• 29 اپریل, 2024

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام (قسط 43)

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام
امنِ عالم کی ضمانت پڑوسی کے حقوق
قسط 43

سورۃالنساء کی آیت 37 کا ترجمہ ہے:
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔‘‘

قرآن کریم کی اس آیت میں پڑوسیوں کے لئے حسن سلوک کا ارشاد ہے: وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ

(النساء: 37)

اور رشتہ دارہمسایوں اور بے تعلق ہمسا یوں کے ساتھ بیٹھنے والے لوگوں (اور دوستوں )سے محبت اور پیار کا تعلق قائم کرو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’تم خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرے میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں، جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسائے ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو، جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔ ‘‘

(چشمہٴ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ208۔209)

قرآنی تعلیمات کی روشنی میں حضرت رسول کریم ﷺ نے پڑوسی، ہمسایہ، ہم دیوار، ہم جوار، ساتھی، ایک ہی چھاؤں یا سایہ میں رہنے والوں سے حسن سلوک بلکہ احسان کے طریق بتائے اور عمل کرکے دکھایا۔ دنیاوی مفاد پرست نفرت، تعصب، تفریق، مخاصمت اور عداوت کی دیواریں بلند سے بلند تر کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دلوں کو جیت کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے احسان، نیکی، لطف، بخشش، خیرخواہی، مہربانی، شفقت، خوش خلقی اور مُرَوَّت کی تعلیم دیتے ہیں۔

حسنِ سلوک کے دائروں کو وسعت دیتے ہوئے پڑوسی کی وضاحت آنحضرتﷺ یوں فرماتے ہیں: ’’پڑوسی تین طرح کے ہیں۔ ایک وہ پڑوسی جس کے تین حقوق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہوگا۔ دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے۔ (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے۔

(شعب الایمان 105/12)

پڑوسی خواہ غیر مسلم کیوں نہ ہو شریعت اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دیتی ہے۔

آپؐ کے چند ارشادات

• حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں اگر میں تحفہ دینا چاہوں تو کس کو بھیجوں۔ فریایا: ’’جس کا گھر قریب ترہے وہی تحفہ کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘

(صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب حق الجواہر فی قرب ابواب)

• ’’جبرائیل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا آ رہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں وہ اُسے وارث ہی نہ بنا دے۔‘‘

(بخاری کتاب الادب باب الوصایا بالجار)

• اے مسلمان عورتوں! کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے اگر بکری کا ایک پایہ بھی بھیج سکتی ہو تو اسے بھیجنا چاہیے۔ (اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔)

(بخاری کتاب الادب باب لا تحقرن جارۃ لجارتھا)

• اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ ساتھی اچھا ہے جو اپنے ساتھی کے لئے اچھا ہو اور پڑوسیوں میں وہ پڑوسی بہترین ہے جو اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے۔

(ترمذی ابواب البّر والصلۃ باب ماجاء فی الحق الجواھر)

• پڑوس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا واقعتاً فضلِ الٰہی پر منحصر ہے اور انسان کو سچے ایمان کا وارث بنا دیتا ہے۔

(جامع ترمذی کتاب الزھد حدیث نمبر 2227)

• جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے۔

(مسلم کتاب الایمان)

• جب کبھی تم اچھا سالن بنا ؤ تو اس کاشوربہ کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھو یعنی کسی نہ کسی پڑوسی کو بھی اس میں سے سالن بھجواؤ۔

(مسلم کتاب البر و الصلۃ)

• حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑو سی بھو کا رہے۔

(طبرا نی،ابو یعلی،مجمع الزوائد)

• حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے (لیکن) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے (یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔پھر اس شخص نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نفلی روزہ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے بلکہ اس کا صدقہ وخیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کو ئی تکلیف نہیں دیتی۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فر مایا: وہ جنت میں ہے۔

(مسند احمد)

• حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن (جھگڑنے والوں میں) سب سے پہلے دو جھگڑنے والے پڑوسی پیش ہوں گے (یعنی بندوں کے حقوق میں سے سب سے پہلا معاملہ دو پڑوسیوں کا پیش ہوگا)۔

(مسند احمد، مجمع الزوائد)

• حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول کریمﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسول، مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے نیکی کی ہے یا برائی؟ رسول کریمﷺ نے فرمایا: جب تم سنو کہ تمہارے پڑوسی کہہ رہے ہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو واقعی تم نے اچھا کام کیا ہے اور جب تم ان سے سنو کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے غلط کام کیا ہے تو واقعی تم نے غلط کام کیا ہے۔

(ابن ماجہ)

پڑوسیوں سے حسن سلوک میں آپؐ کا اسوہ حسنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی انتہائی ضرر رساں، بد خواہ بلکہ جان کے دشمن تھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہ برا بھلا کہا نہ انتقام لیا بلکہ خیر خواہی کی۔

مکی دَور میں ابولہب اور عقبہ بن ابی معیط حضورﷺ کے پڑوسی تھے جو آپ کے دونوں طرف آباد تھے اور انہوں نے شرارتوں کی انتہا کی ہوتی تھی۔یہ لوگ بیرونی مخالفت کے علاوہ گھر میں بھی ایذا پہنچانے سے باز نہ آتے تھے اور اذیت دینے کے لیے غلاظت کے ڈھیر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ڈال دیتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر نکلتے تو خود اس غلاظت کو راستے سے ہٹاتے اور صرف اتنا فرماتے: ’’اے عبدمناف کے بیٹو! یہ تم کیا کر رہے ہو کیا یہی حق ہمسائیگی ہے۔‘‘

