• 20 جولائی, 2025

حضرت سید دلاور شاہ بخاریؓ

حضرت سید دلاور شاہ بخاری رضی اللہ عنہ۔ لاہور

حضرت سىد دلاور شاہ بخارى رضى اللہ عنہ ولد سىد حسىن شاہ صاحب بخارى کوچہ چابک سواراں لاہور کے رہنے والے تھے۔ آپ 1887ء مىں پىدا ہوئے اور 26؍مئى 1904ء کو بىعت کر کے سلسلہ عالىہ احمدىہ مىں داخل ہوئے۔ (اخبار نور قادىان 17؍جولائى 1942ء صفحہ7) محترم شىخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل آپ کے حوالے سے تارىخ احمدىت لاہور مىں لکھتے ہىں:
’’جب مىں حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى بىعت کر کے واپس لاہور پہنچا تو گھر مىں کسى شخص نے مىرى مخالفت نہىں کى اور اس کى وجہ ىہ تھى کہ حضرت مولوى محمد غوث صاحب جو مىرے نانا تھے وہ حضرت اقدس کى شخصىت سے بے حد متاثر تھے، مجھ سے حضور کى کتابىں پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ حضرت اقدس کى بعض تحرىرىں سن کر ان کے آنسو نکل آتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ىہ کوئى معمولى انسان نہىں۔ نانا صاحب نے حضور کى بىعت بھى کر لى تھى۔ آپ چىنىاں والى مسجد کے متولى تھے۔‘‘ محترم شىخ عبدالقادر صاحب مزىد لکھتے ہىں: ’’محترم مولوى محب الرحمٰن صاحب فرماتے ہىں حضرت شاہ صاحب نہاىت ہى مخلص، نىک اور فنا فى الاحمدىت تھے۔ جوانى سے لے کر بڑھاپے تک تبلىغ، بحث مباحثہ اور خدمت جماعت مىں مصروف رہے۔ ابتدا مىں احمدىہ ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ بھى رہے۔ غىر احمدىوں اور غىر مسلموں کے جلسوں مىں احمدىت پر اعتراضات کے جواب کے لئے سىنہ سپر رہتے تھے۔ نہاىت قابل لىکچرار تھے۔ جماعت کے سىکرٹرى تبلىغ تھے اور خطبات جمعہ نہاىت قابلىت سے دىتے تھے۔‘‘

(تارىخ احمدىت لاہور صفحہ 345 تا 347)

 آپ لاہور جماعت کے فعّال ممبران مىں سے تھے۔ حضرت چودھرى سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ لاہور جماعت کے امىر بنائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہىں: ’’…. حضرت صاحبؓ نے جب جماعت سے مشورہ طلب فرماىا کہ لاہور کى جماعت مىں امىر کسے مقرر کىا جائے تو حسب توقع جماعت کى رائے دو بزرگوں قرىشى محمد حسىن صاحبؓ اور سىد دلاور شاہ صاحب کے حق مىں تھى ….‘‘

(تحدىث نعمت صفحہ 212)

