• 18 جولائی, 2025

’’عظمت قوم ہے حسن کردار میں‘‘

مختلف معاشروں اور تہذیبوں پر طائرانہ نظر ڈالنے سے علم ہوتا ہے کہ عورت کا وجود وہ اہم جز ہے جس کے بغیر کسی بھی معاشرے کی مکمل تصویر کشی کرنا نا ممکن ہے۔ اسی بات کا اظہار شاعروں نے کچھ اس رنگ میں کیا ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ اور اس بات میں کوئی مبالغہ بھی نہیں کیونکہ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ لہٰذا دنیا میں انسانی زندگی کا انحصارجس قدر مردوں پر ہے اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے۔عورت ہی ہے جس کو خدا تعالیٰ نے خلقت جیسا اہم فریضہ سونپا ہے۔ تربیت اولاد و نگہداشت کا اہم کام بھی عورت کے ہی سپرد ہے اور اس بات کو دور جدید کے مفکر ین اور معاشرتی رہنمائوں نے بھی تسلیم کیا ہے تبھی تو نپولین کا یہ قول تمام دنیا میں مشہور و معروف ہے کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز اس بارے میں فرماتے ہیں ’’اسلامی تعلیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت عورت کے درجہ کو بہت بلند کیا گیا ہے۔گو موجودہ زمانہ میں مغربیت کے اثر کے ماتحت خود مسلمانوں نے عورت کے درجہ کو کم کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور بعض باتوں میں انہوں نے غلط اندازے بھی لگائے ہیں ۔۔۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے پردہ کے اندر ہی دین سیکھا تھا اور پردہ کے اندر ہی رہ کر وہ دین کی اتنی ماہر ہو گئیں تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم آدھا دین عائشہؓ سے سیکھو۔گویا سارے مرد مل کر آدھا دین سیکھ سکتے ہیں اور حضرت عائشہ ؓ اکیلی آدھا دین سکھا سکتی ہیں۔ حالانکہ حضرت عائشہؓ پردہ کیا کرتی تھیں اور آپؓ نے جو دین سیکھا تھا وہ پردہ کے اندر رہ کر سیکھا تھا

(الفضل انٹرنیشنل 03نومبر تا 09نومبر 2006ء صفحہ3)

اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلّمہ کے طور پر پیش کیا ہے:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز اس بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں ’’پس ہمارا خدا ایسا خدا نہیں جو ہر وقت اپنی مٹھی بند رکھے۔ دینے میں بُخل سے کام نہیں لیتا،بڑا دیالو ہے۔ لیکن تمہارے بھی کوئی فرائض ہیں، کچھ ذمہ داریاں ہیں، اُن کو ادا کرو تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بے انتہا بارش تم پر ہوگی۔۔۔۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا پیش کرتا ہوں فرماتے ہیں: ’’اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلّمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ صرف گھر کی معلّمہ کے طور پر نہیں بلکہ باہر کی معلّمہ کے طور پر بھی۔ ایک حدیث میں حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایات کا تعلق ہے وہ تقریباً آدھے دین کے علم پر حاوی ہیں۔ بعض اوقات آپ ؓ نے علوم دین کے تعلق میں اجتماعات کو خطاب فرمایا اور صحابہؓ بکثرت آپؓ کے پاس دین سیکھنے کے لئے آپؓ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے تھے۔پردہ کی پابندی کے ساتھ آپؓ تمام سائلین کے تشفی بخش جواب دیا کرتی تھیں۔‘‘

(خطاب حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ؒ بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان 26جولائی 1986ء)

کیسی خوبصورت بات ہے جس میں نہ صرف اسلام میں عورت کے مقام کو اجاگر کیا گیا ہے، بلکہ عورت کے علم کے معاملہ میں سبقت لے جانے کی مثال بھی سامنے آتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں ’’پس آج روئے زمین پر صرف احمدی ہیں، آپ ہیں جو کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ کا مصداق بن کر فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ کو قائم کئے ہوئے ہیں، اس پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ09 نومبر 2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30نومبر 2012ء صفحہ6)

بلا شبہ آج کی مسلمان احمدی عورت دنیا کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے بہت سے میدانوں میں مردوں سے مسابقت اختیار کرچکی ہے اور یہ اعزاز صرف ہمارے خاص خطے کی خواتین تک محدود نہیں بلکہ اس مغربی معاشرے اور نامساعد ماحول کے باوجود ہماری خواتین ناصرف عائلی زندگی میں بطورماں، بیٹی، بیوی، اپنا کردار خوبصورتی سے نبھا رہی ہیں بلکہ بحیثیت استاد، ڈاکٹر، وکیل، صحافی، آرکیٹیکٹ اور مختلف شعبوں میں اپنی تمام تر تعلیمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مصروف عمل ہیں اس کے ساتھ ساتھ مالی قربانی، دعوت الی اللہ،خدمت خلق،مہمان نوازی اور رفا ہِ عامہ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔یعنی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوں اور معاشرے کی فلا ح و بہبود میں اپنا مرکزی کردار نہ ادا کر رہی ہوں۔اور یہی وہ لگن، وہ جذبہ ہے جس کا تقاضا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگروہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آجائے۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت قریب آجائے۔‘‘

