تبرکات
(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ)
یقیناً آنحضرتؐ ہی آخر الانبیاء ہیں۔
صدقِ جدید کا ایک بے بنیاد اعتراض
مغربی افریقہ کے ملک گھانا سے وہاں کی مقامی جماعت احمدیہ کا ایک انگریزی اخبار نکلتا ہے جس کا نام گایڈنس (Guidance) ہے۔ اس اخبار کی ستمبر 1962ء کی اشاعت میں ایک مختصر سا نوٹ شائع ہوا ہے جس میں حضرت سرور کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ روحی و جنانی) کے روحانی فیوض و برکات اور آخرالشرائع قرآن مجید کے کمالات اور افادات کے ذکر کی ذیل میں اس قسم کا انگریزی فقرہ آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس زمانہ میں رسول پاکؐ کی شاگردی اور قرآن حکیم کی اتباع میں نورِ نبوت کی تازہ (Latest) جھلک بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں نظر آتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی ایڈیٹر صدقِ جدید نے جن سے بہتر ذہنیت کی امید کی جاتی ہے اس فقرے کو دوسرا رنگ دے کر اپنے 5/اکتوبر کے پرچہ میں ’’ماڈرن تبلیغ‘‘ کے استہزائیہ عنوان کے ماتحت یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ گویا نعوذ باللہ جماعت احمدیہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بجائے اپنے سلسلہ کے بانی کو ’’آخر الانبیاء‘‘ یقین کرتی ہے۔
مولانا عبدالماجد صاحب ایک ثقہ بزرگ سمجھے جاتے ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی منفرد فقرہ کو لے کر نتیجہ نکالنے کی بجائے جماعت احمدیہ کے کثیر التعداد اور محکم حوالہ جات کی روشنی میں ہمارے خیالات کی ترجمانی فرمائیں گے۔ جب سینکڑوں واضح حوالہ جات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر و عیاں ہے کہ ہم خدا کے فضل سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خاتم النبیین اور آخر الانبیاء یقین کرتے ہیں تو پھر کسی ضمنی اور ذومعنیین حوالہ سے یہ استدلال کرنا کہ نعوذ باللہ ہمارے نزدیک آخری نبی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہیں ایک صریح ظلم ہے۔ پھر مولانا عبدالماجد صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اخبار گایڈنس کے حوالہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق Last یعنی آخری کا لفظ نہیں ہے بلکہ Latest کا لفظ ہے جس کے معنی قریب ترین زمانہ میں ظاہر ہونے والے کے ہیں اور سیاق و سباق کے لحاظ سے ان دونوں لفظوں میں فرق بالکل واضح ہے۔
یہ درست ہے اور ہم اس سے ہرگز انکار نہیں کر سکتے کہ ہم جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو خدا کا ایک نبی اور رسول یقین کرتے ہیں۔ مگر ہم آپ کی نبوت کو آزاد اور مستقل نبوت قرار نہیں دیتے بلکہ اسے بروزی اور ظلی اور تابع نبوت سمجھتے ہیں جو ہمارے امام کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور شاگردی میں اور قرآن مجید کی اتباع کی بدولت حاصل ہوئی۔ گویا کہ یہ رسول عربیؐ (فداہ نفسی) کی نبوت کا ہی ایک حصہ ہے نہ کہ کوئی جداگانہ چیز۔ پس باوجود اس کے کہ لاریب جیسا کہ قرآن فرماتا ہے حضور سرور کائنات ہی خاتم النبیین ہیں وَ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَذَبَ۔ اور لاریب حضور ہی کا وجود وہ مقدس وجود ہے جس پر جیسا کہ آپ نے خود حدیث میں فرمایا ہے ’’اٰخِرُ الْاَنْبِیَاء‘‘ کا لفظ اطلاق پا سکتا ہے۔ ہم مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد حضور کی شاگردی اور غلامی میں آنے والا نبی یقین کرتے ہیں۔
اس کی لطیف تشریح یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ۔
فَاِنِّی آخرُِ الْاَنْبِیَاءِ وَ اِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ
(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکۃ والمدینۃ)
یعنی مَیں آخری نبی ہوں اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے۔
پس جب آپ کی مدینہ والی مسجد کے بعد اسلامی ملکوں میں لاکھوں کروڑوں نئی مسجدوں کے بننے سے اَنَا اٰخِرُ الْاَنْبِیَاءَ کا مفہوم باطل نہیں ہوتا تو آپ کے بعد آ پ کے کسی خادم اور شاگرد اور خوشہ چین کے نبوت کا انعام پانے سے اٰخِرُ الْاَنْبِیَاءِ کے مفہوم میں کس طرح رخنہ پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ ایک موٹی سی بات ہے مگر معلوم نہیں کہ مولانا عبدالماجد صاحب جیسا عالم اور سمجھدار انسان اس معمولی سے نکتہ کو سمجھنے سے کیوں قاصر رہا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ اس مسئلہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرتِ صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طو رپر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوتِ محمدی کی چادر ہے۔ اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزا ئن جلد 18صفحہ 208-207)
بہرحال ہم خدا کے فضل سے اپنے خالق و مالک آسمانی آقا کی قسم کھا کر کہتے ہیں وَ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَذَبَ کہ ہمارے نزدیک یقینا یقینا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور ہمیں حضور کی ختم نبوت پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ ہمیں اپنے وجود پر یا چاند اور سورج کے وجود پر یقین ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر۔ اور ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جیسا کہ رسول پاکؐ نے خود فرمایا ہے یقینا آپ ہی اٰخِرُ الْاَنْبِیَاء ہیں اور آپ کے بعد آپ کی اتباع میں اور آپ کے فیض سے نبوت کا انعام پانے والا آپ سے جدا نہیں بلکہ آپ ہی کے وجود کا حصہ ہے اور اس کی نبوت آپ کی عالمگیر نبوت میں شامل ہے نہ کہ اس سے الگ۔
بایں ہمہ چونکہ آجکل بعض اوقات غیر از جماعت لوگ مخالفت کی وجہ سے یا ناواقفی کی بنا پر ہمارے الفاظ کو غلط معنی دے کر دوسرا رنگ پیدا کر دیتے ہیں اور بدظنی پھیلاتے ہیں اس لئے ہمارے دوستوں کو بھی چاہئے کہ ایسی باتوں میں احتیاط رکھیں۔ وہ یقینا سچی بات کہیں اور حق بات کہنے میں کسی سے نہ ڈریں۔ مگر ایسے رنگ میں بات کہیں جس میں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان نہ ہو خدا فرماتا ہے کہ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اور خدا سے بڑھ کر سچا کون ہو سکتا ہے؟
(محررہ 12 اکتوبر 1962ء)
(روزنامہ الفضل 17 اکتوبر 1962ء)