بعض لوگ سورۃ العنکبوت کی مندرجہ ذیل آیت پیش کرکے کہتے ہیں کہ نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریّت میں ہی محدود و مخصوص ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریّت میں سے نہیں ہیں اس لئے وہ نبی نہیں ہوسکتے۔
وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ
(النعکبوت: 28)
ترجمہ: اور ہم نے اُسے (یعنی ابراہیم کو) اسحاق اور یعقوب عطا کئے اور اس کی ذریّت میں بھی نبوت اور کتاب (کے انعام) رکھ دیئے۔ اور اُسے ہم نے اُس کا اجر دنیا میں بھی دیا اور آخرت میں تو وہ یقیناً صالحین میں شمار ہوگا۔
اس اعتراض کا ایک جواب تو یہ ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اہل فارس میں سے ہیں جو احادیث کے مطابق بنو اسحاق ہیں لہٰذا اُن کا ذریّت ابراہیم میں ہونا ثابت ہے۔
فارس عصبتنا اھل البیتِ لأن إسماعیلَ عمٌ ولدِ إسحاقَ و إسحاقُ عمٌّ ولدِ إسماعیلَ
(فی تاریخہ۔عن ابن عباس)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اہل بیت! فارس ہمارا عصبہ ہے اس لئے کہ اسماعیلؑ اسحاقؑ کی اولاد کے چچا ہیں اور اسحاقؑ اسماعیلؑ کی اولاد کے چچا ہیں۔
(تاریخ ابن عساکر بروایت ابن عباسؓ)
لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَذَھَبَ بِہِ رَجُلٌ مِّنْ اَبْنَاءِ فَارِس حَتّٰی یَتَنَاوِلُہُ
(عن ابی ہریرۃ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر ایمان ثریا کے نزدیک بھی ہو تو ابنائے فارس میں سے ایک شخص وہاں جائے گا اور اسے حاصل کرلے گا۔
(مسلم بروایت ابوہریرۃؓ)
کنزالعمال الباب الثامن فی فضائل الامکنۃ و الأزمنۃ الفصل الأول فی الامکنۃ مکۃ وما حوالیھا زادھا اللّٰہ جلد12 صفحہ303،
’’اِبْنِ عُمَرَ۔ آلُ فَارِسِ مِنْ وَّلَدِ إسْحَاقَ بْنِ إبْرَاھِیْمَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْھِمَا۔‘‘
(الفردوس بمأثور الخطاب جز اول باب الألف صفحہ418)
ابن عمر سے روایت ہے کہ آل فارس اسحاق بن ابراہیم علیہما السلام کی اولاد میں سے ہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ آل اور ذریّت میں پیروکار بلکہ قوم تک شمار کی جاتی ہے۔ چنانچہ سورۃ ابراہیم کی مندرجہ ذیل آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے کہ جو کوئی میری اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے۔یعنی آپ کی آل میں سے ہوگا۔
رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضۡلَلۡنَ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡۚ وَمَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۷﴾
(ابراہیم: 37)
اے میرے ربّ! انہوں نے یقیناً لوگوں میں سے بہتوں کو گمراہ بنا دیا ہے۔ پس جس نے میری پیروی کی تو وہ یقیناً مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقیناً تُو بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
لہٰذا ہر وہ شخص جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کرے گا آپ ؑ کی آل میں شمار کیا جائے گا۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ سورۃ الحج کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نےتمام مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت کی پیروی کرو۔ اب یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جسمانی آل اولاد نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام مسلمانوں کا باپ قرار دیا جو کہ ظاہر ہے روحانی باپ ہیں جسمانی نہیں۔جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت (33:7) کے مطابق نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کوتمام مسلمانوں کی مائیں قرار دیا گیا ہے جو کہ ظاہر ہے روحانی درجہ ہے جسمانی نہیں۔
وَجَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰٮکُمۡ وَمَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰٮکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَنِعۡمَ النَّصِیۡرُ ﴿۷۹﴾
(الحج: 79)
اور اللہ کے تعلق میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں چن لیا ہے اور تم پر دین کے معاملات میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔ یہی تمہارے باپ ابراہیم کا مذہب تھا۔ اُس (یعنی اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا (اس سے) پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ رسول تم سب پر نگران ہو جائے اور تاکہ تم تمام انسانوں پر نگران ہو جاؤ۔ پس نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ وہی تمہارا آقاہے۔ پس کیا ہی اچھا آقا اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔
بالفرض سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابنائے فارس میں سے نہ بھی ہوتے جو بنو اسحاق ہونے کی وجہ سے آل ابراہیم ؑ یا ذریّت ابراہیم ؑ میں شمار کئے گئے ہیں، تب بھی سورۃ ابراہیم اور سورۃ الحج کی مندرجہ بالاان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دیگر اتباع ابراہیم ؑ کی طرح حضرت ابراہیم ؑ کی آل و ذریّت میں سے ہیں۔
مندرجہ ذیل دو تاریخی حوالوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغل دراصل برلاس ترک تھے جن کا آبائی وطن فارس ہی کہلاتا تھا۔
’’بابر تیمور اور شاہ رخ کے ورثہ کا دعویدار تھا اور اس نے اس بناء پر ہندوستان میں مغل خاندان کی داغ بیل ڈالی۔ یہ مغل دراصل برلاس ترک تھے۔ منگولوں سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ لیکن کچھ منگولوں کی سی طرز معاشرت نیز ان کے ساتھ تعلق پر ان کا اپنا اصرار اس ورثہ کا ایک حصہ بن گیا۔‘‘
(ہندوپاک میں اسلامی کلچر از پروفیسر عزیز احمد۔ ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی صفحہ30 ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی)
’’سب سے پہلے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ چھٹی صدی عیسوی میں مملکت ایران کا حدود اربعہ کیا تھا۔یہ کن ممالک اور علاقہ جات پر مشتمل تھی۔ چھٹی صدی عیسوی میں مملکت ایران کا حدود اربعہ وہ نہیں تھا جو آج کے ایران کا ہے۔ موجودہ دور کی بہت سی آزاد مملکتیں اس وقت ایران کا ایک حصہ تھیں۔ ول ڈیورانٹ (WILL DURRANT) اپنی مشہور کتاب (THE AGE OF FAITH) میں رقمطراز ہے تیسری صدی عیسوی کا ایران (چھٹی صدی میں بھی یہی حالات تھے) مندرجہ ذیل ممالک پر مشتمل تھا۔ افغانستان، بلوچستان، سودیانہ (SOGDIANA)، بلخ اور عراق، موجودہ پرشیا جس کو فارس کہتے ہیں یہ اس وقت کی مملکت کا ایک جنوب مشرقی صوبہ تھا۔اس کو ایران کہنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ آریوں کا ملک تھا۔ (دی ایج آف فیتھ صفحہ 136) اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں اس کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ یہ سلطنت بلوچستان، کچ، مکران، کرمان، غور، بامیان، ہندوکش، سیستان، زابلستان، خراسان، ماوراء النہر، رشت، اصفہان، مازندران، استرآباد، گرگان، فارس، لارستان، خوزستان، افغانستان، کابلستان، پنجاب، کردستان، شیروان، بابل، موصل، اور دیاربکر پر مشتمل تھی۔‘‘
(دائرہ معارف اسلامیہ اردو صفحہ627 جلد3 طبع اول 1968ء)
(ضیاء النبی ﷺ, جلد اوّل، از پیر کرم شاہ الازہری صفحہ37)
(انصر رضا، واقفِ زندگی، کینیڈا)