مناسب غذا بچوں کا مستقبل طے کرتی ہے
غذائی قلت کی شکار اقوام میں عدم برداشت زیادہ پائی جاتی ہے
بچوں کی پروروش انتہائی نازک اور بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔دنیا میں قدم رکھنے کے بعد پرورش کا پہلا اور بنیادی مرحلہ بچے کی خوراک کا ہوتا ہے۔ایک جائزہ کے مطابق غریب اقوام کی متشددانہ ذہنیت کی ایک وجہ ناکافی اور کم غذائیت پر مشتمل خوراک کا ہونا بھی ہے۔ایسے بچے جو ابتداء سے غذائی قلت کا شکار رہے ہوں اور جن کی خوراک میں مناسب کیلوریز،آئرن اور پروٹین وغیرہ شامل نا ہوں جسمانی اور ذہنی طور پر مناسب نشو و نما پانے سے محروم رہتے ہیں۔پیدائش کے بعد بننے والے دماغی خلیے جو مائلین بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں نامناسب غذا کی وجہ سے نہیں بن پاتے جس کے نتیجے میں بچے کے بولنے اور سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ان کی زبان بولتے وقت ان کا ساتھ دینے سے قاصر رہتی ہے۔بچے کی ابتدائی صحت اس کے وزن حتی کہ دماغ کے حجم کا مستقبل دوران حمل ماں کی غذائی عادات طے کرتی ہیں۔ ماؤں کو عام دنوں کی نسبت دوران حمل پروٹین پر مشتمل زیادہ غذا استعمال کرنی چاہیے۔ پیدائش کے بعدبچے کے دماغ کی نشو و نما کا انحصار بچے کی غذائیت کے معیار پر ہوتا ہے اور ماں کے دودھ میں بچے کے لیے ضروری تمام اجزاء وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ابتدائی 6 ماہ تک بچے کو سوائے ماں کے دودھ کے کسی اورچیز کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی،حتی کہ پانی کی بھی نہیں۔اگر کسی وجہ سے ماں کا دودھ میسر نا ہو تو بچے کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر کے مشورہ سے مجوزہ فارمولا دودھ دینا چاہیے۔اگر موافق آئے تو گائے اور بکری کا دودھ بہتر ہوتا ہے۔بھینس کے دودھ میں فیٹ بہت زیادہ ہوتا ہے جو انہیں دودھ ہضم کرنے میں مشکل ہوتا ہے۔6 ماہ کے بعد بچے کو لازماً ٹھوس غذا شروع کروا دینی چاہیے۔اس عمر میں بچے کو آئرن کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو صرف ماں کے دودھ یا فارمولا دودھ سے پوری نہیں ہو سکتی۔آئرن کی کمی بچوں کی ذہنی نشو و نما پر بری طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔دماغ کو آکسیجن پہنچانے والے خون کے سرخ خلیوں کی مناست تعداد کے لیے آئرن بہت ضروری ہوتا ہے۔
دو سال کی عمر تک بچوں کی خوراک میں چربی کی مناسب مقدار کا ہونا ضروری ہے۔اس ضرورت کا 50 فیصد حصہ ماں کے دودھ سے پورا ہو جاتا ہے۔چنانچہ 6 ماہ کے بعد ٹھوس غذا کے طور پر ایسی خوراک کا انتخاب کریں جن میں آئرن اور چربی کافی مقدار میں موجود ہو۔بچے کی حرکات و سکنات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں کب ٹھوس غذا شروع کی جائے۔درج ذیل علامات اس میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
جب بچہ اپنا سر سنبھالنے لگ جائے،جب کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ سکے اور چیزوں کو پکڑنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھانے لگے،کھانے میں دلچسپی دکھائے اور چمچ کے لیے اپنا منہ کھولے اور چمچ منہ میں ڈالنے پر اپنے ہونٹ بند کر لے۔بعض بچوں میں یہ علامات 6 ماہ سے قبل بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں البتہ اگر 7 ماہ کے بعد بھی ایسی کوئی علامت بچے میں ظاہر نا ہو یا وہ ٹھوس غذا لینے میں بالکل دلچسپی نا لے تو بچوں کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ جبلی طور پر بچوں میں صرف چوسنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔چبانے اور نگلنے کی صلاحیت کا بتدریج پیدا ہونا انہیں ابتداء میں دی جانے والی خوراک کی نوعیت پر منحصر ہے۔چونکہ ابتداء میں بچے کے مسوڑے نرم ہوتے ہیں اس لیے نرم غذا کے ساتھ انہیں کبھی کبھار گاجر یا کسی پھل کا ٹکڑا پکڑا کر چبانے کی مشق کروائی جا سکتی ہے۔بازار میں چبانے والے Teething Toy بھی ملتے ہیں لیکن ان سے حتی المقدور احتراز کرنا چاہیے۔گاجر وغیرہ اس کا بہترین نعم البدل ہے لیکن خیال رکھنا چاہیے کہ بچہ گلے میں نا پھنسا لے۔
