• 26 اپریل, 2024

صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا (قسط سوم)

صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
سب افریقن ممالک کی طرح سر زمین سیرا لیون بھی صحابہؓ کے عکس سے لبریز
(قسط سوم)

خا کسار کو کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق کے دوران ایسے واقعات اکٹھا کرنے کی توفیق ملی جو قرون اولیٰ میں صحابہ ؓ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی محبت میں ظہور میں آئے۔ صحابہ رسول ﷺ نے اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے آقا کی طرف سے ملنے والے ان عزیز تر جذبات کی حفاظت فرمائی، اور پھر اِس زمانہ میں حقیقی عاشق رسول ِ عربی ؐ، حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہودؑ کے دور میں آپؑ کے صحابہ ؓ اور پیرو کاروں کے ذریعہ مِن و عَن دُہرائے گئے۔ خاکسار نےاس مضمون کا عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر کا دوسرا مصرعہ ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ سے سجایا۔ مکمل قطعہ کچھ یوں ہے۔؎

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

خاکسار کے آج کے اداریے کی یہ تحریر اس عنوان کی تیسری قسط ہے۔ اس تحریر کا باعث ایک حدیث بنی جو خاکسار کی نظروں سے اس وقت گزری جب روزنامہ الفضل آن لائن کا 12 اگست 2021ء کا شمارہ پروف ریڈنگ کی غرض سے میرے Laptop پر نمودار ہوا اور حدیث کو پڑھ کر مجھے سیر الیون کے ایک بزرگ پا علی روجرز مر حوم کا ایمان افروز واقعہ بلکہ واقعات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔ اورخاکسار نے بے اختیار اَللّٰہُ اَکْبَرْ کی صدا بلند کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ جس نے قرآنی پیشگوئی۔ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ: 4)

کس شان سے مسیح محمدیؐ کے حق میں پوری فر مائی اور صحابہؓ جیسا نمونہ رکھنے والے اور ان جیسا اسلام اور محمد ﷺ سے پیار کرنے والے فدائی عطا فرمائے۔

حدیث یوں ہے کہ حضرت غیلان ؓ بن سلمہ ثقفی نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس جاہلیت میں 10 بیویاں تھیں جو تمام کی تمام آپؓ کے ساتھ اسلام لے آئیں تو نبی اکرم ﷺ نے حضرت غیلانؓ کو حکم دیا کہ وہ ان 10 میں سے کسی چار کو منتخب کر لیں اور باقیوں کو اپنے عقد سے آزاد کر دیں (چنانچہ آپؓ نے ایسا ہی کیا)

(سنن الترمذی، کتاب النکاح باب ماجاء فی الرجل یُسلمُ وَ عندہ عشرُ نسوةٍ)

میں جب 1983ء میں سیر الیون گیا تو میری تقرری حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے سیر الیون کے جنوبی صوبہ Southern province کے ہیڈ کوارٹر بو (Bo) میں فرمائی تھی۔ جو ایک بہت بڑی جماعت ہے اور سیرالیون کا مرکز ہونے کی وجہ سے جماعت کے تمام فنکشنز اور تقاریب جیسے جلسہ سالانہ، ذیلی تنظیموں کے اجتماعات اور شوریٰ وغیرہ اسی شہر میں منعقد ہوتے تھے اور ابھی بھی یہیں منعقد ہوتے ہیں۔

میرے بو پہنچنے پر پہلے روزجن فدائی بزرگوں سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک بزرگ مکرم (پا) علی روجرز مرحوم تھے۔ جنہوں نےسیرالیون کے پہلے مبلغ اور امیر مکرم الحاج مولانا نذیر احمد علی مبلغ سلسلہ کے ذریعہ بیعت کی تھی۔ جب ہمارے مبلغ بو شہر میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا رہے تھے تو رات ہو گئی۔ آپ نے پا علی روجرز سے اُن کے ہاں رات بسر کرنے کی اجازت چاہی۔ جس سے پا علی روجرز نے انکار کر دیا تب مکرم مولا نا نذیر احمد علی مرحوم نے جنگل کا رُخ کیا اور اپنا صافہ (کپڑا) بچھا کر نوافل کے دوران رو رو کر دُعا کرنے لگے۔ کہ اے اللہ! تیرا نام پہنچانے کے لئے اس شہر میں مَیں آج گھوما ہوں اور تیرے اس بندے کو کسی نے پناہ نہیں دی، تو ہی اس شہر کے لوگوں کو اسلام احمدیت کی طرف مائل کر اور اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لئے نہ صرف سامان پیدا فر ما بلکہ تبلیغ کے لئے کوئی جگہ بھی عنایت فرما۔

