• 24 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 25؍مارچ 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍مارچ 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

’’یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہےتو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے۔ تب بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت مبارکہ سے حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض ایمان افروز واقعات

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی بنیں اور آپ کے پیغام کو دنیا میں پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کے وارث بھی بنیں۔ بے وفاؤں میں نہ ہوں بلکہ وفا داروں میں ہمارا شمار ہو

کُردی زبان میں پہلی احمدیہ ویب سائٹ کے اجرا کا اعلان

دنیا کے حالات کے بارے میں دعا ؤں کی تحریک
’’اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہی سے بچائے اور انسانوں کو عقل دے اور اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والے ہوں‘‘

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

دو دن پہلے 23؍مارچ کا دن تھا۔ یہ دن جماعت میں

یومِ مسیح موعود

کے دن سے پہچانا جاتا ہے۔ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے پہلی بیعت لی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دن کے حوالے سے جماعت میں جلسے بھی منعقد کیے جاتے ہیں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اور زمانے کے لحاظ سے آپؑ کے آنے کی ضرورت ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کے بارے میں پیشگوئیاں، آپ کی سیرت کے مختلف پہلو وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں۔ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے اپنی بعثت کی اہمیت کا ایک موقع پر آپؑ نے یوں ذکر فرمایا کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور اپنے دین (یعنی دین اسلام) اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں غیرت دکھاکر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا ہےتاکہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ اگر زمانے میں ایسا فتنہ و فساد نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے لیے جس قسم کی کوششیں ہورہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھا۔ پھر ضرورت کوئی نہیں تھی کسی کے بھیجنے کی۔ لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ ہرطرف، یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں جملہ اقوام لگی ہوئی ہیں۔ ہر طرف دائیں بائیں جہاں دیکھو یہی ہے کہ اسلام کو کس طرح ختم کیا جائے۔

اُس وقت بھی یہ حال تھا، یہی کوشش ہو رہی تھی جب آپؑ نے دعویٰ فرمایا اور اب بھی یہی حال ہے لیکن مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔

بہرحال آپؑ فرماتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں بھی مَیں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ۔ یعنی اس وقت جب آپؑ نے یہ فرمایا اس وقت مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر۔ اگر اس زیادتی کو جو اَب تک ان تصنیفات میں ہوئی ہے چھوڑ بھی دیا جائے تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب پاک و ہند کے ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا جوش غیرت میں نہ ہوتا اور إِنَّا لَهٗ لَحَافِظُوْنَ اس کا وعدہ صادق نہ ہوتا تو یقیناً سمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا اور اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا۔ مگر نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 73)

آپؑ نے اپنے دعوے کے بعد یہ بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت آپ کے ساتھ ہے۔ کس طرح اللہ تعالیٰ کی قرآن کریم میں بیان کردہ پیشگوئیاں آپ کے حق میں پوری ہو رہی ہیں۔ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اپنے مہدی اور مسیح کے حق میں پوری ہو رہی ہیں۔ یہ باتیں جیسا کہ میں نے کہا مختلف جلسے ہوتے ہیں ان جلسوں میں بھی سن رہے ہوں گے ایم ٹی اے پر بھی پروگرام آتے ہیں اس پر بھی سن رہے ہوں گے اور اس کی وضاحت ہو رہی ہو گی تو سننے والوں کو سننا چاہیے۔

اس وقت مَیں

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان فرمودہ بعض باتیں

بیان کروں گا۔ یہ وہ واقعات ہیں یا وہ باتیں ہیں جو حضرت مصلح موعودؓ نے دیکھے یا براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنے یا بعض روایت بیان کرنے والوں نے آپؓ کو سنائے جنہوں نے خود یہ دیکھے تھے اور ان بیان کرنے والوں میں غیر بھی شامل تھے، اپنے بھی شامل تھے۔ جہاں یہ واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی بیان کرتے ہیں وہاں ہمیں اپنی اصلاح اور اپنے ایمان میں مضبوطی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔ اگر ان کو سن کر ہمیں اپنی اصلاح اور بہتری کی طرف توجہ نہیں ہوتی تو انہیں سننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے اس نظر سے ان باتوں کو ہمیں سننا چاہیے اور اب بھی سنیں تاکہ ہم اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کریں اور انہیں اپنے ایمان میں مضبوطی کا ذریعہ بنائیں۔

انبیاء کے مخالفین کا انبیاء کے متعلق ہمیشہ یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ جو بھی کوئی علم و عرفان کی بات کریں تو یہی کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا انہیں سکھاتا ہے حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی قرآن کریم کے بارے میں یہ اعتراض ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ کو کوئی سکھاتا تھا حالانکہ یہ وہ کتاب ہے جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا چیلنج ہے۔ بہرحال حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے میں ذکر کرتا ہوں کہ جب براہین احمدیہ آپؑ نے تحریر فرمائی اور آپؑ نے شروع میں یہ بیان فرمایا کہ اتنی تعداد میں میں لکھوں گا۔ لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ماموریت کا جو مقام عطا فرمایا تو آپؑ نے فرمایا کہ یہ باتیں اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں، یہ کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ حسبِ حالات جو مضامین سکھاتا رہے گا وہ میں بیان کرتا رہوں گا تو مخالفین نے یہ اعتراض کر دیا کہ آپؑ کو کوئی لکھ کر دیتا تھا اور آپؑ بیان کر دیتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس بارے میں ایک تقریر میں بیان فرمایا ہے اس زمانے میں ایک اخبار ہوتا تھا ’’زمیندار‘‘ اور ’’احسان‘‘ ایک دوسرا اخبار تھا یہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ جو آپؑ براہین احمدیہ میں شائع کر دیتے تھے۔ اور جب تک ان کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ علیہ السلام بھی کتاب لکھتے رہے۔ مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیے تو آپؑ کی کتاب بھی ختم ہو گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہو گیا۔ لوگ کہتے ہیں ناں وہ لکھ کے دیا کرتے تھے۔ کیا ہو گیا انہیں کہ جو اچھا نکتہ سوجھتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے۔ آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنف ہیں۔ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں ان کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے۔ ان کی بعض کتابیں ہیں، ان کو براہین احمدیہ کے مقابلے میں رکھ لوکہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ کہاں براہین احمدیہ اور کہاں ان کی تصنیف۔ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسروں کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی۔ پس اوّل تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے۔ اور اگر بھیجتے تو عمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے۔ جیسے ذوق کے متعلق، ذوق بھی شاعر ایک گزرے ہیں، ان کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کو، بہادر شاہ ظفر کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔مگر ’’دیوانِ ذوق‘‘ اور ’’دیوانِ ظفر‘‘ آج کل دونوں پائے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفر کے کلام میں نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے، اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے۔ حالانکہ بادشاہ ظفر تھا۔ غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ معرفت کے عمدہ عمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھ کر دیتے۔مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں بھی۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو۔ کوئی بھی ان میں نسبت نہیں ہے۔ انہوں نے یعنی مولوی چراغ علی صاحب نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائبل کے حوالے جمع کیے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کیے ہیں جو تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کو نہیں سوجھے اور ان معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں۔