(’’اوڑھنی والیوں کے لئے پھول‘‘ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکے مستورات سے خطابات کا مجموعہ حصہ اوّل، صفحہ410، 411)

اولاد میں اپنی قوم اور ملک کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں ’’بچہ کی سب سے اعلیٰ تربیت گاہ اس کی ماں ہے۔ پس اس لئے مائوں کو بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہماری ساری عورتیں یہ ذمہ داری ادا کرنے والی ہو جائیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ’’پچاس فیصد بھی ہو جائیں تو نسلوں کی حفاظت کی وہ ضمانت بن جائیں گی۔‘‘ (ماخوذ از لجنہ اماء اللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے، انوار العلوم جلد17 صفحہ296) ان کے دین کو سنوارنے والی بن جائیں گی۔ ان کاخدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی بن جائیں گی۔اسی طرح اپنی اولاد میں اپنی قوم اور ملک کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا بھی مائوں کا کام ہے اور یہ بھی عہد ہے۔ آپ کے عہد میں شامل ہے۔ ان کے ذہنوں کو مکمل طور پر قوانین کی پابندی کے لئے تیار کرنا مائوں کا کام ہے۔ برائی اور اچھائی میں تمیز پیدا کروانا مائوں کا کام ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا،اس کی طرف توجہ دلانا مائوں کا کام ہے۔‘‘

( الفضل انٹر نیشنل21تا27 اکتوبر 2016 صفحہ6)

احمدی خواتین کی ذمہ داریاں :حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں ’’پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی بچی اور ایک احمدی عورت کا ایک تقدس ہے اس کی حفاظت اس کا کام ہے کوئی ایسا کام نہ کریں جو دین سے دور لے جانے والا ہو۔ کوئی ایساکام نہ کریں جس سے آپ کے تقدس پر حرف آتا ہو عورتوں کو کام کرنا ہے۔۔۔ اس لئے ایسا کام کریں پڑھائی میں ایسی لائن احمدی بچیاں چنیں جو اُن کو فائدہ دینے والی ہوں اورا نسانیت کو بھی فائدہ دینے والی ہو۔۔۔ وہ علم حاصل کیا جائے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا یعنی علم الابدان و علم الادیان۔ احمدی بچیاں پڑھائی میں عموماً ہوشیار ہوتی ہیں انہیں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ اور دین کی تعلیم تو ہر احمدی مرد و عورت کے لئے لازمی ہے۔ اس سے دنیا کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی۔بچیوں کے لئے ان کے لئے زبانیں سیکھنا بڑی اچھی بات ہے اس سے بہت فائدہ ہو گا جماعت کوبھی فائدہ ہو گا ترجمہ کرنے والی میّسر آ جائیں گی دنیا کو بھی فائدہ ہو گا۔ آپ کی نسلوں کو بھی فائدہ ہو گا۔تو بچیوں کو ایسے مضامین لینے چاہئے جو ان کے لئے انسانیت کے لئے آئندہ نسلوں کے لئے فائدہ مند ہوں اور سب سے بڑھ کر دین سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے

(’’الاذھار لذوات الخمار‘‘ جلد سوم حصہ دوم صفحہ11-10 جلسہ سالانہ برطانیہ2006 مستورات سے خطاب)

خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج احمدی خواتین اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے نہ صرف اپنی آئندہ نسلوں کی بہترین رنگ میں تربیت کرنے والی ہیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی زندگیاں وقف کرکے معاشرے اور ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود میں بھی نہایت مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں۔

