تبرکات
حضرت مولانا جلال الدین شمس
چونکہ تمدن عالم کی اساس اور بنیاد تمام تر ازدواجی زندگی پر منحصر ہے۔ اس لئے بنی نوع انسان کے لئے اسوۂ کاملہ وُہی شخصیت ہوسکتی ہے جو اپنی متاہلانہ زندگی کا بہتر سے بہتر نمونہ پیش کرے بانیٔ اسلام علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جو نوعِ بشر کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں کامل نمونہ تھے ،ازدواجی زندگی کا جو اسوۂ حسنہ پیش کیا ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے۔
ازدواجی زندگی کی اساس
ایک مفکر اور صاحب ِبصیرت انسان جس نے انسانی فطرت کی گہرائیوں پر غائر نظر ڈالی ہواور اس کے اَمیال و عواطف کا بنظرِ عمیق مطالعہ کیا ہو، خوب جانتا ہے کہ تأ ہُّل اور اَزدواج کی اساس محبت ہے ۔اس کے بغیر اَزدواجی زندگی ایک بےاساس مکان کی مانند ہے۔ یہی محبت ہے جو مرد و عورت کے فطری جذبات و احساسات کو ابھارتی اور دونوں کو ایک وجود کی طرح بنا دیتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی پاک زندگی میں اس کا پورا ثبوت ملتا ہے اور حضور ﷺ کی اَزدواجی زندگی میں جلوۂ ِمحبت ممتاز طور پر نظر آتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جو عمر میں تمام اَزواج مطہرات سے خُورد سال تھیں اور جن کی نسبت انسانی عقل اپنے تجربہ و مشاہدات کی بناء پر یہی کہے گی کہ اُن میں اور اُن کے بزرگ سال شوہر میں محبت و الفت کا وہ رابطہ جو دو ہم عمر میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے، قائم نہ ہوا ہوگا مگر جب ہم تاریخ و احادیث پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو انسانی عقل کو اس بارے میں غلطی پر پاتے ہیں۔ کیونکہ صاف طور پر نظر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہؓ کے مابین محبت و مودّت کا رشتہ ایسا مضبوط و استوار تھا کہ نظیر ملنی ناممکن ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے وہ محبت آفرین کلمات جو حضور ؐکے وصال کے بعد وقتًا فوقتًا ان کی زبان سے صادر ہوئے اس شدید محبت کے آئینہ دار ہیں جو اُن کو حضور ؐ کی ذات گرامی سے تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کے یہ کلمات اَزدواجی زندگی کا نہایت ہی خوش نما اور دِلربا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ حضور سرور عالم ﷺ گلاس پر اسی جگہ منہ لگا کر پانی پیتے جہاں میں نے منہ لگا کر پانی پیا ہوتا ۔ ایک اور روایت ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا ۔ اے عائشہ! جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے تمہاری ناراضگی کا علم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! آپؐ یہ کس طرح معلوم کرلیتے ہیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا : جب تم خوش ہوتی ہو تو گفتگو میں قسم کھاتے وقت وَ رَبِّ مُحَمَّدٍؐ کہتی ہو مگر جب ناراض ہوتی ہو تو وَرَبِّ اِبْرَاہِیْم کہتی ہو۔ حضرت عائشہؓ نے کہا صرف حضور ﷺ کے نام کو چھوڑتی ہوں لیکن دل میں حضور ﷺ کی محبت بدستور قائم رہتی ہے۔ یہ واقعہ بھی حضرت رسول مقبول ﷺ کی اَزدواجی زندگی کا نہایت پاکیزہ نمونہ پیش کرتاہے ۔
