• 27 اپریل, 2024

’’مخالفتِ نفس بھی ایک عبادت ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

جىسا کہ قارئىن کرام کے علم مىں ہے کہ روزنامہ الفضل آن لائن مىں ہر منگل کے روز ’’کتاب تعلىم کى تىارى‘‘ کا کالم دىا جاتا ہے۔ اسى سلسلے مىں ملفوظات حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے مطالعہ کے دوران نفس کے حوالے سے ىہ اقتباس نظروں سے گزرا، حضرت اقدس ؑ فرماتے ہىں:
’’مخالفت ِنفس بھى اىک عبادت ہے۔ انسان سوىا ہواہوتا ہے۔ جى چاہتا ہے کہ اور سولے مگر وہ مخالفتِ نفس کرکے مسجد جاتا ہے تو اس مخالفت کا بھى اىک ثواب ہے‘‘

 (ملفوظات جلد سوم صفحہ416 کمپىوٹرائزڈ اىڈىشن)

اللہ تعالىٰ نے بنى نوع انسان کو زمىن کے مختلف حصوں مىں پىدا کىا اور ان کى نسلىں، زبان، معاشرت، آب و ہوا اور پانى تک کو مختلف بناىا اور اسى طرح ان کے قلب و ذہن اور سوچوں کے زاوىوں کو بھى جدا جدا رکھا۔ اسى لئے ان کا کسى اىک شخصىت ىا اللہ تعالىٰ کى طرف سے بھىجے گئے فرستادہ پر اىمان لانا مشکل تھا، جو ان پر اىمان لائے انہوں نے اُس دور کے رسوم و رواج سے ہٹ کر اور سوچ کے زاوىوں سے بالکل اُلٹ جا کر ان کو قبول کىا۔ دوسرے لفظوں مىں ىہ بھى کہا جاسکتا ہے کہ اىمان ہے ہى نام مخالفت نفس کا۔ انبىاء علىھم السلام پر وہى لوگ اىمان لاتے رہے ہىں جنہوں نے اپنے جذبات اور نفسانى خواہشات کے برعکس ان کو مانا اور ىہى انبىاء کى بہت بڑى کامىابى گنى جاتى ہے کہ وہ اپنے ساتھ اىسے مومنىن کى جماعت کو لے کر چلتے ہىں ىا اپنى قوت قدسىہ کى وجہ سے ان کے رہنما ہوتے ہىں جواٹھتے بىٹھتے انبىاء کى تقلىد کرتے نظر آتے ہىں ورنہ سىاسى نمائندے تو اپنى دکان چمکانے کى خاطر عوام کالانعام کى خواہشات اور جذبات کو وقتى طور پر پورا کرنے کے لئے ان کے پىچھے لگ جاتے ہىں۔ پس روحانى اور سىاسى لىڈر مىں ىہى فرق ہوتا ہے کہ سىاسى لىڈر عوام کى باتوں کو مانتے ہىں۔ جبکہ اللہ تعالىٰ کى طرف سے بھىجے گئے فرستادے ىا روحانى رہنما اللہ کے فرمان اور احکامات کے مطابق اپنى زندگى گزارنے کى لوگوں کو تلقىن کرتے ہىں۔ جومختلف طبقات سے آنے والے لوگوں کى متلوّن سوچوں کى وجہ سے قدرے مشکل کام ہے مگرمخالفتِ نفس کى تعلىم ملنے کى وجہ سے بالآخر کامىابى انہى کے قدم چومتى ہے۔ جب ان کے ماننے والے اپنى تمام دنىوى خواہشات کو چھوڑ کر اپنى جان، مال،وقت اور عزت کى قربانى دىنے کے لئے بھى تىار ہوتے ہىں۔ىہى وہ لوگ ہوتے ہىں جن کو نبى بڑے پُرحکمت طرىق پر وحشىوں سے انسان بناتےاور انسانوں سے باخدا اور پھر خدا نما بنا دىتے ہىں۔ ىہ قربانى دراصل نفس کى قربانى کى عکاسى کرتى ہے۔ وہ اىمان کے اُس اعلىٰ درجہ پر فائز ہوکر مومن بننے کا اعزاز حاصل کر لىتے ہىں اور خود خدا اور اس کے رسول کى بات کو فوقىت دىتے ہىں۔

