اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قیام نماز کی طرف متعدد مرتبہ توجہ دلائی ہے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بھی نماز کےحوالے سے نصائح فرمائیں۔
نماز کی فرضیت، اہمیت اور برکات کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبات و خطابات میں افراد جماعت کو بارہا نمازاور نماز باجماعت کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے ذمہ اسلام کی احیاء نو کا کام سپرد فرمایا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے قیام نماز ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت میں شامل ہونے والے افراد کے لیے جوشرائط مقررکیں ان میں سے تیسری شرط میں پنجوقتہ نماز کا ذکر ہے۔ اس لحاظ سے کسی بھی احمدی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔
قرآن کریم میں نمازکا ذکر
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے اورپابندی کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان بے شمارمقامات میں سے چند ایک ہدیۂ قارئین ہیں:
٭…نمازوں کی حفاظت کے لیےاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
حٰفِظُوْا عَلٰی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِالْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ
(البقرہ: 239)
نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے فرمانبردار بن کرکھڑ ے رہا کرو۔
٭…نماز با جماعت ادا کرنے کی فرضیت کےحوالے سے قرآن کریم میں ذکر ہے:
وَأَقِیْمُوْا الصَّلَوٰۃَ وَآتُوْا الزَّکوٰۃَوَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ
(البقرہ: 42)
اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دواور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
یہ آیات نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں۔ اگر مقصود صرف نماز قائم کرناہی ہوتا تو آیت کے آخر میں وَارْکَعُوْا مَعَ الرّاکِعِیْنَ ’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘ کے الفاظ نہ ہوتے، جو نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔ جبکہ نماز قائم کرنے کا حکم تو آیت کے پہلے حصہ وَأَقِیْمُوْا الصَّلَوٰۃ ’’اور نماز کو قائم کرو‘‘ میں ہی موجود ہے۔
٭…نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ رَہِیۡنَۃٌ ﴿ۙ۳۹﴾ اِلَّاۤ اَصۡحٰبَ الۡیَمِیۡنِ ﴿ؕۛ۴۰﴾ فِیۡ جَنّٰتٍ۟ؕۛ یَتَسَآءَلُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾ عَنِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾ مَا سَلَکَکُمۡ فِیۡ سَقَرَ ﴿۴۳﴾ قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾ وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾ وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَآئِضِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾ وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿ۙ۴۷﴾ حَتّٰۤی اَتٰٮنَا الۡیَقِیۡنُ ﴿ؕ۴۸﴾فَمَا تَنۡفَعُہُمۡ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیۡنَ ﴿ؕ۴۹﴾
(المدثر: آیات39تا49)
ہر شخص اپنے اعمال کے سبب گروی ہے۔ مگر داہنے والے۔ باغوں میں ہوں گے، ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ گناہگاروں کی نسبت۔کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔ وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اور ہم فضول باتیں کرنے والوں کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔ اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آپہنچی۔پس ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی۔
احادیث میں نماز کی اہمیت کا بیان
نماز باجماعت کی فرضیت، اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی احادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
’’میرا ارادہ ہے کہ نماز کھڑی کر دی جائے،پھر میں کسی شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں، اور اپنے ساتھ چند لوگوں کو لے جاؤں جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں،اور نماز میں حاضر نہ ہونے والے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
’’ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے، اور نماز سے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا، یا پھر مریض، اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لیے آجاتا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
’’نبی کریمﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھلائے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس مسجد میں اذان ہو اس میں جا کر نمازباجماعت ادا کرنا۔‘‘
آپ ؓمزید فرماتے ہیں:
’’جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ کل قیامت والے دن مسلمان ہو کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نمازوں کی حفاظت کرے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لیے ہدایت کے طریقے مشروع کیے ہیں،جن میں سے نمازوں کی حفاظت بھی ہے۔ اور اگر تم نے گھروں میں ہی نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں تو تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا اور جب تم نے نبی کریم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔ جو شخص بھی گھر سے بہترین وضو کر کے مسجد کا رخ کرتا ہے، تو اس کے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے، اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا، یا پھر مریض، اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لیے آجاتا۔
٭…جان بوجھ کربلا عذر نماز چھوڑنے والے کے لیے مقام خوف ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
بَیْنَ الرَجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ وَالشَّرْکِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ
(مسلم)
مومن اور کافر ومشرک کے درمیان حدّ فاصل نماز ہے۔
ایک جگہ فرمایا:
’’معاملے کی چوٹی اسلام ہے اور اس کاستون نماز ہے۔‘‘
٭…باجماعت نماز کی فضیلت:
’’باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
٭…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں: اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔‘‘
(بخاری، کتاب الجماعة والإمامة، باب فضل صلاة الجماعة)
