ہمارے رب تیری شان اور تیرے فضل اور تیری رحمت سے ہم کب یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ تو ایک ایسا کام ہمارے سپرد کرے گا جو ہماری طاقت سے بالا ہو گا لیکن خود ہماری مدد کے لئے آسمان سے نہیں اُترے گا۔ یقیناً اترے گا اور ہماری مدد کرے گا اور ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے فضلوں کو بڑھاتا جا۔ اپنی رحمتوں کو بڑھاتا جا۔ اپنی برکتوں کو بڑھاتا جا یہاں تک کہ ہماری ساری کمزوریوں کو تیرے فضل ڈھانپ لیں اور ہمارے سارے کام تیرے فضل سے اپنی تکمیل کو پہنچ جائیں تاکہ تیرے احسانوں میں سے ایک یہ بھی احسان ہو کہ جو کام تو نے ہمارے سپرد کیا تھا اسے تو نے خود ہی سرانجام دے ۔ کام تیرا ہو اور نام ہمارا ہو۔آؤ ہم اپنے رب سے یہ دعا کریں کہ خدا اپنی رحمتوں اور اپنے فضلوں اور اپنی برکتوں کے دروازے ہم پر کھول دے۔‘‘
(الفضل 1946۔12۔27)
(عبدالباسط شاہد۔لندن)