مؤرخہ 10؍جون 2022 بروز جمعہ بوقت 1:35 دوپہر سومایا پلی ہوسکا طویل علالت کے بعد اپنے مولائے حقیقی کو پیاری ہو گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ ان کی عمر 79سال تھی۔
سومایا میری سہیلی تھی اور ایک بہن کی طرح تھی۔ 1997ء میں احمدیت قبول کی۔ ان کا تعلق ایک یہودی خاندان سے تھا۔ والدین کی بہت لاڈلی اور اکلوتی اولاد تھیں۔ بہت اچھی آرٹسٹ تھیں۔ ان کے والد ایک ماہر آرکیٹیکٹ تھے۔
اپنے زندگی کے حالات اور قبولِ احمدیت کے واقعات سنانے کے بعد وہ بڑے تشکر اور خوشی کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ اب میں اپنے گھر پہنچ گئی ہوں۔
میرا اور سومایا کا تعلق 25سال سے تھا۔ ہمارے گھر کے ایک فرد کی طرح تھیں۔ بہت ہمدرد، شفیق، تعلقات کو نبھاہنے والی اور نیک دل خاتون تھیں۔ خلافت اورخلیفۂ وقت کی ساتھ بہت محبت رکھتی تھیں اور ہر تحریک پر لبیک کہتے ہوتے پوری کوشش سے حصہ لینے کی کوشش کرتی تھیں۔ موصیہ تھیں۔ سب چندے فراخدلی سے ادا کیا کرتی تھیں۔ تحریک جدید اور وقف جدید میں بھی ہر سال خصوصی مجاہدات میں ان کا نام ہوتا تھا۔ ان کی دعائیں اکثر قبول ہوتی تھیں۔
جب تک صحت اچھی رہی باقاعدہ حضور کی خدمت میں خط لکھا کرتی تھیں۔ پھر جب جواب آتا تو بہت خوش ہوتیں۔ مجھے فون پر پڑھ کر سناتیں اور بار بار الحمدللّٰہ کہتی تھیں۔ ان کے ایک ایک لفظ سے محسوس ہوتا تھا کہ خلیفہٴ وقت سے انہیں کتنی محبت ہے اور جواب پا کر کتنا خوش ہوتیں اور تشکر کے جذبات سے لبریزہو جاتی تھیں۔ جب میں انہیں ملنے جاتی تو سب خط نکال کر مجھے دکھاتی تھیں۔ بڑے پیار اور عقیدت کے ساتھ سب خط سنبھال کر رکھتی تھیں۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تو اس وقت بیمار تھیں۔ ہسپتال میں داخل تھیں۔ میری ان کے ساتھ ہر روز فون پر بات ہوتی تھی۔ باقاعدہ حضور کی صحت کے متعلق پوچھا کرتی تھیں۔
وفات کے بعد میں نے ان کی اپنی صحت کی وجہ سے اطلاع نہ دی اور چند دن بعد تک بھی نہ بتایا۔
ایک دن وہ بہت محبت کے ساتھ حضور کی صحت کے لئے دعا کر رہی تھیں تو میں رو پڑی اور انہیں وفات کے متعلق بتایا۔ وہ خلیفہ رابع رحمہ اللہ کی وفات کا سن کر بے اختیار دیرتک روتی رہیں۔
میں نے انہیں تسلی دی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیا خلیفہ عطا فرمایا ہے اور جماعت پرا للہ تعالی کا بہت فضل ہے۔ جب ان کی صحت بہتر ہوئی تو میں انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کی ملاقات کے لئے لے کر گئی۔ ملاقات کے بعد بے انتہا خوش تھیں۔ اورپھر یہ ملاقات ہمارے لئے ایک بہت ہی اہم سالانہ پروگرام کی شکل اختیار کر گئی۔ ہم انتظار میں رہتے۔ آخری ملاقات 2019ء میں ہوئی تھی۔ اس کےبعد کوویڈ اور ان کی کمزور صحت کے باعث ہم نے ملاقات کی درخواست نہیں دی۔ لیکن اکثر کہتی تھیں کہ جب میں ٹھیک ہو جاؤں گی تو حضور کی ملاقات کیلئےجائیں گے۔حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد میں اور میرے میاں مبارک احمد چیمہ صاحب انہیں اسلام آباد لے کر گئے۔ نیا اسلام آباد دیکھ کر بہت ہی خوش تھیں۔ آپا جان سے بھی ملاقات کی۔ حضرت آپاجان کا ذکر بھی بہت محبت کے ساتھ کیا کرتی تھیں اور ان کے ساتھ ملاقات کےبعد بار بار انہیں یاد کرتی تھیں۔
کیونکہ وہ اکیلی ہوتی تھیں۔ ہم انہیں اکثر ملنے جاتے تھے۔ انہیں اپنے گھر میں دعوت دیتے تھے۔ بہت خوش ہوا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی میں انہیں سیر وغیرہ کےلئے بھی لے جایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ گرین وچ کے وزیٹر سنٹر (Greenwich Visiting Centre) میں ایک شاپ پر احمد ٹی (Ahmad Tea) دیکھی۔ تو فوراًکہنے لگیں یہ حضور کے نام پر ہے۔ میں حضور کو تحفہ بھیجوں گی۔ فوراً دو پیک خریدلئے۔ ایک جو زیادہ اچھے فلیور والا تھا وہ حضور کو پارسل کر کے بھجوادیا اور دوسرا اپنے لئے رکھا۔
