• 23 اپریل, 2024

احمدیوں کی خدمات کا اعتراف

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پھر مشہور صحافی جناب محمد شفیع جو میم شین کے نام سے مشہور ہیں، لکھتے ہیں کہ:
’’یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم درد امام لنڈن ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آ کر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے نتیجہ میں مسٹر جناح 1934ء میں ہندوستان واپس آ گئے اور مرکزی اسمبلی کے انتخاب میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے‘‘۔ پاکستان ٹائمز 11؍ستمبر1981ء میں یہ حوالہ درج ہے۔

(پاکستان ٹائمز 11ستمبر 1981ء سپلیمنٹ IIکالم نمبر1 بحوالہ تعمیر ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثا لی کردار صفحہ8)

پھر جو اشد مخالفین تھے انہوں نے بھی ایک اعتراف کیا۔ چنانچہ مجلسِ احرار نے ’’مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ 1946ء میں شائع کیا جس میں صاف طور پر لکھا کہ مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود کی مسلم لیگ کی حمایت کرنے کی جو پالیسی تھی اس کو سراہا۔ اس کے بعد جب سنٹرل وسطی کے الیکشن شروع ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دئیے۔

(مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ صفحہ18 بحوالہ تعمیر و ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ10-11)

مشہور اہلحدیث عالم مولوی میر ابراہیم سیالکوٹی اپنی کتاب ’پیغام ہدایت و تائید پاکستان و مسلم لیگ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’احمدیوں کا اسلامی جھنڈے کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحدنمائندہ جماعت ہے‘‘۔ یعنی ان کے نزدیک احمدی مسلمان بھی ہیں اور انہوں نے پاکستان میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

پھر باؤنڈری کمیشن کے سامنے جو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی خدمات ہیں اُن کو حمید نظامی صاحب نوائے وقت کے بانی تھے، بڑی مدحت بھرے الفاظ میں لکھتے ہیں۔ نوائے وقت آجکل تو جماعت کے خلاف بہت کچھ لکھتا رہتا ہے، ان کی پالیسی بدل گئی ہے کیونکہ یہ لوگ دنیاوی فائدہ زیادہ دیکھنے لگ گئے ہیں، لیکن بہر حال جناب حمیدنظامی صاحب جو اس کے بانی تھے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’حد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا…… کوئی چار دن سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل، نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی۔ کامیابی بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ اُن کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقے سے اربابِ اختیار تک پہنچا دی گئی ہے۔ سرظفراللہ خان صاحب کو کیس کی تیاری کے لئے بہت کم وقت ملا۔ مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلا لحاظ عقیدہ، اُن کے اس کام کے معترف اور شکر گزار ہوں گے۔‘‘

(نوائے وقت یکم اگست 1947ء بحوالہ تعمیر و ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ104-105)

پھر جب53ء کے فسادات ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی عدالت میں جماعت کا معاملہ پیش ہوا۔ جسٹس منیر بھی جج تھے، لکھتے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائداعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر معمور کیا تھا، خاص قسم کے دلائل پیش کئے، لیکن عدالت ہٰذا کا صدر (یعنی جسٹس منیر) جو اس کمیشن کا ممبر تھا، (اُس وقت باؤنڈری کمیشن میں یا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ) اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی۔ یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے حکام کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مصلحت سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے۔ چوہدری ظفراللہ خان نے مسلمانوں کے لئے نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں، اس کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت المعروف ’’منیر انکوائری رپورٹ‘‘ صفحہ305 جدید ایڈیشن)

اور یہ شرمناک ناشکرا پن اب اکثر سیاسی جماعتوں میں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، اور پھر جو ملک کی حالت ہے وہ بھی ظاہر و باہر ہے۔ اس لئے آج کے، اس دن کے حوالے سے پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ اس کو اس تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

(خطبہ جمعہ23 ؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ )

پچھلا پڑھیں

ہدایات بابت کمپوزنگ و پروف ریڈنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2021