 اللہ تعالىٰ کى تمام عبادات کے حقوق جب مومن ادا کرتا ہے تو دراصل وہ بعض اوقات مخالفتِ نفس کر رہا ہوتا ہے۔ جىسا کہ حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے اوپر بىان کردہ ارشاد مىں فرماىا کہ انسان جب سوتا ہے تو وہ اور سونا چاہتا ہے مگر فون پر لگے الارم کى آواز پر اٹھ کر نوافل ادا کرتا ہے ىا اذان کى آواز سن کر نماز فجر کے لئے مسجد چل کر جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا جى ابھى سونے کو اور کر رہا ہوتا ہے تو ىہ مخالفتِ نفس ہے جواپنے آرام کى قربانى دے کر مومن اللہ کے حضور حاضر ہوتا ہے مخالفتِ نفس کى ىہ سارى کاوش اىک الگ سے عبادت کا رنگ رکھتى ہے۔ گوىا فجر کى عبادت کا اىک ثواب ہے اور دوسرا اس کى خاطر سردىوں مىں گرم بستر چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھنے کا الگ ثواب ہے۔

ہم بارہا اپنى زندگىوں مىں دىکھتے ہىں کہ رات کو باوجود خواہش اور مصمم ارادہ باندھنے کے فجر کى نماز پر اٹھنے کو دل نہىں کرتا اس کىفىت مىں اپنے آپ پر جبر کرکے نماز کے لئے اٹھنا اىک مجاہدہ ہے جس کا الگ ثواب ہے۔ ہمارے اىک بزرگ اکثر بىان کىا کرتے تھے کہ مجھ پر بھى اىسى کىفىت پىدا ہوجاتى ہے تو مىں تو بعض اوقات بلند آواز سے اور بعض دفعہ دھىمى آواز سے اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ ’’او اقبالىا! اُٹھ۔ سارى عمر قبر وِچ سون واسطے پئى اے۔ اوتھے اپنى نىند پورى کر لئىں‘‘ ىعنى اے اقبال! اُٹھ اور نماز پڑھ۔ سارى عمر قبر مىں سونا ہى ہے وہاں نىند پورى کرلىنا اور اپنے آپ کو جھٹکا دے کر اُٹھ جاتا ہوں نماز باجماعت پڑھتا ہوں۔ تلاوتِ قرآن کرتا ہوں۔ جس سے مجھے نئى توانائى ملتى ہے۔

خاکسار کى عمر کے دوست احباب بخوبى جانتے ہىں کہ پرانے وقتوں کے معاشرے مىں جب کسان اور اسکے اہل خانہ پو پھٹتے ہى اُٹھ جاتےتھے۔ ہل لے کر کھىتوں کو چلے جاتے تھے۔ نماز کى ادائىگى بھى وہىں ہوتى تھى اور تسبىحات کرتے کرتے وہ زمىن مىں ہل بھى چلا تے جاتے تھے تو ان کے جسم مىں چُستى آتى تھى اس کے ساتھ ساتھ نماز اور ذکر الہٰى کى برکت سے ان کى فصلىں ہرى بھرى اور زىادہ مقدار مىں اناج پىدا کرتى تھىں اور اپنے نفس کے حقوق کے ساتھ ساتھ اللہ کے حقوق تو ادا ہو ہى رہے تھے بنى نوع انسان بالخصوص اپنى بىوى بچوں کے بھى حقوق بروقت ادا ہوتے تھے۔ تو ىہى وہ مقصد تھا جو ’’کتاب ِتعلىم کى تىارى‘‘ مىں حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى نظروں مىں متصور تھا۔ اس سے انسان ترقى پاتا ہے۔ مخالفت خواہ وجودِ نفس سے باہر غىروں ىا اپنوں کى طرف سے ہو ىا اند ر سے وجود نفس کى مخالفت ہو۔ ہر دو پر مخالفت کا وہ قانون لاگو پائے گا جس کے حوالہ سے حضرت مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں۔
’’دىکھو! کاشتکار ى مىں سب چىزوں ہى سے کام لىا جاتا ہے۔ پانى ہے، بىج ہے، مگر پھر بھى اس مىں کھاد ڈالنے کى ضرورت پڑتى ہے جو سخت ناپاک ہوتى ہے پس اسى طرح ہمارے سلسلے کے لئے بھى گندى مخالفت کھاد کا کام دىتى ہے‘‘

