• 20 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 13)

سیّدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا دورہ امریکہ 2022ء
8؍اکتوبر 2022ء بروز ہفتہ
قسط 13

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بج کر دس منٹ پر مسجد بیت الاکرام میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

• صبح حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ڈاک ملاحظہ فرمائی۔ امریکہ کے اس سفر کے دوران دنیا کے مختلف ممالک اور جماعتوں سے روزانہ بذریعہ Fax اور ای میل کے ذریعے خطوط اور رپورٹس موصول ہوتی ہیں۔ یہاں امریکہ کے احباب کی طرف سے بھی خطوط اور مختلف شعبوں کی رپورٹس حضور انور کی خدمت میں پیش ہوتی ہیں۔ حضور انور ان خطوط کو ملاحظہ فرماتے ہیں اور ہدایات سے نوازتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بج کر تیس منٹ پر مسجد بیت الاکرام میں تشریف لاکر نماز ظہروعصر جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی رہائش گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں کھانا پکانے والی ٹیم کے ممبران سے گفتگو فرمائی۔

ضیافت ٹیم کے ممبران کچن کے باہر کھڑے تھے۔ ممبران نے عرض کیا کہ ہم کل یہاں سے اپنا سارا کام سمیٹ کر میری لینڈ جا رہے ہیں۔ حضور نے فرمایا وہاں بیت الرحٰمن میں آپ کی ٹیم سارا کام سنبھالے گی۔ جس پر سب ممبران نے عرض کیا کہ ان شاء اللہ۔ ہم سب وہاں سارا کام سنبھالیں گے اور کل ہم مسجد بیت الرحمن پہنچ جائیں گے اور حضور انور کے دورہ کے آخر تک یہ ذمہ داری ادا کریں گے۔

بعد ازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

مسجد بیت الاکرام ڈیلس کی افتتاحی تقریب
سے قبل مہمانوں سے ملاقات

• پروگرام کے مطابق ساڑھے پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت الاکرام کی لابی میں تشریف لے آئے۔

• آج ’’مسجد بیت الاکرام‘‘ ڈیلس کے افتتاح کے حوالہ سے مسجد کے بیرونی احاطہ میں نصب مارکی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں میں سے بعض شخصیات کا تقریب سے قبل حضور انور کے ساتھ ملاقات کا پروگرام تھا۔ جس کا انتظام مسجد کی لابی (Lobby) میں کیا گیا تھا۔

• سب سے قبل آنریبل Micheal McCaul یو ایس کانگریس مین نے حضور انور سے ملاقات کی۔ موصوف اس وقت Ranking Member of the House Foreign Affairs Committee ہیں۔

• کانگریس مین نے حضور انور سے کہا کہ آپ کا دنیا بھر میں امن اور محبت پھیلانے کا پیغام مجھے بہت پسند ہے اور میں آپ کا شکر گزار ہوں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: کاش! یہ لوگ سمجھ جاتے۔ پیغام اچھا ہے لیکن لوگ اسے سمجھنے یا اس پر عمل کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس پیغام کو کیسے پہنچا سکتے ہیں۔

کانگریس مین McCaul نے کہا کہ پوری امریکی کانگریس آپ کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہے میں Counter-Terrorism پر اسیکیوٹر تھا۔ ہوم لینڈ سیکورٹی کا چیئرمین تھا اور Foreign Affairs کی کمیٹی کا آنے والا چیئرمین ہوں اور مجھے لوگوں سے مل کر دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کا کیا مشن ہے۔ ہم Extremism کے خلاف آپ کی جدوجہد میں آپ کی حمایت کرتے ہیں۔

کانگریس مین McCaul کے پاکستان اور افغانستان حکومت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: جب سے امریکی افواج افغانستان سے نکلی ہے۔ وہاں افراتفری ہے۔ وہاں حکومت نہیں ہے۔ وہاں انتہا پسندی ہے۔ ملک دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے قبضے میں ہے۔ اب وہ اس پیغام کو پاکستان تک لے کر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاستدان بھی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف انتہا پسندی کو استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آپ اس خطے میں امن چاہتے ہیں تو بڑی طاقتیں آگے بڑھیں۔

• اس پر کانگریس مین نے حضور انور کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ مسلمان دنیا میں انتہا پسندی کے خلاف واحد رہنما ہیں۔

• اس پر حضور انورنے فرمایا:جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے تو اسلام کی تعلیمات نے ہمیں یہ کبھی نہیں سکھایا کہ اسلام میں انتہا پسندی کی کوئی جگہ ہے۔ یہ سب مولویوں اور ملاؤں کا غلط تصور ہے۔

• کانگریس مین McCaul نے کہا کہ میں احمدیہ کاکس (caucus) کے چیئرمین کی حیثیت سے قیادت کروں گا۔ میں آپ کے لئے کانگریس کی حمایت کے لیے تمام کانگریسیوں کی حمایت کروں گا۔ جس پیغام کے لئے آپ کھڑے ہیں تاکہ ایک دن شاید آپ اپنے وطن واپس آ سکیں۔

• بعد ازاں موصوف نے کہا کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ پڑھ رہے ہیں اور ان کو کافی دلچسپ لگی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات امن و محبت اور ہم آہنگی کی تھیں۔ یہ باتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کی بنیاد ہیں۔ احمدیہ جماعت کے بانی نے بھی یہی دعوی کیا ہے کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیحی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نقش قدم پر آئے ہیں۔وہ وہی پیغام لائے ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کا تھا۔ آپ علیہ السلام کی ذات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی ہوچکی ہے۔

پھر کتاب کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا کہ اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ثابت کیا ہے کہ عیسی علیہ السلام صلیب سے بچ گئے اور پھر ہندوستان ہجرت کر گئے اور اب کافی تعداد میں ایسے مؤرخین ہیں جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے ہی ہوا ہے۔

• آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ آپ کو انسانیت کی تعلیمات کا احترام کرنا چاہیے اور اس طرح ہر ایک کا حق ادا کر کے ہم اس دنیا میں خوش اسلوبی سے رہ سکتے ہیں۔ بانی جماعت احمدیہ نے یہی کہا ہے کہ یہ میرا پیغام ہے کہ آپ کا کوئی بھی مذہب ہو لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اپنے خالق کا حق ادا کریں۔ بس یہ ہے مسیح موسی علیہ السلام کا پیغام اور یہ ہے مسیح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام۔

• کانگریس مین حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ کتاب اپنے ساتھ لائے تھے اور حضور انور سے کتاب پر دستخط کرنے کی درخواست کی۔ جس پر حضور نے کتاب پر دستخط فرمائے۔ بعدازاں موصوف نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوائی۔

تیرہ سرکردہ افراد سے اجتماعی ملاقات

• اس کے بعد پروگرام کے مطابق درج ذیل 13 سرکردہ افراد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اجتماعی طور پر ملاقات کی۔

• اس ملاقات میں کانگریس مین Micheal McCaul بھی شامل تھے۔

• Mr.Carl Clemenncich سٹی کونسل مین (Allen) ڈیلس۔

• Dr. Robert Hunt ڈارئکٹر آف گلوبل ٹیکنالوجی ایجوکیشن Southern Methodist University

• Mr. Paul Voekler میئر رچرڈسن ٹیکساس

(موصوف بیت الاکرام کے سنگ بنیاد کی تقریب میں بھی شامل ہوئے تھے۔)

• Mr. Sandeep Srivastaya (موصوف کانگریس کے Candidate ہیں)

• Mr. Kurt Werthmuller (موصوف یو نائیٹڈ سٹیٹس کمشن آن انٹر نیشنل ریلجئیس فریڈم کے سپر وائزری پالیسی Analyst ہیں۔)

• Mr. Brain Harvey

(چیف آف پولیس Allen ٹیکساس)

• Mr. Salman Bhojani

(پاکستانی امریکن Corporate Lawyer)

(موصوف سٹی کونسل Euless کے سابق میئر بھی رہے ہیں۔)

• Mr. Craig Hill .Dean of Perkins

School of Theology (Methodist University)

• Mr.Azfar Moin

(Dean -Department of Religious Studies)

(یونیورسٹی آف ٹیکساس)

• Dr. Basheer Ahmad مسلم سائکاٹرسٹ

• Nicole Collier سٹیٹ کانگریس وومین

• Marry McDermott

(Prominent Figure in Dallas)