سومایاکے پاس کوئی قیمتی جیولری یا سونا چاندی وغیرہ نہیں تھے۔ لیکن زکوٰة ہر سال باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں۔ ان کے پاس آرٹیفیشل جیولری ہوتی تھی۔جس میں سے اکثر چیریٹی شاپ سے خریدی ہوتی۔ وہ ثواب سمجھ کر اپنے شوق کی جیولری چیریٹی شاپ سے خریدا کرتی تھیں۔ کہا کرتی تھیں کہ یہ رقم چیریٹی میں خرچ ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے دوہرا ثواب ملے گا۔ اس جیولری پر وہ زکوٰة ادا کیا کرتی تھیں۔ میں انہیں بتاتی کہ ان چیزوں پر زکوٰة فرض نہیں ہوتی۔ تو وہ کہتیں کہ میرے نزدیک یہ قیمتی ہیں۔ ا س لئے میں زکوٰة ضرور کروں گی۔
وہ مجھے سب جیولری کی قیمت بتا کر حساب کروایا کرتی تھیں۔ اور پھر شرح کے مطابق زکوٰة ادا کردیتیں۔ وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل میں ملنے گئی تو مجھے 300 پاؤنڈ کا چیک دیا کہ ان کی طرف سے تحریک جدید اور وقفِ جدید میں جمع کروا دوں۔
سال کے دوران اکثر وہ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید میں چندہ ادا کرتی رہتی تھیں۔ آخر سال میں مجھے بتایا کرتی تھیں کہ میں نے اور اضافی چندہ بھیج دیا ہے۔ ان کی ادائیگی ہمیشہ ان کے وعدہ سے بڑھ کر ہوتی تھی۔
وہ ہمسایوں، دوستوں اور عزیز و اقارب سب میں بہت مقبول تھیں۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ احمدی ہیں۔وہ ہمیشہ انہیں تبلیغ کیا کرتی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود سب ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ سب نے ان کی وفات پر گہرا صدمہ محسوس کیا۔ اور ان کے جنازہ اور تدفین کے موقع پر Eashing Cemetry میں اپنی فیملیوں کے ساتھ موجودتھے۔
بچوں کی تو آنٹی سومایا ہمیشہ ہی فیورٹ ہوتی تھیں۔ ہر بچے کے ساتھ انہوں نے ایک ذاتی تعلق رکھا ہوتا تھا۔
لجنہ نارتھ لندن میں کئی سال بطور سیکرٹری تبلیغ خدمت کی تو فیق پائی۔ اس ذمہ داری کو انہوں نے پوری تندہی سے نبھایا۔
تبلیغ ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ کبھی کوئی موقع تبلیغ کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں۔ قرآن پاک اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں خرید خرید کرلوگوں کو تحفہ دیا کرتی تھیں۔ بہت پیار اور ہمدردی سے پیغام پہنچاتی تھیں۔ ٹیکسی میں سفر کرتیں تو سارا رستہ ڈرائیور کو تبلیغ کرتیں۔ اترتے وقت اسے کوئی کتاب یا لیفلیٹ وغیرہ بھی دے دیتیں۔ اسی طرح شاپنگ کے دوران، پوسٹ آفس میں، ہسپتال میں، ٹرین میں یا کسی کیفے میں، جہاں بھی ہوتیں، جو بھی ملتا اسے احمدیت کا پیغام ضرور پہنچا دیتیں۔
ہر روز مجھے فون کرکے روز کی باتیں سنایا کرتی تھیں اور اپنی تبلیغ کے واقعات سناتیں۔
بہت باحیا، باوقار اور با پردہ خاتون تھیں۔ اپنی علالتِ طبع کے باعث انہیں بعض اوقات مہینوں ہسپتال میں رہنا پڑھتا۔ لیکن ہمیشہ سکارف پہن کر رکھتیں اور پرد ہ اور وقارکا ہر طرح خیال رکھتی تھیں۔ اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے فنکشنز میں ہمیشہ سکارف پہن کر جایا کرتی تھیں۔ والدین کی اکیلی اولاد تھیں۔ شادی ہوئی لیکن ناکام ہو گئی۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
اللہ تعالیٰ ہماری مرحومہ بہن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے ساتھ بہت پیار کا سلوک فرمائے۔ اور ان کے بکھیرے ہوئے بیجوں میں سے ان جیسے تناور درخت پیدا فرمائے۔ آمین
(امۃ الودود چیمہ۔ لندن)