• 6 مئی, 2024

قُربِ قیامت کی علامات اور مسیح موعود کی بعثت

قُربِ قیامت کی علامات اور مسیح موعود کی بعثت
حضرت مسیح موعودؑ کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کے بعد عملی تغیّر کی ضرورت

رسول مقبولﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس آخری زمانے میں جس امام مہدی اور مسیح موعودؑ کا ظہور مقدر تھا وہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ خداتعالیٰ کی تائید و نصرت کے جلو میں ایک صدی سے زائد عرصہ ہوا ظہور فرما چکا ہے۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا تھا کہ قرب قیامت کی علامات میں سے یہ ہو گا:
٭ ’’جب امانتیں ضائع کی جائیں گی تو قرب قیامت کی گھڑی (یا زوال امت) ہو گی۔ سائل نے آپؐ سے پوچھا امانتیں کس طرح ضائع ہوں گی آپﷺ نے فرمایا جب نااہل اور غیرمستحق لوگوں کے سپرد اہم کام کئے جائیں گے۔ یعنی اقتدار بددیانت اور نااہل لوگوں کے ہاتھ آجائے گا اور وہ اپنی بددیانتی اور فرض ناشناسیوں کی وجہ سے قوم کو برباد کر دیں گے۔‘‘

(بخاری کتاب العلم باب من سئل علماً وہو مشتغل فی حدیثہ)

٭ قیامت کی نشانیوں میں سے آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ
’’علم ختم ہو جائے گا، جہالت کا دور دورہ ہو گا، زنا بکثرت پھیل جائے گا، شراب عام پی جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں باقی بچ رہیں گی، جس کی وجہ سے پچاس پچاس عورتوں کا ایک ہی نگران اور سرپرست ہو گا۔‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ)

٭ حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’قیامت اس وقت آئے گی… علم چھن جائے گا، زلازل کی کثرت ہو گی، تیز رفتاری کی وجہ سے وقت قریب محسوس ہو گا، بڑے گھمبیر فتنوں کا ظہور ہو گا، قتل و غارت عام ہو گی مال کی فراوانی ہو گی… لوگ بلند تر عمارات بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ حالات اس قدر خراب ہوں گے کہ انسان کسی قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے تمنا کرے گا کہ کاش میں مر کر اس قبر میں دفن ہو چکا ہوتا۔‘‘

(بخاری کتاب الفتن باب خروج النار)

٭ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں یہ حدیث بھی ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: قیامت کے اعتبار سے یہ نشان پہلے ہوں گے۔ مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا اور چاشت کے وقت ایک عجیب و غریب کیڑے کا لوگوں پر مسلط ہو جانا۔ ‘‘ (یہ غالباً طاعون اور ایڈز اور دوسری وبائی بیماریوں اور جراثیمی جنگوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے)

٭ خود مسلمانوں کی کمزوری اور خرابی ایمان کی طرف بھی احادیث میں کھل کر بیان آیا ہے۔ کنز العمال میں ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا۔ لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔ یعنی علماء کا اپنا کردار انتہائی خراب اور قابل شرم ہو گا۔‘‘

(ریاض الصالحین حدیث913)

٭ اسد الغابہ جلد اول میں حضرت ثعلبہ بہرانیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’عنقریب دنیا سے علم چھین لیا جائے گا یہاں تک کہ علم و ہدایت اور عقل و فہم کی کوئی بات انہیں سجھائی نہ دے گی صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضورؑ علم کس طرح ختم ہو جائے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہم میں موجود ہے اور ہم اسے آگے اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ تورات اور انجیل یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس موجود نہیں ہے لیکن وہ انہیں کیا فائدہ پہنچا رہی ہے۔‘‘

یہ چند ایک احادیث اور رسول مقبول ﷺ کی پیشگوئیاں ہدایات اور آخری زمانہ کی علامات بیان کی گئی ہیں اور عقلمندوں کے لئے تو اشارہ ہی کافی ہونا چاہئے۔ بے شمار اور احادیث بھی اسی مضمون کی ہیں۔ آپ دوبارہ ان احادیث کو پڑھیں اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں کہ ان میں سے کوئی ایسی بات ہے جو آپ ﷺ نے بیان فرمائی ہے اور ابھی وہ پوری نہ ہوئی ہو؟؟؟

حاشا و کلّا ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کا ایک ایک حرف ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ ہر بات پوری ہو چکی ہے۔

تو کیا جب سب علامات پوری ہو چکی ہیں۔ امت کا حال ہر لحاظ سے بدتر ہو چکا ہے، ہر طرف بددیانتی، کرپشن، ملاوٹ، بے ایمانی، جھوٹ، شراب کی کثرت، زنا، جہالت، سؤروں اور بندروں جیسی حرکات، نااہل لوگوں کا اقتدار میں ہونا، پارلیمنٹوں میں بیٹھ کر دوسروں کے ایمانوں کا فیصلہ کرنا جبکہ خود لوگ تقویٰ سے خالی ہوں تو امت کے بیمار ہونے میں کوئی شبہ رہ گیا ہے۔ میں ابھی بچہ تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارا گھر احمد پور شرقیہ میں تھا تو محلہ کی ایک مسجد میں جانا ہوا۔ وہاں کے امام سے میں نے یہ بات سنی تھی کہ یہ زمانہ امام مہدی کا زمانہ ہے۔ یہ کم از کم 50 سال سے زائد کا عرصہ ہوا ہے اس بات پر، مگر یہ تو مانتے ہیں کہ ہماری حرکتیں واقعی سؤروں اور بندروں والی ہیں۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا علاج آچکا ہے امام مہدی آچکے ہیں۔ انہیں مان لیا جائے۔ مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ واقعی یہ زمانہ تو وہی ہے مگر زبانوں سے ماننے کے لئے تیار نہیں۔

