• 18 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 8)

اپنے جائزے لیں
از ارشادات خطبات مسرور جلد 8 حصہ دوم
قسط 8

ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہیں،
استغفار کرتے رہیں، درُود پڑھتے رہیں

ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہیں، استغفار کرتے رہیں، درُود پڑھتے رہیں تاکہ اپنے اندر انقلاب پیدا کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم پھیلانے اور غالب کرنے میں حصہ دار بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں۔ ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا بہت سے جو اپنے دنیاوی کاموں کا حرج کرکے آتے ہیں ان کو کیا فائدہ کہ اپنا حرج بھی کیا اور دین بھی نہ ملا۔ پس ان دنوں میں اپنے وقت کا صحیح مصرف کریں، جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور جلسے کی برکات اور فیوض سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اگر اس بات کو ہر شامل ہونے والا جوان، بوڑھا، مرد، عورت سمجھ لے تواس سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہوگا بلکہ آپ دیکھیں گے کہ کس طرح آہستہ آہستہ نیک فطرت لوگ اپنی دینی و دنیاوی بقا کے لئے اسلام کی آغوش میں آنا شروع ہو جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ جس انقلاب نے آنا ہے وہ کسی تلوار یا سیاسی داوٴ پیچ سے نہیں آنا بلکہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پید اکرنے اور دعاوٴں سے آنا ہے اور یہی انقلاب ہے جو دائمی انقلاب ہے۔ یہی انقلاب ہے جو کسی ایسی سازش کا شکار نہیں ہوگا کہ کسی طرح اور کب موقع ملے کہ اسلام کو اس ملک سے نکالا جائے۔ بلکہ لوگوں کی کوشش ہوگی تو یہ کہ کس طرح اسلامی تعلیم کو ہم اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنی دنیا و عاقبت سنواریں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ176-177)

