• 14 مئی, 2024

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے زمانہ کو بھی لیلة القدر قرار دیا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس آپ (حضرت مصلح موعودؓ ۔ ناقل) کا وجود اپنی ذات میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی ایک دلیل بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علم و عرفان عطا فرما یا تھا، اُ س کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوپہلے خبر دی تھی۔ اس لحاظ سے افرادِ جماعت کو آپ کے اُس علم و عرفان سے ذاتی مطالعہ کر کے بھی فائدہ اُٹھانا چاہئے اور کیونکہ لٹریچر ہر زبان میں میسر نہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مختلف وقتوں میں بیان بھی ہوتا رہنا چاہئے۔ اس لئے میں مختلف حوالوں سے بعض دفعہ حضرت مصلح موعود کا بیان کرتا رہتا ہوں اور چند مہینے پہلے مَیں نے تقریباً ایک مکمل خطبہ بھی اس پر دیا تھا یا کچھ تھوڑا سا خلاصہ بیان کر کے دیا تھا۔ آج پھر اُسی طرز پر میں خلاصۃً یا بعض باتیں اُسی طرح بیان کروں گا۔

وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۷﴾ (الذاریات: 57) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے یا اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے، کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لئے انسان کی پیدائش ہوئی، لیکن بڑے بڑے فلاسفر اور تعلیم یافتہ طبقہ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا انسان کی پیدائش کے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے اور کیا خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے وہ کام لے لیا ہے جسے مدّنظر رکھتے ہوئے اُس نے انسان کو پیدا کیا تھا؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعہ میں انسان اس مقصد کو پورا کر رہا ہے؟ اور کیا واقعہ میں اس نے اس قسم کی ترقی کی ہے کہ خدا تعالیٰ کا عبد کہلانے کا مستحق ہو۔ تو فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’نہیں‘‘۔ اس لئے وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان کو کوئی پیدا کرنے والا ہے تو کیوں اُسے اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اس سوال کا جواب دینے کے لئے آتے ہیں اور نیکی کی ایسی رَو چلاتے ہیں جسے دیکھ کر دشمن کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ مقصد پورا ہو گیا ہے۔ اس دن کی آمد کے لئے اگر ہزار دن بھی انتظار کرنا پڑے تو گراں نہیں گزرتا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انبیاء کے زمانے کو لیلۃ القدر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ۬ۙخَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ﴿ؔ۴﴾ (القدر: 4)۔ یعنی وہ ایک رات ہزار مہینوں سے اچھی ہے۔ گویا ایک صدی کے انسان بھی اس ایک رات کے لئے قربان کر دئیے جائیں تو یہ قربانی کم ہو گی بمقابلہ اُس نعمت کے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوتی ہے۔ فرمایا: اس سال مَیں نے کچھ خطبات عملی اصلاح کے لئے دئیے تھے۔ یہ 1936ء کی بات ہے۔ آپ نے اس عرصے میں کچھ خطبات دئیے تھے۔ اُس میں توجہ دلائی تھی کہ وہ عظیم الشان مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی اُسے پورا کرنے کے لئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے اور یہ صرف اُس زمانے کی بات نہیں تھی، یہ ایک جاری سلسلہ ہے اور آج بھی اور آئندہ بھی اس کی ضرورت ہے اور ہوتی رہے گی۔ فرمایا کہ اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکّہ جما لیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکّہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر مخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہو سکتا۔ پھر آپ نے مثال دی ہے کہ موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے۔ یعنی ایک مثال مَیں سچائی کی دیتا ہوں۔ اس کو اگر ہم عملی رنگ میں دیکھیں تو کس طرح ہے؟ فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے۔ دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سچائی بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ اُس زمانے میں بھی حضرت مصلح موعود کو فکر ہوتا تھا اور اب اس زمانے میں بھی مجھے بعض غیروں کے خط آتے ہیں جن میں احمدیوں کا سچائی کا جو پراسیس ہوتا ہے اُس کا ذکر کیا ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ جماعت کی تعریف کرتے ہیں اور جن احمدیوں سے اُنہیں دھوکہ اور جھوٹ کا واسطہ پڑا ہو تو پھر وہ یہی لکھتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی نیک نامی کی وجہ سے اعتبار کر لیا لیکن آپ کے فلاں فلاں فردِ جماعت نے ہمیں اس طرح دھوکہ دیا ہے۔

پس ایسا دھوکہ دینے والے جو بظاہر تو اپنے ذاتی معاملات میں یہ کہتے ہیں کہ ہماری اپنی dealing ہے، بزنس ہے، کاروبار ہے جو ہم کر رہے ہیں، جماعت کا اس سے کیا واسطہ؟ لیکن آخر کار وہ جماعت پر بھی حرف لانے کا مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ جماعت کو بدنام کرنے کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 29 نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

دنیا کا امیر ترین شخص

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2022