مسجد بیت الاکرام کے ساتھ جو ملحقہ وسیع و عریض زمین ہے یہ خاتون اس کی مالک ہے۔ اس نے اپنی یہ زمین جماعت کو ان دنوں پارکنگ کے لیے دی ہوئی ہے۔

• اس اجتماعی ملاقات کے دوران خاتون McDermott نے کہا کہ میں نے آپ کی کمیونٹی کو اپنی ساتھ والی زمین پارکنگ کے لیے دی ہوئی ہے۔ کمیونٹی کے لئے لوگ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے لئے میرے بہت شکر گزار ہیں اور مجھ پر مہربان ہیں۔

• حضور انور نے فرمایا: اس علاقے میں آپ کی کتنی زمین ہے۔ اس پر موصوفہ نے بتایا کہ اب 400ایکڑ ہے اور میں اس پر کاشت بھی کرتی ہوں۔ یہ زمین مجھے والدہ سے ملی ہے۔ والدہ کی وصیت تھی کہ ایک سو بیس ایکڑ شہر کی انتظامیہ کو پارک وغیربنانے کے لیے دے دوں۔ چنانچہ اب باقی 400 ایکڑ میرے پاس ہے۔ اس پر احباب جماعت کے لوگ اپنی گاڑیاں پارک کر رہے ہیں۔

• ایک مہمان نے سوال کیا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف مظالم ہو رہے ہیں۔ تو آپ احمدیوں کو ثابت قدم رکھنے کے لیے انہیں کیا ہدایت، پیغام دیتے ہیں۔

• اس پر حضور انور نے فرمایا: اگر آپ پختہ، مضبوط ایمان رکھتے ہیں تو ثابت قدم رہیں گے۔ اگر آپ ابتدائی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ مکہ میں ابتدائی مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا جاتا تھا۔ لیکن وہ ان مظالم پر ثابت قدم رہے۔ بس آج بھی اسی ظلم وستم کے باوجود اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ صحیح طریق پر ہیں اور آپ حق پر ہیں تو آپ پھر ثابت قدم رہیں گے۔

• حضور انورنے فرمایا: چند لوگ ہوتے ہیں، ایک فیصد سے بھی کم جو یہ مظالم برداشت نہیں کرتے اور پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارے احمدیوں کو شہید کیا گیا، جیلوں میں ڈالا گیا، مارا پیٹا گیا، ان کی زندگی کو ان کے لئے مشکل بنا دیا گیا، لیکن وہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں اور survive کر رہے ہیں۔

• ایک مہمان Sandeep Srivastaya صاحب نے عرض کیا کہ وہ لکھنؤ انڈیا سے ہیں اور یہاں ٹیکساس ڈسٹرکٹ 3 سے کانگریس کے Candidate ہیں۔

• حضور انور نے فرمایا: آپ امید رکھتے ہیں کہ جیت جائیں گے۔

اس پر موصوف نے کہا کہ حضور کی دعائیں مل جائیں تو جیت جائیں گے۔

• چیف آف پولیس Brain Harvey کا حضور انور نے شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ آپ کی کمانڈ میں پولیس بہت تعاون کر رہی ہے۔

• ایک مہمان اظفر معین صاحب جوٹیکساس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں کہنے لگے کہ میں صوفی ازم کے بارے میں پڑھاتا ہوں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: تو آپ احمدیہ لٹریچر بھی پڑھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں۔ اس بارہ میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔

• ایک مہمان ڈاکٹر بشیر احمد نے عرض کیا کہ میں نے Intra-Faith آرگنائزیشن بنائی ہے جس میں احمدی، سنی، شیعہ اور دوسرے فرقوں کے نمائندے بھی ہیں۔

اس پر حضور انورنے فرمایا: اصل یہ ہے کہ مختلف مذاہب، کمیونٹیز آپس میں ایک دوسرے کا احترام کریں، آپس میں بات چیت کریں، امن سے رہیں اور آپس میں ہم آہنگی پیدا کریں۔

• ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اپنی تصنیف کردہ دو کتب ساتھ لائے تھے۔ ایک انہوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو پیش کی اور دوسری کتاب اپنے پاس رکھنے کے لئے حضور انور کے دستخط کروائے۔

• یہ اجتماعی ملاقات چھ بج کر کر دس منٹ تک جاری رہی۔ بعد ازاں تمام مہمانوں نے حضور انور کے ساتھ گروپ تصویر بنوائی۔

افتتاحی تقریب

• بعد ازاں چھ بج کر پندرہ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لے آئے۔ حضور انور کی آمد سے قبل تمام مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج اس تقریب میں مختلف جماعتوں اور ممالک سے آنے والے جماعتیں، عہدے دار اور نمائندوں کے علاوہ 140 غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی۔

• ان مہمانوں میں وہ تمام مہمان بھی شامل تھے جنہوں نے اس تقریب سے قبل حضور انور کے ساتھ انفرادی طور پر اور گروپ کی صورت میں ملاقات کی تھی۔

• علاوہ ازیں اس تقریب میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز، وکلاء، انجینئر، سکیورٹی کے اداروں کے نمائندے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔

• پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو سیّد لبیب جنود صاحب نے کی۔

بعد ازاں اس کا انگریزی ترجمہ مکرم ابراہیم نعیم صاحب نے پیش کیا۔

• اس کے بعد مکرم امجد محمود خان صاحب (نیشنل سیکریٹری امور خارجیہ یو ایس اے) نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

• اس کے بعد Allen شہر کی سٹی کونسل کے ممبر آنریبل Carl Clemenncich نے ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:
آج مسجد بیت الاکرام کے افتتاح کی تاریخی تقریب میں شامل ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہ مسجد ایلن شہر Hedgcoxe Road پر واقع ہے۔ میں میئر اور Allan شہر کی تمام سٹی کونسل کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اس زبردست کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔

جماعت احمدیہ کے ممبران اور باقی دوسرے احباب جو آج کے پروگرام میں شامل ہیں سب ہی بہت خوش قسمت ہیں۔ جماعت احمدیہ کے سربراہ خود اس تقریب میں شامل ہونے کے لیے امریکہ تشریف لائے ہیں۔ Allen شہر کے لیے یہ ایک خاص لمحہ ہے کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ اس شہر کی کثیرالجہتی میں بھی اضافہ ہوا ہےاور جماعت احمدیہ کا بھی اس میں خاص کردار رہا ہے۔ جہاں تقریباً دو دہائیوں سے جماعت احمدیہ موجود ہے ہماری کمیونٹی کا ایک بنیادی حصہ بن چکی ہے۔ ہم جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہتے ہیں جیسے غرباء کے لئے کھانا تقسیم کرنا، ضرورت مندوں کے لیے کپڑے جمع کرنا اور بہت سے دیگر مواقع پر اس علاقے کے ضرورت مند رہائشیوں کی مدد کرنا شامل ہے۔ان تمام خدمات کے پیچھے حضور انور کی قیادت ہے۔ اس لیے ہم بہت شکر گزار ہیں کہ آپ کے خلیفہ اس خوبصورت مسجد کے افتتاح کے لیے Allen کے شہر میں تشریف لائے ہیں۔

حضور کا امن، انصاف اور انسانیت کی خدمت کا پیغام جو آپ تمام دنیا کو دیتے ہیں اس کی اس شہر میں بھی ضرورت ہے۔ یہاں اہل شہر کی خوش قسمتی ہے کہ ایک امن پسند اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی کمیونٹی نے اس شہر کو اپنایا اور اس شہر میں یہ خوبصورت مسجد بنائی۔ میری خواہش ہے کہ میری یہ مسجد نہ صرف اس شہر کے لیے بلکہ اس تمام علاقہ کے لئے ایک امید کی کرن ثابت ہو۔

امید ہے کہ یہ مسجد اس شہر میں اور اس علاقہ میں ہمارے باہمی تعلقات مضبوط کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرے گی۔

آخر میں انہوں نے میلان شہر کی کونسل کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں اس شہر کی چابی پیش کی۔

اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ ہنٹ (Dr.Robert Hunt) جو کہ Southern Methodist Universities, Perkins School of Theology میں گلوبل تھیو لوجیکل (Global Theological) شعبہ کے ڈاکٹر ہیں، نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ انہوں نے کہا:
میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے Methodist University سے مجھے اور میرے ساتھیوں کو آج کے تاریخی پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی۔ یہ میرے لئے بہت فخر کی بات ہے کہ میں آج جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کی بیعت میں ہوں۔

