• 14 مئی, 2025

ایڈیٹر کے نام خط

ایڈیٹر کے نام خطوط کی اہمیت اور مرحومین پر قلم اٹھانے کی ضرورت

مکرم منور علی شاہد ۔جرمنی سے لکھتے ہیں۔
صحافت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پرنٹ میڈیا کی ابتداء ہی سے تمام بڑے اخبارات کے اہم صفحات پر جگہ پانے والوں میں ’’ایڈیٹر کے نام خطوط‘‘ کے عنوان سے مراسلات کی اشاعت رہی ہے۔ یہ سیاسی، مذہبی، علمی اور تاریخی موضوعات کے علاوہ اخبار کے قارئین کی تجاویز اور اخبار میں شائع ہونے والے مضامین پر تبصروں پر مشتمل ہوتے تھے اور ہیں۔ صحافتی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ایڈیٹر کے نام خطوط‘‘ لکھنے والےانہی قلمکاروں سے بعد میں بڑے بڑے کالم نگاروں اور لکھاریوں نے جنم لیا۔ اخبارات کے قارئین کی بڑی تعداد سب سے پہلے قومی اخبار کے اسی حصہ کو پڑھتی تھی اور ہے جس میں چھوٹے چھوٹے خطوط کی شکل میں مختلف آراء، تجزیہ اور تجاویز لکھی ہوتی ہیں جن کو پڑھ کر علمی و قلبی اطمینان ملتا ہے اور ساتھ ہی اخبار کی مقبولیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔

روزنامہ الفضل آن لائن کے اندر بھی جب سے اس سلسلہ کی ابتداء ہوئی ہے تب سے بہت سے ایسے خطوط نظر سے گزرے جو ’’ایڈیٹر کے نام خطوط‘‘ لکھے گئے تھے اور اپنی علمی تحریر کی بناہ پر انہوں نے بہت متاثر کیا تھا۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل، خلیفہ وقت کی دعاؤں، راہنمائی اور ادارے کے ٹیم ورک کے نتیجہ میں الفضل آن لائن دنیا بھر کے احباب کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ عام قاری کا رحجان بھی اب لکھنے کی طرف مائل ہورہا ہے۔ یہ بہت اچھی اور مثبت تبدیلی ہے۔ میں نے بھی پاکستان میں کالم نگاری اور مضامین لکھنے کی ابتداء اسی ’’ایڈیٹر کے نام خطوط‘‘ کے نام مراسلے لکھنے سے شروع کی تھی اور آج میرے بڑے اخبارات میں شائع شدہ کالموں کی تعداد ایک ہزار سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے اور الفضل میں شائع شدہ مضامین کی تعداد بھی بیسیوں میں ہے۔ اس لئے یہ ’’ایڈیٹر کے نام خطوط‘‘ روزنامہ الفضل آن لائن کے معیار کو بہتر کرنے اور بہترین موضوعات کی فراہمی میں بہترین کردار ادا کررہے ہیں۔

ایک تجویز

’’ایڈیٹر کے نام خطوط‘‘ کے ذریعے خاکسار ایک تجویز ادارے کی خدمت میں لکھ رہا ہے، کہ الفضل آن لائن میں ’’یاد رفتگان‘‘ کے حوالے سے مضامین کی اشاعت کی تعداد میں اضافہ کیا جانے کی ضرورت ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔

اول یہ کہ وفات یافتگان سلسلہ اور خاندان کے بزرگان کا ذکر خیر ہوجاتا ہے اور ان کے لئے دعائیں ہوجاتی ہیں۔

دوم ان کے عزیزو اقارب اور دوستوں اور جماعت، خاندان کی نئی نسل کو ان کی پرانی خدمات کا علم ہوتا ہے اور بات سے بات نکلتی ہے۔

سوم ’’یاد رفتگان‘‘ ایسے موضوعات پر لکھے جانے والے مضامین کی خاندان، عزیزو اقارب، احباب جماعت میں بہت پڑھے جاتے ہیں۔ ایسے مضامین اور ’’ایڈیٹر کے نام خطوط‘‘ بعد میں بطور ریفرنس بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح کی تشہیر سے الفضل اخبار کے مطالعے کی طرف رحجان بھی جنم لیتا ہے۔ مجھے یاد پڑھتا ہے کہ ایک بار حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ نے بھی احباب جماعت کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی تھی کہ احباب خاندانوں کے پرانے بزرگوں کو یاد کریں ان کی تاریخ اکھٹی کریں۔ پاکستان سے احمدیوں کی بڑی تعداد بیرون ممالک میں منتقل ہو چکی ہے ان کے سینوں میں پاکستان میں بجالانی والے دینی خدمات کے خزانے مدفون ہیں ان کو قلم کے ذریعے باہر لاکر الفضل کی زینت بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ سنہری تاریخ محفوظ ہوسکے۔

لہذا اس مراسلہ کے ذریعے استدعا ہے کہ ’’یاد رفتگان‘‘ موضوع پر زیادہ سے زیادہ مضامین کی اشاعت ہو،تاکہ احباب جماعت زیادہ سے زیادہ ان کو پڑھیں اور پھر قلم اٹھائیں تاکہ دنیا کے کونے کونے میں بیٹھے احمدی کو نئے سے نیا پڑھنے کو ملے۔

(نوٹ از ایڈیٹر)

اوپر خط میں لکھے ہر دو امور بہت اہم ہیں۔ مراسلہ نگار کو خاکسار نے ہی لاہور میں قلم پکڑنا اور لکھنا سکھایا تھا اور بفضل اللہ تعالی موصوف نیشنل اخبارات میں کالم لکھتے اور پزیرائی پاتے ہیں۔

یہی دو مذکورہ أمور ہیں جن پر قلم کشائی کرنے سے لکھنے کی عادت مستحکم ہوتی ہے کیونکہ ہر دو أمور کا تعلق جذبات سے ہے اور انسانی جذبات انسان کو مضبوط تحریر کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ پس آگے بڑھیں اور الفضل آن لائن کے ننھے منے قلمکار بن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سلطان نصیر ٹیم میں شامل ہو جائیں اور کلمہ حق بلند کریں۔

پچھلا پڑھیں

عہد بیعت اور اس کے تقاضے

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