• 2 مئی, 2024

عائلی زندگی اور خواتین مبارکہ کے اعلی ٰ نمو نے (قسط اول)

عائلی زندگی اور خواتین مبارکہ کے اعلی ٰنمو نے
(قسط اول)

پرسکون عائلی زندگی سے مراد

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۲۲﴾

(الروم: 22)

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔ ’’اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔‘‘

(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع ؒ)

دین اسلام نے عائلی زندگی میں الفت و موّدت کے نہایت ہی پیارے اصول ہمارے لیے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرما دیے ہیں۔ جن پر چل کر ہم اپنی عائلی زندگی خوشحال، صحتمند اور جنت نما بنا سکتے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں بیان ہوتا ہے ’’حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کونسی عورت بطور رفیقہ حیات بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا وہ جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو۔ مرد جس کام کے کر نے کے لیے کہے اسے بجا لائے اور جس بات کو اس کا خاوند ناپسند کرے اس سے بچے۔‘‘

(نسائی بیہقی فی شعب الایمان مشکوٰۃ، بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر354 صفحہ390 ایڈیشن 2006ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’شادیوں کا معاملہ محبت کی بنیاد کے قیام کے لیے ہے میاں بیوی کی محبت در حقیقت خدا ہی کی محبت کا ظِل ہے۔ شادی ایک مدرسہ ہے جہاں خدا تعالیٰ کے عشق کا سبق پڑھایا جاتا ہے… اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلقات کو اپنی محبت کا ایک نشان قرار دیا ہے… غرض ماں باپ کی محبت خداتعالیٰ کی محبت کا ایک ظل ہے، بیوی کی محبت بھی خداتعالیٰ کی محبت کا ظل ہے اور اولاد کی محبت بھی خداتعالیٰ کی محبت کا ایک ظل ہے… گویا یہ تینوں ایک درس گاہ ہیں جن میں انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کا سبق سیکھتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔‘‘

(بحوالہ خطبات محمود جلدسوم صفحہ 374 مطبوعہ رقیم پریس یوکے)

عائلی زندگی کے بارہ میں قرآنِ کریم کی تعلیم اپنے اندر وہ قوت اور طاقت رکھتی ہے جس پر عمل کے نتیجہ میں عائلی زندگی جنت نظیر معاشرہ میں بدل جاتی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’شادی کے بعد مَودّت اور رحمت کا مضمون ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے اور ایسا ماحول قائم کرنا چاہیے کہ مرد عورت کے لیے محبت اور رحمت کا سرچشمہ ثابت ہو اور عورت مرد کے لیے محبت اور رحمت کا سرچشمہ ثابت ہو۔‘‘

(بحوالہ اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد دوم صفحہ60 ایڈیشن 2009ء)

نیز فرمایا ’’… سارے معاشرے کے لیے یہ پیغام ہے کہ عائلی زندگی میں مودت اور رحمت کو اختیار کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ 16 اپریل 1993ء بحوالہ خطبات طاہر جلد12 صفحہ294)

قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کا اپنے نیک بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں نعمتیں عطا فرمائے گا۔ ان نعماء میں ایک انمول نعمت نیک جیون ساتھی کی بھی ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے۔ ’’دنیا تو سامانِ زیست ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں۔‘‘

(ابن ماجہ ابواب النکاح باب افضل النساء بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر352 صفحہ نمبر390 ایڈیشن2006ء)

مضمون ہذا میں خاکسار خواتین مبارکہ کے عائلی زندگی اور تربیت اولاد کےانمول نمونوں میں سے چند ایک نمونے پیش کرنا چاہے گی جو ہم سب کے لئےمشعل راہ ہیں۔

عائلی زندگی و اخلاق کے اعلیٰ نمونے

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔‘‘

(الفرقان آیت نمبر 75)

یہ دعا حقیقی طور پر وہی کر سکتا ہے اور سچے رنگ میں اسی کے حق میں قبول ہو سکتی ہے جو اپنے جیون ساتھی اور اولاد کے لئے قرۃ العین ہو۔ چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو ’’مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اور تم میں سے خُلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے۔‘‘

(ترمذی کتاب النکاح باب حق المراۃ علی زوجھا حدیث نمبر,1082 از حدیقۃالصالحین حدیث نمبر366 صفحہ نمبر400 ایڈیشن2006ء)