’’دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار‘‘ ۔ ۔ والی بات ہے۔

ہم آپ کو خوشخبری دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس بیمار امت کے علاج کے لئے آسمانی پانی آچکا ہے جس نے آکر یہ اعلان کیا ہے۔

میں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

پھر آپؑ نے فرمایا:
’’اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی، مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا ہے اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے۔‘‘

(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ34 ایڈیشن 1984ء)

امت مرحومہ کے علاج کے لئے وقت پر خداتعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ آپ نے اپنے آنے کی غرض یوں بیان فرمائی ہے کہ
’’میں اس وقت محض للہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خداتعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پرآشوب زمانے میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہﷺ کی عظمتیں ظاہر کر وں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں۔‘‘

(برکات الدعا روحانی خزائن جلد 6 صفحہ34)

چنانچہ اس مقصد کے لئے آپ نے ایک جماعت کا قیام فرمایا اور یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ بیعت کا اعلان عام فرما دیا۔ اس غرض کے لئے آپ نے دس شرائط بھی بیان کر دیں۔ آپ نے 4مارچ 1889ء کو ایک اشتہار بھی شائع فرمایا جس میں بیعت کی اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
’’یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے۔ تا ایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نااتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں۔ اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں۔ … خداتعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خاص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا۔ اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ اور وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا۔ یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی۔ اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے۔ وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہریک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہریک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔‘‘

چنانچہ 23مارچ 1889ء کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ان مذکورہ بالا شرائط پر ایک پاک جماعت کا قیام فرمایا اور مخلصین سے بیعت لی۔ بیعت کا آغاز حضرت صوفی احمد جانؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں ہوا۔ وہیں بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیار ہوا جس کی پیشانی پر یہ لکھا گیا:
’’بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ و طہارت‘‘ رجسٹر میں ایک نقشہ تھا جس میں نام، ولدیت اور سکونت درج کی جاتی تھی۔
حضرت اقدس ؑ بیعت لینے کے لئے مکان کی ایک کچی کوٹھڑی میں (جو بعد میں دارالبیعت کے مقدس نام سے موسوم ہوئی) بیٹھ گئے اور دروازے پر حافظ حامد علیؓ صاحب کو مقرر کر دیا۔ اور انہیں ہدایت دی کہ جسے میں کہتا جاؤں اسے کمرہ میں بلاتے جاؤ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ کو بلوایا۔ حضرت اقدس نے مولانا کا ہاتھ کلائی پر سے زور کے ساتھ پکڑا اور بڑی لمبی بیعت لی…

اس طرح پہلے دن باری باری چالیس افراد نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ336-341)

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے… حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقت طاری ہو جاتی تھی۔ اور دعا بعد بیعت بہت لمبی فرماتے تھے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ341)

بیعت کے بعد تغیر

یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ بیعت کرنے سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں تاریخ احمدیت ہی سے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنے بارے میں جو بیان کیا ہے وہ تحریر ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے قرآن بھی پڑھا تھا۔ مولانا نور الدین صاحب کے طفیل حدیث کا شوق بھی ہو گیا تھا۔ گھر میں صوفیوں کی کتابیں بھی پڑھ لیا کرتا تھا۔ مگر ایمان میں وہ روشنی، وہ نور معرفت میں ترقی نہ تھی، جو اَب ہے۔ اس لئے میں اپنے دوستوں کو اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ یاد رکھو کہ اس خلیفۃ اللہ کے دیکھنے کے بدوں صحابہ کا سا زندہ ایمان نہیں مل سکتا اس کے پاس رہنے سے تمہیں معلوم ہو گا کہ وہ کیسے موقع موقع پر خدا کی وحی سناتا ہے اور وہ پوری ہوتی ہے تو روح میں ایک محبت اور اخلاص کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے جو ایمان کے پودے کی آبپاشی کرتا ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ342)

بیعت کے بعد نصائح

حضرت اقدس کا اکثر یہ دستور تھا کہ بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے تھے۔ چند نصائح بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔

’’اس جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہئے کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے۔‘‘

’’دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نبھانا مشکل ہے۔ کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لاپروا کر دے دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور۔ اس طرح دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتا ہے اگر خدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو۔‘‘

’’فتنہ کی کوئی بات نہ کرو، شر نہ پھیلاؤ، گالی پر صبر کرو، کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آؤ۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے۔‘‘

بعض لوگ بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کرتے تھے کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرمائیں۔ اس کا جواب اکثر یہ دیا کرتے تھے کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں۔ آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ استغفار کیا کریں۔ سورہ فاتحہ پڑھا کریں، درود شریف لاحول اور سبحان اللہ پر مداومت کریں اور فرماتے تھے کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ343)

٭…٭…٭

(سید شمشاد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2020

اگلا پڑھیں

درخواست دعا