(ماخوذ از فضائل القرآن (6)، انوار العلوم جلد14 صفحہ350)

پھر اور مولوی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف شور مچاتے ہیں، ان مولویوں اور مخالفین کے شور اور مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ نے ایک جگہ بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا اس وقت آپؑ کی حالت اور آپؑ کے ماننے والوں کی حالت بظاہر بہت کمزور تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’میری پیدائش‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ’’دعوے سے پہلے کی ہے اور گو میں نے ابتدا نہیں دیکھی مگر ابتدا کے قرب کا زمانہ دیکھا ہے۔‘‘ یعنی ہوش و حواس میں۔ ’’وہ زمانہ بھی کمزوری کا زمانہ تھا‘‘ جماعت کی۔ ’’طرح طرح مولوی لوگوں کو جوش دلاتے تھے اور ہر ممکن طریق سے دکھ اور تکالیف پہنچاتے تھے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد8 صفحہ248)

لیکن کوئی روک نہیں پیدا کر سکے۔ جو اللہ تعالیٰ کے کام تھے وہ پورے ہوتے رہے۔

پھر یہ جو

مخالفت ہوتی رہی اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا ردّ عمل ہوتا تھا

حضرت مصلح موعود ؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئی دفعہ سنا ہے کہ لوگ گالیاں دیتے ہیں تب بھی برا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں گالیاں دے کے کیوں اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور اگر گالیاں نہ دیں تب بھی ہمیں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مخالفت کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہوتی۔ گالیاں دیتے ہیں تو اس مخالفت کی وجہ سے جماعت کا پیغام پہنچتا ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ پس ہمیں تو گالیوں میں بھی مزہ آتا ہے۔ اس لیے اعتراضات یا لوگوں کی بدزبانی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

پھر پنجابی میں ایک ضرب المثل بیان کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کرتے تھے کہ ’’اونٹ اڑاندے ای لدے جاندے نے‘‘ یعنی اونٹ گو چیختا رہتا ہے مگر مالک اس پر ہاتھ پھیر کے پھر بھی اسباب لاد ہی دیتا ہے۔ اسی طرح لوگ خواہ کچھ کہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نصیحت فرمائی کہ تم نرمی اور محبت سے پیش آتے رہو۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد15 صفحہ265)

اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ انہی لوگوں میں سے قبول کرنے والے آ جائیں گے۔ اس مخالفت کے حوالے سے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دعویٰ فرمایا تو آپؑ کو ماننے والے صرف چند آدمی تھے مگر اس کے بعد آتھم کے ساتھ آپؑ کا مقابلہ ہوا تو لوگوں پر ایک ابتلا آیا اور انہوں نے سمجھا کہ آپؑ کی پیشگوئی اپنے ظاہری الفاظ کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئی۔ پھر لیکھرام سے آپؑ کا مقابلہ ہوا تو گو آپؑ کی پیشگوئی نہایت شان سے پوری ہوئی مگر ہندوؤں میں آپؑ کے خلاف جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے آپؑ کی سخت مخالفت شروع کر دی۔ اسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے فتووں کا وقت آیا تو جماعت پر ایک ابتلاء آیا۔ پھر ڈاکٹر عبدالحکیم کے ارتداد کا وقت آیا تو جماعت پر ابتلاء آیا۔ غرض

مختلف اوقات میں ایسے زور سے شورشیں اٹھیں کہ دیکھنے والوں نے سمجھا کہ اب یہ لوگ ختم ہو گئے۔لیکن خدا تعالیٰ نے ان سب فتنوں کو مٹانے کے سامان پیدا کر دئیے اور وہ فتنے بجائے جماعت کو تباہ کرنے کے اس کی ترقی اور عزت کا موجب بن گئے۔

اسی طرح اب ہو رہا ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’تم دیکھ لو‘‘ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں شورش اٹھی تھی ’’کہ کس کس رنگ میں جماعت کے خلاف شورشیں اٹھیں، فساد ہوئے اور کس طرح لوگوں نے سمجھ لیا کہ اب احمدیت مٹ جائے گی۔ مگر ہر بار بجائے مٹنے کے جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر گئی۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد33 صفحہ298)

تو یہ تو جماعت کی تاریخ ہے اور

الٰہی جماعتوں کی یہی تاریخ ہوتی ہے۔

یہ طریق مخالفت کا بھی جاری رہتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہے اور انہی مخالفتوں میں سے گزرتی ہوئی جماعت ترقی کرتی جاتی ہے اور اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ترقی کرتی رہے گی اور کر رہی ہے۔ مخالفین بھی زور لگاتے ہیں، منافقین بھی زور لگاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کام پورے کر کے رہتا ہے جو اس نے وعدے کیے ہوئے ہیں وہ پورے کر کے رہے گا۔ ان شاء اللہ۔