اسلام سے قبل عورت کو نہایت ذلیل وحقیر سمجھا جاتا تھا لیکن ہمارے ہادیٔ کامل اور رہبرِاعظم ﷺ نے فرمایا۔ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ کہ تم میں سے بہتر وہی شخص ہے جس کا اپنے اہل و عیال سے عمدہ سلوک ہو ۔جس کا اپنی رفیقۂ حیات سے جو ہر وقت عُسر یُسر میں اس کا ساتھ دیتی ہے عمدہ سلوک نہیں وہ نیک نہیں۔ ایک شخص دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب ہی کرسکتا ہے جب اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو۔ کیونکہ باطنی حالات اور خوبیوں کے معلوم کرنے کا معیار اس کا اپنا اہل ہے، جس کے ساتھ وہ ہر وقت رہتا ہے۔ باہر کے لوگوں کے ساتھ چند گھنٹوں کے لئے اس کا واسطہ پڑتا ہے، اس لئے اُن کے ساتھ اُس کے معاملات و تعلقات کو اس کی طبعی خوبیوں کے اظہارکا محک نہیں بنایا جاسکتا۔
اَزدواجی زندگی کے متعلق نہایت نازک وقت
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اَزدواجی زندگی کی بناء محبت پر ہے۔ اس محبت کو قطع کرنے والا سب سے تیز اَوزار عصمت پر حرف لانے والا اتہام ہے۔ خدا نخواستہ جب ایسی صورت پیدا ہو جائے تو یہ ایک ایسا نازک وقت ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے انسان کی عقل چکرا جاتی ہے۔ دماغی توازن قائم نہیں رہتا اور جذبۂ غیرت بدظنی کے ساتھ مل کر عقل پر پردہ ڈال دیتا ہےاور سابقہ تعلقات محبت کو نسیاً منسیاً کر کے اَزدواجی زندگی کو یکسر تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ ایسے مشکل ترین حالات کے لئے بھی ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پاک نمونہ پیش کر کے دُنیا کی کامل رہنمائی کی ہے۔
رامچندر جی کا واقعہ
میں آنحضرت ﷺ کے اس مقدس نمونہ کا ذکر کرنے سے قبل ہندوستان کے ایک نہایت مقدس اَوتار شری رامچندر جی مہاراج کا ایک واقعہ بیان کرکے بتاتا ہوں کہ انہوں نے ایسے نازک وقت میں اپنی رفیقۂ حیات سے کیا سلوک کیا۔ رامائن والمیکی میں لکھا ہے کہ رامچندر جی مہاراج کو جب 12 سال کا بَن باس ہوا تو اُن کی بیوی سیتا جی نے اپنے عزیزوں کی شدید مخالفت کے باوجود اپنے شوہر رامچندرجی سے جُدا ہونا پسند نہ کیا اور کہا کہ میں اسی میں خوش ہوں کہ اپنے پتی کی شریک غم رہوں ۔چنانچہ اُنہوں نے شری رامچندر جی کے ساتھ رہ کر جنگلات میں شدید سے شدید دُکھ اُٹھائے ۔آخر ایک جنگ کے دوران میں لنکا کا راجہ راون اُن کو پکڑ کر لے گیا۔ لنکا فتح ہونے کے بعد جب راون مارا گیا اور رامچندر جی مہاراج اپنے بَن باس کی مدت ختم کر کے وطن میں واپس آئے اور بادشاہ بنے تو سیتا جی کے لئ ےبےقرار ہوئے۔ تلاش کے بعد ہنومان اُن کو لنکا سے لایا۔ اُن کے آنے پر لوگوں میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں اور کہا گیا کہ چونکہ یہ مدت تک راون کے قبضہ میں رہی ہیں اس لئے راون کے ساتھ اُن کے بُرے تعلقات قائم ہوئے ہوں گے۔
رامائن کے بیانات
اس پر رامچندر جی نے لوگوں کے اعتراضات سے متاثرہوکر سیتا جی سے مخاطب ہوکر کہا۔
’’اگرچہ عصمت پر داغ نہیں ہے مگر لوگوں کی زبان رُک نہیں سکتی۔ وہ ضرور عیب کی نگاہ سے دیکھیں گے جس طرح اندھے کو چراغ نہیں دکھائی دیتا اسی طرح جب تک یہ بدنما دھبّہ دور نہ ہو گا، ہم تمہارا منہ نہیں دیکھ سکتے۔ تم جہاں چاہو چلی جاؤ ہم کو تم سے کچھ سروکار نہیں ۔ایسا کون ہوگا جو عالی خاندان ہو اور اس کی عورت مفقودالخبر ہو اور پھر وہ اس کو انگی کار کر لے ۔پھر تم سے تو راون کا بدن چھوا ہے، تمہارا ساتھ کس طرح دوں ہرگز قبول نہیں کر سکتا۔‘‘
