• 13 مئی, 2025

مالی دا کم پانی دینا،بَھر بَھر مشکاں پاوے

روز نامہ الفضل آن لائن کے لکھاریوں، قلم کاروں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ْ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ بعض مضمون نگار تو قسط وار مضامین بھجوا رہے ہیں۔ اور بعض مختصر مگر نئے نئے عناوین پر قلم آزمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور دن بدن اخبار الفضل کے گلدستہ میں نہ صرف پھولوں کا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ پھولوں کی ورائٹی، رنگت اور خوشبو کی مہک بڑھتی جا رہی ہے۔

ادارہ الفضل آن لائن کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر مضمون اور آرٹیکل کو ایڈٹ کر کے قابلِ اشاعت بنا یا جائے۔ تاہم چند مضامین بعض سقم کی وجہ سے جلد جگہ نہیں بنا پاتے۔ ان میں بعض تو ہاتھ سے لکھے ہوتے ہیں۔ بعض ان پیج میں کمپوز ہوئے ہوتے ہیں جبکہ ہماری Requirment ورڈ مائیکرو سافٹ میں کمپوزنگ ہے اور چند مضامین ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر کوئی نام وغیرہ درج نہیں ہوتا۔ اور پھر انہی کی طرف سے مضمون کے جلد اشاعت نہ ہونے پر شکوہ ہوتا ہے۔

ہم نے جب اخبارات کے لئے لکھنا شروع کیا تو ہمارے بزرگ اساتذہ نے جو قیمتی گُر بتائے تھے۔ ان میں ایک نایاب گُر یہ تھا کہ آپ اخبار کے لئے لکھتے جائیں اور بغرض اشاعت ان کو متعلقہ اخبار تک بھجواتے رہیں۔ اور یہ ہر گز نہ سوچیں کہ یہ طبع ہوا ہے یا نہیں اور نہ ایڈیٹر کو یاد دہانی کروائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مضمون کی اشاعت سے حوصلہ بڑھتا ہے لیکن اساتذہ کا کہنا تھا کہ مسلسل لکھتے رہنے سے آپ کو لکھنے کی عادت ہو گی اور تحریر پختہ ہو گی۔ لیکن آج بعض ایسے بھی ہیں کہ ادھر مضمون الفضل کے لئے بھجوایا نہیں اُدھر پوچھنے کے لئے فون پر فون کرنے شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن ان کے مقابل پر ایسے قلمکار حضرات و خواتین بھی موجود ہیں جو کثرت سے الفضل آن لائن کے لئے آرٹیکلز لکھتے ہیں اور وہ اپنے مضامین کے حوالہ سے ادارہ کو پوچھتے تک نہیں اور نہ یاددہانی کرواتے ہیں گو ادارہ حصہ رسدی کے مطابق اپنے مستقل مضمون نگاروں کو آنر دیتا اور ان کے مضامین شائع کرتا ہے۔ ان میں ایک جناب انجنیئر محمود مجیب اصغر اور ایک مسز امۃ الباری ناصر آف امریکہ ہیں۔ ہر دو سے دو مختلف مقامات پر دو مختلف اوقات میں خاکسار نے ہی بات کی کہ بسا اوقات آپ کے درجن کے لگ بھگ مضامین ہمارے پاس بطور امانت جمع ہو جاتے ہیں لیکن وہ بعض دیگر اہم مضامین، خطبات، خطابات اور رپورٹس کی وجہ سے جگہ نہیں بنا پاتے۔ تو ہر دو نے بے ساختہ میاں محمد بخش صاحب کا یہ شعر پڑھا جس کا ایک مصرعہ خاکسار نے اس آرٹیکل کا عنوان بنایا ہے۔

مالی دا کم پانی دینا، بَھر بَھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھَل پھُل لانا، لاوے نہ لاوے