ہمیشہ جائزے لیتے رہیں کہ دنیاوی سہولتیں
دین سے دور تو نہیں لے جارہیں

اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اس ملک میں آنے کے راستے بھی ہمارے لئے کھولے۔ کہاں وہ زمانہ تھا کہ ایک شخص خلیفہ ٴوقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں آیا جب حالات مکمل طور پر مخالف تھے۔ اسلام کا نام بھی چھُپ کر لیا جاتا تھا کجا یہ کہ تبلیغ کی جائے۔ اس مجاہد احمدیت کو مالی لحاظ سے بھی جماعت کی کوئی مدد حاصل نہیں تھی۔ خود عطر بیچ بیچ کر اپنا گھر بھی چلایا اور مشن کے اخراجات بھی پورے کئے اور انتظام بھی چلایا۔ ایک شوق تھا، ایک جذبہ تھا جس کے تحت ہمارے پہلے مبلغ مکرم کرم الٰہی صاحب ظفرؓ نے کام کیا۔ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے، آخر کار اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق وہ زمانہ بھی آیا جب ان پابندیوں کا خاتمہ ہوا۔ افراد جماعت کو بھی یہاں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور مبلغین کے آنے میں بھی آسانیاں پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک خوبصورت مسجد بنانے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ یہاں آنے والے اگر اپنے جائزے لیں تو ان کے دل گواہی دیں گے کہ باوجود یورپ کے باقی ملکوں کی نسبت معاشی لحاظ سے کم ترقی یافتہ ہونے کے، سپین میں آکر آباد ہونے والوں کی اکثریت کے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ پاکستان کی نسبت ذہنی سکون یہاں میسر ہے۔ گو یورپ کے یہ ملک بعض اخلاقی برائیوں میں بڑھے ہوئے ہیں۔ بعض والدین کو اپنے بچوں کی دینی حالت کے بگڑنے کی یقیناً فکر ہے اوریہ جائز فکر ہے۔ لیکن اس لحاظ سے مَیں بات نہیں کررہا۔ مَیں یہاں مذہبی آزادی کے لحاظ سے ذہنی سکون کی بات کررہا ہوں۔ گوکہ اب یہاں یورپ کے بعض ملکوں میں بھی اس کے برعکس رجحان شروع ہوچکا ہے۔ اکثر ملکوں میں تو ابھی تک ایک لحاظ سے یہ مذہبی آزادی قائم ہے لیکن مذہبی پابندیوں کی ابتداء ہوچکی ہے۔ کہیں میناروں پر پابندی لگانے کی وجہ سے، کہیں حجاب پر پابندی لگانے کی وجہ سے۔ بہرحال فی الحال عمومی طور پریہاں آزادی ہے۔ کسی حکومت یا قانون کی تلوار یہ کہہ کر نہیں لٹک رہی کہ تم اذان دو گے تو قید کر دئے جاوٴ گے یا کلمہ پڑھ کر توحید کا اعلان کرو گے تو جیل بھیج دئے جاوٴ گے۔ پس اس آزادی، سکون اور معاشی بہتری پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور شکرگزاری کرتے ہوئے جلدازجلد اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جائیں۔ یہ دنیاوی ترقیات دین کو بھلانے والی نہ بن جائیں۔ دین سے دور لے جانے والی نہ بن جائیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ ہم پر ہماری کسی خوبی اور صلاحیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اصل میں تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ جن لوگوں کو دنیا والے کشکول پکڑانے کی سوچتے ہیں اللہ تعالیٰ خود اپنی جناب سے ان کے لئے اور ان میں سے اکثر غریبوں کے لئے بھی اور کم کشائش والے لوگوں کے لئے بھی وسعتیں عطا فرماتا ہے۔ پس ہر وقت یہ خیال دل میں رہنا چاہئے کہ جو خدا ہمیں اس طرح نوازنے پر قدرت رکھتا ہے وہ ہم سے ہمارے کسی ایسے عمل سے جو اسے پسند نہ ہو ہمارے لئے ناراضگی کا اظہار بھی کرسکتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی ایسی ہے جس کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کرسکتا۔ پس ہمیشہ جائزے لیتے رہیں۔ یہ دنیا وی سہولتیں اور آسائشیں اور کشائش جو ہمیں میسر ہیں وہ کہیں دین سے اور خدا سے دُور لے جانے کا ذریعہ تو نہیں بن رہیں؟ اگر بن رہی ہیں تو یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بہت خوف کا مقام ہے۔ پس دنیاوی لحاظ سے بھی ترقی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم ہمیں دین میں ترقی کی طرف لے جانے والا ہونا چاہئے۔ جب یہ سوچ ہوگی اور اس کے مطابق ہمارے عمل ہوں گے تو ہمارا اٹھنے والا ہر قدم ہمارے اپنے اندر بھی ایک انقلاب پیدا کررہا ہوگا اور ہمارے ماحول میں بھی انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ وہ انقلاب پید اکرنے کا ذریعہ بنے گا جس کا گزشتہ تقریباً آٹھ سو سال سے اس ملک کے لئے خاص طور پر ہم انتظار کررہے ہیں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ157-158)

سپین میں قدم قدم پر احمدیوں کے لئے ایسے نشانات ہیں
جو انہیں اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ کرتے ہیں

سپین میں رہنے والے احمدیوں کو تو جیسا کہ مَیں نے کہا قدم قدم پر ایسے نشانات ملتے ہیں جو انہیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور توجہ دلاتے ہوئے اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ہر بڑی سڑک پر شہروں کے نام اور یہ شہر اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ جگہیں بھی کبھی اسلامی شان و شوکت کے گہوارے ہوا کرتی تھیں۔ لیکن مسلمانوں کو دولت کی ہوس، آپس کی سیاست اور دھوکے بازیوں، لہو و لعب اور عیاشیوں میں پڑنے کی وجہ سے قصہٴ پارینہ بننا پڑا اور وہ پرانے قصے بن گئے اور ایک مسلمان ملک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ آج اس کھوئی ہوئی عزت و عظمت کو جماعت احمدیہ نے قائم کرنا ہے ان شاء اللہ۔ اس کے لئے آنحضرتﷺ کے حقیقی غلام بن کر دکھانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے جو محبت، پیار اور بھائی چارے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب اپنے مقصد پیدائش کو سمجھیں گے۔ ہر احمدی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) کہ یعنی مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور جب اس مقصد کے حصول کے لئے عبادت کے معیار طے ہونے شروع ہو جائیں گے تو پاک تبدیلیاں بھی پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی۔ اپنی روحانی زندگی کے بھی سامان ہوں گے اور دوسرے کی روحانی زندگی کے لئے بھی کوشش ہورہی ہوگی۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ162)

