• 18 اپریل, 2024

ہفتے میں سات دن ہی کیوں ہوتے ہیں؟

ہفتے کے پانچ دن بھاگ دوڑ کرکے سنیچر اور اتوار کو آرم کرتے یا گھومتے پھرتے ہوئے کبھی آپ نے سوچا کہ ایک ہفتے میں سات دن ہی کیوں ہوتے ہیں، آٹھ نو یا دس کیوں نہیں؟

کیا کائنات کے ہیر پھیر سے اس بات کا کوئی تعلق ہے۔؟ اگر ہاں تو وہ تعلق کیا ہے۔؟ تو آئیے دیکھتے ہیں ہفتے میں آخر سات دن ہی کیوں ہوتے ہیں۔ فلکی مظاہر جیسا کہ چاند سورج ستارے و دیگر سیارے ہمیشہ سے کئی جہتوں میں انسانی رہنمائی کا سبب رہے ہیں۔ ہماری زمین اپنے مدار میں گھومتے ہوئے 24 گھنٹے کا وقت لیتی ہے جس سے دن اور رات وجود میں آتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد 365 دنوں میں ایک چکر مکمل کرتی ہے۔ یوں ایک سال مکمل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارا پورا سولر سسٹم 250 ملین سال میں کہکشاں کا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔اس دورانیہ کو ایک Cosmic Year یعنی ایک کائناتی سال کہا جاتا ہے۔ جہاں سورج اور زمین دِنوں کا تعین کرنے میں ہماری معاونت کرتے ہیں وہیں چندا ماموں سے حضرت ِانسان نے مہینوں کا شمار کرنا سیکھا ہے۔ صدیوں پرانے لوگ رات کو فارغ بیٹھے آسمان پر چمکتےستاروں کو تکتے رہتے تھے۔ انہی میں سے ایک بابلی بھی تھے جو میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) میں بود و باش رکھتے تھے۔ آسمانی تغیرات کے مشاہدات کی بناء پر بابلیوں نے ایک کیلنڈر ترتیب دیا جو چاند کے طلوع و غروب کے حساب سے ترتیب دیا گیا تھا۔ چاند 27.3 دن میں زمین کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس دوران ہم چاند کو 29 سے 30 دنوں کے درمیان چار مختلف مراحل طے کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان چار مراحل میں نیا چاند، پہلا چوتھائی، پورا چاند اور تیسرے چوتھائی حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ بابلیوں نے اس دورانیہ کو 28 دن شمار کیا اور ان 28 دنوں کو چاند کے 4 مراحل پر تقسیم کیا تو ہر مرحلہ کے 7 دن بنے۔ باقی کے دنوں کو لیپ کے سال میں مدغم کر دیا۔ یہیں سے ہفتے کے سات دن شمار کرنے کا آغاز ہوا۔ دنوں کے اس شمار کے پس منظر میں کئی اور کہانیاں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق سولر سسٹم میں موجود سیاروں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ بابلی تہذیب کے مطابق سولر سسٹم میں موجود سات سیارے جن میں چاند، سورج، عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل شامل ہیں اور یہی ہفتے کے سات دنوں کے مظہر ہیں،البتہ سورج اور چاند سیارے نہیں ہیں۔

بابلیوں نے آسمان کی وسعتوں میں متحرک کھلی آنکھوں سے نظر آنے والے ان ساتوں اجسام کو سات دن شمار کیا اور انہی کی مناسبت سے دنوں کے نام رکھے۔

سورج کا نام Sunday رکھا،
چاند کا نام Monday رکھا،
مریخ کا نام Tuesday رکھا،
عطارد کا نام Wednesday رکھا،
مشتری کا نام Thursday رکھا،
زہرہ کا نام Friday رکھا،
اور زحل کا نام Saturday رکھا۔

یہ نظریہ صرف بابلیوں سے ہی مخصوص نہیں تھا بلکہ اہل ہند کے فلکیات دان بھی اسی قسم کے نظریات رکھتے تھے۔

دِنو ں کی یہ تقسیم بہت کار آمد تھی جسے ہر خاص و عام آسانی سے استعمال کر سکتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ دِنوں کی اس تقسیم نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ نتیجتاً آج پوری دنیا میں ہفتے کے سات دن شمار کیے جاتے ہیں۔ تاریخ میں سات کا عدد واحد عدد نہیں ہے جو ہفتے کے دنوں کے شمار میں استعمال کیا گیا ہو۔ کئی قدیمی تہذیبوں میں ہفتے میں دِنوں کی تعداد مختلف رہی ہے۔ جیسا کہ مصری کیلنڈر کے ایک ہفتے میں 10 دن ہوتے تھے۔ رومن کیلنڈر میں ایک ہفتہ 8 دنوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ لیکن دِنوں اور ہفتوں کے اعداد و شمار میں یہ ترتیب کچھ زیادہ سود مند ثابت نہ ہوئی۔اس کے مقابل سب سے زیادہ شہرت بابلیوں کی مرتب کردہ ترتیب کو ملی جو پوری دنیا میں آج بھی مستعمل ہے۔ چنانچہ آج ہر براعظم، ہر ملک، ہر شہر، ہر قصبہ اور گاؤں میں ہفتے کے 7 دن ہی شمار کیے جاتے ہیں۔

(ابو حمزہ ظفر)

پچھلا پڑھیں

ہدایات بابت کمپوزنگ و پروف ریڈنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2021