مخالفت کے حوالے سے ایک تقریر میں آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک پہلو تو اس کا یہ ہے کہ لوگوں کے اندر مخالفت ہوتی ہے اور وہ مخالفت کی وجہ سے ہماری باتوں کے سننے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ان کے دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے یہ چیز تو ہمارے لیے بری ہوتی ہے۔ مگر ایک صورت یہ بھی ہوا کرتی ہے کہ جب کوئی شخص مخالفت کی باتیں سنتا ہے تو وہ پھر کریدتا ہے کہ اچھا یہ ایسے گندے لوگ ہیں۔ ذرا میں بھی تو جاکے دیکھوں۔ اور جب وہ دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ جو باتیں مجھے انہوں نے بتائی تھیں وہ تو بالکل اَور تھیں۔ یعنی مخالفین نے جو بتائی تھیں وہ تو اَور تھیں اور یہ باتیں جو احمدی کہتے ہیں بالکل اَور ہیں اور وہ ہدایت کو تسلیم کر لیتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مجھے یاد ہے مَیں چھوٹا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف رکھتے تھے، مجلس لگی ہوئی تھی کہ ایک صاحب رام پور سے تشریف لائے۔ وہ رہنے والے تو لکھنؤ یا اس کے پاس کے کسی مقام سے تھے لیکن رام پور میں رہتے تھے۔ چھوٹا قد تھا ان کا، دبلے پتلے آدمی تھے۔ ادیب بھی تھے، شاعر بھی تھے اور ان کو محاوراتِ اردو کی لغت لکھنے پر نواب صاحب رامپور نے مقرر کیا ہوا تھا۔ وہ آکے مجلس میں بیٹھے اور انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں رام پور سے آیا ہوں اور نواب کا درباری ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ کو یہاں آنے کی تحریک کس طرح ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ میں بیعت میں شامل ہونے کے لیے آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے۔ اس طرف یعنی رام پور کی طرف تو ہماری جماعت کا آدمی بہت کم پایا جاتا ہے اور اس طرف تبلیغ بھی بہت کم ہے۔ آپ کو اس طرف آنے کی تحریک کس نے کی؟ تو حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ یہ لفظ میرے کانوں میں آج تک گونج رہے ہیں اور میں آج تک اس کو بھول نہیں سکا حالانکہ میری عمر اس وقت سولہ سال کی تھی کہ اِس کے جواب میں انہوں نے بے ساختہ طور پر کہا کہ یہاں آنے کی تحریک مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب نے کی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ میں تو اپنی کم عمر کے لحاظ سےاس بات کو نہ ہی سمجھا ہوں گا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پر ہنس پڑے جو انہوں نے جواب دیا اور فرمایاکہ وہ کس طرح؟ تو انہوں نے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی کتابیں نواب صاحب کے دربار میں آئی تھیں۔ اور نواب صاحب بھی پڑھتے تھے اور مجھے بھی پڑھنے کے لیے کہا گیا تو میں نے کہا جو جو حوالے یہ لکھتے ہیں میں مرزا صاحب کی کتابیں بھی نکال کر دیکھ لوں کہ وہ حوالے کیا ہیں۔ خیال تو مَیں نے یہ کیا کہ میں اس طرح احمدیت کے خلاف اچھا مواد جمع کر لوں گا لیکن جب مَیں نے حوالے نکال کر پڑھنے شروع کیے تو اُن کا مضمون ہی اَور تھا۔ اس سے مجھے اَور دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے کہا کہ چند اَور صفحے بھی اگلے پچھلے پڑھ لوں۔ جب میں نے وہ پڑھے تو مجھے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپؐ کی شان اور آپؐ کی عظمت جو مرزا صاحب بیان کرتے ہیں وہ تو ان لوگوں کے دلوں میں ہے ہی نہیں۔ پھر کہنے لگے مجھے فارسی کا شوق تھا۔ اتفاقاً مجھے درثمین فارسی مل گئی اور وہ میں نے پڑھی اور وہ جب پڑھنی شروع کی تو اِس کے بعد میرا دل بالکل صاف ہو گیا اور میں نے کہا کہ جاکر بیعت کر لوں۔ تو مخالفت جہاں فساد کا ذریعہ ہے وہاں فائدہ بھی ہوتا ہے۔ (ماخوذ از چشمہ ہدایت، انوار العلوم جلد22 صفحہ433 تا 435)

پس

ان دونوں حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بھی اپنی تبلیغ کی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔

نبی کی اگر مخالفت نہ ہو تو تب بھی وہ پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ مخالفت ہی ترقی کا ذریعہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مصری حکومت اپنے زمانے میں نہایت نامور حکومت تھی اور اس کا بادشاہ اپنی طاقت اور قوت پر ناز رکھتا تھا یعنی فرعون کے زمانے میں۔ ایسے بادشاہ کے مقابل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی مگر باوجود اس کے جب وہ بادشاہ کے پاس گئے تو گو بادشاہ نے ان کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں اور ان کی قوم کو تباہ و برباد کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں بھی مٹا دیا جائے گا اور تمہاری قوم کو بھی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام باز نہ آئے اور انہوں نے کہا جو پیغام مجھے خدا نے دینے کے لیے دیا ہے وہ میں ضرور پہنچاؤں گا۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سے روک نہیں سکتی۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا۔ یہی حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ایسی ہی حالت ہم نے، حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیکھی ہے۔ ساری قومیں آپؑ کی مخالف تھیں۔ حکومت بھی ایک رنگ میں آپؑ کی مخالف ہی تھی گو آخری زمانے میں یہ رنگ نہیں رہا۔ بہرحال قومیں آپؑ کی مخالف تھیں۔ تمام مذاہب کے پیرو آپؑ کے مخالف تھے۔ مولوی آپؑ کے مخالف تھے۔ گدی نشین آپؑ کے مخالف تھے۔ عوام آپؑ کے مخالف تھے اور امراء اور خواص بھی آپؑ کے دشمن تھے۔ غرض چاروں طرف مخالفت کا ایک طوفان برپا تھا۔ لوگوں نے آپ کو بہت کچھ سمجھایا۔

بعض نے دوست بن کر کہا کہ آپؑ اپنے دعووں میں کسی قدر کمی کر دیں۔ بعض نے کہا کہ اگر آپ فلاں فلاں بات چھوڑ دیں تو سب لوگ آپ کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے مگر آپؑ نے ان میں سے کسی بات کی بھی پرواہ نہ کی اور ہمیشہ اپنے دعوے کو پیش فرماتے رہے اور اس پر شور ہوتا رہا۔