اپنے اندر کے جائزے لینے پر
ضمیر کی آواز بےچین کردیتی ہے

اگر ہر ایک اپنے اندرکے جائزے لے تو خود ضمیر کی آواز اسے بے چین کر دیتی ہے اور ایک احمدی کو جسے خدا تعالیٰ نے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور اس کی کسی نیکی کی وجہ سے جماعت کے ساتھ جڑے رہنے پر قائم رکھا ہوا ہے، اس کا ضمیر تو بار بار اسے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو یاد رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ احمدی بڑی بے چینی سے، بعض لوگ بڑی سنجیدگی سے اور نیک نیتی سے اور بے چینی سے اپنے خطوں میں بھی اس کا اظہار کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ملاقاتوں کے دوران زبانی بھی کہتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم نمازوں کے قائم کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے مقصدِ پیدائش کی حصول کی طرف توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ181)

بیرون ملک آنے والے اگرجائزے لیں
تو وہ یہی جواب پائیں گے کہ خداتعالیٰ نے ان پر فضل کیا ہے

یہ ہمارا خدا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے بندے کو نوازتا ہے۔ اسے دنیا بھی ملتی ہے اور اس کو نیکیوں کے اجر بھی ملتے ہیں۔ اگر ایسے مہربان اور قدر دان خدا کو چھوڑ کر بندہ اور طرف جائے تو ایسے شخص کو بیوقوف اور بدقسمت کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

پس آپ لوگ جو اس ملک میں آکر آباد ہوئے ہیں، اپنے جائزے لیں۔ آپ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس پر نظر رکھیں تو آپ میں سے اکثر یہی جواب پائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا ہے۔ اپنے وطن سے بے وطنی کوئی بِلاوجہ اختیار نہیں کرتا۔ یا تو ظالموں کی طرف سے زبردستی نکالا جاتا ہے یا ظلموں سے تنگ آ کر خود انسان نکلتا ہے، یا معاش کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اگر احمدی اپنے جائزے لیں تو صاف نظر آئے گا کہ جو صورتیں میں نے بیان کی ہیں ان میں سے اگر پہلی صورت مکمل طور پر نہیں تو دوسری دو صورتیں بہر حال ہیں۔ ظلموں سے تنگ آکر نکلنا بھی جیسا کہ میں نے کہا ذہنی سکون اور معاش کی تلاش کی وجہ سے ہی ہے اور ان ملکوں کی حکومتوں نے آپ کے حالات کو حقیقی سمجھ کر آپ لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ سب فضل ہم پر احمدیت کی وجہ سے کئے ہیں۔ پس یہ پھر اس طرف توجہ دلانے والی چیز ہے کہ احمدیت کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جو ایک مثال ہو تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری ہو گی۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ189)

