• 25 اپریل, 2024

ایک شہرہ آفاق صداقت انفاس خطیب (قسط اول)

ایک شہرہ آفاق صداقت انفاس خطیب
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ
قسط اول

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدؒ نے سترہ،اٹھارہ سال کی عمر میں تقاریر کے میدان میں قدم رکھا اور شروع ہی میں سننے والوں کو یہ احساس دلا دیا کہ آپؒ اِس صلاحیت کے اعتبار سے بھی ایک امتیازی شان کے حامل ہوں گے۔ چنانچہ قادیان میں بھی اور اسلامیہ کالج لاہور کے انعامی تقریری مقابلہ میں بھی آپؒ کی تقریر سننے والے جانتے تھے کہ آپؒ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میدان کے بھی زبردست شہسوار تھے۔

آپؒ کی یہ صلاحیت وقت کے ساتھ ساتھ ترقی بھی کرتی گئی اور صیقل بھی ہوتی گئی۔جامعہ احمدیہ سے تحصیل علم کے بعد جب آپؒ لندن گئے تو وہاں بھی دوران تعلیم اپنے ہم مکتب طلبہ، پروفیسروں اوردیگر علمی حلقوں میں اسلام کی حقانیت اور اس کی تعلیمات کواعلیٰ اور بالا ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔مسجد فضل لندن میں اپنے پروفیسروں اور طلبہ کو مدعو کر کے انہیں بھی اسلام کے بارہ میں لیکچر دیتے، ان کے ساتھ تبلیغی گفتگو کرتے اور انہیں جماعت کی کتب پیش کرتے۔اسی طرح بعض اوقات مسجد دیکھنے اور اسلام کے بارے میں معلومات کے حصول کے لئے جو لوگ آتے، آپؒ انہیں بھی لیکچرز اور سوال وجواب کے ذریعہ اسلام کی حسین تعلیم سے روشناس کراتے۔

لندن سے واپسی کے بعد آپؒ خدمات سلسلہ کے میدان میں مختلف مواقع پر تقاریر وغیرہ کرتے رہے۔ البتہ جماعت کے ایک مقرر کے طور پر آپؒ نے جلسہ سالانہ ربوہ 1960ء میں پہلی بار خطاب فرمایا جس کا عنوان تھا ’’تحریکِ وقفِ جدید کی اہمیت‘‘۔ اس پُر اثر خطاب کے بعدخلافت ثانیہ کے عہد میں جلسہ سالانہ کے موقع پر آپؒ نے مسلسل تین سال اور خلافتِ ثالثہ کے عہد مبارک میں آپؒ نے جلسہ سالانہ ربوہ کے سٹیج پر15 سال نہایت بصیرت افروز تقاریر کیں۔ان کی تفصیل درجِ ذیل ہے۔

1۔ حضرت نبی کریمؐ کی قو ّت قدسیہ 1966ء
2۔ احمدیت نے دنیا کو کیا دیا 1967ء
3۔ فلسفۂ دعا 1968ء
4۔ اسلام اور سوشلزم 1969ء
5۔ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ قرآن 1970ء
6۔ حقیقت نماز 1972ء
7۔ اسلام کی نشا ۃ ثانیہ خلیفۃ الر ّسول سے وابستہ ہے۔ 1973ء
8۔ اسلام کا بطلِ جلیل 1974ء
9۔ اشاعتِ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانی 1975
10۔ قیام نماز 1976ء
11۔ فلسفۂ حج 1977ء
12۔ فضائل قرآنِ کریم 1978ء
13۔ غزوات میں آنحضرتؐ کا خُلقِ عظیم (غزوۂ احد) 1979ء
14۔ غزوات میں آنحضرتؐ کا خلقِ عظیم (غزوہ ٔخندق) 1980ء
15۔ غزوات میں آنحضرتؐ کاخُلقِ عظیم (غزوۂ حدیبیہ) 1981ء

ان کے علاوہ مجلس خدّام الاحمدیہ اور مجلس انصار اللہ کے مرکزی،ضلعی اورمقامی اجتماعات و جملہ تقریبات میں سینکڑوں خطاب کئے جو علم ورُشد سے معمور ہوتے تھے اور مجالس کے لیے ترقی و کامیابی کے حصول کا موجب بنتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح ؒکے لئے اپنے مخصوص فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے جماعتوں میں جانا ممکن نہیں تھا۔لیکن آپؒ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خلیفۃ المسیح کی آوازبن کرمسلسل سفر کرتے تھے اور ان کی تعلیم اور منشاء جماعتوں میں پہنچاتے تھے۔