ایسی غذاؤں کا انتخاب کریں جن میں آئرن کی مقدار زیادہ ہو۔اس میں سوجی،مرغی کا گوشت، مچھلی، کلیجی، ہرے پتے والی سبزیاں، انڈہ، دلیہ (میٹھا یا نمکین) چاول، دھی اور دودھ سے بنی اشیاء جیسا کہ کھیر، سوجی، دلیہ، سویاں اور گجریلہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ساگو دانہ (میٹھا یا نمکین) بھی بہت مفید ہے۔پھلوں میں ابتداء میں کیلا چونکہ نرم ہوتا ہے آسانی سے کھلایا جا سکتا ہے۔دیگر پھل بھی پھینٹ کر کھلائے جا سکتے ہیں۔اسی طرح حیلے بہانے بچوں کو مختلف ذائقوں سے روشناس کرواتے رہنا چاہیے۔ ہر کھانے والی چیز بچے کو چکھائیں اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بچے کو کون سی چیز پسند ہے۔ البتہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ بچے بہت زیادہ متلون مزاج ہوتے ہیں۔ کھانے کے معاملے میں بھی یہی ہوتا ہے کہ مسلسل ایک طرح کے ذائقے سے بچہ پسند ہونے کے باوجود اس سے اکتا جاتا ہے۔ جب بچے ایسا برتاؤ کرتے ہیں تو والدین پریشان ہو جاتے ہیں۔اس لیے بچے کے کھانے کے معمول میں تبدیلی کرتے رہنا چاہیے اور ایک ہی طرح کا کھانا روزانہ نہیں دینا چاہیے۔
عمر کے ساتھ ساتھ بچے کی خوراک اور مقدار میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔بچوں کا Taste Develop کرنا والدین کی ذمہ داری ہے اور اس معاملہ میں غربت یا ناکافی وسائل کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہے۔گھر میں جو بھی پکے بچے کو ضرور کھلانا چاہیے۔ بچے کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنی کھانے پینے کی عادات کو بدل دینے میں بھی ہرگز کوئی ہرج نہیں ہے۔بچے بالعموم زیادہ مرچ مصالحے والے کھانے کھانے سے گزیز کرتے ہیں۔بچوں کی خاطر اس عادت کو بآسانی ترک کیا جا سکتا ہے۔
بچوں کو کھانے کی طرف راغب کرنا محنت طلب کام ہے جو مستقل مزاجی کو چاہتا ہے۔والدین بچے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ بچہ بھی وہی کرے گا جو انہیں کرتا ہوا دیکھے گا۔کھانے کا وقت ہونے پر بچے کے ساتھ ہی خود بھی کھانا کھائیں۔کھانے کے لیے جگہ مخصوص کریں اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ کے گھر میں ڈائنگ ٹیبل ہو،گھر میں کوئی بھی جگہ مخصوص کی جا سکتی ہے۔بچے کے سامنے مخصوص جگہ پر نماز پڑھیں۔ اس سے ان میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ ہر کام کے لیے الگ جگہ ہوتی ہے۔کھانے کے دوران مخصوص کلمات کی مسلسل ادائیگی انہیں کھانے کی طرف متوجہ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ کھانا کھانے کی دعا کو دہراتے رہنے کے ساتھ اس بچے سے Eye contact بنا کر رکھیں۔ مقررہ وقت پر کھانا دینے اور کھانا کھانے کی جگہ مخصوص کرنے اور مخصوص کلمات کی ادائیگی اور کھانے کے باقائدہ اہتمام سے بچے کے لاشعور میں یہ بات راسخ ہو جائے گی کہ یہ ایک بہت اہم چیز ہے اور ان میں ڈسپلن پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔ کبھی بھی کھانے کے کے لیے بچے سے زبردستی نا کریں۔ کھانا کھانے کے دوران بچے میں شکم سیری کی علامات نظر آئیں تو کھانا ختم کرنے کے چکر میں زیادہ نا کھلائیں۔ کھانے کے دوران اپنا مزاج خوشگوار رکھیں اور اس سے مسلسل باتیں کرتے رہیں، بچہ کوئی بات کرے تو فوراً اسے جواب دیں۔ ایسا نہ کرنے سے بچہ بیزار ہوگا اور کھانے میں رغبت نہیں دکھائے گا۔ بچہ چمچ یا کھانے کے برتن کو پکڑنا چاہے تو اسے پکڑنے دیں۔ نوٹ کریں کہ کون ساکھانا بچے کو کتنی دیر میں ہضم ہو کر دوبارہ کھانے کی طلب ہوتی ہے۔ بچہ کھانے کے دوران دلچسپی نہ لے، بہت آہستہ کھائے، سر پھیرے یا منہ بسورے، کھانے کے برتن یا چمچ کو دھکیلے تو یہ اس کے سیر ہونے کی علامات ہیں چنانچہ اپنا ہاتھ روک لیں۔