جائزے لیں کہ حضرت مسیح موعودؑ سے کئے گئے عہد
کے مطابق زندگی گزر رہی ہے

حضرت مسیح موعودؑ نے کن کن باتوں پر ہم سے عہد لیا ہے۔ ان کو میں مختصر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ ہر ایک اپنے جائزے خود لے کہ کیا اس کی زندگی اس کے مطابق گزر رہی ہے یا گزارنے کی کوشش ہے۔ اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھ کر کہ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا (بنی اسرائیل: 35) اور اپنے عہد کو پورا کرو، ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہو گی، ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے کہ اس عارضی زندگی کے بعد ایک اخروی اور ہمیشہ کی زندگی کا دور شروع ہونا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے کیا عہد لیا ہے؟ اس کو مَیں مختصر بیان کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ سچے دل سے ہر قسم کے شرک سے دور رہنے کا عہد کرو اور شرک کے بارے میں آپ نے بڑی وضاحت سے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ شرک صرف ظاہری بتوں اور پتھروں کا شرک نہیں ہے بلکہ ایک مخفی شرک بھی ہوتا ہے۔ اپنے کاموں کی خاطر اپنی نمازوں کو قربان کرنا یہ بھی شرک ہے۔ نمازوں سے بے توجہگی دوہرا گناہ ہے۔ ایک تو اپنے مقصدِ پیدائش سے دوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ دنیا کو اُس پر مقدم کرنا ہے۔ گویا کہ رازق خدا تعالیٰ نہیں بلکہ آپ کی کوششیں ہیں اور آپ کے کاروبار یا ملازمتیں ہیں۔ بعض دفعہ اولاد بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مقابلے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ایک شرک کی قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کا انکار کر کے اولاد کی بات ماننا بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے۔ بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی یاد کو یہ چیزیں بھلا دیتی ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو احمدیت سے دور ہٹے ہیں تو اولاد کی وجہ سے۔ اولاد کے بے جا لاڈ پیار نے اور اولاد کی آزادی نے اولاد کو جب دین سے ہٹایا تو خود ماں باپ بھی دین سے ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (المنافقون: 10) کہ اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور اولادیں اللہ کے ذکرسے غافل نہ کر دیں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ190)

ہر وقت جائزے لیں کہ میں ہر قسم کے جھوٹ، زنا، بدنظر ی سے بچ رہاہوں کہ نہیں

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ، زنا، بدنظری، لڑائی جھگڑا، ظلم، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے۔ ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بچ رہا ہوں؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے۔ زنا ہے، بدنظری وغیرہ ہے۔ یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہو گئی ہیں۔ گھروں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر بعض بدقسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تویہ جوزنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولادیں برباد ہو گئی ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں۔ بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اورانٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ191)

ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے رشتےحضرت مسیح موعودؑ سے
تعلق میں حائل تو نہیں ہورہے

شرائطِ بیعت کی آخری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھ سے اطاعت اور تعلق سب دنیاوی رشتوں سے زیادہ ہو۔

(ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ160 جدید ایڈیشن)

پس ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے رشتے، ہماری عزیز داریاں، ہمارے تعلقات، ہماری قرابت داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق میں حائل تو نہیں ہو رہے اور اس کے معیار کا علم ہمیں اس وقت ہو گا جب ہم آپ کی تعلیم (جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے) کا جوٴا مکمل طور پر اپنے گلے میں ڈالنے والے ہوں گے یا اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں گے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ195)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقیقی متبع بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمارے سے یہ توقعات ہیں۔ اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی متبع بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بوڑھوں، عورتوں، نوجوانوں کو اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ والدین کو اپنے گھروں کی نگرانی کرنی ہو گی۔ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پیار سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں۔ یہ ماوٴں کا بھی کام ہے، باپوں کا بھی کام ہے۔ ایک احمدی مسلمان اور ایک غیر احمدی مسلمان کے فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا فرق ہے۔ اگر ہمارے اندر کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا۔ علاوہ ایک نظام کے ہمارے عمل میں بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی نظام اور تمام ذیلی تنظیموں کو اپنے دائرے میں فعال تربیتی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر صرف دولت کمانے اور دنیاوی آسائشوں اور چمک دمک کے حصول میں زندگیاں گزار دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکر گزاری ہے۔ جن میں سے سب سے بڑی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کوقبول کرنا ہے، ان کی بیعت میں آنا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لیتا رہے۔ آمین

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ196-197)