ایک مقرّر اور خطیب

اسلامی روایات کے مطابق جماعت احمدیہ کے ہر امام کی طرح آپؒ کاہر خطبہ و خطاب تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ الفاتحہ کے ساتھ کسی آیتِ قرآنیہ سے شروع ہوتا تھا اور درمیان میں حسب موقع و ضرورت احادیث رسول اور اقتباسات حضرت مسیحِ موعودؑ شامل ہوتے تھے جو آپؒ کے بیان کی زینت و شان بھی تھے اور مرکزی خیال بھی۔زیربحث موضوع پر آپؒ کا تجزیہ بیحد مکمل، معیّن اور جامع ہوتاتھا اور ا س کے پس منظر اور پیش منظر پر پوری نظرہوتی تھی۔حسب روایات آپؒ کا ہر خطاب دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا تھا۔

آپؒ کی خطابت میں ایک کامل مقر ّر اور خطیب کی جملہ صفات و جوہر بڑے توازن کے ساتھ اجاگر تھے۔ اس میں موقع و محل پر لطائف و مزاح کے نگینے بھی مرصّع ہوتے تھے، رقّت ولطافت بھی اور دلگداز پہلو بھی۔ عین وقت پر جوش و جلال بھی اپنی جولانی دکھاتا تھا اور بروقت انذار و تبشیرکی تجلّیات بھی جلوہ گر ہوتی تھیں۔آپؒ کا خطاب برجستہ مگر برموقع اشعار سے بھی مزیّن ہوتا تھا اور واقعات، امثلہ، ضرب الامثال، بر موقع لطائف اور پُرحکمت اشعار سے بھی پُر رونق ہوتا تھا۔وہ دلائل و منطق کے زیورسے آراستہ بھی ہوتا تھا اورتحد ّیات سے رنگین اور زورآور بھی۔ آپؒ کے خطبے وخطابات کسی بھی ماہر فن ّ مقرر کی جملہ خوبیاں تو اپنے اندر رکھتے تھے مگر ان کا اصل گہنا اور تابش وہ سچائی تھی جو دلوں کے پاتال میں جاگزین ہو کرجسم و روح پر ایک گہری تاثیر مرتب کر دیتی تھی۔ آپؒ کا پیغام سچائی تھا اور آپؒ کے خطبوں اور خطابات کا عنوان بھی سچائی تھا۔ لہٰذا اس کا اثر حتمی بھی تھا،ممتاز بھی اور امر بھی۔ چنانچہ خطاب کا مرکزی نکتہ و پیغام کسی لمحہ بھی سامع سے اوجھل نہیں ہوتا تھا۔

الغرض آپؒ کے خطبے و خطاب کی اصل تأثیر وہ سچاپیغام تھا جو قرآنِ کریم، سنّت وحدیث رسول، فرمودات حضرت مسیح موعودؑ کے سوتوں سے پھوٹتے مصفّٰی پانی سے غسل یافتہ تھا۔ چنانچہ آپؒ کی یہ آوازِ حق اپنی تاثیر کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے قصبوں سے لے کر دنیاکی یونیورسٹیوں، دانشوروں کے مرکزوں اور چوٹی کے علمی اداروں میں گونجتی رہی۔آپؒ کے خطابات ان پڑھ شخص سے لے کر تعلیم کی انتہائی چوٹیوں پر جاگزیں دانشوروں تک، سب کو یکساں فیضیاب کرتے تھے۔

حضورؒ کے قابل قدر لیکچرز

1983ء میں آپؒ نے آسٹریلیا کی The University of Canberra کی دعوت پر بعنوان Some Distinctive Features of Islam پر لیکچر دیا اور یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلبہ کو اسلام کی ممتاز خوبیوں سے روشناس کرایا۔

1985ء میں آپؒ نے دنیا کی شہرہ آفاق کیمبرج یونیورسٹی یوکے میں حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش، زندگی، ہجرت اور وفات پر ایک جامع مانع لیکچر دیا اور سامعین کے سوالات کے جواب بھی دئیے۔جس کا کچھ تذکرہ شروع میں گزر چکا ہے۔

حکومت پاکستان نے اپنے ظالمانہ قوانین کا جواز قائم کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے خلاف ’’قادیانیت، اسلام کے لئے سنگین خطرہ‘‘ کے نام پرقرطاس ابیض شائع کیا تھا۔ حضور ؒنے ان بے بنیاد الزامات کا جواب خطبات جمعہ کے ذریعہ 25جنوری 1985ء سے شروع کیا جو 13مئی 1985ء تک جاری رہا۔ یہ خطبات اب ’’زَھَقَ البَاطِل‘‘ کے نام سے اردو اور عربی میں کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں جو جماعت کے علم کلام میں انتہائی اہم اور بلندحیثیت کے حامل ہیں۔