انسانی نظام انہضام ایک مشین کی طرح ہے۔ کھانے کا وقت مقرر کرنے سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ایک مخصوص دورانیہ کے اندر کھانا ہضم ہو کر قضائے حاجت ہوگی جس سے بچے کی صفائی ستھرائی میں کافی سہولت ہو جاتی ہے۔مجھے معین حوالہ یاد نہیں البتہ نفس مضمون ضرور مستحضر ہے۔ کسی جگہ حضرت مصلح موعود نوّر اللہ کا ایک ارشاد پڑھا تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ یورپین عین وقت مقررہ پر کھانا کھاتے ہیں نتیجتاً انہیں قضائے حاجت بھی عین وقت پر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ قضائے حاجت ہونے پر بتا سکتے ہیں کہ وقت کیا ہوا ہے۔
کھانے جن سے احتیاط کی ضرورت ہے
بہت زیادہ میٹھا بچوں کے دانتوں اور ان کے نظام انہضام کو متاثر کر سکتا ہے۔ بچوں کو پھلوں کا رس دینے کی بجائے پھل کا ٹکڑا پکڑائیں اسے چبانے سے ان کے دانت اور مسوڑے مضبوط ہوں گے۔ ماہرین ایک سال سے کم عمر بچوں کو شہد دینے سے منع کرتے ہیں شہد میں کلوسٹریڈیم بیکٹیریا ہو سکتا ہے۔چائے،کافی اور دیگر سافٹ ڈرنک چھوٹے بچوں کے لیے نقصان دہ مشروبات ہیں۔ کچا پکا کھانا، کچی سبزیاں، تیز نمک مرچ والے کھانے۔ میٹھا اور نمکین ہمیشہ اعتدال میں رہ کر دیں ورنہ بچہ نسبتاً پھیکا کھانا بالکل نہیں کھائے گا۔
بچوں کی نفسیات سمجھ کر ان کی پرورش کرنا بھی ایک آرٹ ہے۔یوٹیوب پر بے شمار چینل موجود ہیں جہاں اس بارے میں مکمل معلومات آپ کو مل جائیں گی۔اس میں ڈائیٹ پلان سے لے کر ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے ہر قسم کی معلومات تک بذریعہ انٹریٹ رسائی حاصل کر کے اپنے بچے کی بہترین پرورش کر سکتے ہیں۔برصغیر بالخصوص پاک و ہند میں کئی طرح کے روایتی Myths پائے جاتے ہیں۔ ان میں گڑتی دینا، بچے کا سر بٹھانا اور بچے کے دانت نکالتے وقت پوٹیاں لگنا جیسے توہمات عام ہیں۔گڑتی دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات بچے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس کی بجائے ماں کا پہلا دودھ ہی کافی ہے۔پھر نوزائیدہ بچوں پر ایک اور ظلم کیا جاتا ہے اور ماؤں کو ملامت کی جاتی ہے کہ انہوں نے بچے کا سر اچھے سے نہیں بٹھایا۔بعض اوقات اس مقصد کے لیے سر کو دبایا جاتا ہے یا وزن رکھا جاتا ہے اور یہ عمل دماغی خلیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بعد از پیدائش بچے کا سر انتہائی نرم و نازک ہوتا ہے دبانے اور کسی قسم کے سانچے میں رکھنے کی بجائے سونے کے دوران بچے کی سر کی پوزیشن بار بار تبدیل کرتے رہیں اس سے بچے کا سر بہت اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے اور کسی نقصان کا احتمال بھی نہیں رہتا۔ یوٹیوب وڈیوز کی مدد سے اس بارے میں رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ایک اور عام تصور یہ ہے کہ بچے دانت نکالتے ہیں تو انہیں پوٹیاں ضرور لگتی ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ پوٹیاں لگنے کا دانت نکالنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دراصل جب دانت مسوڑوں کو ہٹا کر اوپر آرہے ہوتے ہیں تو انہیں مسوڑوں میں بہت زیادہ irritation ہونے لگتی ہے اور وہ ہر چیز کو منہ میں ڈال کر چبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے ساتھ بہت سارے جراثیم اور بیکٹیریا وغیر ان کے معدے میں پہنچ کر ان کا پیٹ خراب کر دیتے ہیں۔اس کا حل یہ ہے کہ بچے ناخن باقائدہ تراشیں،بچے کے کھلونے اور گھر کو صاف رکھیں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ وہ کوئی چیز منہ میں نہ ڈالے۔اس کے کھانے پینے کے برتنوں کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔دانت نکالنے کے دوران انہیں گاجر،سیب یا نسبتاً کسی سخت پھل جو میسر ہو کا ٹکڑا پکڑا دیں۔یہ قدرتی Teether کا کام کرے گا۔جب بچہ دانت نکالنا شروع کرے تو اسے ہومیو پیتھک دوائی BIOPLASGEN No 21 استعمال کروائیں۔اس سے بچے کے دانت بغیر تکلیف کے نکلیں گے اور بچوں میں مٹی کھانے کی عادت بھی پیدا نہیں ہوتی۔
(مدثر ظفر)