بزرگوں کی روایات
ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ کرتی ہیں

اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آنحضرتﷺ کی بعثتِ ثانیہ جو آپﷺ کے عاشقِ صادق کی صورت میں ہوئی، جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود اور اُمّتی نبی بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے اپنے ساتھ پاک دل اور سعید فطرتوں کو جوڑ کر وہ جماعت قائم فرمائی جو نیکیوں میں بڑھتے چلے گئے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے چلے گئے اور اوّلین کے ساتھ مل گئے۔ آج مَیں اس دَورِ آخرین کے ان چند اولین کی روایات پیش کروں گا جو براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت سے فیض یاب ہوئے، آپ کی صحبت میں رہے، آپ کو دیکھااور آپ کے حسن و احسان سے فیض پایا۔ ان روایات میں جہاں ان حق کے متلاشیوں کی اپنی سعید فطرت کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفقتوں، محبتوں، قوتِ قدسی اور مقام کا بھی پتہ چلتا ہے جس سے انسان ایک منفرد قسم کا روحانی حظ اٹھاتا ہے۔ ان بزرگوں کے لئے دعائیں بھی نکلتی ہیں جنہوں نے اپنی روایات ہم تک پہنچا کر جہاں ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلائی، وہاں اس عاشقِ صادق کے حسن اور اپنی جماعت کے بارہ میں جو دلی تمنا تھی اس کی تصویر کشی کی ہوتی ہے۔

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ364)

اگر جائزے لیں تو چالیس سال کی عمر کے بھی ایسے نکل آئیں گے جو اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کرتے

پس نمازوں کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا یہ بھی ہے کہ ایسی نمازیں ادا ہوں جو ہر قسم کے اخلاق کو مزید صیقل کرنے والی ہوں۔ بیویوں کے بھی حقوق ادا ہو رہے ہوں اور بچوں کے بھی حقوق ادا ہو رہے ہوں۔ چالیس سال کی عمر جیسا کہ میں نے کہا بڑی پختگی کی عمر ہے لیکن اس عمر میں اگر ہم جائزے لیں تو بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں گے جو اپنی نمازوں کی بھی حفاظت نہیں کرتے۔ اپنے فرائض کو ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ تو پھر اپنے بچوں سے کس طرح امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ نیکیوں پر قائم ہوں۔ یا ان کی کیا ضمانت ہے کہ وہ احمدیت کے ساتھ جڑے رہیں گے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ510)

انصار اللہ کی عمر پختہ عمر ہے اس میں عارضی اور جذباتی کوششوں کے بجائے مستقل جائزےلینے کی ضرورت ہے

ہم اپنے شہداء کا ذکر سنتے ہیں۔ ایک چیز خصوصیت سے ان میں نظر آتی ہے۔ عبادت اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ۔ جس طبقہ کے لوگ بھی تھے ان کی اس طرف توجہ تھی اور اپنے بچوں سے انتہائی پیار کا تعلق اور ان کو دین سے جوڑے رکھنا اور بچوں پر بھی ان کی باتوں کا ایک نیک اثر تھا۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جو انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ پس میں پھر انصار اللہ سے کہتا ہوں کہ اگر وہ انصار اللہ کا حق ادا کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی نہ صرف خود حفاظت کریں بلکہ اس کا حق اپنی نسلوں میں عبادت کرنے والے پیدا کر کے ادا کریں۔ پھر آپ نے اپنی شرائط بیعت میں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ فرائض نمازوں کے ساتھ تہجد اور نوافل کی طرف بھی توجہ دو۔ پینسٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ کر تو شاید ایک تعداد تہجد پڑھتی بھی ہو اور ان کو خیال بھی آ جاتا ہو۔ لیکن انصار کی جو ابتدائی عمر ہے اس میں بھی تہجد کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یقیناً ایک تعداد ہے جو تہجد کا التزام کرنے والی ہے۔ بلکہ خدام میں بھی ہیں۔ لیکن انصار میں یہ تعداد اکثریت میں ہونی چاہئے۔ انصار اللہ کا نام جو چالیس سال سے اوپر کی مردوں کی تنظیم کو دیا گیا ہے اور جو پیغام نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کے اعلان میں ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر غیر معمولی قربانی پیش کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور دین کے قیام کے لئے ہم اپنی ہر کوشش اور ہر صلاحیت اور ہر ذریعہ بروئے کار لانے کے لئے تیار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں فرمایا ہے کہ دین کا پھیلاوٴ تو دعاوٴں کے ذریعے سے ہونا ہے۔ تبلیغ کے ساتھ ساتھ دعاوٴں نے ایک بہت بڑا کردار ادا کرنا ہے۔ پس دعاوٴں کی طرف ایک خاص جوش کے ساتھ ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انصار اللہ کی عمر ایک تو پختہ عمر ہے اس میں عارضی اور جذباتی کوششوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے مستقل جائزے لیتے ہوئے اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کا ادا کرنا ہم پر فرض ہے۔ دعاوٴں کا حق، نمازوں اور نوافل کے ذریعے ہی صحیح طور پر ادا ہو سکتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ511)