سن1987ء میں حضور ؒ نے Revelation, Rationality, Knowledge and Truth کے موضوع پر زیورخ یونیورسٹی سوئزرلینڈمیں ایک معرکہ آراء لیکچر دیا۔بعد میں آپؒ نے اسی لیکچر کو تفصیل دے کر اسی نام سے ایک عظیم الشان کتاب کی شکل دی اوراسے 1998ء میں ساری دنیا میں شائع کیا گیا۔اس کے اردو اور عربی ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔یہ کتاب دنیا بھر کے دانشوروں سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہے۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ ’’یہ میری تمام زندگی کے تجربوں او رعلوم کا نچوڑ ہے۔‘‘ اسی طرح آپؒ نے اپنی اس کتاب کے بارہ میں یہ اظہاربھی فرمایا ’’یہ کتاب آئندہ سو سال کی علمی ضرورتیں پوری کرتی رہے گی۔ہر قسم کے مسئلوں کا حل اس میں آگیا ہے۔‘‘ آپؒ اس کتاب کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ لیکچر14 جون 1987ء کو جمعرات کی شام سوا آٹھ بجے یونیورسٹی آف زیورخ کے آڈیٹوریم میں ہوا۔ اس وقت تمام آڈیٹوریم اس قدر بھرا ہوا تھا کہ انتظامیہ کو ایک اور آڈیٹوریم کا بھی انتظام کرنا پڑا جہاں پر یہ لیکچر بذریعہ ٹیلیویژن اور لاؤڈ سپیکر سنا گیا…… یہ وہی آڈیٹوریم ہے جہاں 9ستمبر 1946ء کو سر وِنسٹن چرچل (Sir Winston Churchill) نے وہ یادگار خطاب دیا تھا جس کا عنوان Let Europe Arise تھا اور یہی لیکچر European Common Market کے وجود کا باعث بنا۔‘‘

جب حضورؒ نے سوئزرلینڈ کی یونیورسٹی آف زیورخ میں یہ خطاب فرمایا تو آڈیٹوریم لبالب بھرا ہوا تھا بلکہ بہت سے لوگ کھڑے بھی تھے۔ اندازہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد تھے جن میں سے ہزار /بارہ سو مقامی سوئس لوگ تھے۔خاکسار خود بھی وہاں موجود تھا۔چنانچہ وہاں کے منتظمین کا کہنا تھاکہ اس آڈیٹوریم کی تاریخ میں صرف دو دفعہ کسی لیکچر میں اتنے لوگوں نے دلچسپی کا اظہار کیا۔یعنی ایک دفعہ جب چرچل نے وہاں آکر لیکچر دیا تھا اور دوسری باریہ تھی جب حضورؒ نے خطاب فرمایا ہے۔

بعد ازاں کتابی شکل میں کتاب Revelation ,Rationality, Knowledge and Truth کے نام سے شائع ہوئی تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ممبر جناب ٹام کاکس لکھتے ہیں:
’’آج میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جوکہ کتابRavelation , Rationality, Knowledge and Truth کے مصنف ہیں۔ آپ ایک ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک شخصیت ہیں اور مختلف النوع علوم کے ماہر ہیں۔ آپ ایک حاذق طبیب ہیں اور سائنسی علوم سے بہرہ ور ہیں۔ آپ ایک جید فلاسفر اور منجھے ہوئے شاعر ہیں۔دراصل آپ گیارھویں اور بارھویں صدی میں گزرنے والے ابن سینااور ابن رشد کی طرح علم کا ایک بے پناہ خزانہ ہیں۔ اور انواع و اقسام کے مضامین اور علم کے مختلف شاخوں پر خوب دسترس رکھتے ہیں۔ اس نہایت وسیع اور گہرے علم کے ساتھ ساتھ جو مختلف جہتوں سے آپ کو حاصل ہے۔ آپ اسلام کی تعلیمات کی حکمت اور عظمت کو سمجھنے میں دیگر تمام دنیا سے بلند ایک ممتاز مقام پر فائز ہیں۔ حقیقت کے منکر اور دہریوں کے خلاف آپ کے دلائل قاطع ہیں۔ اور ایسے ہیں کہ انہیں ان کے ناقابل فہم اور بعید از عقل خیالات کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیں گے۔ اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت قرآن کا وہ گہرا اور عظیم علم ہے جو آپ کسی نظرئیے کی تائید یا حق میں پیش فرماتے ہیں۔ دراصل مذہبی صحائف کا علم محض ذاتی مطالعے کی بنا پر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا تحفہ ٔخداوندی ہے جو صرف چند لوگوں کے ہی حصے میں آتا ہے۔ دراصل یہ تحفہ ٔ خداوندی الہام ہی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ چند ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جو الہام کی نعمت سے حصہ پاتے ہیں۔ وہ چند خوش نصیب جنہیں خدا تعالیٰ اپنی جناب سے اس نعمت عظمیٰ کے لئے چن لیتا ہے۔ میں نہایت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دنیا کے علم و فضل سے بہرہ ور لوگوں کے سردار ہیں۔ اور میں آپ کی عظمت کو سلام کرتا ہوں۔‘‘