حضرت مرزا مسرور احمد صاحب دو خوبیوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہیں جس میں پہلی مذہبی آزادی اور دوسری بین المذاہب مکالمہ مخاطبہ ہیں۔ ان دونوں خوبیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ مذاہب کے اندر اگر باہمی افہام و تفہیم نہ ہو اور باہمی احترام نہ ہو تو تفرقہ کی آواز کو تقویت ملتی ہے اور میں یہ بات کرتا ہوں کہ میری آدھی بالغ زندگی ایسے ممالک میں گزری ہے جہاں میں خود مذہبی اقلیت میں تھا۔

یہاں امریکہ میں جہاں ہمیں آئین میں مذہبی آزادی دی گئی ہے، ہم پر لازم ہے کہ نہ صرف مذہبی کمیونٹیز کے لیے بلکہ ہر شخص کے لئے یہ آزادی برقرار رکھیں۔ اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغربی حکومتیں جو کہ مذہب سے منسلک نہیں ہوتیں اس لیے مذہبی آزادی کو دباتی ہیں۔ مگر یہ بات کسی صورت درست نہیں۔ مذہبی آزادی کے سب سے بڑے دشمن کسی مذہب کے گمراہ پیروکار ہوتے ہیں۔ مذہبی آزادی کے سب سے بڑے دشمن وہ جنون پسند پیروکار ہوتے ہیں جو فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں۔ لہٰذا چاہیے ہم فرقہ وارانہ حالات میں پھنسے ہوئے ہوں یا کسی خاص طبقہ کی سوچ کو بدلنے کی کوشش میں ہوں، یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کو مذہبی آزادی میسر ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور اسی وجہ سے یہ جماعت مذہبی آزادی کی کاوشوں میں صفحہ اول پر رہی۔ اور یہی چیز ہے کہ جب تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور کھلی ذہنیت کے ساتھ پیش نہ آئیں ہم تفرقہ بازی پر قابو نہیں پا سکتے اور ان منفی افکار کو معاشرے سے ختم نہیں کر سکتے۔ ہمیں ایک دوسرے کی مذہبی آزادی اور وقار کا خیال کرنا پڑے گا ورنہ ہر شخص اس مذہبی آزادی کو کھودے گا۔ مجھے امید ہے کہ حضور کا یہاں تشریف لانا اور اس مسجد کا بننا ہماری حوصلہ افزائی کرے گا تاکہ ہم باہمی بات چیت کے ذریعہ ایک امن پسند اور معاشرے کے حصول کے لیے اپنی کاوشوں کو اور بھی تیز کر دیں۔

• اس کے بعد Republican کانگریس مین آنریبل Micheal McCaul نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:
آج میرے لیے یہاں آنا بڑے فخر کی بات ہے۔ دنیا کے تین مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی تاریخ جوڑتے ہیں۔ آج میں حضور سے دوسری دفعہ ملا ہوں اور یقین ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وابستہ یہ تینوں مذاہب امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس بات کا تجربہ جماعت احمدیہ سے زیادہ کس کو ہوسکتا ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جو پاکستان میں ظلم کا نشانہ بنائی جارہی ہے اور اسی وجہ سے حضور لندن میں مقیم ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹرہنٹ نے بڑی وضاحت سے بیان کیا کہ یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جس نے مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کی۔

• موصوف نے اس مسجد پر مبارک باد دی اور کہا: مجھے حضور انور کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کی تعلیم، نئے عہد نامہ اور انجیل کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جماعت احمدیہ سے امن، رحمدلی اور محبت کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میری پرورش بطور کیتھو لک ہوئی ہے۔ میں اب امریکی کانگریس میں احمدیہ کا کس (ahmadiyya Cacus) کا چیئرمین ہوں۔ اس کا کس میں دونوں پارٹیوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ممبران شامل ہیں۔ میں آج جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ کو Illinois, Texas اور Mary Land میں خوش آمدید کہتا ہوں اور خاص طور پر دنیا میں امن پھیلانے اور قومی اتحاد قائم کرنے، عدم تشدد، انتہا پسندی کے خاتمہ، اقتصادی مساوات، عالمی انسانی حقوق کے لئے اور عالمی مذہبی آزادی کے لئے آپ کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔

قیام امن کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے خطبات، تقاریر، کتب اور اپنی ذاتی ملاقات کے ذریعہ امن کو فروغ دیتے ہیں اور مسلسل انسانیت کی خدمت اور انسانی حقوق، امن اور معاشرے میں انصاف کی تعلیم دیتے ہیں۔ جبکہ جماعت احمدیہ کو بار بار مشکلات، امتیازی سلوک اور ظلم و ستم اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 28؍مئی 2010ء کو 88 احمدی مسلمانوں کو پاکستان کی دو مساجد میں درد ناک طریقے سے دہشت گردوں نے قتل کیا اور متعدد احمدی مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔ اس ظلم وستم کی جاری داستان کے باوجود حضور نے دوسروں سے انتقامی تشدد کرنے سے منع فرمایا جو کہ ایک بہت ہی عظیم عمل ہے۔

حضور نے مذہبی آزادی پر زور دیا جو اسلامی تعلیم پر مبنی ہے اور امریکہ کے قوانین میں بھی شامل ہے۔ آپ نے اس دورہ میں زائن میں پہلی مسجد کا افتتاح کیا اور آج یہاں Allen میں بھی مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں۔ حضور نے اپنے دنیا بھر کے دوروں میں انسانیت کی خدمت کے جذبہ کو فروغ دیا ہےاور اس ضمن میں مختلف ممالک کے صدران، وزیراعظم، ارکان پارلیمنٹ، مذہبی رہنماؤں سے ملے ہیں۔ آپ نے بار بار دنیا کے رہنماؤں کو سمجھایا کہ حقیقی اور دیرپا امن کے لیے انصاف ضروری ہوگا۔

حضور نے دنیا کی بہت سی مظلوم قوموں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ آپ 2008ء، 2012ء، 2013ء اور 2018ء میں امریکہ تشریف لائے۔ آپ نے 27؍جون 2012ء کو یو ایس کیپیٹل کی Raven House Building میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے منعقدہ ایک استقبالیہ میں خطاب فرمایا۔ جس میں امن کے راستے اور بین الاقوامی منصفانہ تعلقات پر بات کی۔ ہماری خواہش ہے آپ دوبارہ ہمارے دارالحکومت میں آکر خطاب فرمائیں۔ آپ نے 2020ء میں یوکے کی ایک Ministerial Conference میں خطاب فرمایا جس کا موضوع ’’آزادی مذہب‘‘ تھا۔ آپ نے 2022ء میں واشنگٹن میں ہونے والے عالمی مذہبی Summit کے لئے بھی ایک خصوصی پیغام بھیجا۔

ہم آپ کی انفرادی اور بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے انتھک کوششوں کو سرہاتے ہیں اور آپ کی شدت پسندی اور دہشت گردی کی پرزور مذمت کرنے پر سلام پیش کرتے ہیں اور آخر میں ہم آپ کی ان کاوشوں کو سراہتے ہیں جن میں آپ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کی رہنمائی فرمائی کہ تمام ظلم و جبر کے باوجود انتقام نہیں لینا۔

