• 19 مئی, 2024

عہد کے درد کو بھی کر محسوس

ادارہ الفضل کی ترقی و ترویج کے لئے جو ممبران حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظور فرما رکھے ہیں اُن میں ایک مکرم میر انجم پرویز مربی سلسلہ بھی ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ڈیوٹی الفضل آن لائن میں اشاعت کی غرض سے موصول ہونے والے منظوم کلام کی اصلاح، درستی اور نوک پلک درست کرنے کے لئے لگا رکھی ہے۔ آپ نے اپنا ایک کلام بعنوان ’’ہے گلِ سرسبد رخ انور‘‘ مورخہ 22 جولائی 2022ء کو شامل اشاعت کیا ہے۔ میں نے جب اس کو پڑھا تو بہت محظوظ ہوا اور دو اشعار پر اداریے لکھنے کی آنجناب سے اجازت چاہی۔ ایک اُن میں سے نظم کا آخری شعر ہے جو یوں ہے۔

اپنے ہی خواب میں نہ رہ انجم!
عہد کے درد کو بھی کر محسوس

اس شعر کے دوسرے مصرع کو آج موضوع تحریر بنا رہا ہوں۔ یہاں عہد سے مراد وہ دور ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر معاشرہ خواہ وہ کسی دور کا ہو سُکھ اور چین لیے نہیں ہوتا بلکہ دکھ، درد اور مشکلات سے بھی بھرا ہوتا ہے۔ اس معاشرہ کا حصہ انسان کا اپنا خاندان، محلہ، علاقہ، ملک، پھر احمدیت اور امت مسلمہ ہے۔ اب ایک احمدی مسلمان، پاکستان سے باہر چاہےکسی جگہ بھی مقیم ہو، پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر اس درد کو محسوس کرتا ہے اور کرتا رہے گا جس کا منبع آج کل کی قتل و غارت گری، دھوکہ دہی، جھوٹ کا معاشرہ نظر آنے کے علاوہ فرقہ واریت کو دی جانے والی ہوا اور جماعت احمدیہ کے امن کو چھیننے کی کوشش ہےاور دنیا بھر میں امت مسلمہ کے اندر اور باہر سے پیدا کی جانے والی بے چینی ہے اور یہ دردایک سچا احمدی مسلمان ضرور محسوس کرے گا۔ یہی اسلامی تعلیم ہے جس کی طرف ہمارے خلفاء توجہ دلاتے آرہے ہیں۔

حدیث میں آتا ہے کہ

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: تَرَى المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى

(صحیح بخاری، کتاب الادب)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے، آپس میں محبت کرنے اور ایک دوسرے سے شفقت کے ساتھ پیش آنے میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے جس کے ایک عضو کو اگر تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے قرار ہو جاتا ہے۔ اس کی نیند اڑ جاتی ہے اور سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

یہ دنیا مختلف اقسام کے دردوں سے بھری پڑی ہے۔ ان تمام دردوں کو سینے میں لے کر ان کی دوری کے لیے دعائیں کرنا ایک مومن کا خاصہ ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ آئیں ! اس مختصر سے آرٹیکل میں اس عہد (دنیا) کے چند درد گنے جائیں جنہیں ہر احمدی کواپنے سینے پر لے کر ان کی دوری، ان کی درستی اور اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

• دنیا میں بڑھتی ہوئی دہریت اور اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان کی کمی اس عہد کا ایک ایسا درد اور غم ہے جو آج کے دور کا سب سے بڑا غم ہے۔ اس درد کو محسوس کر کے جہاں اللہ کی وحدانیت کے قیام کے لئے دعا کرنی چاہیے وہاں مضبوط دلائل کے ساتھ ہستی باری تعالیٰ کو ثابت کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑوکہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دَفْ سے میں باز اروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سُننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ 21-22)

• دوسرے نمبر پر مسلمانوں کے اندر جو شرک بڑھ رہا ہے۔ اللہ پر یقین میں کمی۔ مادیت کی وجہ سے توکل علی اللہ پر عدم یقین۔ قبر پرستی، رسومات کی طرف بڑھتے ہوئے خیالات وغیرہ وغیرہ کو دیکھ کر ایک سچے اور حقیقی مسلمان کے دل میں ابال اٹھتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم کیا تھی اور مسلمانوں نے کیا اپنا لیا ہے؟