(نوٹ: یہ تبصرہ جلسہ سالانہ برطانیہ1998 ء کے موقع پر جناب ٹام کاکس ممبر پارلیمنٹ ٹوٹِنگ نے پیش کیا)

16جون1989ء کوHotel Harbor Castle Westin ٹورانٹو کینیڈا میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی کتاب ’’مذہب کے نام پرخون‘‘ کے انگریزی میں ترجمہ Murder in the Name of Allahکی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں کینیڈا کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین، کینیڈا کے وزیرخارجہ عزت مآب Joe Clark کے خصوصی نمائندہ، قومی لبرل پارٹی کے کئی ممبر پارلیمنٹ، نیوڈیمو کریٹک پارٹی کے لیڈر Bob Rae اور چارشہروں کے میئرزنیز شہر کے مختلف طبقات کے نمائندے، دانشور، تاجر، وکلاء، جرنلسٹ وغیرہ شامل تھے۔ان کے علاوہ اس تاریخی تقریب میں کم وبیش پانچ سو غیر از جماعت دوست تھے۔ حضورؒ نے اس بھرپور تقریب میں ’’اسلام اور امن عالم‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا اور بعد میں سوالات کے جوابات دئیے۔

•آپؒ نے 15 اکتوبر1989ء کو Heathland School Hounslow UK میں بر موضوع The Seal of Prophets, His Personality and Character کے عنوان سے لیکچر دیا جس میں لند ن کے احبابِ جماعت کے علاوہ علاقہ کے دانشور، سیاستدان اور مذہبی لیڈر بھی موجود تھے۔اس میں آپؒ نے آنحضرتؐ کو مختلف مستشرقین کی طرف سے دئیے گئے خراجِ تحسین کی روشنی میں آپؐ کی حسین سیرت اور آپؐ کی مہرِ نبو ّت کی تاثیرات کے متعدد پہلوؤں کو اجاگر فرمایا۔

•24 فروری 1990ء کو The Queen Elizbeth II conference Centre London میں آپؒ نے Islam’s Response to Contemporary Issues یعنی ’’اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل کا حل‘‘ کے عنوان پرلیکچردیا۔ اس موقع پر برطانیہ کے آٹھ صد سے زائد سیاستدان، صحافی، مفکّر، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے مختلف علوم کے پروفیسر صاحبان، مذہبی علوم کے ماہرین، عربی دان اور دانشور اکابرین موجود تھے۔ اس لیکچر میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو آپؒ کے بیان فرمودہ اسلامی نقطہ نظر کو خراج تحسین دئیے بغیر رہا ہو۔

بعد میں یہ لیکچر کتابی شکل میں شائع ہوا۔اس وقت سے اب تک محققین اور متلاشیانِ حق کے لئے مستقل طور پراسلامی نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے سچی اور تسکین افزاء معلومات مہیّا کرنے کا رہنما سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب مسلسل ہر درجہ علم کے قاری سے خراج تحسین وصول کر رہی ہے۔

•1989ء میں Sydney آسٹریلیا The Philosophy of Revival of Religion کے موضوع پر انتہائی جامع لیکچر دیا اور سامعین کے سوالات کے جواب دئیے۔

•اسی سال 12 مارچ 1990ء کو آپ نے Sville University of Spain کی دعوت پربر موضوع ’’Islam, A Discourse on the Elementary and Fundamental Teaching‘‘ وہاں کے طلبہ اور پروفیسروں کو خطاب فرمایا اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کی حکمت و فلاسفی پرجامع رنگ میں روشنی ڈالی۔

•1990ء میں آپؒ نے سورۃ فاتحہ کی روشنی میں نماز کے قیام اور اس میں لذّت و جذب پیدا کرنے کے لئے خطبات کا طویل سلسلہ شروع کیا۔ جو ’’ذوق عبادت اور آداب دعا‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

•3 جون 1991ء میں آپؒ نے سرینام میں The Inter-religious Consults میں بعنوان Shariah Relationship Between Religion and Politics in Islam لیکچر دیا جس میں اسلام کی تعلیم کی رُو سے حکومت کی سیاست میں مذہبی کردار کے اصولوں پر بصیرت افروز حقیقت بین اظہار خیال فرمایا جو ایک سیکولر حکومت کے لئے مشعل راہ ہے اور جذباتی مذہبی دخل اندازی کے انسداد کے لئے اسلامی تعلیم میں ڈبویا ہوا ہتھیار ہے۔اگر اسے آج دنیا کی مذہبی تنظیمیں لائحہ عمل بنا کر چلیں تو اپنے اپنے ملکوں میں منافرتوں اور فساد کی بجائے امن و سلامتی کے قیام کا موجب بنیں۔