حضور آپ کا بہت شکریہ۔

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

• بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چھ بجکر 43منٹ پر حاضرین سے انگریزی میں خطاب فرمایا۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم کے ساتھ اپنے خطاب کا آغاز فرمایا اور مہمانوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ کہا۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میں سب سے پہلے اس موقع پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے ہماری دعوت قبول کی اور آج ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ یہ ہماری نئی مسجد جہاں مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، افتتاح کے موقع پر استقبالیہ کی تقریب ہے۔ یہ ایک خالصتاً مذہبی تقریب ہے، جس کی میزبانی ایک اسلامی کمیونٹی کررہی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ آپ میں سے زیادہ تر مسلمان نہیں ہیں یا جماعت احمدیہ مسلمہ کے ممبرز نہیں ہیں آپ کی اس تقریب میں شمولیت آپ کی سادہ دلی، مہربانی اور بردبادی کی عکاسی کرتی ہے اور اس وجہ سے میں آپ کو قابل تعریف سمجھتا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تعریف کے یہ الفاظ محض مہذب دکھنے کی کوشش نہیں بلکہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں اور درحقیقت میرا فرض ہے کہ میں آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص دوسروں کا شکر گزار نہیں وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا‘‘ بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کو بنانے کی توفیق اور وسائل عطا فرمائے ہیں۔ اس لیے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اوردر حقیقت اللہ کا شکر ادا کرنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کی مخلوق کے بھی شکر گزار ہوں۔ لہٰذا بحیثیت مسلمان آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرنا اور آپ کی عزت افزائی کرنا میرا ایک مذہبی فریضہ بھی ہے۔ اسی طرح میں ان تمام لوگوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کسی طرح بھی اس پروجیکٹ میں مدد کی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہماری جماعت کی طرف سے تعمیر کردہ تمام مساجد کے بنیادی مقاصد ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہماری مساجد ہمارے احباب کے لیے ایک جگہ جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا فریضہ ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ دوسرا ہماری مساجد ہمیں خدا کی مخلوق کی خدمت کرنے اور اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کرنے کی توفیق دیتی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ انتہائی دکھ اور افسوس کا باعث ہے کہ بہت سے لوگ اسلام کو ایک انتہا پسند اور تنگ نظر مذہب سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس شہر کے بھی بعض مقامی لوگ اس مسجد کے بننے سے خائف ہو ں یا خدشات رکھتے ہو ں۔ جیسا کہ بعض دیگر مقامات پر یہاں ہم نے مساجد تعمیر کیں ہیں وہاں کے بعض مقامی افراد نےاپنے خدشات یا تحفظات کا اظہار کیا کہ نئی مساجد اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ، ان کے قصبے یا شہر کے امن و سلامتی کو شاید نقصان پہنچائے۔ اگر کسی کو اس قسم کے خدشات لاحق ہوں تو میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایک مخلص مسلمان جو اسلام کی تعلیمات کو سمجھتا ہے اوران کی قدر کرتا ہے وہ کبھی بھی ایسا کام نہیں کر سکتا جس سے اسلام کا غلط تصور پیش ہو یا بدنامی کا باعث ہو اور نہ کبھی وہ غیر مسلموں کے لیے تکلیف یا پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ پس میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ مسجد آپ کے لئے یا دوسرے شہریوں کے لئے کبھی بھی کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی کا باعث نہیں بنے گی۔ یہ مسجد معاشرے میں انتشار کے بیج بونے کے بجائے معاشرے کی بہتری کے لیے مقناطیسی قوت کا کام کرے گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس مسجد کی اصل غرض اور مقصد ہر قسم کے مذہب اور عقیدہ کے لوگوں کے درمیان محبت اور احترام کو فروغ دینا اور دائمی امن کا ذریعہ بننا ہے اوران شاء اللّٰہ آئندہ بھی ہمیشہ یہی مقاصد رہیں گے۔ ہمارا یہ عزم صرف اسی جگہ کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی اور جب بھی ہم مسجد بنائیں گے ہمارا یہی عزم ہوگا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
مکہ میں اللہ کا مقدس گھر خانہ کعبہ تمام مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ قابل احترام اور معزز عبادت گاہ ہے۔ درحقیقت دنیا بھر کے تمام مسلمان عبادات بجا لانے اور نماز ادا کرنے کیلئے کعبہ کی طرف ہی اپنا رخ کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رکھی گئی تاکہ زندگی کے تمام شعبوں اور اقوام تک امن اور سلامتی کا عالمگیر پیغام پہنچایا جاسکے۔ مسجدیں جو کعبہ رخ بنائی گئی ہیں یہ صرف ظاہری طور پر کعبہ کی سمت کی پیروی کے لیے نہیں بنائی گئیں بلکہ ہر مسجد اور اس کے اندر عبادت کرنے والے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ خانہ کعبہ کے اغراض و مقاصد کو پورا کرے اور پوری دیانت داری سے ان کا عملی نمونہ پیش کرے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
خانہ کعبہ اور اس کے ساتھ ہر مسجد کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی گھر بن جائیں جو کھلے دل کے مالک، رحم دل اور مہربان ہیں اور اپنے قول و فعل کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کے لیے امن و صلح اور خیرسگالی کا پیغام دینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک، جو امت مسلمہ کی مقدس ترین کتاب ہے کہ سورۃ آل عمران کی آیت 98 میں خانہ کعبہ کے بارے میں فرماتا ہے کہ ‘‘اور جو اس میں داخل ہو وہ امن میں آجاتا ہے’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض خانہ کعبہ کی زیارت کرنا یا اس کے قرب و جوار میں نماز ادا کرنا انسان کو امن اور خوشحال زندگی کی ضمانت دے گا۔ درحقیقت یہ آیت بتاتی ہے کہ سچا مسلمان وہی ہے جو خانہ کعبہ کے اصل مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہمہ وقت اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دراصل یہ الفاظ اور جو اس میں داخل ہو امن میں آ جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف اور تمام بنی نوع انسان کے لیے امن و سلامتی فراہم کرنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں۔ اس طرح وہ نہ صرف خود امن پائیں گے بلکہ دوسروں کے امن کے بھی ضامن بن جائیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مخالفین اسلام کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام ایک انتہا پسند مذہب ہے جو تشدد اور جنگ و جدل کو فروغ دیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات مسلمانوں کو جنگ میں شامل ہونے یا طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دیتی۔ سوائے ان انتہائی سخت حالات کے جہاں ان کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی جائے اور کھلے عام اسلام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام کے اوائل میں صورتحال اس قدر سنگین تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنا دفاع اور عالمگیر مذہبی آزادی کو قائم کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کے لئے جنگ کی اجازت دی۔ ایسے حالات میں بھی اسلام نے جنگ کے سخت اصول و ضوابط وضع کیے۔ جن کے مطابق ظلم کا جواب بھی اسی تناسب سے ہو جس قدر ظلم ہوا ہے اور قیام امن کا معمولی سے معمولی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ اسلام کے مطابق دفاعی جنگ کا مقصد کوئی انتقام یا بدلہ لینا نہیں بلکہ اس کا واحد مقصد ظلم و بربریت اور نا انصافی کا خاتمہ ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ جو نہی ظلم و ستم بند ہو تو جو بھی جنگی اقدامات لگائے گئے ہوں انہیں فوری روک دیا گیا جائے اور عدل و انصاف سے کام لیا جائے۔ پس جب ابتدائی مسلمانوں کو جو مسلسل ظلم وستم کا شکار تھے اپنے دفاع کی اجازت دی گئی وہ صرف اور صرف مذہبی آزادی کے سنہری اصول کو قائم کرنے کے لئے تھی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 126 میں اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کے بارے میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس مقدس گھر کو برائی سے بچنے کے لیے بطور پناہ گاہ اور بنی نوع انسان کو متحد کرنے کے لئے بطور امن و سلامتی کا مسکن بنایا ہے۔ یہ آیت مسلمانوں کو معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے اور دوسروں کو امن و سلامتی فراہم کرنے کے فریضہ پر زور دیتی ہے۔