’’ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی مختصر اور جامع نصیحت فرمائیں تو آپؐ نے فرمایا کہ جب تم اپنی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو دنیا کو چھوڑ کر جانے والا ہو۔ اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ نکالو کہ اگر قیامت میں اس کا حساب ہو تو تمہارے پاس کچھ کہنے کے لیے نہ رہ جائے۔ اور لوگوں کے پاس جو کچھ مال و اسباب ہے اس سے تم بالکل بے نیاز ہو جاؤ۔‘‘
(مشکوٰۃکتاب الرقاق الفصل الثالث)
ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام
نماز اور اخلاق ذریعہ شناخت
’’تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کیے جاؤ گے، اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ221)
حضرت مسیح موعود ؑکی درد مندانہ نصیحت
’’نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اور صدق کا خیال رکھو۔ اگر سارا گھر غارت ہوتا ہوتو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔ وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے۔ نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے۔ جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے۔ جیسے بیمار کو شرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا۔ یہ دین کو درست کرتی ہے۔ اخلاق کو درست کرتی ہے۔ دنیا کو درست کرتی ہے۔ نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے اور لذات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو اسے ملتا ہے۔ قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے۔ ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ591-592 جدیدایڈیشن)
نماز باجماعت کی ضرورت
’’نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس حدیث کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں‘‘
(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ281تا282)
حضرت مسیح موعودؑ کا بیان فرمودہ واقعہ
حضرت مصلح موعود ؓکی زبانی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کی صبح کے وقت آنکھ نہ کھلی اور کھلی تو دیکھا کہ نماز کا وقت گزر گیا ہے۔ اس پر وہ سارا دن روتے رہے۔ دوسرے دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز کے لیے اٹھاتا ہے۔ انہوں نے پوچھا تُو کون ہے؟ اس نے کہا شیطان ہوں جو تمہیں نماز کے لیے اٹھانے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا تجھے نماز کے لیے اٹھانے سے کیا تعلق؟ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کہ کل جو میں نے تمہیں سوتے رہنے کی تحریک کی اور تم سوتے رہے اور نماز نہ پڑھ سکے اس پر تم سارا دن روتے رہے، فکر کرتے رہے۔ خدا نے کہا کہ اسے نماز باجماعت پڑھنے سے کئی گنا بڑھ کر ثواب دے دو۔ (یعنی اس رونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کئی گنا ثواب دینے کا حکم دیا) تو مجھے اس بات کا بڑا صدمہ ہوا۔ (شیطان کہتا ہے کہ مجھے اس بات کا بڑا صدمہ ہوا) کہ نماز سے محروم رکھنے پر تمہیں اور زیادہ ثواب مل گیا۔ آج میں اس لیے جگانے آیا ہوں کہ آج بھی کہیں تم زیادہ ثواب نہ حاصل کر لو۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ شیطان تب پیچھا چھوڑتا ہے جب کہ انسان اس کی بات کا توڑ کرتا ہے، اس سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
(ماخوذ از ملائکۃاللہ۔ انوارالعلوم جلد5 صفحہ552)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات بابت قیام نماز
’’نمازیں نیکی کا بیج ہیں پس نیکی کے اس بیج کو ہمیں اپنے دلوں میں اس حفاظت سے لگانا ہو گا اور اس کی پرورش کرنی ہو گی کہ کوئی موسمی اثر اس کو ضائع نہ کر سکے۔ اگر ان نمازوں کی حفاظت نہ کی تو جس طرح کھیت کی جڑی بوٹیاں فصل کو دبا دیتی ہیں یہ بدیاں بھی پھر نیکیوں کو دبا دیں گی۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کریں اور انہیں مضبوط جڑوں پر قائم کر دیں کہ پھر یہ شجر سایہ دار بن کر، ایسا درخت بن کر جو سایہ دار بھی ہو اور پھل پھول بھی دیتا ہو، ہر برائی سے ہماری حفاظت کر ے۔ پس پہلے نمازوں کے قیام کی کوشش ہو گی۔ پھر نمازیں ہمیں نیکیوں پر قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی کی شناخت یہی بتائی ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد6 صفحہ65-66)
’’پانچ نمازیں ہر بالغ عاقل مسلمان پر فرض ہیں اور مَردوں پر یہ مسجدوں میں باجماعت فرض ہیں اور اس کے لیے انتظام ہونا چاہیے۔ یا تو یہ کہہ دیں کہ ہم بالغ نہیں۔ یا یہ کہہ دیں کہ بے عقل ہیں، تو ٹھیک ہے۔ اور جب یہ دونوں چیزیں نہیں تو پھر باجماعت نماز کی ہر جگہ کوشش ہونی چاہیے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمود 12؍فروری 2016ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍مارچ 2016ء)
’’اگر تم اس فکر سے نمازوں کی طرف توجہ دو گے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور دنیاوی معاملات ایک طرف رکھ کر اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے تمہارے دنیوی معاملات میں بھی برکت ڈالے گا۔‘‘
(خطبات مسرور جلد3 صفحہ25)
باجماعت نماز کا جہاں انسان کو ذاتی فائدہ ہوتا ہے، وہاں جماعتی فائدہ بھی ہے اور جو نمازوں پر مسجد میں نہیں آتے یا بعض ایسے بھی ہیں کہ آکر آپس میں رنجشوں کو دُور کر کے اُنس اور تعلق پیدا نہیں کرتے انہیں نمازیں پھر کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ کیونکہ ایک نماز کا عبادت کے علاوہ جو مقصد ہے ایک وحدت پیدا ہونا آپس میں اُنس اور محبت پیدا ہونا وہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس سوچ کے ساتھ ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت بھی کرنی چاہیے اور اس سوچ کے ساتھ مسجد میں آنا چاہیے تا کہ ہم ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول نمازیں ادا کرنے والے بنیں اور اس کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍جنوری 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5فروری 2016ء)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازوں کو جو اس کا حق ہے اس طرح ادا کرو۔ مردوں کے لیے نمازوں کا یہ حق ہے کہ پانچ وقت مسجد میں جا کے باجماعت ادا کی جائیں۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ ادا کرنی مشکل ہیں، ہر جگہ مسجد نہیں ہوتی۔ مسجد نہیں ہوتی تو کوئی نہ کوئی جگہ تو ہوتی ہے۔ مسلمان کے لیےتو ساری زمین ہی مسجد بنائی گئی ہے۔
(خطبات مسرور جلد2 صفحہ647)
(طیب امین)