پچھلے دنوں پیارے آقا کے مبارک الفاظ ’’ربوہ ربوہ ای اے‘‘ کو موضوع بنا کر ایڈیٹر صاحب الفضل آن لائن نے خوبصورت اداریہ لکھا اس کے ساتھ ہی ربوہ کے باسیوں کی یادوں میں ہلچل مچ گئی جن کو پڑھ کر ہم بہت لطف اندوز ہوتے رہے پھر دل میں ربوہ کی یادوں نے شور مچا دیا اور وہ جذبات جو عرصہ 35 سال سے دبے ہوئے تھے ابھر آئے کہ میں قلم اٹھانے پر مجبور ہوگئ ربوہ میرا ربوہ ہم سب کا ربوہ جس کی مٹی نے تین خلفاء کے قدم چومے جو ہمارے پیارے موجودہ امام کی جائے پیدائش بھی ہے جس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑی ہی متضرعانہ دعائیں اور صدقات کے ساتھ آباد کیا جہاں میرا بھی بچپن اپنی پیاری امی جان کی آغوش میں گزرہ آج ان یادوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہوں جہاں تک مجھے یاد ہے ہماری رہائش غلہ منڈی سے شروع ہوئی جہاں میرے ابو جان کی شاپ تھی بہت ہی پیارا ماحول ہم نے دیکھا میں بہت ہی چھوٹی تھی کہ میرے ابو جان حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشاد کے مطابق محمد آباد سندھ چلے گئے اور وہاں کاروبار شروع کیا اور ہم بہن بھائی اپنی امی جان کے ساتھ تعلیم کی غرض سے ربوہ رہ گئے اور پھر وہی پیاری بستی ہمارا مسکن بن گئی جس کی پیاری یادیں آج بھی ہمیں زندگی کی نوید دیتی ہیں جہاں کے بزرگوں کے لئے ہر گھر کا بچہ گویا انکا اپنا بچہ تھا اور اس کی بہترین تربیت انتہائی پیار بھرے انداز میں کرنے کی کوشش کرتے اور بچے کھیل میں بھی مصروف ہوتے تو کسی بھی بزرگ کے پاس سے گزرنے پر فوراََ کھڑے ہوکر سلام کرنے کو اپنا فرض سمجھتے اور پھر انکا پیار بھرا جواب سن کر کھیل میں مگن ہو جاتے مجھے یاد ہے ابو جان کے سندھ جانے کے بعد ہم دارالرحمت شرقی راجیکی میں رہتے تھے اور عصر نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے دوسری بچیوں کے ساتھ گھر کے آگے کھیلنے کی اجازت ملتی تو وہاں سے چوہدری شبیر احمد صاحب کا اکثر گزر ہوتا دور سے نظر آنے پر ہم اپنی کھیل چھوڑ کرانکو سلام کرنے کھڑی ہو جاتیں وہ اتنی شفقت سے جواب دیتے کہ ہمارا دل خوش ہو جاتا پھر حلقہ کی صدرات اور سیکرٹریان ناصرات اتنے پیارے انداز سے ہماری تربیت کرتیں انکی بتائی ہوئی باتیں آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں سکول اور جامعہ نصرت بہترین درسگاہیں اور ان میں بہت ہی محبت سے تعلیم دینے والی ہماری بہترین اساتذہ جنہوں نےامی جان کے ساتھ ساتھ ہمیں زندگی کے بہترین اسلوب سکھائے ہمارے دلوں میں خلافت اور جماعت کے ساتھ دلی محبت احترام اور دلی لگاؤ پیدا کیا اور قرآن کریم کا لفظی ترجمہ انہیں بزرگ اساتذہ سے سیکھا جن میں سے کافی اساتذہ کی وفات کا پتہ چلتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے پھر انہیں استاتذہ کی رہنمائی اور سرپرستی کی بدولت مجھے بارہا مختلف دوسرے شہروں کے کالجز میں جاکر ڈیبیٹ کی صورت میں اپنی عظیم درسگاہ کی نمائندگی کا بھی موقع ملا اور الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری پیاری درسگاہ کی عزت دوسروں کی نظروں کی میں بڑھانے کا موقع دیا جہاں ہماری ٹیچرز انہیں پہلے ہی متنبہ کر دیتیں کہ ہماری بچیوں کی کوئی تصویر اتارنے کی کوشش نہ کرے آگے سے جواب ملتا کہ ہمیں پتہ آپ تالیاں تک نہیں