• 2 مئی, 2024

مکرمہ مسرت ماجد میری پیاری امی اہلیہ مکرم شیخ عبدالماجد کاتب

ہر انسان کے لئے اس کا انمول اور بیش قیمت خزانہ اس کے والدین ہوتے ہیں خصوصاً اس کی ماں جس کی محبت بے لوث ہوتی ہے جس کی وفا میں شک نہیں کیا جاسکتا جو لامتناہی دعاؤں کا خزانہ اور اولاد کی ہر بات کو دل کے نہاں خانوں میں گہرے سمندر کی طرح چھپائے رکھتی ہے۔ اور اگریہ انمول ہستی ہمیشہ کے لئے جُدا ہوجائے تو اولاد کے لئے ایک گہرا خلاچھوڑ جاتی ہے وہ کوئی بھی رشتہ پُر نہیں کرسکتا۔

میری پیاری امی جان بھی ہر اولاد کی طرح میرے لئے بیش قیمت تھیں جو 21مئی 2019ء بمطابق 15رمضان المبارک کی صبح سحری کے وقت ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملیں۔ اِنّا لِلّٰہِ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔

ان کی دُعائیں، ان کی باتیں اور ان کی یادیں میرے ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔

میری والدہ کی زندگی میرے لئے ایک مثالی زندگی تھی جس پر کوئی بھی اولاد فخر کرسکتی ہے۔ اُن کی زندگی کے ہر پہلو کو میں نے اپنی پیدائش سے لے کر اُن کی وفات تک جیسے دیکھا اور اُن کی وفات کے بعد اُن کے ملنے والوں سے اُن کی خوبیوں کا جو تذکرہ سُنا اُس میں سے چند باتیں اور یادیں تحریر میں لارہی ہوں۔

پیاری امی جان نے بہت بہادری ، ہمت اور بشاشت سے اپنی زندگی عائلی ذمہ داریاں اور اپنے سُپرد کئے جانے والی جماعتی ذمہ داریوں کے درمیان کمال خوبی سے توازن قائم رکھتے ہوئے گزاری ۔ دارالنصر غربی اقبال نمبر1میں دو تین سال بطور سیکرٹری تحریک جدید اور پھر دارالنصر غربی منعم میں شفٹ ہونے کے بعد بطور سیکرٹری وقف جدید تقریباًسترہ سے اٹھارہ سال بہت ذمہ داری اور جانفشانی سے کام کیا ۔ دین کو دُنیا پر مقدم کرنا کیا ہوتا ہے یہ میں نے اُن سے سیکھا۔ خلیفۂ وقت جب بھی جنوری میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتے آپ اعلان کے فوراً بعد اپنا تمام چندہ وعدہ کے مطابق ادا کرتیں اور پھر دعا کرتے ہوئےمحلّہ میں وعدہ جات اور وصولیوں کے لئے کمر ہمت کس کر نکل کھڑی ہوتیں کبھی سُستی دکھائی نہ کوتاہی کی کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے بعد میں چلی جاؤںگی ہمیشہ مرکز کی طرف سے وعدہ جات کی فہرستوں کے لئے دئیے جانے والے وقت سے قبل ازوقت بھجوانے کی کوشش کی۔ اسی طرح وصولیوں کے لئے بھی بھرپور کوشش کرتیں گھر گھر جاکر لجنہ کو بہت پیار سے قائل کرتیں جو پہلے شامل نہ ہوتے انہیں اس کی اہمیت سمجھا کر شامل ہونے کی تلقین کرتیں۔ آغاز میں چند روپوں سے شامل ہونے کی ترغیب دلا کر پھر آہستہ آہستہ اس نیکی کی عادت کو جاری رکھنے بلکہ اس میں آگے بڑھنے کی ہمت بندھاتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک سے ایسا تعلق قائم کرتیں کہ لجنہ ان سے اپنی گھریلو پریشانیاں اور مسائل بے خوف بیان کرتیں اور اُمی جان اُن کی ہمت بندھاتیں اور مناسب مشورے دیتیں کہ کس رنگ میں اس مسئلہ سے نپٹیں اور کسی دوسرے سے کبھی اُن کے مسائل یا پریشانیوں تذکرہ نہ کرتیں۔ جب محلہ میں وعدہ جات و وصولیوں کے لئے نکلتیں اپنے کھانے پینے کی بھی پرواہ نہ کرتیں جب کھانے کا وقت دوپہر تین بجے سے بھی اوپر ہوجاتا تو میں اکثر انہیں فون کرکے یاد دلاتی کہ امی آپ آئی نہیں تو ہنس کر کہتیں فکر نہ کرو آجاؤں گی اور پھر چار بجے کے قریب آکر کہتیں پہلے نماز عصر ادا کرلوں پھر کھانا کھاؤں گی۔کھانے کے بعد بقایا کام کی تکمیل کے لئے نکل جاتیں اور جب تک کام مکمل نہ ہوجاتا یہی معمول رہتا۔