پس اگر کوئی شخص دوسروں کوامن پہنچانے کا ذریعہ بننے میں ناکام رہتا ہے تو وہ اپنے آپ کو سچا مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ قرآن پاک قیام امن کے حوالے سےسورۃ فرقان کی آیت 64 میں مسلمانوں کی اس بارے میں رہنمائی کرتا ہے کہ اگر جہلاء یا مخالفین ان کے ساتھ تمسخر کریں یا بد تمیزی سے پیش آئیں تو انہیں شدید ردعمل دکھانے کی بجائے کس قسم کا جواب دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کے وقت اپنا وقار قائم رکھیں، صبر سے کام لیں اور تم پر سلامتی ہو کہہ کر جواب دیں اور وہاں سے چلے جائیں۔ قرآن کریم تعلیم دیتا ہے کہ مسلمان جاہلیت اوراشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر امن کا پیغام دیں اور ہر قسم کے لڑائی جھگڑے سے اجتناب کریں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
مزیدبرآں اللہ تعالیٰ قرآن پاک کا آغاز اسی اعلان سے کرتا ہے کہ وہ ہر رنگ و نسل اور ہر مذہب کے ماننے والوں کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی خاص مذہب یا دور کے لوگوں کا رب نہیں بلکہ وہ ہر قوم ہر مذہب کے پیروکار اور ہر زمانے کے لوگوں کے لئے خالق ہے اور سب کی پرورش کرنے والا ہے۔ یہ الفاظ بے مثال خوبصورتی اور حکمت کے حامل ہیں جو عالمی انسانی مساوات کے اصولوں کو ایک ناقابل رد حق قرار دیتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ اللہ کے انعامات اور احسانات کسی خاص رنگ و نسل تک محدود نہیں بلکہ یہ نعمتیں بلاامتیاز ہر ایک پر نازل کی گئی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ جو مسلمانوں کا معبود ہے، جب تمام انسانوں کو چاہیے وہ عیسائی ہوں، یہودی ہوں، ہندو ہوں، سکھ ہوں یا کوئی دوسرا مذہب رکھتے ہوں یا لا دین ہوں، کا رب ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مسلمان دوسروں کے لیے تکلیف یا مصیبت کا موجب بن جائے؟ بلکہ ایک سچے مسلمان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوگی کہ وہ انسانیت کو دکھ یا تکلیف پہنچانے کے بجائے آرام و سکون پہنچائے اور لوگوں کے مابین محبت اور اخوت قائم کرے اور امن کے قیام کا ذریعہ بنے۔ پس انسانی ہمدردی کی اس روح اور اس ایمان کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ہم مساجد کی تعمیر کرتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم نہ صرف اس کی عبادت کرنا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ بلا امتیاز رنگ و نسل تمام بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ مساجد تعمیر کرنے کے علاوہ اپنے دین پر ہی عمل کرتے ہوئے ہم انتہائی پسماندہ ممالک اور علاقوں میں مختلف فلاحی منصوبے ہسپتال اور میڈیکل کلینکس بھی تعمیر کرتے ہیں اور ایسے افراد کو جو علاج کروانے کے متحمل نہیں ہو سکتے انہیں طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا کے غریب علاقوں میں اسکول کھول دیتے ہیں تاکہ وہاں کے مقامی بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ہماری یہی آرزو اور دعا ہے کہ وہ بچے جو ہمارے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے وہ تعلیم کے ذریعے غربت کی اُن زنجیروں سے آزادی حاصل کریں جن میں ان کے خاندان کئی نسلوں سے جکڑے ہوئے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ وہ اس تعلیم کے ذریعے اپنی قوموں اور لوکل کمیونٹی کی بھی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہم نے Water for Life جیسے پروگرام بھی شروع کیے ہیں۔ جس کے تحت دنیا کے دور افتادہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاتا ہے۔گو صاف پانی کے ایک گلاس کو ہم معمولی سمجھتے ہیں لیکن ترقی پذیر دنیا کے لاکھوں لوگوں کے لیے یہ زندگی بدل دینے والا اور انقلابی تجربہ ہے۔ اسی نہج پر ہم بہت سے دیگر فلاحی کام کر رہے ہیں اور ان کے ذریعے مستقل بنیادوں پرخدمت انسانیت میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر ہم قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف ٹیمیں بھی بھجواتے ہیں جو تکلیف میں مبتلا افراد کو بنیادی اشیائے ضرورت، امداد اور علاج فراہم کرتی ہیں اور یہ تمام خدمت بلاتفریق قوم، زبان، مذہب اور عقیدہ کے کی جاتی ہے۔ ہم تمام خدمت کے بدلے کوئی انعام نہیں چاہتے۔ ہمارا واحد مقصد اور دلی خواہش بنی نوع انسان کی تکلیف دور کرنا ہے۔ ہمارامطلوب و مقصود خدمت انسانیت ہے۔ کیونکہ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم نہ صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کریں بلکہ اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کریں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
مزید یہ کہ ہم اسلام کے امن و آشتی کے پیغام کو تمام دنیا تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بطور احمدی مسلمان ہم تمام دنیا میں امن اور ہم آہنگی پھیلائیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس دور میں بانیٴ جماعت احمدیہ مسلمہ کو مسیح موعود بناکر دنیا میں پیار اور محبت کا پیغام پھیلانے کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ آپ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان پیشگوئی کے مبعوث کیاگیا۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ صدیوں کی روحانی اور اخلاقی زوال کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے ایک فدائی خادم کو مسیحا بنا کر مبعوث فرمائے گا۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تلوار اٹھانے کی بجائے تمام مذہبی جنگوں کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور امن پیار اور اتحاد کا پیغام دیا۔ آپ علیہ السلام نے بتایا کہ اسلام پر اب ظاہری حملے نہیں ہو رہے اور نہ ہی ابتدائی اسلام کی طرح اس دین کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس لیے اس دور میں مذہبی جنگوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پس ڈیلس کے مقامی افراد کو اس مسجد سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایسے تمام افراد سے جن کے ذہنوں میں کوئی خوف یا خدشات ہوں کہتا ہوں کہ آپ تسلی رکھیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کی اس نئی مسجد سے صرف اور صرف اسلام کی امن، باہمی احترام اور رواداری پر مشتمل روشن تعلیمات کا ہی اظہار ہوگا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہماری یہ تعلیم نہیں کہ جن لوگوں کے عقائد ہم سے مختلف ہیں ہم ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں بلکہ ہم تو انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہماری تعلیم یہ نہیں کہ ہم مخالفین پر حملہ کریں۔ بلکہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ہم ان کا اور ان کے حقوق کا دفاع کریں۔ یقین رکھیں کہ یہ مسجد ان کے لیے محبت اور ہمدردی کا منبع ہو گی۔ اس مسجد میں داخل ہونے والے تمام افراد بہترین رنگ میں معاشرے کی خدمت کرنے اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ لوگ تمام دنیا کے سامنے اعلان کریں گے کہ حقوق اللہ اور حقوق حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے یکجا ہونا ہی حقیقی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یہ لوگ بنی نوع انسان کو تمام اعتقادات سے بالاتر ہو کر متحد رہنے کی تحریک کریں گے اور دنیا میں قیام امن کی مشترکہ مقصد پر توجہ مرکوز رکھنے کی تلقین کریں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس بلاشبہ آج دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے کیونکہ دنیا بھر کی قومی سیاسی سماجی اور معاشی بدامنی کے شدید طوفانوں کی لپیٹ میں ہیں۔ یوکرائن میں کئی مہینوں سے جنگ جاری ہے اور ہمارے اوپر بدامنی اور جنگ کے منڈلاتے ہوئے سیاہ بادل اس سے بھی زیادہ بڑی تباہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ دنیا کے پولرائزڈ ہونے کے ساتھ ساتھ مخالف سیاسی بلاکس اور اتحاد تدریجاً مضبوط ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً دنیا کا امن و سکون دن بدن برباد ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک جوہری ہتھیار چلانے کی دھمکی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اب ایسی دھمکیاں تقریبا ًروزانہ کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
دنیا کے بگڑتے حالات دیکھتے ہوئے احمدیہ مسلم جماعت کی سالوں سے ان حالات کی سنگینی کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم عالمی رہنماؤں، حکومتوں اور عوام الناس کو آگاہ کرتے ہیں کہ دنیا میں امن اور ہم آہنگی کے قیام کے وسیع تر مفاد کے لئے موجودہ اختلافات کو پس پشت ڈال دیں۔ میں نے ہمیشہ لوگوں کو امن کی حقیقی قدر و منزلت سمجھانے کی کوشش کی ہے اور انہیں تفرقہ پیدا کرنے والی اور غیرمنصفانہ پالیسیوں کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو صرف بدامنی اور مایوسیوں کو جنم دیتی ہیں۔ جو بالآخر لاوا بن کرپھٹتی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہمیں اپنے رہنماؤں اور سیاستدانوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ اس اندھی کھائی سے پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر عالمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ ایسی تباہی ہوگی کہ دنیا نے کبھی نہ دیکھی ہو۔ یقیناً اس کے تباہ کن نتائج کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بہت سے ممالک نے جدید ترین ہتھیار حاصل کر لیے ہیں جو صرف ایک وار سے ہزاروں ہزار لوگ مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سے صرف ہم ہی تکلیف اور درد میں مبتلا نہیں ہوں گے بلکہ ہمارے بچے اور آنے والی نسلیں ہمارے گناہوں کا خمیازہ بھگتیں گی اور ان کی زندگیاں تباہ ہوجائیں گی حالانکہ ان کی اس میں کوئی غلطی بھی نہ ہو گی۔ مثال کے طور پر تابکاری کے زہریلے اثرات ایسے ہیں کہ اگر کبھی ایٹم بم استعمال کیا جائے تو نسل در نسل بچے شدید جینیاتی یا جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہوں گے۔ وہ جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوں گے اور زندگی کا دورانیہ کم ہوگا۔ بلاشبہ وہ معصوم جانیں حقارت سے ہماری طرف دیکھیں گی۔ وہ افسوس کریں گے کہ کیوں ان کے آباؤ اجداد اپنی خود غرضی کی وجہ سے ایک تباہ کن جنگ میں پڑ گئے۔ جس نے ان کی آنے والی نسلوں کو جسمانی جذباتی اور معاشی طور پر کمزور کر دیا۔ میری دلی خواہش اور دنیا کے لئے پیغام ہے کہ ہمیں معاشرے میں قیام امن کے لیے انتھک محنت کرنی چاہیے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو خدانخواستہ دکھ اور مایوسی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور کرنے کے بجائے ان کو بچا سکیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قیام امن کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں بھی ظلم یا نا انصافی ہو، ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے سیاسی قائدین پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنی قوموں کو جنگ کی طرف دھکیلنے اور انتقام اور فساد کی دھمکیوں کے ذریعے اپنے حالات بگاڑنے کی بجائے سفارتکاری اور حکمت سے عالمی سطح پر پر اور عوام کے مابین بھی کشیدگی کم کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دنیا کا امن اور سلامتی ان کا اولین مقصد رہے۔ امن کی اس کوشش میں مسلمان عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ سب اپنا کردار ادا کریں۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی کسی عقیدے کو مانتے ہیں وہ بھی اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں خود کو الگ تھلگ کرنے اور ایک دوسرے سے ڈرنے کی بجائے انسانیت کی خاطر اکٹھا ہونا ہوگا۔ مذہبی لوگوں کو بھی دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کے ظہور کے لئے خدا کی مدد اور رحم طلب کرتے ہوئے اپنے اپنے طریق کے مطابق پر جوش دعا کرنی چاہیے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میں دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہوں کہ دنیا ہر قسم کی تباہی و بربادی سے محفوظ رہے۔ میری دعا ہے کہ جنگ اور قتل و غارت کے طویل سائے جو ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں، چھٹ جائیں اور امن و سلامتی کا نیلا آسمان طلوع ہو۔ خدا تعالیٰ دنیا پر رحم فرمائے۔ آخر میں دعا کرتا ہوں کہ یہاں ڈیلس میں ہماری مسجد تمام بنی نوع انسان کے لیے ہمیشہ امن و سلامتی کی آماجگاہ رہے۔ اللہ کرے کہ اس کی روحانی کرنیں اپنے ماحول کو روشن کرتی رہیں اور یہ انسانیت اور امن کے نشان کے طور پر ہمیشہ چمکتی رہیں۔ آمین

آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ان الفاظ کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب لوگوں کا یہاں اکٹھے ہونے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں کانگریس مین میئر اور شہر کی کونسل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بہت شکریہ

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب سات بج کر دس منٹ پر ختم ہوا۔

• بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

• حضور انور کے خطاب کے اختتام پر مہمانوں نے دیر تک تالیاں بجائیں۔

• بعد ازاں ڈنر کا پروگرام ہوا کھانے کے بعد بھی بعض مہمانوں کے ساتھ حضور انور نے گفتگو فرمائی۔ پروگرام کے اختتام پر آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ساڑھے آٹھ بجے مسجد بیت الا کرام میں تشریف لاکر نماز مغرب و عشا جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔

مہمانوں کے تاثرات

حضور انور کے اس خطاب نے اس تقریب میں شامل مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا بعض مہمانوں کے تاثرات پیش ہیں:
ایک مہمان Jeff William صاحب اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں امن اور انسانیت کے پیغام سے بہت خوش ہوا ہوں۔ خلیفہ چاہتے ہیں کہ ہم سب متحد ہوکر معاشرے کی بہتری کے لیے کام کریں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں مسجد بن رہی ہے۔ اگرچہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ حضور کو اس بات کا بھی ذکر کرنا پڑا کہ مسجد کسی کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اس پر بات کی۔ مجھے اس پروگرام کا حصہ بننے پر فخر ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک خوبصورت مسجد ہے یہاں ہر کوئی عبادت کے لئے آ سکتا ہے۔ یہ بھی بہت متاثر کن بات ہے کہ کس طرح امریکہ کی مختلف ریاستوں اور دیگر ممالک سے لوگ ہزاروں میل کا سفر کر کے حضور کی باتیں سننے کے لیے اور اس مسجد کے افتتاح کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔

ایک مہمان سلطان چوہدری صاحب اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں:
حضور انور نے جو تمام دنیا کے لیے امن کا پیغام دیا ہے یہ میرے خیال میں ایک بہترین پیغام ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس خوف کو دور کیا جائے کہ وہ یہاں قبضہ کرلیں گے۔ حضور نے واضح بتایا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا ہے اس لیے مسلمانوں کے لئے کوئی جنگی مہم کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ایک مہمان Cristal Ragland کہتے ہیں:
بہت خوشی ہے کہ مجھے اس تقریب میں مدعو کیا گیا ہے۔میں اس پیغام کو سراہتا ہوں کہ حضور نے تمام مذاہب کے ساتھ امن اور مل جل کر رہنے کی تلقین کی ہے۔میں بہت خوش ہوں کہ حضور یہاں آئے ہیں۔

ایک مقامی مہمان اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ میں کسی ایسے پروگرام میں شریک ہوں اور یہ تجربہ بہت ہی متاثر کن رہا۔ ہم سب کا یہی ایمان ہے کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ حضور یہاں تشریف لائے ہیں۔ ہمارا الگ الگ مذہب ہے لیکن ہم سب بنیادی طور پر ایک ہی بات کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اگر ہم اپنے حقیقی خیالات اور اپنے عقیدے کو ہر ایک سے اپنی کمیونٹی میں اور ہمسایوں سے بانٹنا شروع کر دیں تو اس کا اچھا اثر ہوگا۔ ہم پہلے ہی فیس بک پر اس پر بات کرتے ہیں اور یہ پروگرام بھی ایسا ہی ایک موقع تھا۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہر کوئی آپ کی جماعت کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔ مجھے واقعی بہت لطف آیا ہے۔ مجھے بلانے کا بہت شکریہ۔

ایک مہمان Lucas Anderson اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بہت خوشی ہوئی کہ مجھے اس تقریب پر مدعو کیا گیا ہے۔ میں آج تک مسلم کمیونٹی کے بارے میں لا علم تھا۔ میں اس پیغام سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا موقف قابل عمل اور بہت اچھا ہے۔

ایک مہمان Tom Berry اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
میں آپ کا اور خلیفہ المسیح کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا پیغام، مہمان نوازی، باہمی میل جول سب کچھ بہت خوب تھا۔ یہ بلاشبہ ایک نعمت ہے کہ عقیدے یا مذہب سے قطع نظر ایک دوسرے کی زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لئے کام ہو۔ زندگی کی قدر ہو، زندگی سے پیار ہو، انسانوں کا احترام ہو، انسانوں سے محبت ہو، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے معاشرے میں کسی ایک فرد یا ادارے کی اجارہ داری نہیں ہے۔ سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ یہی خلیفہ کا پیغام ہے۔ یہ پیغام ایسا ہے روزانہ سونے سے قبل اور صبح اٹھنے کے بعد دہرانا چاہیے اور اسی پیغام کو پھیلانا چاہیے۔ یہی پیام ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا چاہئے۔ کیونکہ جب ہم نہیں ہوں گے تو وہ اس پیغام کو جاری رکھیں گے۔ میں آپ کا پھر سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس پروگرام میں بلایا ہے۔

ایک مہمان Hector Amaya بھی پروگرام میں شریک تھے یہ Sandeep Srivastava Campaign کے فیلڈ ڈائریکٹر ہیں یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یہ بہت ہی شاندار پروگرام تھا۔ میں حضور سے مل کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کا پیغام بھی متاثر کن ہے خاص طور پر جب آپ نے عالمی امن کے بارے میں بات کی۔ یقین جانیں خلیفہ نے وہ کام کیا ہے جو اس ملک کے سیاستدانوں نے بھی نہیں کیا۔