جن میں شعبہ ہیومینٹی فرسٹ کے تحت مختلف منصوبوں کی تکمیل میں امداد ہے۔ گزشتہ برسوں میں شعبہ خدمت خلق لجنہ اماء اللہ کے تحت خون کے عطیات اکٹھا کرنے کا انتظام ہے،جس میں کافی تعداد میں خواتین بھی حصہ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی غریب بچیوں کی شادی کے لئے جہیز و بنیادی اشیاء کی فراہمی میں مدد کے لئے ’’مریم شادی فنڈ‘‘ کے نام سے بھی اس شعبے کے تحت بھرپورکام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بوڑھوں کے لئے قائم کردہ اداروں میں وقتاً فوقتاً خواتین اور بچیاں اکھٹی ہوکر پھول اور ہاتھ سے نیک خواہشات کے کارڈز وغیرہ بناکر لے جاتی ہیں۔ اور خاص مواقع پہ اظہار یک جہتی کے طور پر پھول اور کارڈز کے ساتھ چھوٹے چھوٹے تحائف بھی دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب کبھی کسی غیر متوقع صورت حال یا ہنگامی حالات کا سامنا ہو اور کسی بھی قسم کی مدد اور تعاون کی ضرورت پڑی تومردوں کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی اس میں بھرپور حصہ لیا اور تعاون کیا۔ اس کی ایک مثال پچھلے سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں بے سروسامانی کی حالت میں آئے ہوئے مختلف ممالک کے مہاجرین کی مدد کرنا ہے۔ گزشتہ سالوں میں اس سلسلہ میں متعلقہ محکمہ سے رابطہ کرکے اپنی خدمات پیش کی گئیں اور ہر قسم کا تعاون کرنے کی یقین دہانی کی گئی اور ان کے مقرر کردہ دنوں کے حساب سے گروپس کی صورت میں احمدی خواتین مہاجرین کیمپس میں جاتیں اور اپنی خدمات پیش کرتی رہی ہیں۔اس دوران ان کواشیائے خوردنووش، کپڑوں اور محکمہ کی طرف سے مہیا لسٹ کے مطابق دوسری اشیاء بھی مہیا کی گئیں،اس کے علاوہ یہاں کے معاشرتی نظام سے متعارف کروانا، مختلف اداروں میں ان کی ترجمانی اور دیگر معاملات میں مدد کی گئی۔اللہ کے فضل سے بہت سی احمدی خواتین اپنے بچوں کے سکول اور کنڈر گارڈن میں والدین کی نمائندہ کے طور پر منتخب ہوکر اچھا کام کررہی ہیں۔پھر بہت سے ایسے اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا جاتا ہے جو بطور سوشل ورکر بے سہارا عورتوں کی مالی امداد، اور خواتین کی بہبود کے لئے عطیات اکٹھے کرتے ہیں۔ امسال بھی شعبہ صنعت وحرفت اور خدمت خلق کے تحت لجنہ اماء اللہ نے ہزاروں کی تعداد میں فیس ماسک،کارڈز، پھولاور گفٹ پیک تیار کرکے مختلف اداروں میں رضاکارانہ طور پہ پیش کئے ہیں جس میں سینکڑوں احمدی خواتین نے بھر پور حصہ لیا۔ الحمد للہ۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بے شمار معمولات ہیں جہاں یہ خدا تعالیٰ کی لونڈیاں خاموشی سے اپنا کام سر انجام دے ر ہی ہیں اور ان سب سے نہ صرف وہ اپنے سچے وعدوں والے خدا کو خوش کرنے کا باعث بن رہی ہیں بلکہ معاشرے کی اور وطن کی وہ گمنام مجاہدات ہیں جن کا شائد آج کسی کواعتراف نہ ہو مگر آنے والا وقت یہ ثابت کرے گا کہ انہوں نے اس ملک و قوم کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے۔ ان گمنام مجاہدات کی تعداد گو بہت زیادہ ہے اور ممکن نہیں کہ ان سب کا تھوڑا تھوڑا بھی تعارف پیش کیا جاسکے۔ اس لئے چند ایک مثالیں پیش کی ہیں۔

اپنے مذہب قوم اور وطن کی خاطر قربانی کا عہدکرنے والی:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں ’’۔۔۔ آج اگر کوئی اپنے مذہب قوم اور وطن کی خاطر قربانی کا عہدکرنے والی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے احمدی عورت کو یہ توفیق عطا فرمائی۔ آج اگر سچائی پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد کرنے والی کوئی عورت اور کوئی بچی ہے تو وہ احمدی عورت اور احمدی بچی ہے۔ آج اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، اس کے دین کی خاطر، اپنی قوم کی خاطر، اپنا جان، مال، وقت قربان کرنے کا عہد کرتی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ آج اگر تمام دنیا کی عورتوں کو اپنے خدا کو حاضرو ناظر جان کر یہ دعوتِ مقابلہ دے رہی ہے اور یہ چیلنج دے رہی ہے کہ تم نے اگر نیکیوں پر عمل کرنا اور ان نیکیوں کو پھیلانا ہے تو اس کام میں اے دنیا والو! تم اس احمدی عورت کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ آج ان نیکیوں کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی پھیلانے کا دعویٰ کر سکتا ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔‘‘

(’’الاظہار لذوات الخمار‘‘ جلد سوم حصہ اول صفحہ190 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء مستورات سے خطاب)

خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ ہمیں احسن رنگ میں اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین

(درثمین احمد – جرمنی)

پچھلا پڑھیں

دعاؤں کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