• 19 اپریل, 2024

قوتِ ارادی سے وافر حصہ رکھنے والے روحانی دنیا کے سکندر ہوتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
کیسی حیران کُن قوتِ ارادی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ قوتِ ارادی ایسی ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد کوئی روک درمیان میں حائل نہیں رہ سکتی بلکہ ہر چیز پر قوتِ ارادی قبضہ کرتی چلی جاتی ہے۔ گویا قوتِ ارادی سے وافر حصہ رکھنے والے روحانی دنیا کے سکندر ہوتے ہیں، اس کے پہلوان ہوتے ہیں۔ جس طرف اُٹھتے ہیں اور جدھر جاتے ہیں اور جدھر جانے کا قصد کرتے ہیں، شیطان اُن کے سامنے ہتھیار ڈالتا چلا جاتا ہے اور مشکلات کے پہاڑ بھی اگر اُن کے سامنے آئیں تو وہ اُسی طرح کٹ جاتے ہیں جس طرح پنیر کی ٹکیہ کٹ جاتی ہے۔

پس اگر اس قسم کی قوتِ ارادی پیدا ہو جائے اور اس حد تک ایمان پیدا ہو جائے تو پھر لوگوں کے اصلاحِ اعمال کے لئے اور طریق اختیار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

(ماخوذ از خطبات محمودجلد17 صفحہ447 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936)

چودہ سو سال پہلے اصلاح کا جو عمل قوتِ ایمان کی وجہ سے انقلاب لایا، اُس کی مثال اس وسیع پیمانے پر دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔ کس طرح حیرت انگیز طور پر دنیا میں یہ انقلاب برپا ہوا۔

لیکن اس سے ملتی جلتی کئی مثالیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ماننے والوں میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ تمباکو نوشی گو حرام تو نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہرحال اس کو برا فرمایا بلکہ ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ شاید یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تو منع فرما دیتے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد3 صفحہ175-176)

لیکن ایک برائی بہرحال ہے اور اس میں نشہ بھی ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک سفر کے دوران جب حقے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو آپ کے صحابہ نے جو حقہ پینے کے عادی تھے، اپنے حقے کو توڑ دیا اور پھر تمباکو نوشی کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ کہتے کہ اس طرف تو کبھی ہماری توجہ ہی نہیں گئی۔

(ماخوذ از سیرت المہدی از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جلد1 حصہ سوم صفحہ666 روایت نمبر 726)

اسی طرح ایسے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثالیں بھی ملتی ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد تمام برائیوں کو چھوڑا۔ حتی کہ ایسی مثال بھی ہے جو شراب جیسی برائی میں گرفتار تھے لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ چھوڑ دی۔

پس یہ نمونے ہیں جو ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی قانون سے ڈر کر یا اپنے معاشرے سے ڈر کر ہی برائیاں نہیں چھوڑنی۔ یا اُن سے اس لئے نہیں بچنا کہ اُن میں ماں باپ کا خوف ہے یا معاشرے کا خوف ہے۔ یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے بلکہ سوچ یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے برائی اس لئے چھوڑنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا۔ یا اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے تو ہم نے اس سے رکنا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اگر شراب کھلے عام نہیں ملتی، پاکستان وغیرہ میں تو مجھے پتا ہے کہ قانون اب اس کی اجازت نہیں دیتا تو چھپ کر ایسی قسم کی شراب بنائی جاتی ہے جو دیسی قسم کی شراب ہے اور پھر پیتے بھی ہیں اور اس کا نشہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ امیر طبقہ اور اور بہانوں سے اعلیٰ قسم کی شراب کا بھی انتظام کر لیتا ہے۔ پھر یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کو مَیں نے دیکھا ہے کہ ایسے سیرپ یا دوائیاں، خاص طور پر کھانسی کے سیرپ جن میں الکوحل ملی ہوتی ہے، اُس کو نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے کیونکہ اس میں دوسری دوائیاں بھی ملی ہوتی ہیں۔ پس ایسے معاشرے میں بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اپنی قوتِ ارادی سے ان برائیوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 17؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

سومایا پلی ہو سکا (Somaya Pilichowska)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2023