نارتھ Presbyterian Church سے ایک مہمان Beverly McCord کہتی ہیں کہ:
میں پچھلے آٹھ نو سالوں سے مختلف تقریبات میں شرکت کر رہی ہوں۔ ہمارا چرچ احمدی خواتین کے ساتھ پروگرام رکھتا تھا۔ یہ بعض اوقات چرچ میں اکٹھے ہوتیں اور بعض اوقات کسی احمدی کے گھر میں۔ ہم کوئی ایسا موضوع چنتے تھے جس سے ہم اپنے خیالات کی نمائندگی کرسکیں، اکٹھے مل بیٹھ کر باتیں کرتے اور کھانا کھاتے۔ یہ بہت اچھے پروگرام تھے۔ اسی طرح ایک بار پھر ہم ایک دوسرے کی عبادت گاہ میں جائیں گے اور موضوع بحث مقرر کرکے اپنے اپنے مقدس صحیفہ کی روح سے اس پر بات کریں گے۔

اس پروگرام میں شرکت میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔ میں حیران ہوں کہ کس طرح اس بڑے پروگرام کو آرگنائز کرنے کے لیے ایک بڑی ٹیم نے کام کیا ہے۔ یہ آپس میں کتنی ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا کام ہے، شیڈول ہے۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بعض خواتین کارکنان اس پروگرام کے لیے گزشتہ چھ راتوں سے ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں پائیں اور ہر ایک خوش ہے بعض غمگین بھی ہورہی ہیں کہ اتنا بڑا پروگرام، اتنی محنت اور اب یہ جلدی سے ختم ہو رہا ہے۔ میں ان خواتین کی ٹیم سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔

خلیفہ کو دیکھ کر ان کی باتیں سن کر بہت سکون ملا۔ کسی کو عالمی امن کے لیے اس طرح کوشش کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ بہت اچھا احساس ہے۔ اگر لوگ اپنی خود غرضی کسی پڑوسی پر غلبہ پانے یا کسی دوسرے کے علاقے پر قبضہ کرنے یا کسی پر ظلم کرنے کے ایجنڈے کی بجائے اس پیغام کو سنیں تو دنیا میں امن ہو سکتا ہے۔ کاش ہم امن کو فروغ دینے والی مزید تقاریر سن سکیں اور لوگوں کو یاد دلاتےر ہیں کہ انہیں ہمیشہ امن کی پیروی کرنی چاہیے اور کام کرنا چاہیے۔

اس پروگرام میں Collon کاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ سے LeRoy Thompson بھی شریک تھے، یہ کہتے ہیں کہ:
یہ ایک خوبصورت پروگرام تھا اور میں نے بہت کچھ سیکھا۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی نے حقیقتاً شاندار کام کیا ہے۔ کمیونٹی سے باہر دیگر افراد کے لیے خلیفہ کا پیغام بہت ہی اچھا تھا۔ پروگرام انتہائی منظم اور اچھی طرح سے پیش کیا گیا تھا۔ میری خواہش ہے کہ میں آپ جیسی کمیونٹی سے رابطہ میں رہوں اور مزید سیکھوں۔

اس پروگرام میں Adeline Mora نامی ایک لڑکی بھی شریک تھی یہ کہتی ہے کہ:
یہ پروگرام بہت ہی شاندار تھا۔ حضور کی باتیں سن کر میں بہت خوشی محسوس کر رہی ہوں۔ جرمنی جماعت کے سربراہ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور رات کے کھانے پر ان سے بات ہوئی۔

ایک مہمان ڈاکٹر حلیم الرحمٰن صاحب کہتے ہیں کہ:
یہ بالکل ناقابل یقین تھا۔ مجھے تقریب انتظامات، مہمان نوازی، پنڈال، ماحول بہت اچھا لگا۔ مجھے اس تقریب میں مدعو کرنے کا شکریہ۔ میں اس احترام کا مستحق نہ تھا جو آپ کے لوگوں نے مجھے دیا ہے۔ یہ سب ماحول دیکھ کر آپ کی عزت افزائی سے میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ میں اس یاد کو محفوظ رکھوں گا۔ میری طرف سے ہر فرد کا تہہ دل سے شکریہ یہ ادا کریں۔ مجھے بہترین انسانوں کے مابین وقت گزارنے کا موقع ملا، حقیقی انسان جو کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔

ایک مہمان Mary McDermott بھی اس پروگرام میں شریک تھیں، انہوں نے پروگرام کے لیے پارکنگ کی جگہ فراہم کی تھی یہ اپنی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ
ایسی حیرت انگیز شام کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں پہلے کبھی بھی زمین کے اس گرد آلود کی طرح سے اتنا خوش نہ ہوئی جتنا اس پروگرام کے لئے دینے پر ہوئی ہوں۔ یہاں آکر میں بہت اعزاز محسوس کر رہی ہوں۔ آپ سب کا شکریہ۔

Laura نامی ایک خاتون بھی اس پروگرام میں شریک تھی یہ کہتی ہیں کہ:
اس پروگرام میں ہمیں شامل کرنے کا بہت شکریہ۔ یہ بہت ہی شاندار اور پیارا پروگرام تھا اور کھانا بہت ہی لذیذ تھا۔

ایک مہمان Joshua Murray کہتے ہیں کہ:
ہمیں ویسا ہی کرنا چاہیے جو کہ اخلاقی طور پر اچھا لگے اور دنیا کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پیغام وقت کی ضرورت معلوم ہوتا ہے۔ نیز باہمی اتحاد کے اس پیغام کو نہ صرف اس کاؤنٹی بلکہ ساری دنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

• Cindy Walker نامی ایک خاتون بھی اس پروگرام میں شامل تھی یہ کہتی ہیں:
میں تین سال سے ایک مبلغ سلسلہ کی ہمسائیگی میں رہتی ہوں۔ آج کی یہ تقریب میرے لئے بہت متاثر کن تھی۔ میرے لئے حیرت کی بات تھی کہ حضور نے اس موضوع پر بات کی جو میں نے کبھی سوچی بھی نہ تھی کہ ایک مسجد کے ماحول میں اس بات کا کیا اثر ہوگا۔ لیکن مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم اس کمیونٹی کے ساتھ رہ رہے ہیں جہاں اس بارہ میں کافی غور کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ (حضور انور) اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ وہ ان خدشات کا خاتمہ کریں اور میں پوری طرح یہ بات سمجھ چکی ہوں جتنا عرصہ میں یہاں رہ رہی ہوں مجھے اس جماعت سے محبت عزت اور شفقت کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

• ایک مہمان Melissa McNeely اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:
ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ آپ نے ہمیں مدعو کیا اور اس کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ ہم ایک گروپ لے کر آئے تھے کہ جماعت احمدیہ کی نئی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شامل ہوں۔ مجھے امن اور باہمی اتحاد اور دوسری کمیونٹی سے میل جول پر مشتمل پیغامات بہت اچھے لگے۔ ہم سب اس کمیونٹی میں مسجد اور آپ سب کا اور جو آپ پیغام لائے ہیں کا استقبال کرتے ہیں۔ میں حضور کی اس بات کو داد دیتی ہوں کہ ہمیں لوگوں کے خوف کو دور کرنا چاہیے جو کہ اس مسجد کی تعمیر سے کسی کے بھی دل میں پیدا ہوا ہو۔ میں پھر اس بات کا اظہار کرتی ہوں کہ آپ کے بنیادی عقائد اور پر امن پیغام اور دنیا کی تکلیفیں دور کرنے کا پیغام بہت ہی خوب ہے۔

• ایک مہمان Abby Kirkendall کہتی ہیں کہ:
میرے لئے یہ ایک موقع تھا کہ میں کوئی ایسی مذہبی جماعت دیکھوں کہ جن کی عبادت کا طریقہ تو ہم سے مختلف ہے لیکن ہماری اقدار ایک جیسی ہی ہیں۔ میرے لیے یہ ایک شاندار تجربہ تھا۔ یہ میرے لئے باعث فخر تھا کہ میں اتنے اعلی مرتبہ مذہبی رہنما کو ایسی ہی اقتدار کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی جو کہ سب کمیونٹیز کو اپنے اندر سمو لینے چاہئیں۔ یہاں آنے سے پہلے میں حضور اور آپ کی جماعت کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔ یہاں مجھے خدا کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا اور عقائد سے قطع نظر جہاں آپ کو خدا کی موجودگی کا احساس ہو وہاں آپ کو امن اور سکون ملتا ہے جو آج یہاں تمام افراد کو بلا امتیاز مذہب قوم و ملت ملا اور یہی چیز ہے جس کی ضرورت تمام کمیونٹیز کو ہے۔

