حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انداز بیاں بہت دلنشین ہے۔احباب جماعت کو نصائح فرمانے کے بعد آپ اکثر فرماتے ہیں
’’پس اپنے جائزے لیں‘‘
اپنے جائزے لینے کا مطلب ہے خود کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اپنا احتساب کرنا۔ اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں تلاش کر کے انہیں درست کرنے کی کوشش کرنا ۔
اگر ہم میں سے ہر فرد خود کو اس فقرے کا مخاطب سمجھتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دے تو وہ خلیفہ وقت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب بن سکتا ہے۔
لیکن اگر اپنے جائزے لینے کی بجائے دوسروں کے جائزے لینے شروع کر دیے جائیں تو معاشرے میں بگاڑ کا آغاز ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور میں دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے ہمارے تمام عمل اور ردعمل جو ہم سوشل میڈیا پر کرتے ہیں وہ ڈھیروں افراد کی نظر سے گزرتے ہیں۔ اگر ہم چغلی، بہتان یا الزام تراشی جیسی برائیوں میں ملوث ہیں تو ہم اپنے اردگرد موجود حلقہ احباب کو بھی جانے انجانے میں ان برائیوں میں ملوث کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے (مسلمان) بھائی (کی غیر موجودگی میں اس) کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اسے ناگوار گزرے (بس یہی غیبت ہے) کسی نے عرض کیا: اگر میں اپنے بھائی کی کوئی ایسی برائی ذکر کروں جو واقعتا اس میں ہو (تو کیا یہ بھی غیبت ہے)؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اگر وہ برائی جو تم بیان کررہے ہو اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ برائی (جو تم بیان کررہے ہو) اس میں موجود ہی نہ ہو تو پھر تم نے اس پر بہتان باندھا۔
(سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب )
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب میرا رب مجھے معراج پر لے گیا تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو (ناخنوں سے) نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیلؑ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے (ان کی غیبتیں کرتے تھے) اور ان کی عزتیں پامال کرتے تھے۔
(ابوداوُد)
حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے وہ لوگو جو صرف زبانی اسلام لائے ہو اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑا کرو کیونکہ جو مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے پڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اسے گھر بیٹھے رسوا کردیتے ہیں۔
(ابوداوُد)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک بدبو اٹھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جانتے ہو یہ بدبو کس کی ہے؟ یہ بدبو ان لوگوں کی ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں۔
(مسند احمد، مجمع الزوائد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو بندہ دنیا میں کسی کے عیب کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو چھپائے گا۔
(مسلم، کتاب البر والصلۃ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم کو یہ نہ بتاؤں کہ کیا چیز سخت حرام ہے؟ پھر فرمایا یہ چغلی ہے جو لوگوں کے درمیان پھیل جاتی ہے۔ انسان سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صدیق (سچا) لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔
(مسلم، کتاب البر والصلۃ)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔
(سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب)
’’پس اپنے جائزے لیں‘‘
٭…٭…٭
(عطیۃ المصور)