(رامائن والمیکی صفحہ 903 ترجمہ افق لکھنوی)
’’سیتا جی نے عقد نکاح کے وقت کے عہدوپیمان یاد دلائے۔ پھر لچھمن جی سے مخاطب ہوئیں کہ مہربانی کر کے چِتا بناؤ اسی وقت جل بُھن کر مر جاؤں گی۔ مجھ پر سری مہاراج نے جھوٹا کلنک لگایا ہے۔ لچھمن نے چِتا بنائی اور سری سیتا رامچندر کے گرد گھوم کر بولیں کہ سوائے سری مہاراج کے اگر میں نے کسی کو بُری نگاہ سے دیکھا یا کسی سے محبت جتائی ہو تو یہ آگ مجھ کو بھسم کردے اور نہیں تو میں اپنے تَت دھرم کی بدولت ابھی نکل آتی ہوں۔‘‘
(صفحہ 904)
’’جانکی آتشکدہ میں جھو نکی گئیں۔ چونکہ اُن کی عصمت میں دھبّہ نہ آیا تھا تھا، پاک تھیں ،آگ سے ایک رُواں بھی نہ جلا۔ آکاش بانی بھی ہوئی کہ سیتا بے قصور ہے۔ سورج اور چاند نے بھی اُن کی پاکدامنی کی شہادت دی ۔دیوتا اور بڑے بڑے رشّیوں کا بھی خیال رہا کہ سیتاجی بے خطا ہیں۔ جب ہم نے چھان لیا تب اجودھیا میں لائے۔ زبان کسی کی روکی نہیں جا سکتی۔ کسی شخص کا خیال ایسا بھی ہے کہ سیتا راون کے گھر میں رہی ہیں بچ نہ سکی ہوں گی ……… میرا دھرم تو جاتا رہا ہاں بچاؤکی ایک صورت ہے کہ جانکی جی کو چھوڑ دوں تو دھرم قائم رہ سکتا ہے۔ بھائی سومترسے رتھ منگا کر جانکی کو جنگل میں چھوڑ آؤ۔‘‘
(صفحہ 982)
لچھمن جی جب چھوڑ کر آنے لگے تو سیتا جی نے قسم دے کر کہا کہ مہاراج نے مجھے کس نگاہ سے دیکھا۔ لچھمن نے سر جُھکا کر کہا کہ رامچندرسبھا میں بیٹھے تھے، آپ کا ذکر خیر آیا مگر اکثر لوگوں کی زبانی آپ پر کلنک کے دھبےّ سنے گئے۔ مہاراج نے مجھے آگیا دی کہ سیتا کے چال چلن پر لوگوں کو خیال ہے اس لئے جانکی جی کو گنگا اُس پار جہاں رشّیوں کے اشتہان ہیں چھوڑ آؤ۔ لچھمن جی کی گفتگو سُن کر کلیجہ پاش پاش ہو گیا۔‘‘
رامچندر جی کا نمونہ
مندرجہ بالا واقعات سے ظاہر ہے کہ رامچندر جی مہاراج نے لوگوں کی جھوٹی افواہ کو برداشت نہ کیا اور اپنی پاکدامن رفیقہ ٔحیات کو جُدا کر کے اس کے معصوم جذبات کو بُری طرح پامال کیا۔ جس نے مصائب و آلام کے زمانہ میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ ان کے ہر دُکھ درد میں شریک رہی تھی۔ محض لوگوں کے کہنے پر اُس کو گھر سے نکال دیا۔ اس سلوک سے سیتا جی کے دل پر جو کچھ گزری اور ان کے قلب حزین پر ہموم وغموم کے جو بادل چھائے۔ قلم ان کے بیان کرنے سے عاجز ہے۔ اس طرح رامچندر جی نے اپنے اتباع کے لئے اپنی اَزدواجی زندگی کا جو نمونہ پیش کیا۔ وہ یہی تھا کہ اپنی بیوی پر کوئی جُھوٹی تہمت لگائے تو باوجود اس تہمت کو جھوٹا سمجھنے کے اُسے علیحدہ کر دینا چاہئے۔
رسول کریم ﷺ کا واقعہ
لیکن اس کے مقابلہ میں بانیٔ اسلام سیدالانام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسوہ ٔحسنہ ملاحظہ ہو کہ ایسے ہی نازک وقت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا کیا۔