ماریں پڑتی رہیں قتل ہوتے رہے مگر باوجود ان تمام تکالیف کے اور باوجود اس کے کہ آپؑ کا مقابلہ ایک ایسی دنیا سے تھا جس کا مقابلہ کرنے کی ظاہری سامانوں کے لحاظ سے آپؑ میں قطعاً طاقت نہ تھی پھر بھی آپؑ نے مقابلے کو جاری رکھا بلکہ مجھے خوب یاد ہے میں نے متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا کہ نبی کی مثال تو ویسی ہی ہوتی ہے جیسی لوگ کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ایک مجذوب سی عورت تھی۔ جب وہ باہر نکلتی تو چھوٹے چھوٹے لڑکے اکٹھے ہو کر اسے چھیڑنے لگ جاتے۔ اس کے ساتھ مذاق کرتے۔ اسے تنگ کرتے، دِق کرتے اور اسے بار بار تنگ کرتے۔ وہ بھی مقابلے میں ان لڑکوں کوگالیاں دیتی اور بددعائیں دیتی۔ آخر ایک دن گاؤں والوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ عورت مظلوم ہے اور ہمارے لڑکے اسے ناحق تنگ کرتے رہتے ہیں۔ مظلومیت کی حالت میں یہ انہیں بددعائیں دیتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی بددعائیں کوئی رنگ لائیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے لڑکوں کو روک لیں تاکہ نہ وہ اسے تنگ کریں اور نہ یہ بددعائیں دے۔ چنانچہ اس مشورے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ کل سے سب گاؤں والے اپنے لڑکوں کو گھروں میں بند رکھیں گے اور انہیں باہر نہ نکلنے دیں۔ چنانچہ دوسرے دن سب لوگوں نے اپنے لڑکوں سے کہہ دیا کہ آج سے باہر نہیں نکلنا اور مزید احتیاط کے طور پر انہوں نے باہر کے دروازوں کی زنجیریں لگا دیں۔ جب دن چڑھا اور وہ پاگل عورت حسب معمول اپنے گھر سے نکلی تو کچھ عرصہ تک وہ ادھر ادھر گلیوں میں پھرتی رہی۔ کبھی ایک گلی میں جاتی، پھر کبھی دوسری گلی میں مگر اسے کوئی لڑکا نظر نہ آتا۔ پہلے تو یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ کوئی لڑکا اس کے دامن کو گھسیٹ رہا ہے۔ کوئی اسے چٹکی کاٹ رہا ہے۔ کوئی اسے دھکا دے رہا ہے۔ کوئی اس کے ہاتھوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور کوئی اس سے مذاق کر رہا ہے مگر آج اسے کوئی لڑکا دکھائی نہ دیا۔ دوپہر تک تو اس نے انتظار کیا مگر جب دیکھا کہ اب تک کوئی لڑکا اپنے گھر سے نہیں نکلا تو وہ دوکانوں پر گئی اور ہر دوکان پر جا کر کہتی ہے کہ آج تمہارا گھر گر گیا ہے؟ بچے مر گئے ہیں؟ آخر ہوا کیا ہے کہ وہ نظر نہیں آتے؟ تھوڑی دیر کے بعد جب اس طرح اس نے ہر دکان پر جا کر یہ کہنا شروع کیا تو لوگوں نے کہا کہ گالیاں تو اس طرح بھی ملتی ہیں، بددعائیں تو یہ اب بھی دے رہی ہے اور اس طرح بھی ملتی ہیں جب لڑکے چھیڑتے ہیں۔ تو چھوڑو بچوں کو، ان کو قید کیوں کر رکھا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ حکایت بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کا حال بھی اپنے رنگ میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے کہ دنیا ان کو چھیڑتی ہے تنگ کرتی ہے ان پر ظلم و ستم ڈھاتی ہے اور اس قدر ظلم کرتی ہے کہ ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور ایک طبقے کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ لوگ ظلم سے کام لے رہے ہیں انہیں نہیں چاہیے کہ ایسا کریں مگر فرمایا کہ وہ بھی یعنی انبیاء بھی دنیا کو نہیں چھوڑ سکتے۔ جب دنیا ان کو نہیں ستاتی تو وہ خود اس کو جھنجھوڑتے ہیں اور بیدار کرتے ہیں۔ پیغام دیتے ہیں۔ کوئی بات بتاتے ہیں ۔ تبلیغ کی طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں تاکہ دنیا ان کی طرف متوجہ ہو اور ان کی باتوں کو سنے۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد24 صفحہ272تا 274)

پھر انبیاء میں سختی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ

انبیاء سختی کیوں کرتے ہیں؟

تو اس بارے میں بھی آپؓ نے بیان فرمایا کہ انبیاء کی سختی اپنی ذات کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقام کو قائم کرنے کے لیے اگر کبھی سختی دکھاتے ہیں اور غیرت دکھاتے ہیں تو وہ ہوتی ہے۔ اپنی ذات کے لیے تو ان میں بالکل عاجزی ہوتی ہے۔ اس بارے میں ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور کی ایک گلی میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیا۔ آپؑ گر گئے جس سے آپؑ کے ساتھی جوش میں آ گئے اور قریب تھا کہ اسے مارتے لیکن آپؑ نے فرمایا کہ اس نے اپنے جوش میں سچائی کی حمایت میں ایسا کیا ہے۔‘‘ یہ شخص جو ہے یہ تو یہی سمجھا ہے ناں مولویوں کی باتیں سن کے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں تو میں اپنا بدلہ لوں تو اس نے تو سچائی کی وجہ سے یہ کیا ہے ’’اسے کچھ نہ کہو۔ پس

انبیاء اپنے نفس کے سوال کی وجہ سے نہیں بولتے بلکہ
خدا کی عزت کے قیام کے لئے بولتے ہیں۔

تو یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی ایسا ہی کرتے ہیں‘‘ یعنی اگر وہ کبھی سختی کریں۔ ’’ان میں اور عام لوگوں میں بڑا فرق ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں اور عام لوگ اپنے لئے کرتے ہیں۔ پس اگر کسی شخص کو یہ احساس پیدا ہو جائے۔‘‘ پھر آگے آپؓ نصیحت فرما رہے ہیں ’’کہ میں واقعہ میں کمزور ہوں تو ایسا انسان گمراہ ہو نہیں سکتا۔‘‘ وہ اپنی کمزوری کی طرف نظر رکھے گا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے گا۔ ’’انسان گمراہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ یقین رکھتا ہے کہ میں حق پر ہوں۔‘‘ اور پھر اس پہ تکبر ظاہر ہوتا ہے۔

پس ہمیں انبیاء کے اسوہ کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ عاجزی کا اظہار کرتے رہنا چاہیے
اور یہی گناہ سے بچنے کا بھی ذریعہ ہے۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ ہے۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت معاویہ کی نماز کا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے ایک مرتبہ فجر کی نماز قضا ہو گئی لیکن وہ اس غلطی کے نتیجے میں نیچے نہیں گرے بلکہ ترقی کی۔‘‘ شیطان نے ان پر قابو نہیں پا لیا بلکہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ’’پس جو گناہ کا احساس کرتا ہے وہ گناہ سے بچتا ہے اور جب گناہ کا احساس نہیں رہتا تو انسان معصیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پس مومن کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ وہ خطرات سے محفوظ نہیں ہوا۔ صرف اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے جبکہ خدا کی آواز اسے کہہ دے۔ پس انسان کو اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ایسے شخص کے لئے روحانیت کے راستے کھل جاتے ہیں‘‘ جو اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے ’’جو ایسا نہیں کرتا اس کے لئے روحانیت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور ایسا انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد18 صفحہ141-142)

ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’بغیر محنتِ دینی یا محنتِ دنیوی کے کوئی انسان عزت حاصل نہیں کرسکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ

ہمارے زمانہ میں تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ اب عزت پانے والے یا ہمارے مرید ہوں گے یا ہمارے مخالف ہوں گے۔‘‘

عزت پانے والے لوگوں کو دیکھ لو یا تو وہی لوگ عزت پائیں گے جو حضرت مسیح موعود ؑ کو ماننے والے ہیں یا وہ جو مخالفت کرنے والے ہیں۔ دینی لحاظ سے جو اپنے آپ کو مخالف سمجھتے ہیں۔ ’’چنانچہ فرماتے تھے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ’’مولوی ثناء اللہ صاحب کو دیکھ لو وہ کوئی بڑے مولوی نہیں ان جیسے ہزاروں مولوی پنجاب اور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ ان کو اگر اعزاز حاصل ہے تو محض ہماری مخالفت کی وجہ سے۔ وہ لوگ خواہ اس امر کا اقرار کریں یا نہ مگر واقعہ یہی ہے کہ آج ہماری مخالفت میں عزت ہے یا ہماری تائید میں۔ گویا اصل مرکزی وجود ہمارا ہی ہے اور مخالفین کو بھی اگر عزت حاصل ہوتی ہے تو ہماری وجہ سے‘‘ ہوتی ہے۔