(طبقات ابن سعد جلد1 صفحہ201 بیروت1960ء)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ میرے پاس استراحت فرما رہے تھے تو ایک پڑوس کی بکری آگئی اور جو روٹی میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پکا کر رکھی ہوئی تھی وہ اُٹھا کر چل پڑی۔ میں اُس کے پیچھے بھاگی تاکہ اس کو مار کے بھگا دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو پڑوسی کو اس کی بکری کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچاؤ جو لے گئی ہے لے جانے دو۔

(الادب مفرد ترمذی لایؤذی جارہ حدیث120)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص پڑوسی کی شکایت لے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا جا صبر کر یہ شخص دو یا تین بار حضورﷺکی خدمت میں شکایت لے کرآیا تو پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو فرمایا کہ جا اور اپنا مال و متاع باہر رکھ دے یعنی اپنے گھر کا سامان سڑک پر لے آ۔ چنانچہ اس نے اپنا مال رستے میں رکھ دیا اس پر لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو تو ان کو بتاتا رہا کہ کس وجہ سے ہو رہا ہے۔ تب لوگوں نے ہمسایہ پر لعنت ملامت کی اور کہنے لگے اللہ اِسے یوں کرے وغیرہ وغیرہ اس پر اس کا ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا تو اپنے گھر میں واپس چلا جا اب تُو مجھ سے کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھے گا۔

(ترمذی کتاب الزھد باب مثل الدنیا رابعۃ نفر)

ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں وہ توڑتے ہیں۔ میں احسان کرتا ہوں وہ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میرے نرمی اور حلم کے سلوک کا جواب وہ زیادتی اور جہالت سے دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں جیسا تم نے بیان کیا تو تم گویا ان کے منہ پر خاک ڈال رہے ہو (یعنی ان پر احسان کر کے ان کو ایسا شرمسار کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے) اور اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار فرشتہ اس وقت تک مقرر رہے گا جب تک تم اپنے حسن سلوک کے اس نمونہ پر قائم رہوگے۔

(مسند احمد جلد2 صفحہ300 مطبوعہ بیروت)

آنحضور ﷺ کے نزدیک حقِ ہمسائیگی یہ ہے کہ ہمسایہ کے لیے دکھ اور تکلیف کا موجب نہ بنیں ہمسایہ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے اس کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کی جائے۔ گھر میں کوئی عمدہ چیز پکائی جائے تو ہمسایہ کو بھی بھجوائی جائے۔ تحائف بھجوائیں جس سے آپس کی محبت بڑھتی ہے۔ ہر قسم کے شر اور اذیت سے محفوظ رہے۔ بوقتِ ضرورت قرض دیا جائے۔ ضرورت مند پڑوسی کی ضرورت پوری کی جائے۔ بیمار ہمسایہ کی تیماردار ی کی جائے۔ اس کی خوشی میں شامل ہوا جائے۔ بیماری، دکھ اور وفات میں ہر ممکن مدد کی جائے۔ ان کی طرف کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے۔ اپنی دیوار اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کی ہوا میں روک ہو۔ اپنے سالن کی خوشبو سے تکلیف نہ دیں بلکہ سالن اور پھل وغیرہ بھیج دیا کریں۔

يا رَبِّ صَلِّ على نبـيّك دائـمًا
في هذه الـدنيا وبعثٍ ثـانِ

آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی امنِ عالم کے لئے بلا تفریق مذہب و ملّت اور رنگ و نسل مخلوق خداوندی کی فلاح کا درس دیا۔ جس میں پڑوسیوں کے حقوق کا درس اور عمل بھی شامل ہے۔ آپؑ کے گھر اور اس کے پڑوسیوں کی وسعتیں زمین کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ10)

آپ علیہ السلام کے سب پیروی کرنے والے اپنے ارد گرد کے چالیس گھروں کو ہمسایہ سمجھ کر حسن سلوک کریں، ان کے سکون، اطمینان اور خیر کا خیال رکھیں تو احمدی معاشرہ سے ہر قسم کی بد سلوکی کا خاتمہ ہو جائے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (مقدمۂ دیوار میں) عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چچاؤں پر ڈالا جائے… جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے۔ آپ علیہ السلام کو عشاء کے قریب رؤیایا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پر بہت زیادہ ہے اور اِس وجہ سے وہ (مخالف رشتہ دار) تکلیف میں ہیں۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اِسی وقت آدمی بھیجا جائے جو جاکر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کردیا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍جولائی 1936ء الفضل جلد24 مؤرخہ 2؍اگست 1936ء صفحہ8)

اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں:
’’میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھا ئیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھا ئی بھوکا مر تا ہو تو دوسرا تو جہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیر ی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی او رقسم کی مشکلات میں ہے تو اتنانہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسا یہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکا ؤ تو شوربا زیادہ کرلو تا کہ اسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے، اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اس کی کچھ پر واہ نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھرکے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ215)

جب قادیان میں مینارۃ المسیح بن رہا تھا تو کچھ پڑوسیوں نے بےپردگی کے احتمال سے شکایت کردی۔ ایک ڈپٹی صاحب تحقیق کے لئے آئے۔حضرت اقدس علیہ السلام نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڈھامل بیٹھا ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کوئی موقع ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو… اس وقت بڈھامل نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوؤں میں دیا ہوا تھاور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑگیا تھا اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا۔‘‘

(خلاصہ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر148)

حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنے منظوم فارسی کلام میں اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:؎

مِرا مطلوب و مقصود و تمنّا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

یعنی میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش خدمت خلق ہے۔ یہی میرا کام، یہی میری ذمہ داری، یہی میرا فریضہ اور یہی میرا طریقہ ہے۔

دعا ہے کہ ہم بھی اپنے محبوب آقاؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حقوق العباد کما حقہ ادا کرنے والے بنیں۔ آمین اللّٰھم آمین۔

(امة الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

آ رہی ہے اب دما دم یہ ندائے آسماں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2022