یہ اکمل المومنین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کون ہو سکتا تھا۔ اسی لئے خوشگوار عائلی زندگی کی اگر مثال بیان کرنی ہو تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج مطہرات ؓ کو ہمیشہ بطور نمونہ لیتے ہیں۔ ازواجِ مطہرات بھی آپؐ کے ہر قسم کے آرام کا خیال فرماتیں اور ہر طرح سے آپؐ کی خدمت کرتیں اور آپؐ سے عشق کی حد تک پیار کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ بھی بیویوں کےنیک اوصاف کی بہت قدر کرتے تھے چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ کے ایثار و فدائیت و وفا کی آپ کی زندگی میں بھی پاسداری کی اور انکی وفات کے بعد بھی کئی سال تک آپؐ نے دوسری شادی نہیں کی۔ ’’صحیح البخاری میں ہے۔ موسوی امت کی بہترین خاتون مریم تھیں جو آل عمران میں سے تھیں اور اس امت کی بہترین خاتون خدیجہ بنت خویلد ہیں۔‘‘

(بحوالہ اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد دوم صفحہ537 ایڈیشن 2009ء)

پیارے آقا و مولا سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت قدسیہ سے ایسی پیارے رنگ میں تربیت کردی تھی کہ تمام ازواج مطہرات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف کوئی کام کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ آپ ؐ کے کاموں و معاملات میں بے جا مداخلت نہ کرتیں، آپؐ کے آرام کا بہت زیادہ خیال رکھتیں۔ حضورؐ کا ہر کام بڑی خوشی سے کرتیں۔ آپکا بستر بچھانے میں فخر محسوس کرتیں۔ وضو کا پانی خود لاکر دیتیں، خود آٹا پیستیں، گوندھتیں اور روٹی پکایا کرتیں ۔۔۔ گویا آپکو گھرداری کی فکروں سے آزاد کر رکھا تھا تا آپؐ یکسوئی سے عبادت کرسکیں اور دین کے کاموں میں مصروف رہ سکیں۔حضرت خدیجہ ؓکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ربع صدی کی ازدواجی رفاقت سے دنیا میں پہلی بار ایک مثالی جنت ارضی کا ظہور ہوا۔ ایک مستشرق مسٹر ایڈورڈ جی جرجی Edward.J.Jurgi لکھتے ہیں:

When he was about 25 years old his marriage with Khadijah a rich and noble widow of matronly virtues, brought him and domestic contentment and happiness. And he could then easily afford to give himself up to long and assiduous reflection upon the nature and destiny of man

(Collier encyclopaedia volume 16 page 690)

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 برس کے قریب ہوئی تو (حضرت) خدیجہ سے آپ کی شادی ہوئی جو ایک امیر اور شریف النفس بیوہ خاتون تھیں اور خاندانی امور میں بھی خاص انتظامی سلیقہ رکھتی تھیں۔ اس شادی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی سکون اور مسرت میسر آئی اور آپؐ اس قابل ہو گئے کہ انسانی فطرت اور اس کے مقصد حیات سے متعلق پیچیدہ مسائل پر مسلسل غور و فکر کرسکیں۔

(بحوالہ کتاب ’لباس‘ از حنیف احمد محمود صفحہ68,69 سن اشاعت 2003ء)

پس خدیجہ کے ذکر سے آپ کے لئے ایک ایسا نمونہ قائم ہوتا ہے جو پاکیزگی میں، وفا میں، سادگی میں، انکسار میں، سخاوت میں اپنی مثال آپ ہو۔ آپؐ حضرت خدیجہؓ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’مجھے نبی کریمؐ کی کسی دوسرے زندہ بیوی کے ساتھ بھی اس قدر غیرت نہیں ہوئی جس قدر حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پا چکی تھی۔‘‘

(بخاری کتاب الادب باب حسن العھد من الایمان بحوالہ ’’اسوۂ انسانِ کامل‘‘ مصنفہ حافظ مظفر احمد صفحہ626 ایڈیشن 2004ء)

فرماتی تھیں کہ کبھی تو میں اُکتا کر کہہ دیتی یا رسول اللہؐ! خدا نے آپؐ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں۔

آپؐ فرماتے نہیں نہیں۔ خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا۔ وہ اس وقت میری سِپربنی جب میں بے یارو مدد گار تھا۔ وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ118 مطبوعہ بیروت بحوالہ اسوۂ انسانِ کاملؐ مصنفہ حافظ مظفر احمد صفحہ626-627 ایڈیشن2004ء)