(ملفوظات جلد دہم صفحہ370۔ اىڈىشن1982ء)

ہم بالعموم دىکھتے ہىں کہ جو اپنے نفس کى پىروى کرتے ہىں وہ آخر ناکام رہتے ہىں۔ حضرت مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں:

؎ نفس کو مارو کہ اس جىسا کوئى دشمن نہىں
چپکے چپکے کرتا ہے پىدا ىہ سامانِ دِمار

مخالفتِ نفس سے انسان کے اندر کا ضمىر بھى اُجاگر ہوکر وجود کو سبق دے رہا ہوتا ہے۔ اور ىہ بہت ضرورى ہے جىسا کہ حضرت مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں:
’’انسان مىں اىک ملکہ احتظاظ (لذت ہونا۔ ناقل) کا ہوتا ہے کہ وہ سُرُود (نغمہ۔ ناقل) سے حظ اُٹھاتا ہے اور اس کے نفس کو دھوکا لگتا ہے کہ مىں اس مضمون سے سرور پا رہا ہوں مگر دراصل نفس کو صرف حظ درکار ہوتا ہے‘‘

 (ملفوظات جلد دہم صفحہ177۔ اىڈىشن 1984ء)

اس مضمون کو حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے کىا ہى اچھے انداز مىں ىو ں بھى سمجھاىا ہے۔ آپؑ فرماتے ہىں :
’’اگر خدا چاہتا تو دوسرى امتوں کى طرح اس امت مىں کوئى قىدنہ رکھتا مگر اس نے قىدىں بھلائى کے واسطے رکھى ہىں مىرے نزدىک اصل ىہى ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے بارى تعالٰى مىں عرض کرتا ہے کہ اس مہىنہ (رمضان۔ ناقل) مىں تو مجھے محروم نہ رکھ تو خدا اسے محروم نہىں رکھتا اور اىسى حالت مىں اگر انسان ماہ رمضان مىں بىمار ہوجاوے تو ىہ بىمارى اس کے حق مىں رحمت ہوتى ہے۔ کىونکہ ہر اىک عمل کا مدار نىت پر ہے۔ مومن کو چاہىے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالىٰ کى راہ مىں دلاور ثابت کردے۔ جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل مىں ىہ نىت درد دل سے تھى کہ کاش !مىں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گرىاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھىں گے بشرطىکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خدا تعالىٰ ہر گز اسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔

ىہ اىک بارىک امر ہے کہ اگر کسى شخص پر (اپنے نفس کى کسل کى وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خىال مىں گمان کرتا ہے کہ مىں بىمار ہوں اور مىرى صحت اىسى ہے کہ اگر اىک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق حال ہوں گے اور ىہ ہوگا اور وہ ہوگا تو اىسا آدمى جو خدا کى نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگىا اور اس کا منتظر مىں تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بىمارى کے نہىں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہىں ہے۔ اس دنىا مىں بہت لوگ بہانہ جُو ہىں اور وہ خىال کرتے ہىں کہ ہم جىسے اہل دنىا کو دھوکا دے لىتے ہىں وىسے ہى خدا کو فرىب دىتے ہىں۔ بہانہ جُو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہىں اور تکلّفات شامل کرکے ان وسائل کو صحىح گردانتے ہىں۔ لىکن خدا کے نزدىک وہ صحىح نہىں ہے۔ تکلّفات کا باب بہت وسىع ہے۔ اگر انسان خدا چاہے تو اس کى رُو سے سارى عمر بىٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل ہى نہ رکھے مگر خدا اس کى نىت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص سے رکھتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ اس کے دل مىں درد ہے اور خدا اسے ثواب سے بھى زىادہ بھى دىتا ہے کىونکہ درد دل اىک قابل قدر شے ہے۔ حىلہ جُو انسان تاوىلوں پر تکىہ کرتے ہىں لىکن خدا کے نزدىک ىہ تکىہ کوئى شے نہىں۔ جب مىں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو اىک دفعہ اىک طائفہ انبىاء کا مجھے ملا (کشف مىں)۔ اور انہوں نے کہا تو نے کىوں اپنے نفس کو اس قدر مشقّت مىں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل۔ اسى طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقّت مىں ڈالتا ہے تووہ خود ماں باپ کى طرح رحم کرکے اسے کہتا ہے تو کىوں مشقّت مىں پڑا ہوا ہے۔

ىہ لوگ ہىں کہ تکلّف سے اپنے آپ کو مشقّت سے محروم رکھتے ہىں۔ اس لئے خدا ان کو دوسرى مشقتوں مىں ڈالتا ہے اور نکالتا نہىں اور دوسرے جو خود مشقّت مىں پڑتے ہىں ان کو وہ آپ نکالتا ہے۔ انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ اىسا بنے کہ خدا اس کے نفس پر شفقت کرے کىونکہ انسان کى شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا کى شفقت جنّت ہے۔ ابراہىم علىہ السلام کے قصہ پر غور کرو کہ جو آگ مىں گرنا چاہتے ہىں تو ان کو (خدا) آگ سے بچاتا ہے۔ اور جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہىں وہ آگ مىں ڈالے جاتے ہىں۔ ىہ سِلم ہے اور ىہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کى راہ مىں پىش آوے اس سے انکار نہ کرے اگر آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم اپنى عصمت کى فکر مىں خود لگتے تو وَ اللّٰہُ ىَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ (المائدۃ: 68) کى آىت نازل نہ ہوتى۔ حفاظت الٰہى کاىہى سِر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ426 تا 428، کمپىوٹرائزڈ 2016ء)

اسى مضمون کو ىوں بىان فرماىا:
’’آدمى کو بىعت کرکے صرف ىہى نہ ماننا چاہىے کہ ىہ سلسلہ حق ہےاور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتى ہےآج کل بلا کا زمانہ ہےطاعون ہر طرف پھىل رہى ہے صرف ماننے سے اللہ تعالٰى خوش نہىں ہوتا جب تک اچھے عمل نہ ہوں۔ کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ مىں داخل ہوئے ہو تو نىک بنو، متقى بنو، ہر اىک بدى سے بچو۔ ىہ وقت دعاؤں سے گذارو۔ رات اور دن تضرّع مىں لگے رہو۔ جب ابتلاء کا وقت ہوتا ہے تو خدا کا غضب بھى بھڑکا ہوا ہوتا ہے۔ اىسے وقت مىں دعا، تضرّع، صدقہ خىرات کرو۔ زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں مىں دعائىں کرو۔ مثل مشہور ہے منتىں کرتا ہوا کوئى نہىں مرتا۔ نرا ماننا انسان کے کام نہىں آتا۔ اگر انسان مان کر پھر اُسے پسِ پُشت ڈال دے تو اسے فائدہ نہىں ہوتا پھر اس کے بعد ىہ شکاىت کرنى کہ بىعت سے فائدہ نہىں ہوا بے سُود ہے۔خداتعالٰى صرف قول سے راضى نہىں ہوتا۔