•عراق پر امریکی حملہ کے تناظر میں حضور نے 3اگست1990تا 15مارچ 1991ء خطبات جمعہ ارشاد فرمائے جو بعد میں اردو میں ’’خلیج کا بحران اور نظام جہان نو‘‘ اور انگریزی میں (The Gulf Crisis and The new world Order) اور عربی میں ’’کارثۃ الخلیج والنظام العالمی الجدید‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔یہ خطبات عالمی سیاست اور خصوصاً عالم عرب پر مغربی قوموں کے حرص و ہوس پر استوار ظالمانہ سیاسی حملوں کی گہری سازشوں کے حقیقی تجزیات پر مبنی ہیں۔ عرب دنیا کے موجودہ حالات میں بھی یہ کتاب ان کے لئے امن و سلامتی کا بصیرت افروز پیغام ہے۔

•1997ء میں کینیڈامیں جماعت احمدیہ کینیڈا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر کینیڈا کے بڑے سیاستدانوں اور دانشوروں کے سامنے ’Universal Moral Values, Politics and World Peace‘‘ کے عنوان پرآپؒ نے خطاب فرمایا اور ان کو اسلام کے مہیّا کردہ خوبصورت اصولوں سے آگاہ کرتے ہوئے دنیا میں امن کے قیام کی طرف متوجّہ فرمایا۔

یہ تو آپؒ کے چند چیدہ چیدہ لیکچروں کا ذکر تھا۔ باقی جہاں تک ہرخطبہ جمعہ اور ہر تقریب اور ہرجلسہ میں آپؒ کے خطاب کا تعلق ہے تو وہ جہاں فصاحت و بلاغت کے شاہکار ہوتے تھے وہاں تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت کے سنہری اصولوں سے بھی نگیں دار ہوتے تھے۔وہ الٰہی بشارتوں کے دوش پر اور قصص قرآنی کے آئینوں میں جماعت کے لئے امیدوحوصلہ اور فتح و ظفر کی نوید بھی ہوتے تھے اور مخالفین کے لئے نکبت وشکست اور انتباہ و انذار کے پیغامبر بھی۔

جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ کے بعد حضور ؒ کے چند ارشادات

7ستمبر 1974ء کو حکومت پاکستان نے ایک سیاسی غرض کے لئے مسلمان تنظیموں اور فرقوں کے نام نہاد اتفاق کے نام پر جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا اورپھر اس فیصلہ کو آئین پاکستان میں شامل کیا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مخالفین کواس فیصلہ کی روشنی میں ان کی حیثیت اور جماعت احمدیہ کو اس کے نتیجہ میں عظیم الشان فتح کے سورج کے طلوع کی خوش خبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو! 7ستمبر 1974ء کا دن تمہارے لئے رات بن کرآیاہے اور ہمارے لئے اس دن روشنی کا ایک سورج طلوع ہوا جس نے احمدیت کو بقعہ نور بنادیا۔ تم نے اکٹھے ہو کر اپنے ہاتھوں سے یہ فیصلہ دے دیا کہ آج محمد مصطفیؐ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور چونکہ تم اسی فیصلے میں آنحضرتؐ کے نکالے ہوئے نتیجہ کی تکذیب کے مرتکب ہوئے اس لئے وہ پیشگوئی اور بھی زیادہ شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ تمہاری اس ظالمانہ روش نے یہ فیصلہ کردیا کہ تم جھوٹے ہو کیونکہ تم نے نتیجہ وہ نکالا ہے جو محمد مصطفیؐ کے نکالے ہوئے نتیجہ کے مخالف ہے۔

پس یہ ہے تمہاری اکثریت اور یہ ہے تمہاری اکثریت کی حیثیت۔ اس اکثریت کی ہمیں ایک کوڑی کی بھی پروا ہ نہیں کیونکہ اس اکثریت کی ہمارے آقا و مولا محمد مصطفیؐ کو کوئی پرواہ نہیں۔ تم نے ہمیں محمد مصطفیؐ سے کاٹنے کے لئے یہ اقدام کیا تھا مگر اس دن نے تو ہمیشہ کے لئے ہمارا پیوند حضرت محمد مصطفیؐ سے اور بھی زیادہ پکا کر دیا۔ اگر تم سچے ہو نعوذباللّٰہ من ذلک اور محمد مصطفیؐ نعوذباللّٰہ من ذلک غلط ہیں تو ہمیں وہ ایک بننا منظور ہے جو غلط ہو کر بھی ہمارے آقا محمد مصطفیؐ کے ساتھ رہتاہے۔