ہم میں اور دوسروں میں فرق تبھی ہوگا جب ہم اپنے نفس کے جائزے لے رہے ہوں

اصل تعلیم وہی ہے جو اس غلامِ صادق کے ذریعے پھیل رہی ہے جو زمانے کا حکم عدل ہے اور یہی تعلیم ہے جو حق اور باطل اور صحیح اور غلط اور خالص دینی اور بدعات کی ملونی میں فرق کر کے دکھلانے والی ہے۔ پس مسیح موعود کا کام بطور حَکم عَدل کے فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا کی حقیقی تشریح کرنا ہے۔ پس ہمیں اس ماحول سے نکل کر جو آج کل دنیا داری کا ماحول ہے اس حقیقی ماحول کو اپنانے کی ضرورت ہے، اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے پیش فرمایا ہے۔ ورنہ ہم میں اور دوسروں میں تو کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق تبھی واضح ہو گا جب ہماری تبلیغ کے ساتھ، جب ہمارے پروگراموں کے ساتھ ہمارے اپنے اندر بھی وہی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہوں گی۔ ہم اپنے نفس کے بھی جائزے لے رہے ہوں گے۔ جو تعلیم دے رہے ہوں گے، جس تعلیم کو سمجھ رہے ہوں گے اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہوں گے۔ اس کے نمونے بھی دکھا رہے ہوں گے۔ پس اسلام کی جس خوبصورت تصویر کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے اورجو فرق کر کے دکھایا ہے جو اصل میں وہ تصویر ہے جو آنحضرتﷺ نے پیش فرمائی ہے۔ اسی کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ اسی کی آج ہمیں ضرورت ہے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ530)

تمام مبلغین اور دنیا کے مختلف جامعات میں پڑھنے والے ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہیں

اب مَیں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش رکھتا ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ کس قسم کے واقفینِ زندگی ہونے چاہئیں۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کر کے دکھانے والے ہوں۔ علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ682)

پس یہاں مَیں تمام مبلغین اور جو دنیا کے مختلف جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں، ان پڑھنے والوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہیں کہ ہمارے علم اور عمل میں مطابقت ہے یا نہیں۔ وعظ تو ہم کر رہے ہوں کہ نمازوں میں سستی گناہ ہے اور خود نمازوں میں سستی ہو۔ خاص طور پر طلباء جامعہ احمدیہ جو ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے۔ بعض عملی میدان میں آئے ہوئے بھی سستی کر جاتے ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ دوسروں کو تو ہم یہ کہہ رہے ہوں کہ بد رسومات جو مختلف جگہوں پر ہوتی ہیں، مثلاً شادی بیاہ میں ہوتی ہیں یہ بدعات ہیں اور خلیفہ وقت اور نظامِ جماعت ان کی اجازت نہیں دیتا۔ دین ان کی اجازت نہیں دیتا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سختی سے ان کو ردّ فرمایا ہے۔ اللہ اور رسول ان کو ردّ کرتے ہیں۔ لیکن اپنے بچوں یا اپنے عزیزوں کی شادیوں میں ان باتوں کا خیال نہ رہے یا ایسی شادیوں میں شامل ہو جائیں جن میں یہ بد رسومات کی جا رہی ہوں اور وہاں بیٹھے رہیں اور نہ ان کو سمجھائیں اور نہ اٹھ کر آئیں تو یہ چیزیں غلط ہیں۔ پس اگر دین کا علم سیکھا ہے تو اس لئے کہ عالم با عمل بنیں اور بننے کی کوشش کریں۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ واقفِ زندگی ایسے ہونے چاہئیں گی کہ ’’نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ682)