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی کریمؐ کے ساتھ مکّی دور میں ہو چکا تھا۔ مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت کے جس اعلیٰ مقصد کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا وہ اس شادی کے بعد بڑی شان سے پورا ہوا۔ روحانی و جسمانی طہارت کے اعلیٰ مقام اور ذہانت کی وجہ سے بھی حضورؐ کو آپؓ رضی اللہ عنہا بہت عزیز تھیں۔ آپؐ فرماتے تھے کہ عائشہ کی فضیلت باقی بیویوں پر ایسے ہے جیسے ثرید گوشت والے کھانے کو دوسرے کھانے پر فضیلت ہوتی ہے۔

(بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہ
بحوالہ اسوۂ انسانِ کامل مصنفہ حافظ مظفر احمد صفحہ637 ایڈیشن 2004ء)

عشق ومحبت کا نرالہ انداز دیکھنا ہو تو یہ روایت ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بیان کرتے ہیں۔ ایک موقع پر حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں: ’’رسول کریم ؐاپنی جوتی کو پیوند لگا رہے تھے اور میں چرخہ کات رہی تھی… اچانک میری نظر حضورؐ کی پیشانی پر پڑی تو اس پیشانی پر پسینے کے قطرے ابھر رہے تھے۔ اس پسینے کے اندر ایسا نور تھا جو ابھرتا چلا آرہا تھا اور بڑھ رہا تھا۔یہ نظارہ دیکھ کر میں سراپا حیرت بن گئی… حضورؐ کی نگاہ مجھ پر پڑی تو فرمایا! عائشہ تم حیران کیوں ہوئی بیٹھی ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! میں نے آپؐ کی پیشانی پر ایسا پسینہ دیکھا ہے کہ اس کے اندر ایک نور چمکتا دمکتا بڑھتا چلا جا رہا ہے خدا کی قسم ! اگر ابوکبیر ہجلی حضورؐ کو دیکھ پاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے اشعار کا مصداق آپؐ ہی تھے۔ آپؐ نے فرمایا! اس کے اشعار کیا ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے وہ اشعار پڑھ کر سنائے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے مبرا ہیں اَور تو کوئی ایسا نہیں جو ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے اس طرح مبرا ہو… حضور نے ہاتھ میں جو کچھ تھا انہیں رکھ دیا۔عائشہ کہتی ہیں آپ نے مجھے قریب کیا اور میری پیشانی کو چوما اور فرمایا اے عائشہ! جو سرور مجھے اس وقت تجھ سے حاصل ہوا ہے اتنا سرور تو تجھے بھی میرے نظارے میں حاصل نہیں ہوا ہو گا۔… یہ آپؓ کی ازدواجی زندگی کے حالات ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ محبت جو خدا کے لیے ہو، وہ لذتیں جو خدا کی خاطر ہوں،ان محبتوں اور لذتوں کے کیا رنگ ہوا کرتے ہیں۔‘‘

(بحوالہ اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد دوم صفحہ541 ,542 ایڈیشن 2009ء)

ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’عائشہؓ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کا پتہ لگانا ہو تو اس بات پر غور کرو کہ رسول کریم ؐکی وفات کے وقت ان کی عمر 19 سال یا 21 سال کی ہوگی… ساری عمر انہوں نے رسول کریمؐ کی محبت اور یاد میں گزار دی۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپؓ کوئی اچھی چیز نہ کھاتی تھیں کہ رسول کریم ؐکو یاد کر کے آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ نکل آتے ہوں …‘‘

(بحوالہ خطبات محمود جلد سوم صفحہ269 مطبوعہ رقیم پریس یوکے)

اسی طرح آنحضورؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت میمونہ ؓ آپؐ کی وفات کے بعد پچاس سال زندہ رہیں۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ: ’’اپنی وفات سے قبل انہوں نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے درخواست کی کہ جب میں مر جاؤں تو مکہ کے باہر ایک منزل کے فاصلہ پر اس جگہ جس جگہ رسول کریمؐ کا خیمہ تھا اور جہاں شادی کے بعد پہلی بار آپؐ سے ملی تھی وہاں میری قبر بنائی جائے اور اس میں مجھے دفن کیا جائے۔ دنیا میں سچے نوادر بھی ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں بھی۔ لیکن کوئی واقعہ اس گہری محبت اور اس کے اتنے خوبصورت اظہار سے زیادہ پُر تاثیر ہو سکتا ہے؟‘‘