اللہ تعالیٰ نے اس جنگل میں جہاں دُعا کی آج وہاں عالی شان احمدیہ مسلم سیکنڈری اسکول، نصرت جہاں گر لز اسکول، دو پرائمری اسکولز کے علاوہ جامعۃ المبشرین اور مبلغین کی رہائش گاہیں موجود ہیں۔

آگے چلنے سے پہلے آپ کومکرم مولانا نذیر احمد علی کے بارے میں کچھ تعارف کرا دیتے ہیں۔تاکہ آپ کو سیرالیون جماعت کے ابتدائی حالات کا علم ہو جائے۔

جماعت احمدیہ کے یہ جانباز اور جلیل القدر مجاہد، دیرینہ اور مخلص خادم 19مئی 1955ء کو سیرالیون میں فوت ہوئے اور وہیں ان کی تدفین بھی ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی ہدایت کے ماتحت آپ کو پہلی مرتبہ سیرالیون میں نئے مشن کے قیام کے لئے 20اکتوبر 1937ء کو روانہ کیا گیا جہاں آپ نے آٹھ سال کے طویل عرصہ میں شاندار تبلیغی مساعی کے ساتھ ساتھ متعدد اسکولوں اور مساجد کی بنیادیں رکھیں۔1945ء میں کامیاب وکامران واپس قادیان تشریف لائے، 26 نومبر 1945ء کو جملہ مشن ہائے مغربی افریقہ یعنی گولڈکوسٹ گھانا، نائجیریا اور سیرالیون کی طرف بحیثیت رئیس التبلیغ بھجوائے گئے۔ جہاں سے 7اپریل 1951ء کو آپ واپس تشریف لائے، پھر آپ 9مئی 1954ء کو سیرالیون آگئے۔جہاں آپ نے تبلیغی میدان میں کام آنے کی عزیز تر خواہش اور تڑپ کو لئے ہوئے اپنے قدیم قائم کردہ مرکز سیرالیون میں جام شہادت نوش کیا۔

اس سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کی خدمات جلیلہ کے مدنظر 1945ء کی مجلس عرفان میں آپ کو ’کامیاب جرنیل‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ آپ وفات کے وقت تک سلسلہ احمدیہ کے پانچویں مبلغ تھے جنہوں نے ممالک غیر میں تبلیغ کا فریضہ بجا لاتے ہوئے اپنی جاں جانِ آفریں کے سپرد کردی۔

بات ہو رہی تھی پا علی روجرز کی جنہوں نے مکرم الحاج موصوف کو انکار کیا تو آپ کے دل میں سیرالیون کی نیک خصلت مہمان نوازی کا عنصربیدار ہوا اور خیال گزرا کہ میں نے انکار کر کے اچھا نہیں کیا اور جنگل میں تو زہریلے سانپ بھی بہت ہیں۔ کہیں اس Stranger (اجنبی) کو نقصان نہ پہنچا دیں تو اس طرف چل دیئے جدھر مکرم الحاج مولانا نذیر احمد علی نکلے تھے۔ جنگل میں پہنچ کر اُن کو اُ ونچی اُونچی گریہ و الحاح کرنے اور اللہ کے حضور رونے کی آ وازیں سنائی دیں۔ آپ اُ دھر کو لپکے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی اجنبی جو ان کے پاس پناہ کے لئے آیا تھا، سجدہ میں اللہ کے حضور گریہ و بکا کر رہا ہے۔ پا علی روجرز آپ کو اس اندھیری اورآدھی رات کو واپس اپنے گھر لے آ ئے۔ یوں تبلیغ کے سلسلہ کا آ غاز ہوا اور آ پ کا گھر Bo شہر میں اسلام احمدیت کا مرکز بن گیا۔