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ614)

پس یہی ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ اگر مولویوں کی روٹی چل رہی ہے یا انہیں کرسی ملی ہوئی ہے تو احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے ہے اور اب تو سیاستدان بھی بعض ملکوں میں خاص طور پر پاکستان میں احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی کرسی قائم رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف جو سازشیں ہوئیں ان کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بھی لوگوں نے سازشیں کیں۔ قتل کے مقدمات دائر کیے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مخالفین کو اپنے مقاصد میں نامراد رکھا۔ ایسے ہی اقدام قتل کے مقدمہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف عدالت میں گواہی دینے آیا اور اس امید پر آیا کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی اگرنہ لگی ہو گی تو عدالت میں نعوذ باللہ ذلیل حالت میں کھڑے ہوں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ انگریز ڈپٹی کمشنر جس کے سامنے مقدمہ پیش تھا وہ ہمارے سلسلہ کا مخالف بھی تھا اور اس نے ضلع میں تعینات ہوتے ہی کہا تھا کہ یہ شخص یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو ہمارے یسوع مسیح کی ہتک کرتا ہے، ان کو کہتا ہے کہ وہ فوت ہو گئے اب تک بچا ہوا ہے اس کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ میں اب اسے سزا دوں گا۔ مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے سامنے پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرّف کیا کہ آپؑ کی شکل دیکھتے ہی اس کا بغض دور ہو گیا اوراس نے اپنے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹھنے کے لیے کرسی بچھا دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پر بیٹھ گئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو آیا ہی اس لیے تھا کہ آپؑ کو ذلت کی حالت میں دیکھے۔ اس نے جب دیکھا کہ آپؑ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو برداشت نہ کرتے ہوئے اس نے کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر سے سوال کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے۔ اس نے، مولوی محمد حسین نے یہ خیال کیا کہ جب مجرم کے لیے کرسی بچھائی جاتی ہے تو گواہ کو کیوں کرسی نہیں ملے گی مگر کپتان ڈگلس نے جب یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے غضبناک ہو کر کہا کہ تجھے کرسی نہیں ملے گی۔مولوی محمد حسین صاحب نے کہا میرے باپ کو لارڈ صاحب کے دربار میں کرسی ملا کرتی تھی مجھے بھی کرسی دی جائے۔ میں اہل حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور میرا حق ہے کہ مجھے کرسی ملے۔ تب کپتان ڈگلس نے کہا کہ بَک بَک مت کر اور پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا۔ اب بجائے اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تذلیل دیکھتا خدا تعالیٰ نے اسے ذلیل کر دیا۔ پھر یہ تو عدالت کے کمرے کے اندر کا واقعہ ہے۔ جب مولوی صاحب باہر نکلے تو لوگوں کو یہ دکھانے کے لیے کہ گویا اندر بھی انہیں کرسی ملی ہے برآمدے میں ایک کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے لیکن چونکہ نوکر وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے آقا کو کرتے دیکھتے ہیں۔ چپڑاسی نے جب دیکھا کہ مولوی صاحب کو اندر تو کرسی نہیں ملی اور اب برآمدے میں کرسی پر آبیٹھے ہیں تو اسے خیال آیا کہ اگر صاحب بہادر نے دیکھ لیا تو مجھ پر ناراض ہو گا۔ وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا آپ کو یہاں پر بیٹھنے کا حق نہیں۔ اٹھ جائیے۔ اس طرح باہر کے لوگوں نے بھی دیکھ لیا کہ مولوی صاحب کی عدالت میں کتنی عزت ہوئی ہے۔ مولوی صاحب اس پر غصہ میں جل بھن کر آگے بڑھے تو کسی شخص نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی اس پر بیٹھ گئے مگر اتفاق کی بات ہے کہ چادر والا بھی جھٹ آ پہنچا اور کہنے لگا کہ میری چادر چھوڑ دو۔ یہ تمہارے بیٹھنے سے پلید ہوتی ہے کیونکہ تم ایک مسلمان کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے عدالت میں گواہی دینے آئے ہو۔ تو یاد رکھو کہ

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب نصرت آتی ہے تو کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا۔

پولیس کے افسر اور سپاہی کیا بڑے سے بڑے آدمی کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور ایک سیکنڈ میں اللہ تعالیٰ دشمنوں کو ہلاک کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے دعائیں کرو۔ ہاں مومنوں کے لیے ابتلاؤں کا آنا بھی مقدر ہوتا ہے سو اگر صبر سے کام لو گے اور دعائیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں کو دور کر دے گا۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد15 صفحہ184 تا 186)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور عیسائیوں کے درمیان ایک مباحثہ ہوا تھا اس کی روئیداد جو بیان ہوئی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں جنگِ مقدس کے نام سے شامل ہے۔ اس مباحثہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ اپنے خطبہ میں حضرت خلیفہ اولؓ کے حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ حضرت خلیفہ اولؓ فرمایا کرتے تھے آتھم کے مباحثے میں ہم نے جو نظارہ دیکھا اس سے پہلے تو ہماری عقلیں دنگ ہو گئیں یعنی اس کو دیکھ کر پہلے تو ہماری عقلیں دنگ ہو گئیں اور پھر ہمارے ایمان آسمانوں تک پہنچ گئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے تھے کہ جب عیسائی مباحثے سے تنگ آ گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ہمارا کوئی داؤ نہیں چلا تو چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انہوں نے ہنسی کرنے کے لیے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے کچھ بہرے اور کچھ لولے اور کچھ لنگڑے بلا لیے اور انہیں مباحثے سے پہلے ایک طرف بٹھا دیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو جھٹ انہوں نے اندھوں بہروں اور لولوں لنگڑوں کو آپ کے سامنے پیش کر دیا اور کہا کہ باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں مسیح ناصری کا مثیل ہوں اور مسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے۔ بہروں کو کان بخشا کرتے تھے اور لولوں لنگڑوں کے ہاتھ پاؤں درست کیا کرتے تھے۔ مسیح ناصری تو یہ کیا کرتے تھے ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لیے اس وقت چند اندھے، بہرے اور لولے، لنگڑے اکٹھے کر دیے ہیں۔ اگر آپ واقعی مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجیے۔ خلیفہ اولؓ فرماتے تھے کہ ہم وہاں بیٹھے تھے۔ ہم لوگوں کے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے اور گو ہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یونہی ہے یعنی حقیقت اس میں کوئی نہیں ہے جو مسیح ناصری کی طرف منسوب کی جاتی ہے لیکن پھر بھی ہمارے دل بیٹھ گئے۔ اس بات سے گھبرا گئے کہ آج ان لوگوں کو ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کا موقع مل جائے گا مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرے کو دیکھا تو آپؑ کے چہرے پر ناپسندیدگی یا گھبراہٹ کے کوئی آثار ہی نہیں تھے۔ جب وہ بات ختم کر چکے تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ دیکھئے پادری صاحب! مَیں جس مسیح کے مثیل ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کے اندھوں بہروں اور لولوں لنگڑوں کو اچھا نہیں کیا کرتا تھا مگر آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں، جسمانی بہروں، جسمانی لولوں اور لنگڑوں کو اچھا کیا کرتا تھا تو آپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں ایک ذرّہ بھر بھی ایمان ہو اور تم پہاڑوں سے کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جائے تو وہ چلا جائے گا اور اگر تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو وہ اچھے ہو جائیں گے۔ پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ مَیں تو وہ معجزے دکھا سکتا ہوں جو میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے۔ آپ ان معجزوں کا مطالبہ کریں تو مَیں دکھانے کے لیے تیار ہوں۔ باقی رہے اس قسم کے معجزے سو آپ کی کتاب نے بتا دیا ہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اندر ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو ویسے ہی معجزے دکھا سکتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری نے دکھائے۔ سو آپ نے بڑی اچھی بات کی ہے جو ہمیں تکلیف سے بچا لیا اور ان اندھوں بہروں اور لولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ اب یہ اندھے بہرے اور لولے لنگڑے موجود ہیں اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے تو ان کو اچھاکر کے دکھا دیجئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے بڑے پادری ان لولوں اور لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کر الگ کرنے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہر موقع پر عزت بخشتا ہے اور ان کو ایسے ایسے جواب سمجھاتا ہے جس کے نتیجہ میں دشمن بالکل ہکا بکا رہ جاتا ہے۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 23صفحہ88-89)