(بحوالہ نبیوں کا سردار صفحہ197,198
از حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ ایڈیشن 2013ء)

حضرت سودہ ؓکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا وہ اطاعت میں ایسا ڈھل گیا تھا کہ کبھی کسی بیوی نے اطاعت کے مضمون میں محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا ایسا حق ادا نہیں کیا کیا جیسا حضرت سودہ ؓہمیشہ کرتی رہیں۔ آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا …چنانچہ گھر کی ہو بیٹھیں اور تا وفات اپنے گھر کی چوکھٹ سے باہر قدم نہ نکالا۔

(بحوالہ اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد دوم صفحہ551 ایڈیشن 2009ء)

حضرت ام حبیبہ ؓرسول اللہؐ کے عشق میں اس قدر مخمور تھیں کہ ایک دفعہ ان کا والد ابو سفیان ملنے آیا اور رسول اللہؐ کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو حضرت ام حبیبہ ؓنے بستر لپیٹ دیا۔ امام زُہری روایت کرتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل ابوسفیان مدینہ آئے۔ وہ صلح حدیبیہ کی مدّت بڑھانا چاہتے تھے۔ وہ اپنی بیٹی حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ جب وہ رسول اللہ ؐکے گھر گئے اور بستر پر جاکر بیٹھنے لگے اور وہ بستر تھا جہاں آنحضرت ؐبھی بیٹھا کرتے تھے۔ تو حضرت اُمِّ حبیبہ ؓ نے بستر لپیٹ دیا کہ ابوسفیان اس پر نہ بیٹھیں۔ اس پر ابوسفیان نے کہا کہ بیٹی! تم نے اس بستر کو مجھ پر ترجیح دی ہے۔ تم سمجھتی ہو کہ یہ بستر ایسا پاک ہے کہ میں اس پر بیٹھنے کے لائق نہیں۔ اس پر حضرت اُمِّ حبیبہ ؓ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بستر رسول اللہؐ کا ہے، مقدس بستر ہے اور تم ایک ناپاک مشرک شخص ہو۔ گو میرے باپ ہو لیکن تمہارا وہ مقام نہیں کہ اس بستر پر بیٹھ سکو۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء8 صفحہ142،رملۃ بنت ابی سفیان 11191، داراکتب العلمیہ بیروت 2005ء)

تمام ازواج مطہرات ؓ کو آنحضور ؐمثالی محبت تھی ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو حضرت صفیہؓ انتہائی حسرت کے ساتھ بولیں »کاش آپؐ کی بجائے میں بیمار ہوتی» آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں نے اس اظہار محبت پر جب تعجب کیا تو آپؐ نے فرمایا:

’’دکھاوا نہیں ہے بلکہ سچ کہہ رہی ہیں‘‘

اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی شہنشاہ دو جہاں تاج مرسلین کے گھر کا نمونہ ہماری خواتین کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ کس قدر سادہ ہے۔ تکلف و تصنع نام کی کوئی چیز نہیں۔ نہایت صبر و شکر کے ساتھ آپ تمام ازواج مطہرات نے محض اور محض اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر ان کی اتباع اور پیروی میں زندگی گزاری۔

(بحوالہ کتاب ’لباس‘ از حنیف احمد محمود صفحہ69 سن اشاعت 2003ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطاب میں دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کی پرسکون عائلی زندگی کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:
’’ایک دفعہ حضرت علی مرتضیٰؓ گھر تشریف لائے۔ کچھ کھانے کو مانگا کہ کچھ کھانے کو دو حضرت فاطمہؓ سے۔ تو آپؓ نے بتایا کہ آج تیسرا دن ہے گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا کہ میں کوئی انتظام کرتا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپ ؐنے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔ یہ نہ ہو کہ آپ کے حالات ایسے ہوں اور میں سوال کروں اور وہ میری خواہش پوری نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے آپ پر بوجھ پڑے یا قرض لے کر پورا کریں یا ویسے دل میں ایک پریشانی پیدا ہو کہ میں اس کی خواہش پوری نہیں کر سکا۔ تو یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر عورت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ ہر اُس عورت کے لئے جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں۔‘‘