پا علی مرحوم نے بیعت کر لی۔ مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور دیگر امتحانات میں سے گزرنے لگے۔ ان میں سے ایک بڑا امتحان اسلامی تعلیم کے مطابق چار بیویوں کے علاوہ باقی کو با عزت رخصت کرنا تھا۔ جب مکرم الحاج مولوی نذیر احمد علی مرحوم نے ان کے سامنے صرف چار بیویوں کو رکھنے کا معاملہ پیش کیا تو وہ با رغبت و رضا چار کے علاوہ باقی بیویاں چھوڑنے پر رضا مند ہو گئے۔ آپ کی قبول احمدیت کے وقت 15 بیویاں تھیں۔ آپ نے مولانا سے عرض کی میں اپنی پسند کی چار بیویوں کا انتخاب کر کے باقیوں کو فارغ کر دیتا ہوں۔ مکرم مولانا موصوف نے کہا۔ نہیں! تمام بیویوں کو تاریخ شادی کے اعتبار سے ترتیب سے کھڑا کریں۔ یعنی جس کی شادی سب سے پہلے آپ سے ہوئی وہ دائیں طرف اور سب سے کم عمر جس کی شادی سب سے بعد میں ہوئی بائیں طرف۔ تب میں فیصلہ کروں گا کہ کون کون سی چار آپ کے ساتھ رہیں گی۔ جب ایک لائن میں تمام کو کھڑا کیا گیا تو مکرم مولانا نے دائیں طرف کی چار بیویوں کے حوالے سے پا علی کو کہا کہ یہ چار آپ رکھ لیں کیونکہ انہوں نے ایک لمبا وقت آپ کی خدمت کی ہے۔ اور باقیوں کو اسلام کے مطابق فارغ کر دیں۔ پا علی نے مکرم مولانا مرحوم کے فیصلہ پر سر تسلیم خم کیا اور پہلے نمبر کی چار خواتین رکھ کر باقیوں کو اپنے عقد سے فارغ کر دیا۔ فَجَزَ اھُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ

یہ ایمان افروز واقعہ مکرم پا علی روجرز نے، میری بو میں آ مد کے اوائل دنوں میں مجھے خود سنایا۔ مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری مرحوم سابق مبلغ سیرا لیون نے اس واقعہ کواپنی ایمان افروز سوانح عمری میں یوں رقم فر مایا ہے:
«جہاں تک مجھے یاد ہے سیرالیون میں الحاج علی روجرز واحد ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے احمدی ہوتے ہی الحاج مولانا نذیر احمد علی کی تحریک پر محض اسلام کی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرنے کی خاطر اور خوفِ خدا دل میں رکھتے ہوئے اور قیام شریعت کی غرض سے اپنی 15 بیویوں میں سے صرف چار دیندار اور مناسب حال منتخب کر کے باقی گیارہ بیویوں کو طلاق دے کر با عزت و احترام رخصت کر دیا تھا۔ حالانکہ ان میں سے اکثر اچھے خاندان اور امیر گھرانوں کی با اولاد خواتین تھیں۔

(روح پرور یادیں صفحہ424)

؎ مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

یہ فدائی احمدی ایمان و ایقان میں اس حد تک ترقی کر گئے تھے کہ خلفاء کرام خصوصی طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا نام جب ان کے سامنے لیا جاتا تو ان کی آ نکھیں آ نسوؤں سے بھر آ تیں۔ ایک دفعہ میرا تبادلہ Bo سے شرقی جانب شہر کینما میں ہوا۔ یہ افسردہ ہوئے۔ خاکسار نے پا مرحوم سے عرض کی کہ فکر نہ کریں40،45 میل کا فاصلہ ہے۔ میں آپ سے آ کر مل جایا کروں گا یا آپ مجھے آ کر مل جایا کریں۔ تو فوراً بولے کہ اب اُدھر نہیں بلکہ اِدھر (قصرِ خلافت پاکستان) کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فر مایا کہ اب تو اِدھر جانے کو دل کرتا ہے۔ اُس وقت تک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے لندن کی طرف ہجرت نہیں فر مائی تھی۔ پاکستان میں ہی مقیم تھے۔

