• 29 اپریل, 2024

ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہوتا ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا۔ اور ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہوتا ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے اس کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے۔ وِجْھَۃٌ کے معنی ہیں کوئی سمت یا کوئی جانب یا جہت۔ اس کے معنی راستے اور طریق کے بھی ہیں اور اس کے معنی کسی مقصد کو حاصل کرنا بھی ہیں۔(لسان العرب زیر مادہ ’’وجہ‘‘)

پس ایک مومن کے لئے یہ شرط ہے کہ اس طرف منہ کرے، اُس جانب دیکھے جس طرف دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور پھر اُس طرف دیکھنا ہی نہیں بلکہ جس طرف دیکھ رہا ہے، وہاں جو مختلف راستے ہیں، اُن میں سے وہ راستہ اختیار کرے جس کے اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور پھر اُس رستے کی طرف صرف منہ اُٹھا کر ہی نہیں چلتے چلے جانا بلکہ اُس راستے پر چلنے کی وجہ ایک مقصد کو پانا ہے اور وہ مقصد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے یعنی فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ۔ نیکیوں کو نہ صرف بجا لانا بلکہ اُن کے معیار بھی بلند کرنا اور ان نیکیوں کو کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا اور صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرنا بلکہ جو کمزور ہیں، پیچھے رہ جانے والے ہیں، اُن کو بھی ساتھ لے کر چلنا۔ یعنی جماعتی ترقی بھی ہر وقت ایک مومن کے مدّنظر ہوتی ہے۔ اس لئے حقیقی مومن وہی ہے کہ جب وہ ترقی کرتا ہے تو باقی افرادِ جماعت کی ترقی کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے، اُن کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اُن کو بھی نیکیوں کی دوڑ میں اپنے ساتھ شامل کرتا ہے۔ اُن کے لئے بھی مواقع مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں تا کہ جماعت کی ترقی کا پہیہ تیزی سے آگے کی طرف گھومتا چلا جائے۔

جماعت احمدیہ یعنی وہ جماعت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے اُس خیر کو پھیلانے کے لئے قائم ہوئی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور اس خیر میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں، عبادات بھی ہیں اور مخلوق اور کُل عالَم انسانیت کی خدمت بھی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ انسانیت کی خدمت نیکیاں پھیلانے سے ہی ہو سکتی ہے۔ رحمت بکھیرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے مثال دی تھی بعض لوگ برائیاں کرتے ہیں اور اُس کے لئے بچوں کو تربیت دیتے ہیں، معصوم بچوں کی جانیں لینے یا اُن سے خود کش حملے کروانے سے یہ خدمت نہیں ہو سکتی۔ بموں اور توپوں اور لڑائیوں اور فسادوں سے یہ خدمت نہیں ہو سکتی۔

پس آج دنیا میں من حیث الجماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو رحمۃ للعالمین کی رحمت سے دنیا کو حصہ دلانے اور نیکیاں بکھیرنے کے لئے ہر وقت کوشاں ہے اور اس کا حق ادا کرنے کیلئے اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوشش اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اسلام کا پیغام دنیا کو دے کر بھی ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم کی اشاعت اور دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں کی زبانوں میں قرآنِ کریم کے ترجمے کر کے پھر اُن کو پھیلانے کی صورت میں بھی ہے۔ اعلیٰ اخلاقیات دنیا کو سکھانے کی صورت میں بھی ہے۔ پیار محبت کی تعلیم دنیا کو دینے کی صورت میں بھی ہے۔ انسانیت کی خدمت ہسپتالوں کے ذریعے دکھی انسانیت کا علاج مہیا کرنے کی صورت میں بھی ہے۔ دور دراز علاقوں میں تعلیم سے بےبہرہ بچوں کو، انسانوں کو، تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے پھر اُنہیں نیکیوں کا صحیح ادراک دلانے کی صورت میں بھی ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لا کر خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانے کی صورت میں بھی ہے۔

پس جماعت احمدیہ کا مشن کوئی معمولی مشن نہیں ہے جو عہدِ بیعت ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ باندھا ہے وہ کوئی معمولی عہدنہیں ہے۔ اس کے پورا کرنے کے لئے ہمیں وہی مطمح نظر بنانا ہو گا جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے جس کی مَیں کچھ وضاحت کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُن راستوں پر چلنا جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔ ان راستوں پر بھی جیسا کہ شیطان نے کہا تھا، شیطان سے آمنا سامنا ہو سکتا ہے جو نیکیوں کے بجا لانے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ نیکیوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش میں روڑے اٹکائے گا لیکن دل سے نکلی ہوئی یہ دعا کہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ (الفاتحہ: 6) جو ہے شیطان کے حملوں کا توڑ کرتی چلی جائے گی۔ نیکیوں کی بلندیوں کو ایک مومن چھوتا چلا جائے گا اور خیر اُمّت میں سے ہونے کے اعزاز پاتا چلا جائے گا۔ پس اس کے حصول کے لئے ہمارے ہر بڑے چھوٹے مرد عورت، بچے بوڑھے کو کوشش کرنی چاہئے۔ تمام قسم کی نیکیاں اپنا کر اللہ تعالیٰ کے ہمارے لئے مقرر کردہ مطمح نظر اور مقصد کو ہم نے حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جن نیکیوں کے کرنے کا ایک مومن کو حکم دیا ہے اُن میں سے ایک انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں بھی ہیں۔ مالی قربانی بھی اُن مقاصد کے لئے ضروری ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے یعنی اشاعتِ اسلام اور خدمتِ انسانیت۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ تقریباً سوا سو سال سے ان مقاصد کے حصول کے لئے افرادِ جماعت مالی قربانیاں کرتے چلے جا رہے ہیں، یہ قربانی اور نیکی جماعت احمدیہ کا ایسا طرہ امتیاز ہے جس کو دیکھ کر غیر جو ہیں وہ حیران و پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اُن کو اس بات کا فہم و ادراک نہیں کہ اس کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما ہے۔ یقینا یہ روح ایک احمدی میں اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا مطمح نظر فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ کو بناتا ہے۔

( خطبہ جمعہ9؍نومبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تحریکات خلفائے احمدیت (قسط 13)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2022