(ماخوذ از تذکار صحابیات ؓ، از طالب الہاشمی صفحہ136، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء) (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 28؍جولائی2007ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍نومبر 2015ء)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمؓہ کو حسن معاشرت کی تعلیم دی حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
’’جس طرح فاطمہؓ بہترین مخلوق خدا ہے اسی طرح بہترین گھر والی ہے۔ اگرچہ میرے گھر میں دیباج اور حریر یعنی ریشم تو نہیں لیکن فاطمہؓ کی چکی پر گرد و غبار نہیں اور ہمارے بچھونے پر خاک دھول نہیں ہوتی اگرچہ اس کی ردا یعنی چادر میں پیوند ہوتے ہیں مگر میلی نہیں ہوتی۔ ان تمام امور سے حضرت فاطمہ ؓکے سگھڑ ہونے کا پتہ چلتا ہے۔‘‘

(حضرت فاطمہ الزہرہ از صادقہ فضل شائع کردہ لجنہ اماء اللہ لاہور بحوالہ کتاب ’لباس‘ از حنیف احمد محمود صفحہ70 سن اشاعت 2003ء)

حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر حضرت زبیرؓ بالکل غریب تھے۔ اور اس لیے انہیں نہایت تنگی سے گزراوقات کرنی پڑتی تھی۔ مگر اس تنگی نے ان کی طبیعت میں کوئی تنگ دلی پیدا نہیں کی تھی۔ … ان کی بہن حضرت عائشہ ؓکے ترکہ میں سے ان کے حصہ میں ایک جائیداد آئی۔ جسے فروخت کرنے سے ایک لاکھ درہم وصول ہوئے۔ … حضرت اسماء ؓ نے یہ ساری رقم اپنے غریب اور محتاج اعزہ پر خرچ کردی۔ (بخاری کتاب الھبۃ) صحابہ کرام کی فیاضی کے اندر جو بے نفسی، خدا ترسی اور ہمدردی نظر آتی ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دے گی۔

(بخاری کتاب النکاح بحوالہ مسلمانوں کے سنہری کارنامے صفحہ71,72)

حضرت زینب بنت ابو معاویہؓ کی شادی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے ہوئی تھی۔ ان کے شوہر غریب تھے۔ اور یہ دستکاری جانتی تھیں۔ اس لیے اپنے ہاتھ سے محنت کر کے گھرکا خرچ چلاتی تھیں۔

(اسد الغابہ جلد6 صفحہ128 بحوالہ مسلمانوں کے سنہری کارنامے صفحہ109)

مثالی جوڑا: حضرت مسیح موعودؑ پرسکون عائلی زندگی کا گر بتاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’عورتوں کے لیے خدا کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی تو خدا ان کو ہر بلا سے بچاوے گا اور ان کی اولاد عمر والی ہو گی اور نیک بخت ہوگی۔‘‘

(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ النساء جلدسوم صفحہ309 ایڈیشن 2016ء)

آنحضورؐ کے عاشقِ صادق حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ کی ازدواجی زندگی الفت و مودت اور بہشت کا نمونہ تھی۔ دونوں میاں بیوی کامل محبت و یگانگت کا ایک بے نظیر نمونہ تھے۔ ایک مثالی جوڑا تھا جن میں دوئی مٹ چکی تھی اور ایسے ہو گئے تھے جیسے ایک سینے میں دو دل دھڑک رہے ہوں۔ یہ سب اس لیے تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت اماں جانؓ کی بہت خاطر داری کرتے تھے اور دوسری طرف حضرت اماں جانؓ بھی دل و جان سے حضرت مسیح موعودؑ پر فدا تھیں۔ اس طرح اس مقدس جوڑے کی باہمی الفت و مودت نے ایک ایسے گھرانے کو جنم دیا جو خدا کے فضلوں کا مورد بنا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسما عیل صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضور علیہ السلام کو حضرت ام المؤمنین سے ناراض دیکھا نہ سنا بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک ideal جوڑے کی ہونی چاہیے۔‘‘

(بحوالہ سیرت حضرت سیدہ نصرت جہان بیگم ؓ مرتبہ حضرت شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ231)

اس سلسلہ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان کرتی ہیں:
’’ایک بار مجھے یاد ہے حضرت والدہ صاحبہؓ نے حضرت اقدسؑ سے کہ … ’’میں ہمیشہ دعا کر تی ہوں کہ خدا مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے پہلے اٹھا لے‘‘ یہ سن کر حضرتؑ نے فرمایا: ’’اور میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ کر جاؤں۔‘‘