آپ لاہور سے جارى ہونے والے اىک اخبار دى مسلم آؤٹ لُک (The Muslim Outlook) کے اىڈىٹر بھى رہے۔ اُسى دور مىں راجپال اىک آرىہ سماجى شخص نے ’’رنگىلا رسول‘‘ نامى اىک نہاىت ہى دل آزار کتاب شائع کى جس کى وجہ سے راجپال کو زىر دفعہ153۔ الف تعزىرات ہند چھ ماہ قىد با مشقت اور اىک ہزار روپے جرمانے کى سزا ہوئى، اس پر راجپال نے پنجاب ہائى کورٹ مىں اپىل دائر کى جس پر جج کنور دلىپ سنگھ نے اسے برى کردىا۔ حضرت سىد دلاور شاہ بخارى صاحبؓ نے 14؍جون 1927ء کے شمارے مىں اس فىصلے کے خلاف ’’مستعفى ہو جاؤ‘‘ کے عنوان سے اىک ادارىہ لکھا جس پر پنجاب ہائى کورٹ کى طرف سے توہىن عدالت کا نوٹس پہنچ گىا۔ حضرت سىد دلاور شاہ بخارى صاحبؓ ہائى کورٹ کا نوٹس لے کر حضرت خلىفۃ المسىح الثانى رضى اللہ عنہ کى خدمت مىں حاضر ہوئے اور عرض کىا کہ بعض لوگوں کا مشورہ ہے کہ ادارىہ لکھنے پر معذرت کر لى جائے مگر حضورؓ نے فرماىا:
’’ہمارا فرض ہونا چاہىے کہ صوبہ کى عدالت کا مناسب احترام کرىں لىکن جبکہ اىک مضمون آپ نے دىانتدارى سے لکھا ہے اور اس مىں صرف ان خىالات کى ترجمانى ہے جو اِس وقت ہر مسلمان کے دل مىں اٹھ رہے ہىں تو اَب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائى پر مضبوطى سے قائم رہىں اور کىا ہو سکتا ہے۔ ىہ رسول کرىم ﷺ کى محبت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کى عزت کے معاملہ مىں کسى کے معارض بىان پر بغىر آواز اٹھائے نہىں رہ سکتے ہىں۔ مىں قانون تو جانتا نہىں، اس کے متعلق تو آپ قانون دان لوگوں سے مشورہ لىں مگر مىرى طرف سے آپ کو ىہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے جواب مىں لکھوادىں کہ اگر ہائى کورٹ کے ججوں کے نزدىک کنور دلىپ صاحب کى عزت کى حفاظت کے لئے تو قانون انگرىزى مىں کوئى دفعہ موجود ہے لىکن رسول کرىم ﷺ کى عزت کى حفاظت کے لئے کوئى دفعہ موجود نہىں تو مىں بڑى خوشى سے جىل خانہ جانے کے لىے تىار ہوں۔‘‘

(ىکم جولائى 1927ء صفحہ 3)

چنانچہ اس مقدمے کى سماعت 22؍جون 1927ء کو ہائى کورٹ کے فل بنچ نے کى جس مىں آپ نے اپنا اىمان افروز بىان دىا، اس بىان کےآغاز مىں آپ نے سورۃ توبہ کى ىہ آىت تلاوت کى: قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِىۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُ ۣ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَىۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِىۡ سَبِىۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰى ىَاۡتِىَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا ىَہۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِىۡنَ ﴿۲۴﴾

عدالت عالىہ پنجاب مىں دىا گىا آپ کا بىان اخبار الفضل 28؍جون 1927ء صفحہ 7 پر شائع شدہ ہے۔اس مقدمے کى پىروى حضرت چودھرى سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے کى، اس مقدمہ کى کاروائى کى مفصل رپورٹ اخبار الفضل ىکم جولائى 1927ء مىں شائع شدہ ہے۔ بہرحال مقدمے مىں آپ کو چھ ماہ قىد اور ساڑھے سات سو روپىہ جرمانہ ہوااور اسى طرح اخبار کے پروپرائىٹر مولوى نورالحق صاحب کو تىن ماہ قىد اور اىک ہزار روپىہ جرمانہ ہوا۔

حضرت مصلح موعود رضى اللہ عنہ نے اپنے مضمون ’’رسول کرىم ﷺ کى عزت کا تحفّظ اور ہمارا فرض‘‘ مىں فرماىا:
’’ہمارے بھائى آج جىل خانہ مىں ہىں لىکن اپنے نفس کے لئے نہىں، اپنى عزت کے لئے نہىں، کسى دنىوى غرض کے لئے نہىں ….. بلکہ صرف اس لئے کہ انہوں نے رسول کرىم ﷺ کى عزت کے لئے غىرت کا اظہار کىا۔ ان کى ىہ بہادرانہ روَش ہمىشہ کے لئے ىادگار رہے گى کہ دونوں نے سارا بوجھ اپنے ہى سر پر اُٹھانے کى کوشش کى ہے ….. اس مصىبت کى آگ مىں سے ىہ اىک اىسى خوشبو اُٹھى ہے کہ باوجود صدمہ زدہ ہونے کے دماغ معطر ہو رہا ہے۔ گورنمنٹ کے جىل خانے بے وفاؤں اور غداروں کے لئے تىار کىے گئے تھے لىکن آج انہىں دو وفادار شخص جنہوں نے دو جہاں کے سردار سے بھى وفادارى کى اور گورنمنٹ کى بھى وفادارى کى زىنت دے رہے ہىں۔‘‘