ہماری والدہ نے اولاد کی پرورش تعلیم وتربیت اور اُن کی ہر ضرورت کو احسن طور سے پورا کرنے کے لئے والد صاحب (جو کہ کتابت کے شعبہ سے منسلک تھے) کے شانہ بشانہ رہیں گھریلو اخراجات کی تکمیل کے لئے نٹنگ کا کام سیکھا اور پھر ایک لمبا عرصہ گھر میں آرڈر پر نٹنگ کا کام کیا نٹنگ مشین پر سویٹر وغیرہ بُنتی رہیں ۔اولاد کی تعلیم وتربیت اورپھر شادیوں کے معاملات احسن طریق سے ادا کئے ۔ ان سب ذمہ داریوں میں کبھی جماعتی کاموں میں تساہل نہ برتا اور بلکہ بچوں کی شادیوں کی مصروفیات میں بھی جماعتی کاموں کے سلسلہ میں اپنی ہرذمہ داری کو قبل ازوقت پورا کیا۔ مجھے یاد ہے جنوری 2003ء کے آخر میں میرے دو بھائیوں کی شادیاں تھیں اور اگلے ماہ ایک بہن کی شادی طے پائی تھی چونکہ جنوری سے وقف جدید کے سال کا آغاز ہوتا ہے اور وعدہ جات فارم ولسٹوں کی تکمیل کرکے مرکز جمع کروانے ہوتے ہیں امی جان نے دن رات محنت کرکے جنوری کی دس بارہ تاریخ تک وعدہ جات فارم اور فہرست وغیرہ مکمل کرکے جمع کروادیں تاکہ شادی کی مصروفیات میں ان کاموں سے کوتاہی نہ ہو۔

نماز اور قرآن سے عشق تھا

کوشش کرتیں کہ کبھی کوئی نماز قضاء نہ ہو نماز تہجد کی عادی تھیں تین سال قبل امی جان شدیدبیمار ہوئیں بیماری کے باعث جماعتی کاموں کو چھوڑنا پڑا لیکن تادم آخر اس چیز کی خلش رہی کہ میں جماعتی کام نہیں کرپارہی۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل جب ان کو دن میں دو تین بار شدید بخار جو کہ 103 اور 104 تک ہوتا تھا اپنی نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کریم کا معمول جاری رہا ۔ ان کی اپنے معمول کے مطابق روزانہ ہرصورت میں تلاوت قرآن کرنے کے مشاہدہ کا ذکر میرے شوہر اکثر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ

’’ان کی شدید بیماری میں ایک جمعہ کے روز مجھے انہوں نے کسی کام سے بُلایا صبح دس بجے کے قریب جب میں ان سے ملنے گیا تو پسینے میں شرابور تھیں پسینا ماتھے سے قطروں کی صورت ٹپک رہا تھا اور آپ تلاوت قرآن کرم میں مشغول تھیں میں نے کہا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں بعد میں کسی وقت تلاوت کرلیتیں کہنے لگیں پیناڈول کی دو گولیاں کھا لی تھیں اب تو بخار اُتررہا ہے روزانہ کی تلاوت جو میں نے کرنا ہوتی ہے اگر رہ گئی تو پھر نہ جانے اُس روز اُسے مکمل کرسکوں یا نہ۔‘‘

جب ڈاکٹرز نے اُن کی تیزی سے کمزور ہوتی نظر کے باعث تجویز کیا کہ آپ آپریشن کروالیں لیکن اُس صورت میں بھی انہوں نے بہتری کی زیادہ اُمید نہ دلائی تو بار بار دعاکے لئے کہتیں اور خود بھی ہروقت دعا کرتیں کہ اے خدایا! مجھے اندھا نہ کرنا میں جب تک روزانہ کچھ حصہ قرآن کریم کی تلاوت کا تفسیر صغیر سے ترجمہ کے ساتھ نہ پڑھ لوں مجھے چین نہیں آتا۔

