• 19 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے الفاظ میں آپ کی صداقت کا ثبوت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آج میں نے اس حوالے سے یہ مناسب سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں آپ کی صداقت کا ثبوت، اللہ تعالیٰ کی تائیدات، امام الزمان کی ضرورت، مسلمانوں کو آپ کو قبول کرنے اور مقام پہچاننے کی دعوت جو آپ نے دی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں وہ پیش کروں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ حوادثِ ارضی اور سماوی جو مسیح موعود کے ظہور کی علامات ہیں، وہ سب میرے وقت میں ظہور پذیر ہو گئی ہیں۔ مدت ہوئی کہ خسوف کسوف رمضان کے مہینے میں ہو چکا ہے‘‘۔ چاند اور سورج گرہن کا جو نشان تھا وہ ظاہر چکا ہے ’’اور ستارہ ذوالسنین بھی نکل چکا‘‘ دمدار ستارہ ’’اور زلزلے بھی آئے اور مَری بھی پڑی‘‘۔ یعنی ایسی بیماری جو طاعون وغیرہ۔ فرمایا ’’مَری بھی پڑی اور عیسائی مذہب بڑے زور شور سے دنیا میں پھیل گیا اور جیسا کہ آثار میں پہلے سے لکھا گیا تھا، بڑے تشدد سے میری تکفیر بھی ہوئی‘‘۔ یہ بھی پیشگوئی تھی۔ پہلے بزرگ لکھ گئے تھے کہ مسیح موعود آئے گا تو اُس کی تکفیر بھی ہو گی، اُسے کافر کہیں گے، جھوٹا کہیں گے۔ فرمایا کہ ’’غرض تمام علامات ظاہر ہو چکی ہیں اور وہ علوم اور معارف ظاہر ہو چکے ہیں جو دلوں کو حق کی طرف ہدایت دیتے ہیں‘‘

(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 298-299 حاشیہ)

پس یہ آپ نے اپنی صداقت کے بارے میں فرمایا کہ یہ ساری چیزیں ظاہر ہو رہی ہیں، پھر بھی تم لوگ ہوش نہیں کرتے۔

پھر اسی طرح ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو نیچر اور صحیفۂ قدرت کے پیرو بننا چاہتے ہوں اُن کے لئے خداتعالیٰ نے یہ نہایت عمدہ موقع دیا ہے کہ وہ میرے دعوے کو قبول کریں۔ کیونکہ وہ لوگ ان مشکلات میں گرفتار نہیں ہیں جن میں ہمارے دوسرے مخالف گرفتار ہیں۔ کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے‘‘۔ جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اُن کو مسیح موعود کے دعویٰ پر غور کرنا چاہئے۔ فرمایا ’’اور پھر ساتھ اس کے انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی نسبت جو پیشگوئی احادیث میں موجود ہے وہ ان متواترات میں سے ہے جن سے انکار کرنا کسی عقلمند کا کام نہیں۔ پس اس صورت میں یہ بات ضروری طور پر انہیں قبول کرنی پڑتی ہے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہوگا۔ البتہ یہ سوال کرنا اُن کا حق ہے کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا قبول کریں؟‘‘ یہ تو ٹھیک ہے کہ اس امت میں مسیح موعود ہو گا، لیکن یہ کس طرح صحیح ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے جو دعویٰ کیا ہے، وہ صحیح ہے؟ تو فرمایا ’’اوراس پر دلیل کیا ہے کہ وہ مسیح موعود تم ہی ہو؟‘‘ فرمایا ’’اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانہ اور جس ملک اور جس قصبہ میں مسیح موعود کا ظاہر ہونا قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور جن افعالِ خاصّہ کو مسیح کے وجود کی علّت غائی ٹھہرایا گیا ہے‘‘ یعنی یہ ضروری چیز ٹھہرایا گیا ہے ’’اور جن حوادث ارضی اور سماوی کو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی علامات بیان فرمایا گیا ہے اور جن علوم اور معارف کو مسیح موعود کا خاصّہ ٹھہرایا گیا ہے، وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانہ میں اور میرے ملک میں جمع کر دی ہیں اور پھر زیادہ تر اطمینان کے لئے آسمانی تائیدات میرے شامل حال کی ہیں‘‘۔ آپ نے یہ فارسی شعر آگے لکھا ہے کہ ؎