ایک مہمان خاتون Nicole Collier بیان کرتی ہیں کہ میرے لئے اس تقریب میں شمولیت ایک شاندار تجربہ تھا کہ کس طرح تمام کمیونٹی یہاں ایک مسجد میں خوش آمدید کہتی ہیں اور باہمی تفریق کو ختم کرتی ہیں۔ حضور انور سے ملاقات میرے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ ویسے تو میں اپنے کام کے لحاظ سے بہت سے معززین سے ملتی رہتی ہوں لیکن حضور انورسے ملاقات میرے لئے سب سے بڑھ کر تھی۔ میں نے حضور کو صرف امن و آشتی کے بارہ میں بات کرتے سنا ہے اور انہوں نے کمیونٹی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ یہاں مسلمانوں کی موجودگی سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ مسلمان کمیونٹی امن کی روادار ہے اور یہی ہے جو ہم سب کی مشترکہ اقدار ہیں۔ اس لئے لوکل کمیونٹی کو بالکل خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ جب ہم یہاں پولیس کی میئر، کونسل کے ممبران، کانگریس کے ممبران جیسے بڑے عمائدین کو دیکھتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسجد کا ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میں آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں اور اس احساس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی جو مجھے حضور کی موجودگی سے یہاں محسوس ہو رہی ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ حضور نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکالا اور یہاں ٹیکساس تشریف لائے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس بات کی ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ہم سب مجموعی طور پر صرف امن کے خواہ ہیں، ہم نفرتوں کو دور کرتے ہوئے اور محبت کے ساتھ تمام انسانوں کا استقبال کرتے ہیں۔ یہی اصل پیغام ہے۔

ایک خاتون Danna Pressler اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:
ہم یہاں صرف دو منٹ کی مسافت پر رہتے ہیں اور ہمارے فرقہ کی مسجد بھی یہاں سے پانچ منٹ کی دوری پر ہے۔ ہمارے کچھ ہمسائے احمدی مسلمان ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ جب وہ دوسرے لوگوں کو یہاں مسجد کے بارے میں بتا رہے تھے اور ان کو یقین دہانی کروا رہے تھے کہ یہاں مسجد بن رہی ہے اور آپ لوگوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہم انتہا پسند مسلمان نہیں بلکہ پرامن مسلمان ہیں تو ایسی یقین دہانی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

Joshua Espraza نامی ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
آج کی اس افتتاحی تقریب میں مجھے اور دیگر سینئر پادری حضرات کو دعوت دی گئی ہے کہ اس تقریب میں شامل ہوں اور مزیدار کھانوں میں شریک ہوں اور لوگوں سے بات چیت کا موقع ملے۔ میں اس بات کو بہت سراہتا ہوں کہ یہاں کس طرح حکمت کے ساتھ امن، اتحاد اور انصاف کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اس بات کا احساس بھی ہوا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا تعلق مختلف تہذیب و تمدن سے ہے لیکن وہ بھی ہماری زندگیوں میں خدا کی موجودگی اور انسانوں میں باہمی ہمدردی کا پرچار کرتے ہیں اور کیونکہ ہمارے اعمال کا ایک دوسرے پر بھی اثر ہوتا ہے اس لئے اس طرح مل بیٹھنا اور کھانا کھانا اور باتیں کرنا بہت ضروری ہے۔

میں اپنی اہلیہ کو بھی بتا رہا تھا کہ یہاں میزبانی بہت عمدہ تھی۔ یہاں پہنچتے ہی ہر چیز آرگنائزڈ لگی۔ لوگوں نے میزبانی کا حق ادا کیا۔ ہمارے سوالوں کے جواب دیے۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ ہم کیوں ایسی اچھی میزبانی اور لوگوں کو دعوت نہیں دیتے۔ مجھے یہاں آج پہلی دفعہ آنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ گویا میں اپنے گھر پر ہوں۔ میرے لیے یہ بہت عمدہ تھا۔

Victoria Espraza نامی ایک خاتون کہتی ہیں کہ:
مجھے جو چیز یہاں سب سے نمایاں لگی وہ حضور کا خطاب تھا کہ کس طرح مختلف مذہبی اختلاف اور مختلف نظریات کے باوجود ہم سب آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایسی چیز ہے جس کا آج کل بین المذاہب ڈائیلاگ میں فقدان نظرآتا ہے۔ کسی کو اتنی حکمت اور دانائی کے ساتھ اس بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی کہ اپنے مذہبی عقائد میں اختلاف کے باوجود تمام بنی نوع انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں کس طرح آپس میں امن کے ساتھ ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے رہنا چاہیے۔ اور میزبانی ہر لحاظ سے بہت عمدہ تھی کہ کس طرح ہمارا خیال رکھا گیا اور سوالات کے جوابات دیے گئے جس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس سب کے لیے ہم آپ سب کے بہت شکر گزار ہیں۔

ایک خاتون Beverly McCord صاحبہ کہتی ہیں کہ:
مجھے عالمی مذہبی رہنماؤں کو سننا اچھا لگتا ہے جو کہ لوگوں کو مسلسل امن کی ضرورت و اہمیت، اختلافات کے تدارک اور محبت کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسے پیغام سن کر خوشی ہوتی ہے۔ مجھے دوسروں کے خوف زدہ ہونے کی بھی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کیونکہ یہ جماعت بہت محبت کرنے والی، احساس کرنے والی اور ہمیشہ خدمت خلق کرنے والی جماعت ہے۔ اگر کسی کو کوئی خوف ہو تب بھی اس جماعت کی خدمت خلق اور فلاحی کاموں کو دیکھ کر فوراً دور ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر Robert Hunt جو پرکنس اسکول آف تھیولوجی سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں گلوبل تھیالوجیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر ہیں انہوں نے کہا کہ:
حضور نے جنگ کے خطرات سے نبیوں کی طرح انذار کیا ہے۔ حضور نے اسلام کے صحیح معنی بیان فرمائے کہ اللہ کے احکامات کی تعمیل کر کے لوگوں سے حسن سلوک کرنا ہے یہ نہیں کہ لوگوں کو قتل کرنا ہے۔

Brian Havey جو کہ Allen علاقے میں جہاں مسجد واقع ہے پولیس کے سربراہ ہیں انہوں نے کہا کہ:
10 سال پہلے میں اس علاقے کا police chief بن گیا تھا اور اسی وقت سے احمدیہ مسلم جماعت نے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات قائم کئے۔ ہمارا گہرا تعلق ہے اور ہم آپس میں تعاون کرتے ہیں۔ احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ نے اپنے ممبران کو مقامی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے بارے میں بڑی اچھی طرح سکھایا ہے۔

Vudhi Slabisak ایک مقامی ہسپتال Spine Surgeon ہیں انہوں نے کہا کہ:
مجھے حضور انور کے پیغام کی جامعیت اور دوسروں کے لئے محبت اور امن کے پیغام سے حیرت ہوئی وہ تمام مذاہب کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

عاطف ظہیر صاحب جو John Hopkins یونیورسٹی میں ریڈیالوجسٹ کے پروفیسر ہیں انہوں نے کہا کہ:
حضور انور نے اس تقریب اور مسجد کے ذریعہ مختلف طبائع اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو جمع کیا۔ اب مجھے یقین ہے کہ یہ مسجد کمیونٹی کو بہت فائدہ دے گی اور مقامی باشندوں کو امن اور محبت کے چادر میں لپیٹے گی۔ مجھے خلیفہ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا اور انہوں نے انتہائی مفید باتیں بیان فرمائی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف مقامی مسائل بلکہ دنیاوی مسائل کا ذکر فرمایا تھا۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِ مَا مَنا بِرُوْ حِ الْقُدُسِ وَ بَا رِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِ ہٖ وَ اَمْرِہٖ

(کمپوزڈ بائی: عائشہ چوہدری۔ جرمنی)

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

آ رہی ہے اب دما دم یہ ندائے آسماں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2022