اب ہر واقفِ زندگی جائزہ لے جو میدانِ عمل میں ہیں یا مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں اور وہ بھی جو جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جب ہمیں جائزے لینے کی یہ عادت پڑے تو پھر ایک تبدیلی بھی پیدا ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس سال کینیڈا کے جامعہ احمدیہ سے بھی واقفینِ نو کی اور مربیان کی، مبلغین کی پہلی کھیپ نکل رہی ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ باقی جگہوں سے بھی واقفینِ نو میں سے نکلنی شروع ہو جائے گی بلکہ پاکستان میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ واقفینِ نو مربیان بن بھی چکے ہوں۔ تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ عاجزی اور انکساری ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہئے لیکن وقار قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔ پھر آپ نے واقفینِ زندگی کوہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ682)

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ542-543)

جب ہم قربانیوں کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے

شہداء کی قربانیاں ہمارے ایمانوں میں بھی اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خوشخبری کو سن کر کہ وہ خوشخبریاں پارہے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کے بارہ میں خوشخبریاں پا رہے ہیں، اس بارہ میں بہت سے خطوط خط لکھنے والے شہداء کے ورثاء مجھے لکھتے ہیں کہ ہم خواب میں فلاں شہید کو ملے، اپنے شہید کو ملے، بھائی کو ملے، باپ کو ملے، بیٹے کو ملے۔ اُس نے کہا کہ مَیں بہت خوش ہوں۔ یہاں عجیب نرالا سلوک مجھ سے ہو رہا ہے۔ تم لوگ تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب ہم اُن سے اُن کی خوشی کے اظہار سن کر اس یقین پر پختہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو خاص رزق دے رہا ہے، اُن کے لئے خوشی کے سامان بہم پہنچا رہا ہے تو اس بات پر بھی ہمارا یقین بڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیچھے رہ جانے والوں کی کامیابیوں کے بارہ میں جو انہیں خوشخبریاں دے رہا ہے وہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور سچ ثابت ہوں گی اور ہو رہی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر ایک فیصلہ کر کے چلتی ہے تو پھر تدریجی نتائج پیدا کرتے ہوئے وہ اپنے عروج پر پہنچتی ہے۔ بندے کو بظاہر پتہ نہیں چل رہا ہوتا لیکن جب آخری نتیجہ نکلتا ہے تو پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کتنے سچے ہیں۔ وہ کتنے سچے وعدوں والا خدا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے زیادہ سے زیادہ اور جلدی فیض پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر چمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی قربانیاں کرنے والوں کے نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں، اُن کی نیکیوں کا ذکر کرتے ہیں، مختلف خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت جماعت کو جو کامیابیاں ملنی ہیں، جن کی خبریں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے دیتا ہے، ہم بھی اُن کامیابیوں کا حصہ بن جائیں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ574-575)

حضرت مسیح موعودؓسے فتوحات کا وعدہ ان شاء اللہ یقیناً پورا ہوگا لیکن ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے

ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ قربانیوں کو ضائع نہیں کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مَیں تجھے فتوحات دوں گا، یہ تو ہو گا اور ان شاء اللہ تعالیٰ یقیناً ہو گا لیکن ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ (حم السجدہ: 9)۔ یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور اس کے مطابق نیک عمل بھی کئے اُن کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ پس ایمان لا کر پھر نیک اعمال بھی ضروری ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی، خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جا سکتی ہے تو وہ یہی اعمالِ صالحہ ہیں‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ14)