بچانے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اتنی ذمہ داریاں سے ہماری اساتذہ نے اپنے فرائض نبھائے اللہ تعالیٰ انکو جزائے خیر عطا فرمائے اور گھر سے بھی امی جان کا حکم تھا کہ اگر دوسرے شہروں میں جاکر پروگرام میں حصہ لینے کی خواہش ہے تو خلیفة المسیح سے اجازت لو اگر اجازت ملتی ہے تو جاسکتی ہو ورنہ نہیں غرض حضرت خلیفة المسیح الثالث کی خدمت میں درخواست کی تو پیارے آقا کا جواب آیا کہ اگر پردے کا خاطر خواہ انتظام ہے تو جا سکتی ہیں بہرحال الحمدللّٰہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے آقا کے حکم پر مجھے بھی اور میری ساتھی باقی سب احمدی بہنوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی اردو کے تلفظ کے لئے ہمیشہ ہمارے حلقہ دارلصدر شرقی کی صدر صاحبہ مولانا عبدالمالک خان صاحب کی بیگم صاحبہ کی راہنمائی حاصل رہی اور بعض اوقات ہمیں اسی سلسلے میں اپنے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی والدہ محترمہ کی صحبت بھی نصیب ہوتی جو پہلے جوس وغیرہ کے ذریعے عزت افزائی فرماتیں پھر ہماری تقاریر سنتیں اور راہنمائی فرماتیں غرض ہم ربوہ کے باسی تو ایسی ہی لڑیوں میں پروئے ہوئے تھے۔
پھر میرے دو بھائی چونکہ جامعہ میں زیر تعلیم تھے ابو جان سندھ میں رہتے تھے اس لئے امی جان کی ذماداریاں بھی دوسری ماؤں سے بڑھ کر تھیں جو وہ محنت کوشش اور دعاؤں کے ساتھ تندہی سے انجام دیتیں کہ سجدہ گاہیں ان کی تر رہتیں فکر ہر وقت یہ کہ چھ بچوں کا ساتھ ہے کوئی بچہ تربیت کے معاملہ میں پیچھے نہ رہ جائے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس میں سرخرو بھی فرمایا اور امی جان کی ان کوششوں میں بڑے بھائی جان کے جامعہ کے زمانے میں محترم میر داؤد احمد صاحب کی شفقت بھی شامل تھی انکی وفات میرے بچپن میں ہی ہو گئی تھی لیکن انکا ایک واقعہ میرےذہن میں نقش ہے ایک دفعہ میری امی جان بیمار ہوئیں تو شاید بھائی جان میر صاحب سے دعا کی درخواست کی ہو گی تو شام کو دروازہ کھٹکا کھولنے پر پتہ چلا کہ میر صاحب تشریف لائے ہیں مجھے آج بھی یاد ہے کہ انکے ہاتھ میں دوائی کی شیشی تھی کہ یہ جلال شمس صاحب کی والدہ کے لئے ہے اور امی جان کے ہاسپیٹل جانے پر پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفة المسیح رحمہ اللہ کی طرف سے پہلے ہی ڈاکٹر میاں منور احمد صاحب کو ہدایت پہنچ چکی ہے کے جامعہ کے اس نام کے طالبعلم کی والدہ کا پوری توجہ سے چیک اپ اور علاج کیا جائے ہے کوئی دنیا میں ایسا شہر کے جس کے باسیوں کا اتنا خیال رکھنے والا کوئی ہو سبحان اللہ اور پھر دوسرے بھائی منیر جاوید صاحب کے جامعہ کے زمانہ میں میر محمود احمد صاحب اور ملک سیف الرحمٰن صاحب کی شفقتیں انہیں حاصل رہیں جو بھائی کالج میں گئے وہ چوہدری محمد علی صاحب کا بہت ذکر کیا کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں اور پھر رمضان آتا تو لگتا ہماری اس پیاری بستی کے گلی کوچے پرنور ہو گئے ہیں اس شہر کے باسیوں کی گویا ساری سستیاں دور ہو جاتیں اور مساجد آباد ہو جاتیں رات میں عبادتوں کا عالم ہی اور ہوتا دن کو مسجد مبارک میں درس کا ماحول مجھے آج بھی یاد ہے جید علما ٕ درس دیتے جنہیں سننے کے لئے دور دور کے محلوں سے قرآن کریم کا درس سننے کے لئے شدید گرمی میں گرمی کی پرواہ کئے