دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 13
قبولیت دعا کے لئے صبر و استقلال کی شرط
اس میں شک نہیں کہ اس مرحلہ کو طے کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت سے مشکلات ہیں اور تکلیفیں ہیں مگر ان سب کا علاج صرف صبر سے ہوتا ہے۔ حافظ نے کیا اچھا کہا ہے۔ شعر
گویند سنگ لعل شود در مقام صبر
آرے شود ولیک بخون جگر شود
یاد رکھو کوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اٹھا سکتا۔ جبتک وہ صبر میں حد نہ کردے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں میں نہ لگا رہے۔ اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی اور بدگمانی نہ کرے۔ اس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کا مالک تصور کرے، یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سن لیگا۔ اور اسے جواب دیگا جو لوگ اس نسخہ کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ کبھی بدنصیب اور محروم نہیں ہوسکتے۔ بلکہ یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی قدرتیں اور طاقتیں بے شمار ہیں۔ اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قانون رکھا ہے۔ پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اس قانون کو اس کے لئے بدل دے۔ وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی کرتا اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے۔ پھر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مداری کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کام ہوجائیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خداتعالیٰ کا کیا بگاڑے گا۔ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ بے صبری کرکے دیکھ لے وہ کہاں جائے گا۔
میں ان باتوں کو کبھی نہیں مان سکتا اور درحقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہانیاں ہیں۔ کہ فلاں فقیر نے پھونک مار کر یہ بنادیا اور وہ کردیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور قرآن شریف کے خلاف ہے اس لئے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔
ہر امر کے فیصلہ کے لئے معیار قرآن ہے۔ دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام کا پیارا بیٹا یوسف علیہ السلام جب بھائیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہوگیا تو آپ چالیس برس تک اس کے لئے دعائیں کرتے رہے اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا۔ چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف علیہ السلام کو لے ہی آئیں۔ اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے۔ مگر انہوں نے یہی کہا کہ میں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ بیشک ان کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ (یوسف: 95) پہلے تو اتنا ہی معلوم تھا کہ دعاؤں کا سلسلہ لمبا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں میں محروم رکھنا ہوتا۔ تو وہ جلد جواب دے دیتا مگر اس سلسلہ کالمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا۔ وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دعاؤں کے زمانہ کی درازی پر وَابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ (یوسف: 85) قرآن میں خود دلالت کررہی ہیں۔ غرض دعاؤں کے سلسلہ کے دراز ہونےسے کبھی گھبرانا نہیں چاہیئے۔
اللہ تعالیٰ ہر نبی کی تکمیل بھی جدا جدا پیرایوں میں کرتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اسی غم میں رکھی تھی۔
مختصر یہ کہ دعا کا یہ اصول ہے جو اس کو نہیں جانتا وہ خطرناک حالت میں پڑتا ہے اور جو اس اصول کو سمجھ لیتا ہے اس کا انجام اچھا اور مبارک ہوتا ہے۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ205-207)
قضا و قدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے
قرآن شریف جس حال میں اعمال بد کی سزا ٹھہراتا ہے اور حدود قائم کرتا ہے اگر قضا و قدر میں کوئی تبدیلی ہونیوالی نہ تھی اور انسان مجبور مطلق تھا۔ تو ان حدود و شرائع کی ضرورت ہی کیا تھی۔
پس یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید پر پہنچانا چاہتا ہے اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضا و قدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں تدبر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے۔ وہ دعا کو رد نہیں کرتا۔ ایک طرف دعا ہے۔ دوسری طرف قضا و قدر ۔ خدا نے ہر ایک کے لئے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کردیئے ہیں۔ا ور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے۔ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھے پکارو میں جواب دوں گا۔ میں اس لئے ہی کہا کرتا ہوں کہ ناطق خدا مسلمانوں کا ہے لیکن جس خدا نے کوئی ذرہ پیدا نہیں کیا یا جو خود یہودیوں سے طمانچے کھا کر مر گیا وہ کیا جواب دیگا۔
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی
جبر اور قدر کے مسئلہ کو اپنی خیالی اور فرضی منطق کے معیار پر کسنا دانشمندی نہیں ہے۔ اس سر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنا بیہودہ ہے۔ الوہیت اور ربوبیت کا کچھ تو ادب بھی چاہیئے۔ اور یہ راہ تو ادب کے خلاف ہے کہ الوہیت کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جاوے۔ اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ
قضا و قدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے۔ دعا کےساتھ معلق تقدیر ٹل جاتی ہے جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہے۔ جو لوگ دعا سے منکر ہیں۔ ان کو ایک دھوکا لگا ہوا ہے۔ قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے۔
وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ (البقرہ: 156) میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے۔ نون ثقیلہ کے ذریعہ سے جو اظہار تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرہ: 157) ہی ہے۔اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے وہ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61) میں ظاہر کیا ہے۔
پس مومن کو ان دونوں مقامات کا پورا علم ہونا چاہیئے۔ صوفی کہتے ہیں کہ فقرکامل نہیں ہوتا۔ جب تک محل اور موقع کی شناخت حاصل نہ ہو بلکہ کہتے ہیں کہ صوفی دعا نہیں کرتا۔ جبتک کہ وقت کو شناخت نہ کرے…
(ملفوظات جلد سوم صفحہ225-226)
عاجزی کرو تا ہماری دعائیں نیک نتیجے پیدا کریں
قبل از وقت عاجزی کرو گے تو ہماری دعائیں بھی تمہارے لئے نیک نتیجے پیدا کریں گی۔ لیکن اگر تم غافل ہوگئے تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔خدا کو ہر وقت یاد رکھو اور موت کو سامنے موجود سمجھو۔ زمیندار بڑے نادان ہوتے ہیں ۔ اگر ایک رات بھی امن سے گزر جاوے تو بیخوف ہوجاتے ہیں۔دیکھو تم لوگ کچھ محنت کرکے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدہ کی امید ہوتی ہے۔ اسی طرح پرامن کے دن محنت کے لئے ہیں۔ اگر اب خدا کو یاد کروگے تو اس کا مزہ پاؤگے۔ اگرچہ زمینداری اور دنیا کے کاموں کے مقابلہ میں نمازوں میں حاضر ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے اور تہجد کے لئے اور بھی ۔ مگر اب اگر اپنے آپ کو اس کا عادی کرلوگے تو پھر کوئی تکلیف نہ رہے گی۔ اپنی دعاؤں میں طاعون سے محفوظ رہنے کی دعا ملالو۔ اگر دعائیں کروگے تو وہ کریم رحیم خدا احسان کرے گا۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ266، آن لائن ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)