• تیسرا بڑا غم اور درد اس عہد کا یہ ہے کہ اسلام کو اندر سے تو خطرہ ہے ہی، غیر مسلم بھی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہیں۔بڑی بڑی طاقتیں مل کر اسلام پر حملہ آورہو رہی ہیں۔ کہیں بانی اسلام حضرت محمد ﷺپر حملے ہیں تو کہیں قرآن کی بے حرمتی اور کارٹون بنانے کا سلسلہ ہے اور مسلمان خود بھی بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر اسلام ہی کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔ بیت المقدس بھی ان لوگوں سے محفوظ نہیں۔

• ایک غم مسلمان حکمرانوں کے غیر اسلامی افعال ہیں۔ یہی اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ اپنے عہدوں سے انصاف نہیں برت رہے۔

• مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان اور دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں مسلما ن بہت تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔لاکھوں کی تعداد میں مسلمان مارے گئے ہیں۔ اب بعض اسلامی ممالک کی کیفیت یہ ہے کہ مرد کم اور عورتیں زیادہ ہیں۔

• بعض مسلمان ممالک میں بھوک اور افلاس بہت زیادہ ہے۔ بھوک سے سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ اس کا درد ہمارے دلوں میں محسوس ہوتے رہنا چاہتے اور اس کے لئے جہاں مادی لحاظ سے کوششیں ہوں وہاں دعا کے ذریعہ مدد کرنی چاہیے۔

• ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کی نمائندگی میں جن علماء کو ’’کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ان میں بعض کا اپنا کردار اسلامی نہیں ہے۔ فتنہ و فساد، لڑائی جھگڑا کروانے اور معاشرہ میں بد امنی پھیلانے میں نہ صرف مصروف بلکہ پیش پیش ہیں۔ گویا ’’علماء ھم شر من تحت ادیم السماء‘‘ کے مصداق بن گئے ہیں۔ یہ بھی آج کے عہد کا دردہے۔

• ہمارے بعض اسکولز، مدرسے اور کالجز و یونیورسٹیز جو تعلیم کی آماجگاہ ہونے چاہیے تھے وہ دہشت گردی اور منشیات کے اڈے بن گئےہیں۔

• ہماری مساجد جو عبادت کے لیے تھیں، امن کے پیغامات یہاں سے پھوٹتے تھے اور آنحضور ﷺ کے دور میں جہاں جہاد کے منصوبے بنتے تھے۔ علم و عرفان کے سوتے پھوٹتے تھے۔آج فتاویٰ کفرکے کارخانے اور دعوت فساد فی الارض کے مسکن ہیں۔ اگر کسی جلوس والوں سے پوچھیں کہ بتاؤ کہ آئے کہاں سے ہو تو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم فلاں مسجد سے آئے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

• عدالتیں جہاں انصاف کا علم بلند ہونا چاہیے تھا۔ وہاں ناانصافی، بددیانتی اور تعصب پر مبنی فیصلے ہوتے ہیں۔

• عہد کا ایک درد جنگ عظیم کی طرف بڑھتے ہوئے عوامل ہیں جو بڑی طاقتوں اور ان کے سربراہان کو باوجود دکھنے کے ان کو اس ہولناک جنگ سے دوری کی طرف مائل نہیں کرتے۔جبکہ جنگ عظیم اول اور دوم کی ہولناک تصویرابھی دور کی بات نہیں۔

جماعت کے درد

ابھی تک تو ایسے دردوں کا ذکر ہوا ہے جن کا تعلق جماعت احمدیہ سے باہر کے فتنوں اور اسلام کے خلاف منصوبوں سے ہے۔ جماعت احمدیہ کے حوالے سے جو درد اور غم ایک احمدی کو بے چین کرنے والے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ کی تکلیف کا باعث ہیں۔ ان میں اسیران راہ مولیٰ کی اسیری، شہداء احمدیت کی شہادتیں۔

جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
شاید کہ یہ آغوشِ جدائی میں پلا ہے

• دیگر درد کا باعث میاں بیوی کے جھگڑے، بچیوں کے رشتے بر وقت نہ ہونا، احباب جماعت کے بعض مقامات پر اپنے اختلافات وغیرہ وغیرہ۔