حضرت مسیح موعوؑد کی مخالفت کا ایک واقعہ سیالکوٹ کا ہے جو آپ نے بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں گئے تو مولویوں نے فتویٰ دیا کہ جو ان کے لیکچر میں جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا لیکن چونکہ حضرت مرزا صاحب کی کشش ایسی تھی کہ لوگوں نے اس فتوے کی بھی کوئی پرواہ نہ کی تو مولویوں نے راستوں پر پہرے لگا دیے تاکہ لوگوں کو جانے سے روکیں اور سڑکوں پر پتھر جمع کر لیے کہ جو نہ رکے گا اسے ماریں گے پھر جلسہ گاہ سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لے جاتے کہ لیکچر نہ سن سکیں۔ کہتے ہیں ایک بی ٹی صاحب ہوتے تھے جو اس وقت سیالکوٹ میں سٹی انسپکٹر تھے اور پھر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو گئے تھے۔ اب معلوم نہیں ان کا کیا عہدہ ہے جب یہ بیان کر رہے تھے۔ ان بی ٹی صاحب کا انتظام تھا۔ جب لوگوں نے شور مچایا اور فساد کرنا چاہا تو چونکہ حضرت صاحب کی تقریر اس نے بھی سنی تھی وہ حیران ہو گیا کہ اس تقریر میں تو حملہ آریوں اور عیسائیوں پر کیا گیا ہے اور جو کچھ مرزا صاحب نے کہا ہے اگر وہ مولویوں کے خیالات کے خلاف بھی ہو تو بھی اس سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔ یہ تو عیسائیوں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں اور اگر باتیں سچی ہیں جو مرزا صاحب بیان کر رہے ہیں تو اسلام کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر یہ باتیں سچی ہیں تو اس سے تو اسلام سچا ثابت ہوتا ہے۔ پھر مسلمانوں کے فساد کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اگرچہ وہ سرکاری افسر تھا وہ جلسہ میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا یہ تو کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا خدا مر گیا۔ اس پر اس نے وہاں مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم کیوں غصہ ہوتے ہو؟ یہ تو یہی کہہ رہے ہیں ناں کہ عیسائیوں کا خدا مر گیا اس میںتمہارے غصہ کی کیا بات ہے۔ یہ تمہارے لیے اچھی بات ہے۔

غرض ان لوگوں کا ہم سے یہ سلوک ہے یعنی جو مخالفت کرنے والے ہیں اور بادی النظر میں یہی نظر آتا ہے کہ ان میں سے یعنی کہ مسلمانوں میں سے اگر کوئی آریوں میں چلا جائے تو مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مرزا صاحب کی بات کوئی نہ سنے۔ آپؓ فرماتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ خیال غلط ہے۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی اپنا مذہب بدلتا ہے تو ہمیں فرق پڑتا ہے۔

پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ

اے دل تُو نِیز خاطِر اِیناں نِگاہ دار
کاخِر کنند دعویٔ حُبِِّ پیمبرم

(ماخوذ از تاریخ شدھی ملکانہ، انوار العلوم جلد7 صفحہ192)

اے دل! تُو ان لوگوں کا لحاظ رکھ کیونکہ آخر یہ میرے پیغمبر کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں تو بہرحال ان کے دین بدلنے کا یا مذہب بدلنے کا یا بگڑنے کا درد ہوگا۔

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شخص نے کہا کہ میں آپ کا بہت مداح ہوں لیکن ایک بہت بڑی غلطی آپ سے ہوئی ہے۔ آپؑ جانتے ہیں کہ علماء کسی کی بات نہیں مانا کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں اگر مان لی تو ہمارے لیے موجب ہتک ہو گی۔ لوگ کہیں گے یہ بات فلاں کو سوجھی انہیں نہ سوجھی۔ اس لیے ان سے منوانے کا یہ طریق ہے کہ ان کے منہ سے ہی بات نکلوائی جائے۔ جب آپؑ کو وفاتِ مسیح کا مسئلہ معلوم ہوا تھا تو آپؑ کو چاہیے تھا کہ چیدہ چیدہ علماء کی دعوت کرتے اور ایک میٹنگ کر کے یہ بات ان کے سامنے پیش کرتے کہ عیسائیوں کو حیات مسیح کے عقیدے سے بہت مدد ملتی ہے اور وہ اعتراض کر کے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا نبی فوت ہو گیا اور ہمارے مذہب کا بانی آسمان پر ہے۔ اس لیے وہ افضل ہے بلکہ خود خدا ہے۔ اس کا جواب دیا جائے؟ یہ سوال کرتے۔ اس وقت جو علماء آپؑ نے دعوت پہ بلائے ہوتے تو وہ علماء جو تھے یہی کہتے کہ آپ ہی فرمائیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہتے۔ آپ فرمائیں اس کا کیا جواب ہے؟ تو آپؑ کہتے کہ رائے تو دراصل آپؑ لوگوں کی ہی صائب ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ فلاں آیت سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہو سکتی ہے۔ علماء فوراً کہہ دیتے کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ بسم اللہ کہہ کے اعلان کیجئے ہم تائید کے لیے تیار ہیں۔ یہ طریقہ اس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مولویوں کو منانے کا بتایا۔ پھر کہتا ہے کہ پھر اسی طرح یہ مسئلہ پیش ہو جاتاکہ حدیثوں میں مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے مگر جب مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے تو اس کاکیا مطلب سمجھا جائے گا۔ اس پر کوئی عالم آپ کے متعلق کہہ دیتاکہ آپ ہی مسیح ہیں اور تمام علماء نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دینی تھی۔ یہ تجویز سن کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ

اگر میرا دعویٰ انسانی چال سے ہوتا تو میں بیشک ایسا ہی کرتا مگر یہ خدا کے حکم سے تھا۔ خدا نے جس طرح سمجھایا اسی طرح میں نے کیا۔

تو چالیں اور فریب انسانی چالوں کے مقابلے میں ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی جماعتیں ان سے ہرگز نہیں ڈر سکتیں۔ یہ ہمارا کام نہیں۔ خود خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ وہی اس پیغام کو پہنچائے گا۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد12 صفحہ196-197)

چاند اور سورج گرہن کا واقعہ

ہماری جماعت کا مشہور واقعہ ہے۔ اس بارے میں بھی ایک مخالف مولوی جو غالباً گجرات کا رہنے والا تھا ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ مرزا صاحب کے دعویٰ سے بالکل دھوکا نہ کھانا۔ حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ مہدی کی علامت یہ ہے کہ اس کے زمانے میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن لگے گا۔ جب تک یہ پیشگوئی پوری نہ ہو اور سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن نہ لگے۔ ان کے دعوے کو ہرگز سچا نہیں سمجھنا۔ اتفاق کی بات کہ وہ زندہ ہی تھا کہ سورج اور چاند کے گرہن کی پیشگوئی پوری ہو گئی۔ اس کے ہمسائے میں ایک احمدی رہتا تھا اس نے سنایا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو اس مولوی نے اس گھبراہٹ میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ وہ ٹہلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’ہن لوگ گمراہ ہون گے۔ ہن لوگ گمراہ ہون گے‘‘، بار بار یہی کہتا تھا یعنی اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے۔ تو اس نے یہ نہ سمجھا کہ جب پیشگوئی پوری ہو گئی ہے تو لوگ حضرت مرزا صاحب کو مان کر ہدایت پائیں گے۔ گمراہ نہیں ہوں گے۔ عیسائی بھی ایک طرح سے یہ مانتے تھے کہ وہ تمام علامتیں پوری ہو گئی ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں مگر دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سن کر یہ بھی کہتے تھے کہ اس وقت اتفاقی طور پر ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا۔ جیسے مسلمان کہتے ہیں علامتیں پوری ہو رہی ہیں مگر اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا۔ یہ مسلمانوں کی حالت ہے اب۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ ایسا اتفاق ایک جھوٹے کو ہی نصیب ہوتا ہے سچے کو نصیب نہیں ہوتا۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد10 صفحہ56)

حضرت مسیح موعودؑ کے ماضی کے بارے میں آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہر ایک بدی بتدریج پیدا ہوتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص رات کے وقت صادق سوئے اور صبح کو بدترین جھوٹ کا مرتکب ہو کر پہلے تو انسانوں پر بھی جھوٹ نہ بولتا تھا اور اب خدا پر جھوٹ بولنے لگا‘‘ صبح اٹھ کے۔ ’’اس کے مطابق ہم حضرت مرزا صاحبؑ کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی دیکھتے ہیں۔ تو آپؑ نے یہاں کے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار باعلان فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہو؟مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی بلکہ آپ کی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں سخت ترین مخالف ہو گیا اس نے اپنے رسالہ میں آپؑ کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علی خان کے والد نے اپنے اخبار میں آپؑ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے۔ پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا اور اس کی زندگی پاکباز رہی وہ کس طرح راتوں رات کچھ کا کچھ ہو گیا اور بگڑ گیا۔ علمائے نفس نے مانا ہے‘‘ یعنی سائیکاٹرسٹ (Psychiatrists) جو ہیں سائیکالوجسٹ (Psychologist) جو ہیں وہ بھی کہتے ہیں ’’کہ ہر عیب اور اخلاقی نقص آہستہ آہستہ پیدا ہوا کرتا ہے۔ ایک دم کوئی تغیر اخلاقی نہیں ہوتا ہے۔ پس

دیکھو کہ آپ کا ماضی کیسا بے عیب اور بے نقص اور روشن ہے!‘‘

(معیار صداقت، انوار العلوم جلد6 صفحہ60-61)

پھر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کس طرح نصرت فرماتا رہا۔ اس بارے میں ہم دیکھتے ہیں۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ

جو خدا کا رسول ہو اس کے ساتھ خدا کی نصرت ہوتی ہے۔
اگر نصرت نہیں تو وہ خدا کا مرسل اور رسول نہیں۔

لوگ قریب ہوتے ہیں کہ اس کو ہلاک کر دیں مگر خدا کی نصرت آتی ہے اور اس کو کامیاب کرتی ہے اور اس کے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ یہی معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں ہوا۔ آپ کو طرح طرح سے مارنے کی کوشش کی گئی، لوگ مارنے پر متعین ہوئے جن کا علم ہو گیا اور وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئے۔ مقدمے آپؑ پر جھوٹے اقدام قتل کے بنائے گئے۔ چنانچہ مارٹن کلارک نے جھوٹا مقدمہ قتل کا بنایا اور ایک شخص نے کہہ بھی دیا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب نے متعین کیا تھا۔ مجسٹریٹ وہ جو اس دعویٰ کے ساتھ آیا تھا کہ اس مدعی مہدویت اور مسیحیت کو اب تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں؟ مَیں پکڑوں گا مگر جب مقدمہ ہوتا ہے تو وہی مجسٹریٹ کہتا ہے کہ میرے نزدیک یہ جھوٹا مقدمہ ہے۔ بار بار اس نے یہی کہا اور آخر اس شخص کو عیسائیوں سے علیحدہ کر کے پولیس افسرکے ماتحت رکھا گیا اور وہ شخص رو پڑا اوراس نے بتا دیا کہ مجھے عیسائیوں نے سکھایا تھا اور خدا نے اس جھوٹے الزام کا قلع قمع کر دیا۔

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہماری جماعت کے ایک پُرجوش مبلغ ہیں مولوی عمرالدین صاحب شملوی۔ یہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی معیار پر پرکھ کر احمدی ہوئے تھے۔ وہ سناتے ہیں کہ شملے میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبدالرحمن سیاح اور چند اَور آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب مرزا صاحب کے مقابلے میں کیا طریق اختیار کرنا چاہیے۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ مَیں اب مباحثہ نہیں کروں گا۔ ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلے پر کھڑے ہو جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ پہلے تو اشتہار دیا کہ ہم مباحثہ کسی سے نہ کریں گے اور اب مباحثہ کے لیے تیار ہو گئے ہیں اور اگر مباحثے پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچا دیں گے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے۔ اس پر مولوی عمر الدین صاحب نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ میں جاتا ہوں اور جا کے ان کو قتل کر دیتا ہوں۔ مسئلہ ہی ختم ہو۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جا چکا ہے۔ مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ

جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہو گا۔

یہ لڑکے تو تھے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی حفاظت اللہ تعالیٰ کر رہا ہے کہ اتنی تدبیروں کے باوجود بچے رہے تو پھر یہ خدا ہی کی طرف سے ہے۔ پھر انہوں نے جب بیعت کر لی تو واپس جاتے ہوئے ان کو مولوی محمد حسین بٹالوی سٹیشن پر ملے۔ کہا تُو کدھر؟ تو انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کر کے آیا ہوں۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ تُو بڑا شریر ہے۔ تیرے باپ کو لکھوں گا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ مولوی صاحب یہ تو آپ ہی کےذریعہ سے ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے۔ پس مخالف اس کو، اللہ تعالیٰ کے پیارے کو مارنا چاہتے ہیں اور وہ بچایا جاتا ہے۔ خدا اس کی اپنے تازہ علم سے نصرت کرتا ہے اور ہر میدان میں اس کو عزت دیتاہے۔

(ماخوذ از معیار صداقت، انوار العلوم جلد6 صفحہ61-62)

اسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ میں مرزا صاحب کو تباہ کر دوں گا۔

’’مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جوانی کے دوست تھے اور آپؑ سے تعلق رکھنے والے تھے اور جو ہمیشہ آپؑ کے مضامین کی تعریف کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس دعویٰ کے معاً بعد یہ اعلان کیا‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تو انہوں نے اعلان کر دیا ’’کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس کو تباہ کر دوں گا … پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اپنے رشتہ داروں نے اعلان کر دیا بلکہ بعض اخبارات میں یہ اعلان چھپوا بھی دیا کہ اس شخص نے دکانداری چلائی ہے اس کی طرف کسی کو توجہ نہیں کرنی چاہیے اور اس طرح ساری دنیا کو انہوں نے بدگمان کرنے کی کوشش کی۔‘‘ حضرت مصلح موعود ؓکہتے ہیں کہ ’’پھر یہ میرے ہوش کی بات ہے کہ بہت سے کام کرنے والے لوگوں نے جو زمیندارہ انتظام میں کمین کہلاتے ہیں آپ کے گھر کے کاموں سے انکار کر دیا‘‘ یعنی کام کرنے والے جو کہلاتے ہیں انہوں نے گھروں میں باوجود زمیندارہ ماحول ہونے کے، علاقے کے زمیندار ہونے کے آپ کے گھر میں آ کے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ ’’اس کے محرک دراصل ہمارے رشتہ دار ہی تھے۔ غرض

اپنوں اور بیگانوں نے مل کر آپؑ کو مٹانا اور آپؑ کو تباہ اور برباد کر دینا چاہا۔ مگر خدا نے اپنے بندے سے کہا ’دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا۔‘

ایک بےکس اور بے بس انسان قادیان جیسی بستی میں جہاں ہفتہ میں صرف ایک دفعہ ڈاک آیا کرتی تھی، جہاں ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا اور جہاں ایک روپیہ کا آٹا بھی لوگوں کو میسر نہیں آتا تھا کھڑا ہوتا ہے اور پھر وہ انسان بھی ایسا ہے جو نہ مولوی ہے اور نہ بہت بڑی جائیداد کا مالک ہے۔ (بےشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک شریف خاندان میں سے تھے مگر راجوں اور نوابوں کی طرح بہت بڑی جائیداد کے مالک نہیں تھے۔) وہ اٹھ کر دنیا کے سامنے یہ اعلان کرتا ہے‘‘ ایک شخص ’’اور پہلے دن ہی کہتا ہے کہ خدا میرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور کون ہے جو آج کہہ سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچا۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد1 صفحہ324-325)

آج تو ہم دیکھتے ہیں کوئی دنیا کا کونہ ایسا نہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام نہ پہنچا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے لیکن جوکام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لیے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔ پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے‘‘ جیسا کہ انہوں نے کہا کہ دکانداری ہے ’’تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ ان شاء اللہ۔ ’’اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے۔ تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا۔‘‘ ان شاء اللہ

(ملفوظات جلد8 صفحہ148)

پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی بنیں اور آپ کے پیغام کو دنیا میں پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کے وارث بھی بنیں۔ بے وفاؤں میں نہ ہوں بلکہ وفا داروں میں ہمارا شمار ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہمیں توفیق دے۔

آج میں

ایک ویب سائٹ کا بھی اعلان کروں گا ۔لانچ کروں گا۔

یہ بھی تبلیغ کا، دنیا کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یہ کُردش زبان میں جماعتی ویب سائٹ ہے Islamahmadiyya.krd۔ اس ویب سائٹ کی نگرانی ڈاکٹر اسماعیل محمد صاحب کر رہے ہیں جن کے ساتھ کرد ش جماعت کے ممبران کی ایک ٹیم بھی ہے۔ اس ویب سائٹ کا مقصد کردش زبان جاننے والے قارئین کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ پہلی بار احمدیہ جماعت کے عقائد کو اپنی زبان میں خود پڑھ سکیں۔ یہ ویب سائٹ بنیادی طور پر کردش زبان کے سرانی ڈائیلیکٹ (Dialect) پر مشتمل ہے جس کے ساتھ بادینی ڈائیلیکٹ میں بھی کچھ مواد موجود ہے۔ ویب سائٹ پر خبریں، مضامین، تفسیر، کتابیں اور خطبات جمعہ اور ویڈیو سیکشن شامل ہیں۔ کردش ترجمہ کمیٹی کے تعاون سے اس ویب سائٹ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد کتابوں کے ساتھ دیگر جماعتی کتب بھی مہیا کی گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہیں۔ حضرت خلیفہ ثانی ؓ کی کتابیں ہیں اور دوسرا جماعتی لٹریچر ہے جس میں ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ ’مسیح ہندوستان میں‘ ’ضرورة الامام‘ ’حقیقة المہدی‘ دعوت الامیر، منصب خلافت وغیرہ شامل ہیں۔ تو جمعہ کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ یہ ویب سائٹ بھی لانچ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ بابرکت کرے۔

اسی طرح دنیا کے جو حالات ہیں اس بارے میں بھی کہنا چاہوں گا کہ

دعاؤں کو جاری رکھیں۔

اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہی سے بچائے اور انسانوں کو عقل دے اور اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والے ہوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 15اپریل 2022ء)

پچھلا پڑھیں

مجلس انصاراللہ اسلام آباد، برطانیہ کے مقامی اجتماع کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اپریل 2022