(بحوالہ سیرت حضرت سیدہ نصرت جہان بیگمؓ مرتبہ حضرت شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ459.460)

روشن مثال: حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کی وارث اور حضرت اماں جانؓ کی تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ نے اپنی عائلی زندگی خوب بسر کی۔ اپنے خاوند سے محبت و وفا کا تعلق نبھایا اور عسر و یسر میں پورا ساتھ دیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ دل کی بیماری میں مبتلا ہوئے تو حضرت سیدہ صاحبہؓ نے اپنے خاوند کی خدمت کا صحیح معنوں میں پورا حق ادا کیا اور دن رات اپنے خاوند اور بچوں کی دیکھ بھال میں لگی رہتیں۔ اسی خدمت میں اپنی صحت کی بھی پروا نہ کی۔ چنانچہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ اپنی صاحبزادی کو شادی کے موقع پر نصائح پر مشتمل خط میں اپنی اہلیہ کی وفاداری کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تمہاری امی اس معاملہ میں بہترین نمونہ ہیں تم نے خود دیکھا ہے کہ کس قدر تنگی انہوں نے میرے ساتھ اٹھائی لیکن اس وقت کو نہایت وفا اور محبت کے ساتھ گزار دیاایک طرف تویہ تسلیم و رضا تھی اور دوسری طرف مجھے کام کرنے اور باہر نکل جانے کی ترغیب دیتی تھیں۔ آخر اس صابر و شاکر ہستی کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم اور فضل کے دروازے میرے پر کھول دئیے۔ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی امی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ گھر میں مختلف قسم کی تکالیف بھی آئیں لیکن اس خدا کی بندی نے اپنے میکے میں ان تکالیف کا کبھی بھی ذکر نہ کیا۔ خود اپنے نفس پر سب کچھ برداشت کیا، لیکن دوسروں کو اپنی تکلیف میں شامل کرنا گوارا نہ کیا۔ وقت تھا گزر گیا، میری بچی! مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ تم بھی اپنی امی کی طرز ہی اختیار کرو وہ تمہارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں۔‘‘

(بحوالہ دخت کرام از سید سجاد احمد صفحہ68-69)

حرم محترم سعیدۃ النساءؓ: حضرت سیّدہ نانی جان ؓ (حضرت سیّدہ اماں جان ؓ) کی والدہ ماجدہ کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ حضرت میر صاحبؓ اور حضرت نانی جانؓ کی طبیعت میں بڑا فرق تھا۔ کہ حضرت میر صاحب ؓ تیز مزاج اور حضرت نانی جانؓ ٹھنڈے مزاج کی تھیں۔ حضرت میر صاحبؓ فرماتے ہیں ’’اس بابرکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑا مجھے بہت ہی آرام دیا۔ نہایت فرمانبرداری سے میرے ساتھ اوقات بسر کی۔ہمیشہ نیک صلاح دیتی رہیں کبھی ناحق مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا۔ یہ نہایت خوبصورت تعریفی کلمات آپؓ کی سیرت کے عکاس ہیں۔ پھر آپ نے ان پر ایک نظم بعنوان ’’حرمِ محترم‘‘ بھی تحریر کی۔

؎اے میرے دل کی راحت میں ہوں تیرا فدائی
تکلیف میں نے ہرگز تجھ سے کبھی نہ پائی
تو لعلِ بے بہا ہے انمول ہے تو موتی
ہے نقش میرے دل پہ بس تیری پارسائی

(از سیرت حضرت اماں جان تصنیف محمود احمد عرفانی صفحہ نمبر175,176)

حضرت اُم ناصر ؓ: بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں۔ سب خاندان والوں سے حسب مراتب پیارو محبت کا سلوک کرتیں۔ شوہر کی مزاج شناس تھیں۔ وفا شعار اور خدمت کرنے والی بیوی تھیں۔ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا خیال رکھتیں۔ قدردان شوہر حضرت مصلح موعود ؓنے آپ کی خوبیوں کو ایسے خراج تحسین پیش کیا۔ ’’کیا ہی سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو بھی خیال نہیں آتا جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا ہے۔‘‘

(بحوالہ انوار العلوم جلد8 صفحہ370)

باقی آئندہ ان شاءاللہ

(درثمین احمد آصف۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ہدایات بابت کمپوزنگ و پروف ریڈنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2021