ان درد وں کو اپنے اپنے دلوں میں اُتاریں، جماعت کی ترقی، اجتماعیت اور فلاح و بہبود کے لئے دعائیں کریں اور صدقات کا سلسلہ جاری رکھیں۔

اہل و عیال، بچگان اور خاندان کے درد

ہمارے معاشرے میں اپنے نفس، اہل عیال،بچگان اور خاندان کے درد، غم کو ترجیح دے کر دعاؤں کا زیادہ تر حصہ ان ہی کے لئے وقف ہو جاتا ہے۔ خاکسار نے اس کو آخر میں اس لیے جگہ دی ہے کہ جماعت احمدیہ بھی ایک خاندان ہے۔

اس لیے یہ درد روحانی دردہیں۔جن کی دوری کے لیے اپنی کاوشوں کو تیز کرنا اور انہیں کھاد دیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے خاندان کے درد میں کسی کا بیمار ہونا، کسی کا مشکل میں پھنس جانا،کسی مقدمے میں ملوث ہونا یا کیے جانا، یا کسی قسم کی تکلیف دہ آفات میں الجھا دیا جانا، رشتوں کے پرابلم، اپنے عزیز بچوں میں اختلافات، شادی بیاہ کی مشکلات، شادیوں میں عدم کامیابی، یورپ او ر مغرب میں بچوں کا غیر اسلامی ماحول میں الجھ کر احمدیت یا خلافت سے دور ہوجانا، والدین کی نافرمانی یہ سب وہ دردہیں جن سے گھروں کا امن برباد ہو جاتا ہے اور عہد کے ان دردوں اور غموں کو سامنے رکھ کر اصلاح کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور تہجد اپنا شعار بنا کر دعائیں اور درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہیے۔

نفس کی اصلاح کا درد

مضمون کے آخر میں ایک درد ایسا بیان کرنے جا رہا ہوں۔ جس کو لوگ درد نہیں سمجھے اور وہ نفس کے شر سے نہ صرف اپنے آپ کو بچانے کی سعی کر نی بلکہ اپنے نفس کے شر سے معاشرے میں بسنے والے دوسروں کی حفاظت کے لیے سعی، کوشش اور دعائیں کرنا ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں بالخصوص ہم لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں او رسعی بھی کرتے ہیں مگر اپنے نفس کے شر سے دوسروں کی حفاظت کے لیے نہ سعی کرتے ہیں اور نہ کوشش اور نہ دعا۔ جبکہ ہمارے پیارے آنحضور ﷺ کی یہ دعا مشعل راہ ہونی چاہیے۔ آپ ﷺ اپنے لیے دعا کرتے ہیں۔

بِسْمِ ا للّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ اَللّٰھُمَّ اِنَّانَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ نَزِلَّ اَوْنَضِلَّ اَوْ نَظْلِمَ اَوْ نُظْلَمَ اَوْ نَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیْنَا

(ترمذی، کتاب الدعوات)

اللہ کے نام کے ساتھ میں نے اللہ پر توکل کیا اللہ کے سوا کسی کو کوئی قوت یا طاقت حاصل نہیں۔ اے اللہ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں۔ اس بات سے کہ ہم کوئی لغزش کھائیں یا گمراہ ہوں یا (کسی پر) ظلم کریں یا ہم پر ظلم کیا جائے یا ہم جہالت یا نافرمانی کی کوئی بات کریں یا ہمارے خلاف جہالت کیا جائے۔

(خزینۃ الدعا، مناجات رسول ﷺ از ایچ ایم طارق صفحہ 51-52)

ایک روایت میں یہ دعا واحد کے صیغے میں بھی ملتی ہے۔ جو یوں ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ گمراہ ہو جاؤں یا گمراہ کیا جاؤں۔ یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔ یا میں جہالت کروں یا کوئی مجھ سے جہالت سے پیش آئے۔

اللہ تعالیٰ یہ تمام درد ہماری زندگیوں سے جلد دور کر کے امن و امان کے سامان مہیا فرمائے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

انیسواں نیشنل ریفریشر کورس و تربیتی کلاس دی گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اگست 2022