ہمیں یہ ہر گز منظور نہیں کہ ہم ان بہتّروں میں شامل ہوں جو ہمارے آقا و مولا محمد مصطفیؐ کو منظور نہیں۔ اس لئے جھوٹا کہوگے، تب بھی ہم اپنے آقا محمد مصطفیؐ کے ساتھ رہیں گے۔ سچاکہو گے تو پھرتو ہم ہیں ہی سچے۔ اس لئے اب نکل کے دکھاؤ اس راہ سے۔ خود تمہارا بچھایا ہوا دام ہے جس نے تمہیں گھیر لیاہے۔ ایک بھی تم میں سے باقی نہیں رہا۔ شیعہ،سنّی کبھی وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ سارے متفق ہو جائیں گے کہ وہ سب اپنے اختلاف عقائد کے باوجود اس مسئلہ پر متفق ہیں اور یہ کہ ان کے بزرگوں کے سارے فتوے جھوٹے ہیں۔ اس دن خدا نے عظیم الشان فتح کا سورج ہمار ے لئے طلوع فرمایا۔ ہم اس پر راضی ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِک وَسَلِّم اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17مئی 1985ء)

1974ء کے اس مذکورہ بالا فیصلے کے بعد اپریل1984ء میں پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ احمدیوں کی روزمرّہ کی زندگی کو قانون کی نظر میں ایک ناقابل معافی جرم بنا ڈالا۔ اس کی رُو سے اگر احمدی اسلامی شعائر کااستعمال کرتے ہیں تو انہیں قیدو بند اور نوع نوع کی سزائیں دی جانے لگیں۔ احمدیہ مساجد اور دیگر عمارا ت سے کلمہ طیبہ اور قرآنی عبارات کو مٹایاجانے لگا۔ احمدیوں کے سینوں سے کلمہ طیبہ کے بیج نوچے جانے لگے۔ سینکڑوں احمدیوں کو کلمہ طیبہ کی محبت کے جرم میں جیلوں میں ڈالا گیا اور ان پر کئی قسم کا تشدد کیا گیا۔ کئی احمدی اغوا اور شہید ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں، اہل فکر ودانش اور عوام کے لئے بعض انتباہ کئے۔ آپؒ نے ان نہایت درجہ ظالمانہ حرکتوں پر بڑے ہی درد کے ساتھ اور دلی ہمدردی کے ساتھ باربار اہل پاکستان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا اور ایسی حرکتوں سے باز نہ آنے کی صورت میں ملکی حالات کی شدیدابتری سے خبردار فرمایا۔

ذیل میں آپؒ کے ایسے بعض منتخب ارشادات درج کئے جارہے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ آپؒ نے جن خطرات کی نشاندہی فرمائی تھی، ان تمام خطرات نے الٰہی تقدیر بن کرپورے ملک کو گھیرلیا۔ حتّٰی کہ ملک کے بڑے بڑے علماء بھی قرآنِ کریم کی آیت ’’وَضُرِبَت عَلَیھِمُ الذِّلَّۃُ وَالمَسکَنَۃُ‘‘ پڑھ پڑھ کر اسے عذابِ الٰہی قرار دینے لگے اور اسے وہی کیفیتِ عذاب قرار دینے لگے جو مسیح ؑ کو جھٹلانے کی وجہ سے یہود پر آیا تھا۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ انہی کیفیات کے بارے میں انذار کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 25مئی1784ء میں فرمایا:
• ’’خطرہ یہ ہے کہ ا س وقت جو حالات ہیں اس کے نتیجہ میں اگر سابقہ تقدیر خدا کی چلے تو قوم پر بڑے ہی عذاب کے دن آنے والے ہیں۔ بہت ہی دکھ کے دن مقدر معلوم ہوتے ہیں۔ سابقہ اللہ کی تقدیر تو یہی ہے کہ جو مخالفت کی گئی، جو بدارادے لے کر لوگ اٹھے وہ ان پر الٹائے گئے۔ فَصَبَّ عَلَیۡہِمۡ رَبُّکَ سَوۡطَ عَذَابٍ ﴿ۚۙ۱۴﴾ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ﴿۱۵﴾ (الفجر: 14-15) فَصَبَّ عَلَیھِم میں جو اُلٹانے کا نقشہ ہے وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے بارہا پورا ہوتے دیکھا ہے۔ ہر وہ کوشش جو جماعت کے خلاف کی گئی ہے بعینہٖ برعکس نتیجہ لے کر مخالفین کے خلاف ظاہر ہوئی۔ اس لئے ا ب جو کوششیں ہیں وہ بہت ہی زیادہ گندی اور ناپاک ہیں۔حالت یہ ہے کہ وہ لوگ جو وطن بنانے والے تھے، جو صف اوّل کے شہری تھے ان کو اپنے ہی وطن میں بے وطن کر دیا گیاہے۔ اگر یہ حالت تبدیل نہ ہوئی تو ناممکن ہے کہ یہ سزا اس قوم کو نہ ملے جو مظلوموں اور معصوموں کو یہ سز ادے رہی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25مئی 1984ء)

7ستمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں حضوررحمہ اللہ نے فرمایا:
• ’’جب ایک حکومت مظالم میں حد سے بڑھ جاتی ہے تو ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس کے بعد خدا کی پکڑ لازماً آجاتی ہے۔ اگر ا س ظلم کا نشانہ خدا والے لوگ ہوں تو پھر لازمًا اس کی پکڑ آجاتی ہے۔ اگر اس کا نشانہ عام دنیا والے ہوں توپھر کوئی ضروری نہیں ہے۔ ’جیسی روح ویسے فرشتے‘۔ جس قسم کی دنیا ویسی ہی ان کی حکومتیں، خدا کو کیا ضرورت ہے کہ ہر جگہ ظلموں پر ظالم حکومتوں کو پکڑتا رہے۔ لیکن یہ ایک قانون قدرت ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ساری شریعت کی تاریخ بتا رہی ہے کہ جب بھی کسی سلطان نے خدا کے بندوں پر ہاتھ ڈالا تو اس حکومت کو خدا نے یقینا تباہ کیا۔ آج کیا ہو یا کل کیا ہو لیکن بالآخر جب خدا کی پکڑ آئی تو وَلَاتَ حِینَ مَنَاصٍ (ص: 4) پھران کے بچنے کی کوئی راہ کبھی نظر نہیں آئی۔ لیکن بعض دفعہ اس پکڑ کے ساتھ جس طرح آٹے کے ساتھ گھُن پس جاتاہے بعض سادہ اور صاف نفس لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7ستمبر 1984ء)

2نومبر 1984ء کو حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
• ’’دنیا کی عدالتیں فیصلہ کیا کرتی ہیں اس سے کو ئی انکار نہیں۔ لیکن احکم الحاکمین کے فیصلے بھی ضرور پیچھے آیا کرتے ہیں اور جب خدا کا فیصلہ نافذ ہو تا ہے تو تو پھر ایسی قوموں کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ ایسی قومیں جو تکبّر میں آکر اللہ کے بندوں کے خلاف فیصلے دیتی ہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2نومبر 1984ء)

30نومبر 1984ء کو حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
• ’’میَں اپنے مخالفین کو متنبہ کرتاہوں کہ احمدیت کی مخالفت سے بازآجاؤ اور اپنی ان حرکتوں سے توبہ کرو…… انہوں نے براہ راست کلمہ طیّبہ پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہواہے اور چونکہ وہ قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں اور قوم ان کے ہاتھ روک نہیں رہی۔ اس لئے اب اس قوم کو مَیں مخاطب کر کے کہتاہوں کہ اپنے بڑوں کے ہاتھ اس ظلم سے روک لو جو لازماً تمہیں ہلاک کردے گا… اگر ساری دنیا بھی کلمہ طیّبہ کو مٹانے کی کوشش کرے گی تو لازماً کلمہ اس دنیا کو ہلاک کر دے گا ……اگر تم کلمے مٹاؤگے تو خدا کی قسم خداکی غیرت کاہاتھ تمہیں لازماً مٹا دے گا اور پھر دنیا کی کوئی طاقت تمہیں بچا نہیں سکے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30نومبر 1984ء)

7دسمبر1984ء کو پھر تنبیہ کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
•’’پاکستان پر بہت ہی خوفناک اور دردناک دن آنے والے ہیں اس لئے مَیں پاکستان کے عوام سے یہ اپیل کرتاہوں خواہ وہ بریلوی ہوں یا دیوبندی، خواہ شیعہ ہوں یاکسی اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں ………… کہ اٹھو اور بیدار ہوجاؤ اور ہر اس تحریک کی مخالفت کر و جو کلمہ مٹانے کی تحریک آپ کے پاک وطن سے اٹھتی ہے ………… اگر تم وقت پر حرکت میں نہیں آؤ گے تو خدا کی قسم خدا کی تقدیر تمہارے خلاف حرکت میں آ جائے گی اور اس ملک کو مٹا کر رکھ دے گی جو آج کلمہ کے نام کو مٹانے کے درپے ہو رہاہے۔

جس ملک کو کلمہ نے بنایا تھا کلمہ میں اتنی طاقت ہے کہ اگر اس کلمہ کو مٹانے کے لئے وہ سارا ملک بھی اکٹھا ہوجائے تووہ کلمہ پھر بھی غالب آئے گا اوروہ ملک اس کلمہ کے ہاتھوں سے توڑا جائے گا جس کو کسی زمانہ میں اسی کلمہ نے بنایا تھا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7دسمبر 1984ء)