(رسول کرىمؐ کى عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض، انوار العلوم جلد9 صفحہ560۔ و الفضل ىکم جولائى 1927ء)

 قىد مىں اىک ماہ گزرنے پر آپ نے جىل سے حضور انورؓ کى خدمت مىں درج ذىل عرىضہ لکھا:
’’سپىشل کلاس والے ہر ماہ اىک چٹھى لکھنے اور اىک ملاقات کے حقدار ہوتے ہىں۔ 21؍جولائى 1927ء کو اىک ماہ ہو چکے ہىں اس لىے ملاقات کر کے پرىس کے معاملات کے متعلق مناسب ہداىات دے دى تھىں اور کاروبار کے متعلق درىافت حالات کر لىا تھا اور پہلى چٹھى حضور والا کى خدمت اقدس مىں ارسال کرتا ہوں۔ چونکہ فى الحال کوئى دوسرى چٹھى نہىں لکھ سکتا اس لىے مجبورًا حضور کى وساطت سے تمام برادران جماعت کى خدمت مىں اَلسَّلَامُ عَلَىْکُمْ عرض کرنے کے بعد درخواست دعا کرتا ہوں۔‘‘

(الفضل 9؍اگست 1927ء صفحہ 9)

بہرحال ناموس رسالتؐ کے لىے آپ کى ىہ غىرت مندانہ جرأت واقعى اىسى اىمان افروز ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے فرمان کے مطابق ’’ان کى ىہ بہادرانہ روِش ہمىشہ کے لئے ىادگار رہے گى۔‘‘

آپ نے 16؍جون 1944ء کو قرىبًا 57 سال کى عمر مىں وفات پائى اور بوجہ موصى (وصىت نمبر 6161) ہونے کے بہشتى مقبرہ قادىان مىں دفن ہوئے۔ اخبار الفضل نے خبر وفات دىتے ہوئے لکھا:
’’ىہ خبر رنج و افسوس کے ساتھ سنى جائے گى کہ حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے صحابى جناب سىد دلاور شاہ صاحب بخارى 16؍جون کى شب لاہور مىں انتقال فرما گئے۔ اگلے روز لاش قادىان لائى گئى، حضرت مولوى سىد محمد سرور شاہ صاحب نے نماز جنازہ پڑھائى اور مرحوم کو قطعہ صحابہ مىں دفن کىا گىا۔ مرحوم کا خلوص، قربانى اور جذبۂ خدمت قابل تعرىف تھا۔ صحت کے خراب ہونے کے زمانہ مىں بھى کئى سال تک اخبار سن رائز مىں کام کرتے رہے۔ نہاىت قانع اور راضى برضا الٰہى رہنے والے انسان تھے۔ ہر ابتلا کو مردانہ وار اور پختہ عزم کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ مرحوم نے فارغ البالى کا زمانہ دىکھا تھا اور اىک اچھى ملازمت قومى خدمت کى خاطر ترک کردى تھى۔ راجپال کے مقدمہ مىں آپ نے بحىثىت اىڈىٹر مسلم آؤٹ لک ہائى کورٹ کے اىک فىصلہ پر بڑى جرأت کے ساتھ رائے زنى کى، اس بنا پر آپ پر توہىن عدالت کا مقدمہ چلا اور چھ ماہ قىد کى سزا ہوئى۔ مرحوم کو تبلىغ کا بہت شوق تھا اور مذہبى مسائل پر تقرىر کا خاص ملکہ رکھتے تھے۔ اىک بے لوث خدمت کرنے والے وجود کا اٹھ جانا نہاىت افسوس ناک ہے خصوصًا جماعت لاہور کے لىے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَىۡہِ رٰجِعُوۡنَ ….‘‘ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ و َارْحَمْہٗ۔

(الفضل 23؍جون 1944ء صفحہ2)

(غلام مصباح بلوچ۔استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ہیومینیٹی فرسٹ جرمنی کی ڈونیشن سے بلغاریہ میں ایک پراجیکٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2021