’’چوں مرا حکم از پئے قوم مسیحی دادہ اند
مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند
آسماں بارد نشان الوقت می گوید زمیں
ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند‘‘

کہ مجھے چونکہ مسیح کی قوم کے لئے حکم دیا گیا ہے، اس لئے میرا نام ابنِ مریم رکھا گیا ہے۔ آسمان نشان برسا رہا ہے، زمین بھی کہہ رہی ہے کہ یہی وقت ہے۔ یہ دو گواہ میری تصدیق کے لئے کھڑے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اب تفصیل اس کی یہ ہے کہ اشارات نصّ قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیلِ موسیٰ ہیں اور آپ کا سلسلۂ خلافت حضرت موسیٰ کے سلسلۂ خلافت سے بالکل مشابہ ہے۔ اور جس طرح حضرت موسیٰ کو وعدہ دیا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں یعنی جبکہ سلسلہ اسرائیلی نبوت کا انتہا تک پہنچ جائے گا اور بنی اسرائیل کئی فرقے ہو جائیں گے اور ایک، دوسرے کی تکذیب کرے گا یہاں تک کہ بعض بعض کو کافر کہیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ ایک خلیفہ حامی دینِ موسیٰ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرے گا۔ اور وہ بنی اسرائیل کی مختلف بھیڑوں کو اپنے پاس اکٹھی کرے گا۔ اور بھیڑئیے اور بکری کو ایک جگہ جمع کر دے گا۔ اور سب قوموں کے لئے ایک حَکَم بن کر اندرونی اختلاف کو درمیان سے اٹھادے گا‘‘۔ مطلب یہ کہ مظلوم قوموں کو اور ظالم قوموں کو اکٹھا کرے گا۔ ’’اور بغض اور کینوں کو دور کر دے گا۔ یہی وعدہ قرآن میں بھی دیا گیا تھا جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ (الجمعۃ: 4) اور حدیثوں میں اس کی بہت تفصیل ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ یہ اُمّت بھی اسی قدر فرقے ہو جائیں گے جس قدر کہ یہود کے فرقے ہوئے تھے۔ اور ایک دوسرے کی تکذیب اور تکفیر کرے گا‘‘۔ ایک دوسرے کو جھوٹا اور کافر کہیں گے ’’اور یہ سب لوگ عناد اور بغض باہمی میں ترقی کریں گے‘‘۔ یعنی ایک دوسرے سے بغض میں اور ایک دوسرے سے دشمنی میں بڑھتے چلے جائیں گے ’’اُس وقت تک کہ مسیح موعود حَکم ہو کر دنیا میں آوے۔ اور جب وہ حَکم ہو کر آئے گا تو بغض اور شحناء کو دور کر دے گا۔‘‘ یعنی بغض اور کینہ اور دشمنی جو ہے اُس کو دور کر دے گا ’’اور اس کے زمانہ میں بھیڑیا اور بکری ایک جگہ جمع ہو جائیں گے۔‘‘ یہ ظالم اور مظلوم جو ہیں، یا کمزور اور طاقتور جو ہیں وہ اکٹھے ہو کر ایک دین پر قائم ہوں گے اور صرف خدا تعالیٰ کی جو رضا ہے اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ’’چنانچہ یہ بات تمام تاریخ جاننے والوں کو معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسے ہی وقت میں آئے تھے کہ جب اسرائیلی قوموں میں بڑا تفرقہ پیدا ہوگیا تھا۔ اور ایک دوسرے کے مکفّر اور مکذّب ہوگئے تھے۔ اسی طرح یہ عاجز بھی ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اندرونی اختلافات انتہا تک پہنچ گئے اور ایک فرقہ دوسرے کو کافر بنانے لگا۔ اس تفرقہ کے وقت میں اُمّت محمدیہ کو ایک حَکَم کی ضرورت تھی۔ سو خدا نے مجھے حَکَم کر کے بھیجا ہے’’

(خطبہ جمعہ 22؍مارچ 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مجلس انصاراللہ اسلام آباد، برطانیہ کے مقامی اجتماع کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اپریل 2022