میری والدہ انتہائی بہادر خاتون تھیں بڑی سے بڑی تکلیف اور پریشانی کو اپنے معمولات پر حاوی نہ ہونے دیتیں نہ اس کا اظہار ان کے چہرے سے ہوتا۔ اپنے دُکھ اور تکالیف چھپا کر لوگوں سے ملتیں اگر کوئی اپنا کوئی مسئلہ بیان کرتا تو سُن کر حوصلہ دیتیں کسی بھی دُکھ اور پریشانی میں دعا میں لگ جاتیں۔

والدہ کو ربوہ سے عشق تھا۔ کئی بار بھائی نے جو لاہور رہائش پذیر ہیں اپنے پاس آکر رہنے کا کہا لیکن آپ نے ہر بار کہا ربوہ سے جانے کو دل نہیں کرتا ربوہ سے باہر جاکر رہنا میرے لئے انتہائی دشوار ہے۔ جس صبح انہیں بھائی نے لاہور چیک اپ کے لئے لے کر جانا تھا باوجود طبیعت سخت خراب ہونے کے اور ساری رات جاگنے کےصبح حسب معمول نماز پڑھی اور کچھ دیر تلاوت کی پھر میرے دوسرے بھائی کو جو ان کے پاس تھا کہا میں لاہور جا تو رہی ہوں لیکن واپس نہیں آؤںگی یہ سُن کر بھائی رونے لگے تو انہیں کہا رو مت اور نہ ہی یہ بات بہنوں کو بتانا اُنہیں تکلیف ہوگی ۔ ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور لاہور سے ہم ان کا جنازہ لےکر ہی ربوہ آئے۔

سابقہ صدرصاحبہ لجنہ حلقہ دارالنصرمنعم ان کے کام کے طریق ، ان کی صلاحیتوں اور ہر ایک سے مُسکرا کر ملنے کو بہت پسند کرتیں تھیں۔ان کے کام کرنے کے انداز کو دفترمقامی لجنہ میں بھی سراہا جاتا رہا کئی بار اُنہیں انعامات اور اسناد خوشنودی سے نوازا گیا ۔ ایک بار سیکرٹری صاحبہ وقف جدید ربوہ نے لجنہ ہال میں محترمہ حضرت سیدہ آپا طاہرہ جان کی موجودگی میں اسٹیج پر بُلا کر ربوہ کی دیگر سیکرٹریان وقف جدید کو اپنے کام کرنے کے طریق سے آگاہ کرنے کا کہا۔ انہوں نے بتایا کہ

میرا طریق تو یہ ہے کہ جو زیادہ چندہ نہیں دیتے یا دے سکتے میں اُن پر چندہ بڑھانے کے لئے زور نہیں دیتی بلکہ انہیں خوشدلی سے ماہ بہ ماہ تھوڑی سی رقم ہی دینے کے لئے قائل کرتی ہوں ان سے ان کے مسائل کے بارہ میں گفتگو کرتی ہوں اگر کوئی سخت بات کہے بھی تو سُن کر مسکرا دیتی ہوں جب آپ ان کے ساتھ ہمدردی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے تو پھر غیر بھی اپنے بن جاتے ہیں۔ گویا خوش خُلقی اس کام کے ساتھ امی جان کا ایک خاص وصف رہا۔

میں ان کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہوں ان کی ساری تکالیف اور اُس پر ان کا حوصلہ اور برداشت اپنی آنکھوں سے دیکھی انسان کے سامنے اس کی ماں تکلیف کی آخری حد میں بھی تو انسان خدا کی مرضی کے آگے بے بس ہے۔ آپ نے ہمیں ہمیشہ صبر اور خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی تلقین کی ۔ اپنے صبر ورضا اور برداشت سے ہمارے لئے ایک مثال قائم کردی۔

آپ بفضل تعالیٰ موصیہ تھیں مسجد مبارک میں نماز عصر کے بعد مکرم ومحترم سید خالد احمد شاہ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور نئے بہشتی مقبرہ میں ان کی تدفین ہوئی بعد میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درخواست پر نمازجنازہ غائب پڑھائی۔

قارئین کرام! یہ تو میری پیاری امی کی زندگی کے چند پہلو ہیں ورنہ یادوں کے اتنے اوراق ہیں کہ اگر لکھنے بیٹھوں تو شمار ممکن نہیں اور

؎ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری والدہ کو اپنی رحمتوں کی چادر میں ڈھانپ لے انہیں کروٹ کروٹ سکون دے جنت الفردوس کا وارث بنائے اور ان کی اولاد کو ان کی خوبیاں اپنانے کی توفیق دے۔

(صائمہ نورین)

پچھلا پڑھیں

افریقہ کورونا وائرس ڈائری نمبر1 ,17 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

دینی تعلیم پر عمل کرنے والے بنیں