سیرالیون میں ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘
کا دوسرا واقعہ

جیسا کہ اوپر درج کر آیا ہوں کہ مکرم امیر صاحب نے خاکسار کا تبادلہ Bo سے کینیما کر دیا۔ خاکسار ابھی چارج نہ لے پایا تھا کہ بواجے بو میں ایک ایمر جنسی کے پیش نظر مجھے بواجے بو بھجوا دیا گیا۔ جہاں ایک وسیع وعریض مسجد کے علاوہ احمدیہ مسلم ہسپتال اور احمدیہ مسلم سیکنڈری و پرائمری اسکولز تھے۔ یہاں تین ساڑھے تین سال قیام کے دوران ایک عید الاضحیہ سے قبل جماعت احمدیہ بانڈو (bando) کے ایک مخلص اور فدائی دوست پا محمد کرومانے خاکسار سے درخواست کی کہ آپ آنے والی عید (عید الاضحی) میرے گاؤں میں پڑھائیں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور میں اپنے سینٹر (جہاں بہت بڑی جماعت ہے) کو چھوڑ کر کیسے آپ کے گاؤں میں نماز عید پڑھا سکتاہوں؟ پا کروما نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب! (افریقہ میں مبلغ سلسلہ کو مولوی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں)۔ آپ مالکیوں کی جامع مسجد میں نماز عید پڑھائیں گے اور گاؤں کے تمام غیر احمدی مالکی آپ کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے اوردوسری کوئی نماز نہ ہو گی۔ چونکہ یہ خلافت رابعہ کا دور تھا جو تبلیغ اور دعوت الی اللہ کا پُر جوش دور تھا۔ خاکسار نے تبلیغ کا قیمتی اور انمول موقع جان کر اس روحانی دعوت کو قبول کر لیا۔

سیرالیون میں عمو ماً بادلوں کا راج رہتا ہے۔ چاند تو دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ فلکیات کا ادارہ بھی اس وقت اتنا فعال نہ تھا کہ عید سے بہت قبل عید کا پتہ چل جائے۔ بانڈو جماعت ایک Remote area میں واقعہ ہے جہاں کسی ٹرانسپورٹ کے ذریعہ پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس لئے خاکسار نے اپنے خیال میں عید کے دو روز قبل سفر کا آغاز کر دیا۔ مگر دوران سفر مسافروں اور دیگر مسلمانوں کو باتیں کرتے سنا کہ کل عید ہے۔ تو خاکسار کو منزل مقصود تک پہنچنے کی فکر لاحق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں بھی کیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فر مایا۔ میں مغرب کے وقت بانڈو سے 5 میل دور ایک بڑی جماعت باڈو (Bado) پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ اس ساری جماعت کو بھی پا کروما نے نماز عید میں شمولیت کی دعوت دے رکھی ہے اور تمام مرد و خواتین بانڈو جانے کی تیاری میں ہیں۔ جہاں نماز عشاء پر تربیتی اجلاس کرنے اور اگلے روز یعنی عید والے دن، نماز تہجد اور نماز فجر با جماعت ادا کرنے اور درس و تدریس کے بعد تیاری کر کے ہم 100 کے لگ بھگ مرد و خواتین اور بچے و خدام پیدل عازم بانڈو ہوئے۔ پانچ میل کا سفر تسبیح و تحمید، اور درود شریف بلند آ واز سے پڑھتے گزرا۔ ہم جب ایک جتھے کی صورت میں بانڈو پہنچے تو خاکسار نے پا کرو ما کے گھر کے باہر ایک مینڈھے کو ذبح ہوتے دیکھا۔ پا کروما اور دیگر دوست احباب سے میل ملاقات اور علیک سلیک کے بعد خا کسار نے پا کروما سے مینڈھے کے ذبح ہونے اور گوشت بنانے کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے جواباً کہا، مولوی صاحب ! میں نے یہ قربانی کی ہے۔ چونکہ بہت دور دور سے لوگ عید پڑھنے آ رہے ہیں۔ مَیں نے چاہا کہ عید کی نماز کے معاً بعد اس گوشت سے مہمانوں کی تواضع کر دوں۔ تاخیر نہ ہو جائے۔ مَیں نے میزبان پا محمد کروما سے عرض کہ کہ پا! (عزت کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے) قر بانی نماز عید کے بعد ہوتی ہے پہلے نہیں اور ساتھ ہی خا کسار نے آنحضور ﷺ کا یہ قول مبارک بتایا کہ حضورؐ نے ایک عید الاضحی کے روز فر مایا کہ آج عید کے روز جو نماز عید کے بعد قر بانی کرے گا وہ ہماری سنت کے مطابق کرے گا اور جو عید سے قبل اپنا مینڈھا ذبح کر ے گا تو اس کی حیثیت صرف گوشت کی سی ہو گی جو اپنے گھر والوں کے لئے تیار کرے گا۔ اس پر حضرت ابو بردہ بن نیار ؓ نے کھڑے ہو کر حضورؐ سے عرض کی کہ حضورؐ! میں نے تو اپنا جانور عید سے قبل ذبح کر دیا ہے۔ اب ایک اور بکرا ذ بح کروں؟ تو حضورؐ نے فرمایا ضرور کرو۔