میاں محمد بخش صاحب نے اس شعر کو تو کسی اور رنگ میں کہا مگر اوپر درج الفضل سے محبت کرنے والے دو دوستوں نے کمال محبت اور عشق سے روز نامہ الفضل کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا مضمون میرے دل و دماغ میں سلجھا دیا جس کو بیان کرنا میرے پر اس لئے قرض معلوم ہوتا ہے کہ تا اللہ تعالیٰ کا اس انعامِ خداوندی پر شکر ادا ہو سکے۔ گویا کہ ان دو افراد نے الفضل سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’مالی‘‘ قرار دیا ہے اور الفضل کو پھلدار درخت، جو باغ ِ احمدیت میں سے ایک ایسا سدا بہار خوبصورت پودا ہے۔جو سایہ دار بھی ہے، جس کو پھول بھی لگتے ہیں جن کی بھینی بھینی خوشبو سے نہ صرف اس کے ارد گرد یا اس پر بسیرا کرنے والے روحانی چرند پرند فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ وہ پھول، پھلوں میں تبدیل ہو کر نہ صرف روحانی لوگوں کی سیری کا باعث بنتا ہے بلکہ مقوی غذا ہوتے ہوئے تقویت کا سامان بھی کرتا ہے۔ اور ان پھلوں کی لذت تا دیر زبان اور طبیعت پر محسوس ہوتی ہے۔

یہی کیفیت اخبار الفضل کی ہے۔ اس وقت دنیا میں تو ان گنت پھل اور میوے موجود ہیں۔ جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے۔ اب انٹرنیٹ نے اس حد تک دنیا کے پھل متعارف کروادیئے ہیں مگر فوٹوز اور وڈیوز میں ان کا ذائقہ تونہیں چکھا جا سکتا۔ سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کو اگر چینلز پر دیکھیں تو فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کے ذکر میں فوراً رنگ برنگے پھلوں کی شکلیں ٹی وی پر نمودار ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بار بار کہنے کو دل کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جن درختوں یا پھلوں کا ذکر قرآن کریم میں کیا ہے ان میں سے کھجور، زیتون اور انار کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ کھجور کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں۔
’’میں نے مخالف لوگوں کی کتابوں میں ایک حدیث پڑھی ہے جس نے مجھے بڑے غور کا موقع دیا اور وہ حدیث مجھے بڑی ہی دلچسپ معلوم ہوئی (اگر ہے) اس کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ کھجور کا درخت اس بقیہ مٹی سے بنایا گیا جس سے حضرت آدم علیہ السلام بنائے گئے تھے اور اس لئے وہ مسلمان کی پھوپھی ہے۔ بڑے غور اور فکر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ فقرہ نبوت کے چشمہ سے ضرور نکلا ہے اور ساتھ ہی مجھے رنج بھی ہوا۔ ایک اور حدیث کا مضمون ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاک مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ ایک درخت ہے کہ وہ مومن کی مثال ہے اور پھر آپ ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔ اس میں سِر کیا تھا؟ کھجور کے درخت میں چند خصوصیتیں ہوتی ہیں۔

(1) کھجور کا پھل روٹی کا قائمقام ہوتا ہے۔ (2) روٹی کے ساتھ سالن کا بھی کام دیتا ہے۔ (3) پھل کا پھل بھی ہے۔ (4) شربت کا کام بھی دیتا ہے۔ (5) اس کے پتے ہوا کے شدید سے شدید جھوکوں سے بھی نہیں گرتے ہیں۔ (6) پھر پتوں کے پنکھے چٹائیاں بنتی ہیں۔ (7) تنے کی رسیاں بنتی ہیں۔ (8) ریشوں سے تکیے بنتے ہیں۔ (9) لکڑی کام آتی ہے۔ (10) کھجور کی گٹھلی سے جانوروں کے لیے عمدہ غذا بنتی ہے۔ (11) شاخوں کے سرے کے درمیان کی گری مقوی ہوتی ہے۔

غرض کھجور ایک ایسا درخت ہے کہ اس کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو مفید اور نفع رساں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درخت کی مثال سے یہ بتلایا ہے کہ مسلمان کو بڑا ہی نفع رساں ہونا چاہئے اور ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو کہ کوئی ابتلا اس پر اثر نہ کر سکے مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا کہ آج مسلمانوں کی یہ حالت نہیں رہی۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ72-73)

الفضل بھی بس ایک ایسا درخت ہے جس کو مضمون نگار، شعراء بطور مالی کے پانی دیتے ہیں اور قارئین مطالعہ اور دعاؤں سے اس درخت کی مضبوطی میں مدد اورمعاون گار ثابت ہوتے ہیں اور دوسری طرف یہ پودا اور درخت بھی قارئین کے لئے تقویت اور غذائیت کا باعث بنتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اخبار الفضل کو ایسے مالی ہزاروں کی تعداد میں عطا کرتا رہے جو پانی کی مشکیں ڈالتے رہیں اور الفضل بھی ان کے لئے تقویت اور ازدیاد ایمان و علم کا موجب بنتا رہے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

دعاؤں کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