قرآن شرىف مىں اللہ تعالىٰ نے اىمان کے ساتھ عملِ صالح بھى رکھا ہے۔ عملِ صالح اسے کہتے ہىں جس مىں اىک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔ ىاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمىشہ چور پڑا کرتے ہىں۔ وہ کىا ہىں۔ رىاکارى (کہ جب انسان دکھاوے کے لئے اىک عمل کرتا ہے) عُجب (کہ وہ عمل کرکے اپنے نفس مىں خوش ہوتا ہے) اور قسم قسم کى بدکارىاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہىں۔ ان سے اعمال باطل ہوجاتے ہىں۔ عملِ صالح وہ ہے جس مىں ظلم، عُجب، رىا، تکبر اور حقوق انسانى کے تلف کرنے کا خىال تک نہ ہو جىسے آخرت مىں عملِ صالح سے بچتا ہے وىسے ہى دنىا مىں بھى بچتا ہے اگر اىک آدمى بھى گھر بھر مىں عمل ِ صالحہ والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک تم مىں عملِ صالحہ نہ ہو۔ صرف ماننا فائدہ نہىں کرتا۔ اىک طبىب نسخہ لکھ کر دىتا ہے تو اس سے ىہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس مىں لکھا ہے وہ لے کر پىوے اگر وہ ان دواؤں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کىا فائدہ ہوگا۔

اب اس وقت تم نے توبہ کى ہے اب آئندہ خدا دىکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کىا۔ اب زمانہ ہے کہ خدا تقوىٰ کے ذرىعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔ بہت لوگ ہىں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہىں اور اپنے نفس کو نہىں دىکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہى ہوتے ہىں ورنہ اللہ تعالىٰ رحىم اور کرىم ہے۔

بعض آدمى اىسے ہىں کہ ان کو گناہ کى خبر ہوتى ہے اور بعض اىسے کہ ان کو گناہ کى خبر بھى نہىں ہوتى۔ اسى لئے اللہ تعالىٰ نے ہمىشہ کے لئے استغفار کا التزام کراىا ہے کہ انسان ہر اىک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا۔ خواہ اسے علم ہو ىا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم علىہ السلام کى دعا پڑھنى چاہىے۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِىۡنَ ﴿۲۴﴾ (الاعراف: 24) ىہ دعا اوّل ہى قبول ہوچکى ہے۔ غفلت سے زندگى بسر مت کرو جو شخص غفلت سے زندگى نہىں گزارتا ہرگز امىد نہىں کہ وہ کسى فوق الطاقت بَلا مىں مبتلا ہو۔ کوئى بلا بغىر اذن کے نہىں آتى جىسے مجھے ىہ دعا الہام ہوئى ہے۔ رَبِّ کُلُّ شَىْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِىْ وَانْصُرْنِىْ وَارْحَمْنِىْ۔‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ439-440، اىڈىشن2016)

اور اپنے آپ کو بطور نمونہ پىش کرتے ہوئے فرماتے ہىں:
’’مىں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالىٰ نے مىرے نفس کو اىسا مسلمان بناىا ہے کہ اگر کوئى شخص اىک سال بھر مىرے سامنے بىٹھ کر مىرے نفس کو گندى سے گندى گالى دىتا رہے۔ آخر وہى شرمندہ ہوگااور اسے اقرار کرنا پڑے گاکہ وہ مىرے پاؤں جگہ سے نہ اکھاڑ نہ سکا‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ411 کمپىوٹرائزڈ اىڈىشن)

پس ہم سب کو مخالفتِ نفس کرکے اس اہم عبادت سے محروم نہىں رہنا چاہىے بلکہ نفس کى خواہشات کے برعکس اللہ کے آگے جھک اللہ کا قرب پانے کى کوشش کرنى چاہىے۔ اللہ تعالىٰ ہم سب کو اس کى توفىق عطا فرمائے۔ آمىن

(ابو سعىد)

پچھلا پڑھیں

ہیومینیٹی فرسٹ جرمنی کی ڈونیشن سے بلغاریہ میں ایک پراجیکٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2021