(بخاری کتاب الاضاحی باب سنتہ الاضحیہ)

ایک اور روایت میں ہے کہ عید الاضحی کے روز آ نحضور ﷺ کو اطلاع دی گئی کہ فلاں صحابی نے اپنا جانور عید سے قبل ذبح کر دیا ہے تو فر مایا اسے کہو کہ عید کے بعد دوبارہ قر بانی کرے چنانچہ اس صحابی نے عید کے بعد دوبارہ قربانی کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ سچا فدائی اور صحابہؓ جیسا اخلاص رکھنے والا بزرگ پا کروما (مرحوم) میری یہ بات سُن کر فوراً بلند آ واز سے بولا کہ: میں بھی تو اُسی (محمدﷺ) کا ماننے والا پیرو کار ہوں۔ اگر اس صحابی نے اپنی غلطی پر دوبارہ قر بانی کی تو میں بھی اپنی غلطی پر دوبارہ قر بانی کرتا ہوں۔ اور بلند آ واز سے اپنے بیٹے احمد کو بلوا کر اُسے ہدایت کی کہ فلاں ڈیرہ پر جو بکرا بندھا ہوا ہے وہ جلدی سے لے آؤ۔ قربانی کرنی ہے اور میرے نماز عید پڑھاتے اور خطبہ عید دیتے مسٹر احمد بکرا لے آیا تھا۔ جسے پا کروما نے عید کے بعد ذبح کر دیا۔ جبکہ اس وقت ملک میں بھوک، افلاس اور غربت کا دور دوره تھا۔ ایک وقت کا کھانا بمشکل نصیب هوتا تھا۔ ایسے حالات میں دوسری قربانی کا سوچنا محال تھا۔

اللہ اللہ! ایسے ایسے عشاق اور چمکدار اسلامی ذہنیت والے ہیرے و نگینے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا کر رکھے ہیں جو ہر اُس فعل کا تتبع اور پیروی کرتے ہیں جن افعال سے صحابہؓ، خدا تعالیٰ کے بن کر رہ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کے نمونہ پر چلتے ہوئے ان کے تاریخی روحانی واقعات کو زندہ کرنے کی تو فیق دیتا رہے۔ آمین۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اَصْحَابِہٖ وَ عَلیٰ عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَ عَلیٰ مُتَّبِعِیْنَ

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ہدایات بابت کمپوزنگ و پروف ریڈنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2021