• 10 جولائی, 2025

احمدیت کا وہ رنگ جو ہم نے ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رکھنا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ احمدی خواہ کسی قوم وملک کے ہوں انہیں چاہئے کہ ان سب پر احمدیت کا ایک ہی رنگ چڑھا ہوا ہو۔
یہ امر اتنا اہم ہے کہ ہم سب کے غوروفکرکا متقاضی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب یا فرقہ جب بین الاقوامی حیثیت اختیار کرتاہے تو ہر ملک و قوم کے افراد اپنا اپنا مخصوص سماجی،اخلاقی اور روحانی رنگ اور رسم و رواج اور سوچ کے انداز ساتھ لے کرآتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ان کے مذہبی رسومات اورعقائد تک ہرجگہ پرمختلف ہوجاتے ہیں ۔ عیسائیت، بدھ مت اور یہودیت وغیرہ کے حالات پر غور کرکے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ خود مسلمانوں کے فرقے بھی بے شمار بدعات کا شکار ہو چکے ہیں جن کی فہرست خاصی لمبی ہے۔

ہر کلچرمیں بعض باتیں اچھی ہوتی ہیں جن کو اختیارکر لینے کا آنحضرت ﷺ نے حکم دے رکھا ہے۔ چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ’’حکمت اور دانائی کی بات تو مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے اُسے چاہئے کہ جہاں بھی اُسے پائے لے لے کیونکہ وہی اس کا بہتر حقدار ہے‘‘

(چالیس جواہر پارے از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ115)

مغربی معاشرہ میں ایسی کئی باتیں ہیں جن کا قرآن وحدیث میں ذکر ہے لیکن مسلمانوں نے ان کو بھلا دیا ہے یا بگاڑ دیا ہے۔ مثلاً اُن کی مذہبی آزادی ہے جس کی حضرت مسیح موعودؑ نے بھی تعریف فرمائی ہے پھر انسانیت کا اکرام اور اس کے حقوق ہیں۔ پھر علم کی جستجو اور ترویج،غرباء، کمزوروں، بوڑھوں، بیکاروں، بیماروں اور طالبعلموں وغیرہ کی دیکھ بھال کے لئے سوشل سیکیورٹی کا انتظام ،عہد اوروعدوں کا پاس وغیرہ یہ سب دراصل ہم مسلمانوں ہی کی میراث ہیں ۔ ہمیں اپنا نے میں کوئی حجاب نہیں ہونا چاہئے۔ ان کی زبانیں بھی سیکھنی چاہئیں اور لباس اپنانے میں بھی کو ئی حرج نہیں ۔اگر وہ سردی گرمی سے بچاؤ اور زینت کا موجب ہواور حیا کے تقاضے پورےکرتا ہو ۔ان کے حلال کھانے بھی خدانے ہمارے لئے جائز قرار دے رکھے ہیں لیکن ان کی جوباتیں خدا اور رسول کی تعلیم کے برخلاف ہیں اور ایمان کے لئے سمّ قاتل ہیں ۔ہم پابند ہیں کہ ان سے ہر سماجی دباؤکے باوجود مجتنب رہیں ۔ ہم ایسی باتیوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے ورنہ ہم خدا کی نظروں میں مومن نہیں رہ سکتے۔ ہم سب فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ایسی باتیں کونسی ہیں۔مثلاً بے محابا جنسی آزادی ، جنسی اختلاط ،بے حیائی خواہ لباس میں ہو،رسالوں، انٹرنیٹ، ٹی وی وغیرہ کی ہو یا کسی اور شکل میں ۔ شراب اور دوسرے نشے ،جؤا ،مادہ پرستی اورحد سے زیادہ محبِّ مال و جاہ، آرام طلبی وشخصی آزادی وغیرہ ۔

1924ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے مغربی ممالک کا سفر کیا توحضرت مسیح موعودؑ کے خادم خاص حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانیؓ بھی آپ کے قافلہ میں شامل تھے۔ جب حضور نے یورپ کے مذکورہ بالا حالات کو خود دیکھا تو آ پ نے غم اور درد سے بھرپور ایک خط لندن سے قادیان جماعت کے نام ارسال فرمایا۔حضرت بھائی صاحب ؓ لکھتے ہیں ۔

’’خط میں آپ نے لکھا تھا کہ ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں۔ اے قوم! میں ایک نذیر کی طرح تجھے متنبّہ کرتاہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا۔ اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا۔ جس خدا نے مسیح موعودؑ کو بھیجا ہے وہ ضرورکوئی راستہ نجات کا نکال دے گا۔ پس کوشش نہ چھوڑنا ، نہ چھوڑنا۔ آہ! نہ چھوڑنا۔ مَیں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر ایک حکم ناقابل تبدیل ہے خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا۔ جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ وہ اسلام کی تبدیلی کی بنیاد رکھتاہے۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا۔ یورپ کے لئے تو اسلام کا قبول کرنا مقدر ہوچکاہے۔ہمار ا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے‘‘

(اصحاب احمد جلد نہم مؤلفہ ملک صلاح الدین صفحہ381)

حضرت مسیح موعودؑ نے غیر قوموں کی نقّالی سے منع فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔

’’خبردار! تم غیرقوموں کو دیکھ کر اُن کی ریس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کرلی ہے ۔آؤہم بھی انہی کے قدم پر چلیں۔ سنو اور سمجھو کہ وہ اُس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتاہے۔ ان کا خدا کیا چیزہے صرف ایک عاجز انسان ۔ اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے۔مَیں تمہیں دنیا کے کسب اورحرفت سے نہیں روکتا ۔مگر تم ان لوگوں کے پیرو مت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا ہی کو سمجھ رکھاہے۔ چاہئے کہ تمہارے ہرکام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے۔‘‘

(کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ23)

احمدیت کا رنگ

خدا کے فضل سے عمومی طورپر احمدیوں کا ایک خاص رنگ ڈھنگ ہوتاہے جس سے ناواقف لوگ بھی ہمیں پہچان لیتے ہیں مثلاً چہروں پر ایک تقویٰ کا رنگ،شرافت ،نمازوں کا فکر،قرآن سے محبت، ذکرالٰہی اور دعاؤں سے تر زبانیں، دیانتداری اور سچائی،باہمی محبت اور سادگی، مہمان نوازی، خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں فراخدلی ، خلیفۂ وقت سے محبت اور اطاعت نظام وغیرہ۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو احمدیوں کو غیر احمدیوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ کثرت کے اعتبار سے کوئی دوسرا فرقہ ان باتوںمیں خدا کے فضل سے احمدیوں کا ہم پلّہ نہیں۔ احمدی خواہ کسی رنگ ونسل یاقوم کے ہوں ،سب مخلصین اسی رنگ میں رنگین نظر آتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے مومنوں کو اس کی اپنی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کا ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کی پیروی کرتے ہوئے مومن کہتے ہیں۔ صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً وَنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ (البقرہ:139) اور کہو کہ ہم اللہ کا رنگ اختیار کرتے ہیں اور اللہ سے بہترکس کا رنگ ہے۔اور ہم اُسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (یعنی اُسی کی عاجزانہ اطاعت میں اس کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے والے ہیں)۔

حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:

’’صِبْغَۃَ اللّٰہ کے ایک یہ معنے ہیں کہ تم اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ یعنی ہمیشہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو اور دیکھتے رہو کہ کیا تم صفات الٰہیہ کے مظہر بنے ہو یا نہیں بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کواسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کا مظہر بنے۔ اور اس کی قابلیت خود اس نے انسانی فطرت کے اندر ودیعت کر دی ہے۔کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کی ربوبیت کا مظہر نہیں بن سکتا یا رحمانیت کا مظہرنہیں بن سکتا یارحیمیت کا مظہر نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ تمام قابلیتیں رکھ دی ہیں اور اسی کی طرف رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ’’خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ‘‘

(بخاری جلد 2کتاب الاستیذان)

یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیاہے۔……پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ تم دنیا میں کسی نہ کسی کا رنگ اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اور جب تم نے بہرحال کسی کا رنگ اختیار کرنا ہے توہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم اپنے دوستوں کا رنگ اختیار نہ کرو،تم اپنی بیوی بچوں کا رنگ اختیار نہ کرو بلکہ تم خدائے واحد کا رنگ اختیار کرو کیونکہ اُس نے تم کوپیدا کیاہے اور اُس سے تعلق ہی تمہاری نجات کاموجب ہوسکتاہے۔ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃ (البقرہ:139) اور اللہ تعالیٰ سے بہتر اور خوبصورت رنگ تم پر اور کون چڑھا سکتاہے۔ اس رنگ کے بعدتم بہروپئے نہیں بنوگے بلکہ ایک حسین ترین وجود بن جاؤ گے۔ جسے دیکھ کر دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی اور وہ تمہیں اپنے مکالمات و مخاطبات سے مشرف کرے گا۔تم پراپنے اسرار کے راز کھولے گا اور تمہیں اپنے غیرمعمولی انعامات سے بہرہ ور فرمائے گا۔‘‘

(تفسیر سورۃالبقرۃ آیت 139 ۔ تفسیر کبیر ۔صفحہ 218-217)

اللہ تعالیٰ ہم سب احمدیوں کو اپنی صفات کے رنگ میں رنگین فرمائے۔ ہاں وہی رنگ جو کبھی انسان کامل ؐ پر پورے جلال و جمال کے ساتھ چڑھا تھا اور پھر آپؐ کے غلام مسیح زمانؑ پرچڑھا۔ پھر آپ ؐ کے صحابہ ؓ اور مخلصین نے اُسے اپنی روحوں پر لیا اور ایسا ہوکہ ہمارے ماحول کا ہررنگ جو ہم پر چڑھا ہے خدایا !تیرا رنگ ان سب پرغالب آجائے اور خلیفہ ٔوقت کی زبان میں اللہ تعالیٰ ایسا جذب اور اثر پیدا کر دے کہ ہمارے دل مقامی کلچروں کے رنگ سے دھل کر خدا اور اس کے رسول ؐ کے رنگ میں رنگین ہوجائیں۔ اور اسلام واحمدیت کا یہ رنگ دنیا کے سب رنگوں کومات کردے ۔ آمین

(خالد سیف اللہ خان ۔ آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

مکرمہ مسرت ماجد میری پیاری امی اہلیہ مکرم شیخ عبدالماجد کاتب

اگلا پڑھیں

دُنیا بھر میں کورونا میں مبتلا احمدیوں کے لئے دُعا کی تحریک