• 28 اپریل, 2024

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے موٴرخہ 16؍دسمبر 2022ء کو دعا کی اہمیت و برکات پر ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں مختلف مثالیں بیان فرما کر حضورانور نے اپنے خالق کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان تمام مثالوں پر الگ الگ اداریے لکھے جا سکتے ہیں۔ مگر آج ایک ایسی مثال سے آغاز کروں گا جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یوں بیان فرمائی ہے کہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیاوی مثالوں کے ساتھ دعا کرنے والے کے صبر کی مثال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’دیکھو! دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے۔ اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کے نیچے دبا دیا۔ اس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشونما پا کر پھل لائے گا۔ باہر کی دنیا اور خود زمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندر زمین میں ایک پودا کی صورت اختیار کر رہا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بننے لگتا ہے اور تیار ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا سبزہ اوپر نکل آتا ہے۔ بیج کی ایک خصوصیت ہے پہلے اس کی جڑیں نکلتی ہیں جڑیں زمین میں پیوست ہو جاتی ہیں پھر باہر کونپلیں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں اور دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب دیکھو! وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا دراصل اسی ساعت سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا مگر ظاہر بین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جبکہ اس کا سبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا۔ لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا۔ اب پودا نکل آیا اب پھل لگنے کا مرحلہ باقی ہے۔ نادان بچہ یہ سمجھے گا کہ اس کو تو پھل لگ نہیں سکتا یہ چھوٹا سا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا مگر عقلمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے۔ وہ صبر سے اس کی نگرانی کرتا اور غورو پرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا ہے اور وہ پک بھی جاتا ہے یہی حال دعا کا ہے اور بعینہ اسی طرح دعا نشوونما اور مثمر بثمرات ہوتی ہے۔ جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مال اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ دور اندیش لوگ جو ہیں نتیجہ کو صبر سے دیکھنے والے لوگ جو ہیں وہ مستقل مزاجی سے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں دعاؤں میں لگے رہتے ہیں اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں۔‘‘

اس مضمون پر خاکسار کو یاد پڑتا ہے کہ میں قلم آزمائی کر چکا ہوں۔ لیکن یہ مضمون اتنا دلچسپ اور مفید ہے کہ اگر باربار بھی بیان کیا جائے تو ضرور سود مند ہو گا۔ بالخصوص آج کے ماحول میں جہاں دہریت سر اٹھا رہی ہے اور حضرت امیر المؤ منین ایدہ اللہ تعالیٰ کو اس جیسے اہم مضمون پر خطبہ دے کر اللہ کی طرف جھکنے کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

دنیا میں نشو ونما کا مٹی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ حتٰی کہ تخلیق انسانی اور اس کے ارتقاء کے لیے اللہ تعالیٰ نے تُرَابٍ (آل عمران: 60) طِیْنٍّ (الانعام: 3)، طِیۡنٍ لَّازِبٍ (الصافات: 12) اور صَلْصَالٍ (الحجر: 27) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کے کسی نہ کسی رنگ میں معانی مٹی کی مختلف کیفیتوں کے ہیں۔

انسان کا آغاز بھی مٹی سے ہے اور مرنے کے بعد بھی مٹی ہی اس کا مقدّر ہے۔ مٹی درحقیقت ایک انکساری اور عاجزی کی علامت ہے۔ دنیا بھر کی قوموں میں سے کسی کو سلیوٹ کرنے اور آداب سے ملنے کی اداؤں اور حرکات کا جائزہ لیں تو ان میں زمین کی طرف جھکنے کا طرز ملتا ہے۔ حضور نے خطبہ جمعہ میں کتے کی مثال دی ہے کہ وہ اپنے مالک کی محبت چاہنے کے لیے اس کے قدموں پر سر رکھ دیتا ہے۔

ایک بیج یا دانہ جب زمین میں ڈالا جاتا ہے تو وہ نشو و نما پانے کے لیے اپنی اصلی حیثیت یا Shape کھو دیتا ہے۔ مٹی میں مل جاتا ہے۔ پھر اس کے اندر سے زندگی نکلتی ہے۔ جو دوسروں کو زندگی دینے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