سری رامچندر جی مہاراج کی طرح حضورؐ کو بھی اسی قسم کے ایک واقعہ سے دوچار ہونا پڑا ۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک جنگ میں مَیں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھی ۔آتے ہوئے مدینہ کے قریب لشکر نے پڑاؤ کیا ۔ مَیں قضائے حاجت کے لئے لشکر سے دُور چلی گئی۔ جب واپس آئی تو گلے کا ہار مَیں نے گم پایا ۔اس کی تلاش میں پھر وہیں گئی ۔اتنے میں لشکر نے کُوچ کیا اور اُونٹوں کے سائق ہودج رکھ کر اونٹوں کو لے کر چل دیئے۔ چونکہ میں اُن دنوں چھوٹی اور ہلکی پھلکی تھی۔ اُونٹ والے یہ سمجھ کر کہ میں ہودج میں ہوں اُونٹ لے گئے۔ جب مَیں نے جائے قیام پر کسی کو نہ پایا ۔تو حیران و ششدر رہ گئی اور یہ خیال کر کے کہ جب وہ مجھے قافلہ میں گم پائیں گےتو یہاں آکر تلاش کریں گے ۔ انتظار کرنے لگی اورمجھ پر نیند آگئی کہ صفوان بن معطل سلمی جو قافلہ کے پیچھے پیچھے آتا تھا تاکہ گری پڑی چیز لیتا آئے۔ میرے پاس آیا اور مجھے پہچان کر اس نے اِنَّا لِلّٰہ پڑھا۔ ا س کی آواز سے مَیں بیدار ہوئی اور منہ پر پردہ ڈال لیا۔ بخدا سوائے اِنَّا لِلّٰہ کے مَیں نے اس کے منہ سے اور کوئی بات نہیں سنی اور نہ اُس نے مجھ سے کوئی بات کی۔ اُس نے اپنی سواری کو بٹھایا اور میں اس کے پیچھے سوار ہوگئی اور دوپہر کے وقت ہم لشکر میں آکر مل گئے۔
منافقوں نے اس موقع پر حضرت عائشہؓ صدیقہ پر تہمت لگائی اور مدینہ میں اسے مشہور کر دیا ۔بعض نیک صحابہؓ بھی منافقین کی چال میں آگئے۔ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خدا داد عقل سے کا م لے کراس معاملہ کی تحقیق شروع کی اور حضرت عائشہ ؓ کے متعلق لوگوں سے شہادتیں لیں کہ ان کے اخلاق و عادات کیسے ہیں۔ جب شہادتوں سے ثابت ہو گیا کہ حضرت عائشہؓ شروع ہی سے نیک اور پاکدامن ہیں اور خُدا نے بھی سورۂ نور کی دس آیات حضرت عائشہؓ کی برأت کے لئے نازل کیں۔ تب حضورؐ نے جھوٹی تہمت لگانے والوں کو مجرم قرار دیا اور اپنی پاک دامن عصمت مآب بیوی کی پاکدامنی کا حتمی ثبوت پیش کرکے عورتوں کو ہمیشہ کے لئے ظلم سے بچا لیا اور دُنیا کو بتادیا کہ ایسے نازک وقت میں صنف نازک کے جذبات کو پامال نہ کیا جائے بلکہ تحقیق کر کے صحیح فیصلہ کیاجائے اور سُنی سنائی باتوں پر اعتبار کرکے عورت پر ظلم وستم کے پہاڑ نہ گرائے جائیں۔
عظیم الشان فرق
جس وقت سیتاجی پر الزام لگایا گیا۔ اس وقت رامچندر جی مہاراج بادشاہ تھے۔ باوجُود اس کے کہ مقدس دیوتاؤں نے سیتاجی کی پاکدامنی کی شہادتیں دیں اور رامچندر جی کو آکاش بانی (الہام) کے ذریعہ بھی بتایا گیا کہ سیتا جی پاکدامن ہیں لیکن باوجود اس کے مہاراج رامچندرجی اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات سے مرعُوب اور متأثر ہوکر سیتا جی کو محض لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے جُدا کرنے پر آمادہ ہو گئے اور نیک و معصوم بیوی کو جُدا ہی کردیا ۔اب اُس کے مقابلہ میں جس وقت حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت بادشاہ تھے لیکن حضورؐ نے باقاعدہ عدالتی تحقیق کرکے صحیح بات دریافت کی اور حضرت عائشہ ؓ کو پاکدامن ثابت کیا کیونکہ مقدس لوگوں نے ان کی پاکدامنی کی شہادت دی اور الہام کے ذریعہ خُدانے انہیں معصوم ٹھہرایا۔ تب آپؐ نے اپنی اور اپنی نیک بیوی کی عزت اسی میں سمجھی کہ حق کو دُنیا میں قائم کیا جائے اور جھوٹی افواہوں کی بناء پر ناانصافی نہ کی جائے ۔ ازدواجی زندگی کا یہ روشن نمونہ آپؐ ہی نے دُنیا میں قائم کیا۔ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
(الفضل قادیان 25 نومبر 1934ء)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