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ676)

ہر ایک جائزے لے کہ گزرنے والے سال میں ہم نے کتنی برائیوں کو دور کیا

آپس کے تعلقات ہیں۔ آپس کے جو تعلقات ایک احمدی کے دوسرے احمدی کے ساتھ ہونے چاہئیں، ایک رشتے کے دوسرے رشتے کے ساتھ ہونے چاہئیں اگر ان حقوق کا پاس نہیں تو پھر ان جگہوں کی برکات سے انسان فیض نہیں پا سکتا۔ نہ دعاوٴں سے کوئی فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اعمالِ صالحہ میں تمام حقوق بھی آتے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے جائزے لے اور دیکھے کہ گزرنے والے سال میں ہم نے اپنے اندر سے کتنی برائیوں کو دور کیا ہے؟ ہمارے قربانی کرنے والوں نے ہماری اپنی طبیعتوں میں، ہمارے اپنے رویّوں میں کیا انقلاب پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً انفرادی طور پر بھی یہ سال جس کا آغاز اور اختتام بھی جمعہ کو ہوا اور ہو رہا ہے ہمارے لئے برکتوں کا سال ہے۔ لیکن اگر ہم دنیا داری میں بڑھتے رہے، اسی میں پڑے رہے اور ایک دوسرے کے حقوق غصب کرتے رہے۔ میاں بیوی، نند، بھابھی، ساس، کاروباری شراکت دار ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے، ایک دوسرے کے ساتھ طعن و تشنیع کرتے رہے، اپنے رویوں میں، اپنی بول چال میں غلط الفاظ استعمال کرتے رہے تو پھر ہم برکتیں تو نہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہیں۔ ہمارے جو قربانی کرنے والے ہیں ان کی زبانی یاد کا دعویٰ کرنے والے تو ہم بنے ہیں، اُن کو اپنے لئے نمونہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہم نہیں بنے۔ اگر ہمارے اپنے رویے نہیں بدلے تو ہم نے ان قربانی کرنے والوں کی تسکین کا سامان نہیں کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر دشمنانِ احمدیت کی طرف سے ہمارے لئے تکلیفیں پہنچانے کی انتہا کی گئی تو ہم اپنے ایمان کو اپنے اعمال سے سجاتے، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے۔ ہمارے خلاف اگر آگ بھڑکائی گئی تو ہمیں اس آگ میں سے اس سونے کی طرح نکلنا چاہئے تھا جو آگ میں سے کندن بن کر نکلتا ہے۔ ہمارے آنسو اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوں نکلتے جو ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی انقلاب پیدا کر دیتے۔ پس ہم میں سے جن کا یہ گزرنے والا سال اس طرح گزرا اور انہوں نے اپنے ایمان کی اپنے اعمال سے آبیاری کی وہ خوش قسمت ہیں۔ آئندہ آنے والے سال میں پہلے سے بڑھ کر اس تعلق کو مضبوط کرنے کی خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور جو لوگ اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دے سکے وہ آج رات کی دعاوٴں میں، اس وقت جمعہ کی دعاوٴں میں بھی اس پہلو کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نیک اعمال بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور آئندہ سال میں اپنی اصلاح کے پہلو کو ہر وقت سامنے رکھیں اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کریں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ اللہ کرے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے عملوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ آج رات جب خاص طور پر مغربی دنیا میں اکثریت شرابوں اور ناچ گانوں اور شور شرابوں میں مصروف ہو گی اس وقت ہم اپنے جذبات کو خدا تعالیٰ کے حضور اس عہد کے ساتھ بہائیں کہ آئندہ سال اور ہمیشہ ہمارے جذبات اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اُس کے حضور بہتے چلے جائیں گے۔ ہم اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اپنی ہر حالت اور ہر عمل کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ڈھالنے والے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے۔ آئندہ سال جو آ رہا ہے وہ سب احمدیوں کے لئے، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بے انتہا مبارک سال ہو۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ678-679)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

دنیا کا امیر ترین شخص

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2022