بغیراحمدی مسجد مبارک میں جمع ہوتے اور رات کو نماز تراویح میں مساجد کی رونق دیکھنے والی ہوتی اور اتنی رقت آمیز پرسوز دعاؤں کے مناظر دیکھنے کو ملتے جن کے نقش آج بھی ہمارے دلوں پر تازہ ہیں نماز فجر کے بعد بہشی مقبرہ میں دعا کے لئے جانے والوں کا ایک ہجوم ہوتا قادیان کا زمانہ تو ہم نے دیکھا نہیں لیکن ربوہ میں حقیقتاََ 14 سو سال پہلے کی پڑھی ہوئی تایخ کی یاد تازہ ہو جاتی اتنا پیارا اور مقدس ماحول تھا ہماری اس پیاری بستی کا کہ ہمارے جامعہ نصرت کی ایک غیر احمدی پرنسپل بھی اس بات کا اقرار کئے بغیر نہ رہ سکیں کہ یہ ایک پرسکون شہر ہے اس میں شرافت ہے نجابت ہے اس شہر کے باسی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں یہاں میں نے آج تک کسی کو کسی پر آوازیں کستے نہیں دیکھا میں اس وقت بھی اس بات اور اس پیاری بستی پر فخر محسوس کرتی تھی اور آج بھی ہے کہ ہم اس بہت ہی پیاری بستی میں پل کر بڑے ہوئے اور پروان چڑھے اور ان درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی جن کی بنیادیں پیارے آقا حضرت مصلح موعود نے رکھیں خلفاء مسیح موعود نے اپنی نگرانی میں انہیں پروان چڑھایا جلسہ ہائے سالانہ ربوہ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہو گا ہمارے بچپن میں ربوہ میں رہائش کے آخر تک الحمدللہ ہم نے سب جلسے دیکھے مہمانوں کی مہمان نوازیوں کے موقع ملے اور یہ محسوس ہوتا کہ جس کے گھر مہمان ذیادہ ہیں گویا وہ سب سے امیر ہے اور پھر بازاروں کی رونقیں بازاروں نظم ونسب اور پھر ہر طرف نظموں کی آوازیں پرالیوں پر سونا ڈیوٹیاں دیتے نہ تھکنا پھر بارش میں بھی حضرت خلیفة المسیح کے خطابات کو عشاق کا سکون سے بیٹھ کر اس دلجمعی سے سننا گویا کیہ بہترین موسم سے لطف اندوز ہوا جا رہا ہے اور اب اگر جماعت پر آنے والے پرآشوب حالات میں اس شہر کے باسیوں کی کھلے دل کے ساتھ اپنے لٹ پٹ کر آنے والے بہن بھائوں کو کھلے دل اپنے گھروں اور دلوں میں سمونے کا ذکر نہ کروں تو میرا مضمون مکمل نہ ہو گا میری مراد سنہ 74 کے ملک گیر احمدیوں کے خلاف اٹھنے والے ہنگاموں کے حالات کا ہے جہاں پورے پاکستان کے احمدیوں نے جانی اور مالی قربانیاں دیں تو اس عظیم شہر کے باسیوں نے ان دکھی دلوں کے ساتھ مواخات کا عظیم نمونہ دیکھا کر دنیا میں ایک مثال قائم کر دی اور پھر لاہور کے دلخراش واقعہ پر بھی ربوہ کے باسیوں اپنے غمزدہ بہن بھائیوں کے غموں پر تسلی تشفی کا پھاہا رکھا اور انکے غموں کو بانٹا غرض یہ دنیا کا واحد شہر ہو گا جس میں کسی آنے والے مسافر کو رہائش کا کھانے کا مسئلہ پیش نہیں آتا کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ لنگر خانہ دارالضیافت کے نام سے قائم ہے اور پاکستان کے بہترین ہسپتالوں میں شمار ہونے والا فضل عمر ہسپتال بھی ہے جس سے بغیر تفریق مذہب و ملت ہر کوئی مستفید ہوتاہے غرض کون سا دنیا کا آرام اور سکون ہے جو اس میری پیاری بستی میں نہیں اسی لئے ربوہ کے باسی اس پیاری بستی کی یاد کو دل سے محو کر ہی نہیں سکتے اور جس کا اظہار میرے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مختصر الفاظ میں فرمایا کہ۔
’’ربوہ ربوہ ای اے‘‘
ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعاگو
ربوہ کو پہنچتی رہیں کعبہ کی دعائیں
(طیبہ منصور چیمہ ۔ لندن)