فوجی آمِر ضیاء الحق کو مخاطب کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے 14دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
• ’’جماعت احمدیہ تو خدا کے فضل سے ایک وَلی رکھتی ہے۔جماعت احمدیہ کا ایک مولیٰ ہے اور زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولیٰ ہے۔ خدا کی قسم جب ہمارا مولیٰ ہماری مدد کوآئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا۔

خدا کی تقدیر تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردے گی۔ تمہا رے نام و نشان مٹا دئے جائیں گے اور تمہیں دنیا ہمیشہ ذلّت اور رسوائی کے ساتھ یاد کرے گی۔‘‘

• ’’خدا کی اس تقدیر سے ڈرو کہ زمین میں تمہارے خلاف تَنَاد کی سی کیفیت پیدا ہو جائے۔ ایک دوسرے کو تمہارے ظلم اور جبر کے خلاف آوازیں دینے لگے کہ اٹھو اور ا س ظالم کو چکنا چور کرکے رکھ دو، اس کو ملیا میٹ کردو اور اگر یہ بس نہ چلے تو قومیں دوسری قوموں کو اپنی طرف بلائیں۔ یہ تقدیر الٰہی ہے جو لازماً پوری ہو کرر ہے گی۔آج نہیں توکل تم اس کا نمونہ دیکھو گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاں دیر تو ہے اندھیر کوئی نہیں۔

وہ ڈھیل تو دیا کرتاہے مگر جب اس کی پکڑ آتی ہے تو وَلَاتَ حِینَ مَنَاصٍ (ص: 4) کی رُو سے بھاگنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔ ایسا کامل گھیرا پڑ جاتاہے کہ سوائے حسرت ونامرادی کے اور کچھ بھی انسان کے قبضہ و قدرت میں نہیں رہتا۔ اس وقت وہ یاد کرتاہے کہ کاش میَں اس سے پہلے اس دائرے سے باہر نکل چکا ہوتامگرنکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں ہوتی۔ افسوس ہے ان قوموں پر جو ایسے وقت تک انتظار کریں کہ جب خدا کی تقدیر ایسی غضبناک ہو چکی ہو تو ان سربراہوں کے ساتھ قوم پر بھی خدا کی ناراضگی کاعذاب ٹوٹ پڑے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمود 14دسمبر 1984ء)

آپؒ نے 28دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
• ’’جماعت احمدیہ کو کلیۃً نہتّہ بھی کر دیں تب بھی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی جیتے گی کیونکہ خدا کے شیروں کے ہاتھ دنیا میں کوئی نہیں باندھ سکتا۔ یہ زنجیریں لازماً ٹوٹیں گی اور لازماً یہ زنجیریں باندھنے والے خود گرفتار کئے جائیں گے۔ یہ ایک ایسی تقدیر ہے جسے دنیا میں کوئی نہیں بد ل سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمود 28دسمبر 1984ء)

یکم مارچ1985ء کو حضور رحمہ اللہ نے اہلِ پاکستان کو کلمہ طیّبہ کی خاطر غیرت دکھانے کی طرف توجہ دلائی اور اسی کے پیش نظر انہیں انذار بھی کیا کہ:
• ’’اے اہل پاکستان! میَں تمہیں خبردار اور متنبّہ کرتاہوں کہ اگر تم میں کوئی غیرت اور حیا باقی ہے تو آؤ اور اس پاک تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ کلمہ،اس کی عزت اوراس کی حُرمت کو قائم کرو اور دنیا کے کسی آمر اور کسی آمر کی پولیس اور فوج سے خوف نہ کھاؤ۔ یہ وقت ہے اپنی جان کو خدائے جان آفرین کے سپرد کرنے کا۔یہ وقت ہے خدا کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کا۔ یہ وقت ہے یہ ثابت کرنے کا کہ ہم محمد مصطفیؐ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آپؐ کی عزت اور ناموس پر کسی کو حملہ نہیں کرنے دیں گے۔

پس اے اہل پاکستان! اگر تم اپنی بقا چاہتے ہو تو اپنی جان،اپنی روح،اپنے کلمہ کی حفاظت کرو۔ مَیں تمہیں متنبہ کرتاہوں کہ ا س کلمہ میں جس طرح بنانے کی طاقت ہے اسی طرح مٹانے کی بھی طاقت موجودہے۔ یہ جوڑنے والا کلمہ بھی ہے اورتوڑنے والا بھی۔ مگر ان ہاتھوں کو توڑنے والاہے جو اُس کی طرف توڑنے کے لئے اٹھیں۔اللہ تمہیں عقل دے اور تمہیں ہدایت نصیب ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ1985ء)

(باقی 20؍ اگست کو ان شاء اللہ)

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

انیسواں نیشنل ریفریشر کورس و تربیتی کلاس دی گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اگست 2022