شاعر کہتا ہے

؎ مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

اس مضمون کو انسان کو ہر وقت اپنے اوپر لاگو کرتے رہنا چاہیے۔ انسان نے اگر پنپنا ہے، اگر نشو ونما پانی ہے، اگر آگے بڑھنا ہے، اگر بڑا ہونا ہے اور اعلیٰ مرتبہ پانا ہے تو اسے اللہ کے حضور سر نگوں ہونا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو مٹی میں ملانا پڑتا ہے۔ کبھی اکڑ کر یا سینہ تان کر بلندی کا سفر طے نہیں ہوتا۔ کوہ پیمان جھک کر ہی پہاڑ سر کرتے ہیں۔ ہائیکنگ کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہمیں کھونٹی ہی دکھائی دیتی ہے جو انسان کو جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اکڑ کے مضمون کو ہم تکبر، انا وغیرہ سے تعبیر کرسکتے ہیں جو خدا کو اور اس کے رسول ؐ کو بہت ناپسند ہیں۔

انسان بھی اگر دانے یا بیج کی طرح اپنے آپ کو فنا کر لے تو اس کی جڑھیں زمین میں پیوست ہوتی جاتی اور وہ خود شاخوں کی طرح آسمان سے باتیں کرتا ہے۔

آج کل معاشرہ میں ہر طرف فرعونیت اور دجل دکھنے کو ملتا ہے۔ دراصل ایسے لوگوں نے، قوموں نے، سربراہوں نے عاجزی انکساری کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔ پھر ایسی قومیں یا سربراہ جلد تنزلی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم نے بارہا گھروں کے باہر لگی باڑھ کو دیکھا ہے جب اسے کچھ دنوں کے بعد تراش کر برابر کر دیا جائے تو شاخوں کے بڑھنے اور نشوو نما پانے کا عمل کا آغاز ہو جاتا ہے لیکن ایک یا دو سرکنڈے تیزی سے سر نکال کر باہر نکل آتے ہیں اور بڑی تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں۔ حتٰی کہ وہ بعض اوقات اتنے بڑے ہو جاتے ہیں اور معیوب لگنے لگتے ہیں کہ کوئی شخص آتے جاتے بعض اوقات انہیں مسل چھوڑتا ہے یا توڑ ڈالتا ہے۔ اگر یہ عمل دوسروں سے مسابقت لے جانے کے لیے ہو تو خوش آئند ہے لیکن اگر تکبر کی ملونی ہے تو پھر محل نظر ہے۔ یہی کیفیت انسانی زندگی میں ہے اگر تو نیکیوں میں مقابلہ کرتے ہوئے کوئی انسان تیز تیز بھاگتا، اچھلتا کودتا دربار الٰہی کی طرف بڑھتا جاتا ہے تو اچھی بات ہے اسے مسابقت الی الخیر کہیں گے لیکن اگر دوسروں کی ناک کو خاک میں ملانے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے اپنے آپ کو بلند کرتا ہے تو آخر ایک دن اس کی گردن کے سریہ کو کاٹنے والا بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اب ہم نئے سال میں داخل ہوئے ہیں۔ چند ہفتوں تک رمضان المبارک میں قدم رکھنے والے ہیں۔ وہاں مسابقت الی الخیر کے لیے جو نیک عملوں کا میدان لگانا ہے ضرور لگائیں۔ ایک دوسرے کی نیکیوں کو دیکھ کر اسے اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے دوڑ لگائیں اور سب کو اپنے پیچھے چھوڑنے کی کوشش ضرور کریں۔

آج حضور نے دہریت کے قلع قمع کے لیے جو اصول بیان فرمایا ہے اس کے لیے راتوں کو اٹھ کر آداب الٰہی اور آداب دعا کو ملحوظ خاطر رکھ کر اللہ کو پانے کی خاطر اپنے آپ کو مٹا دینا ہی اصل میں کامیابی کا گر ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب یہ دعا کرنے کی ضرورت ہے۔

اے اللہ! میں تجھ سے تجھ کو مانگتا ہوں

اور ہم میں سے اکثر کو اللہ مل جائے گا اور اس کے اثرات دعاؤں کی قبولیت کی صورت میں ہمارے معاشرہ پر نظر آئیں گے تو دہریت مٹتی جائے گی اور الوہیت و ربوبیت معاشرہ میں نظر آئے گی۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکار انہیں پا سکتا۔ کبیر نے سچ کہا ہے۔؎

بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام
جے ہوتے گھر اونچ کے ملتا کہاں بھگوان

(یعنی اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے۔ اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا۔ جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی کم ذات پر نظر کر کے شکر کرتا تھا۔)۔ پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہیچ ہوں۔ میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو تمام کائنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور ناقابل و ہیچ جان لے گا۔ انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جوایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا برتنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ314-315)

پھر فرمایا:
’’انسان بیعت کنندہ کو اول انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنے خودی اور نفسانیت سے الگ ہونے پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ455)

؎بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں
چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے
ہو جاؤ خاک مرضیٔ مولیٰ اسی میں ہے

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

سومایا پلی ہو سکا (Somaya Pilichowska)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2023