• 15 مئی, 2025

حضرت میاں غلام حسنؓ

حضرت میاں غلام حسنؓ۔ محمود آباد، جہلم

حضرت میاں غلام حسن صاحب ولد میاں عبدالرحیم صاحب جہلم شہر کے مضافاتی علاقے محمود آباد کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازاً 1870ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت مولوی برہان الدین جہلمیؓ سے تعلق ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت تھی، گوکہ درمیان میں بعض مخالف مولویوں کی تقریروں کی وجہ سے شکوک میں مبتلا ہوئے لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینہ صاف ہوگیا اور حلقہ احمدیت میں داخل ہوگئے۔ آپ بسلسلۂ روزگار لاہور میں مقیم تھے جہاں جنوری 1903ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کے سفر جہلم سے واپسی پر لاہور میں قیام کے دوران بیعت کی توفیق پائی، اس سفر میں بیعت کرنے والوں کی فہرست میں آپ کا نام یوں درج ہے: ’’67۔ غلام حسن ولد عبدالرحیم رام پور جہلم‘‘ (اخبار بدر 23، 30؍جنوری 1903ء صفحہ13) رام پور محمودآباد کے بالکل قرب میں واقع ہے۔ 1938ء میں آپ نے اپنی روایات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں لاہور بسلسلۂ روز گار گیا ہوا تھا۔ (مَیں اس سے پہلے حضرت مولوی برہان الدین صاحب مرحوم کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانتا تھا اور مولوی صاحب کے ساتھ جہلم میں نماز پڑھتا تھا۔اسی دوران میں شہر جہلم میں ایک مولوی محمد علی صاحب بوپڑی آئے اور اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف تقریر یں کیں….. اور موضع جادہ میں بھی (جو ہمارے گاؤں محمود آباد کے پاس ہی ہے) تقریریں کیں۔ اس وقت میرے دل میں بھی وساوس پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھ پر فضل کیا۔ رات کو میں نے خواب میں یہ آیت پڑھی وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ اس کے بعد کبھی بھی وساوس پیدا نہیں ہوئے) کہ مجھے گھر سے خط گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم تشریف لا رہے ہیں۔ میں جہلم نہ جاسکا۔ حضرت صاحب کی واپسی پر میں نے حضور ؑ کو بادامی باغ اسٹیشن پر دیکھا۔ وہاں بہت مخلوق تھی۔ میں نے وہاں ایک ہندو صاحب کو جو جنگلہ کے باہر کھڑا تھا لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ ذرا ہٹیں ہٹیں درشن لے لینے دیں۔ اس کے بعد ایک شخص سے دریافت کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رات کو کہاں تشریف رکھیں گے۔ معلوم ہوا کہ میاں معراج الدین صاحب یا چراغ الدین صاحب (اصل نام یاد نہیں رہا) کے ہاں لنڈا بازار میں تشریف رکھیں گے۔ میں وہاں روٹی کھانے کے بعد گیا۔ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا۔ پھر کسی صاحب نے اعلان کیا کہ اگر کسی صاحب نے بیعت کرنی ہو تو کرے۔ چونکہ میں وہاں ہی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت چوبارہ میں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چونکہ آدمی زیادہ تھے، کوٹھڑی تنگ تھی اس لئے میں حضرت صاحب تک نہ پہنچ سکا۔ ایک آدمی میرے آگے بیٹھا ہواتھا۔ اس نے حضرت صاحب سے بیعت کرنے کے لئے مصافحہ کیا ہوا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ اس آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ لو۔ میں نے بھی رکھ لیا اور پتہ لکھوایا۔ بعد وہاں سے السلام علیکم کر کے چلا آیا۔

دوسری بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پھر لاہور دیکھا۔ حضرت صاحب نے احمدی صاحبان کے ایک احاطہ میں تقریر فرمائی …. دوسری تقریر جو حضرت صاحب نے عام لوگوں میں فرمانی تھی پہلی اتوار حضرت صاحب بوجہ اجازت نہ ہونے کے تقریر نہ فرما سکے۔ میں گھر محمود آباد (جہلم) چلا آیا۔ دوسری اتوار تقریر ہوئی اور مُنشی نور احمد صاحب اور چوہدری صدر دین صاحب مرحوم سکنہ محمود آباد وہیں رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات میں مَیں پہلی بار بھادوں کے مہینہ میں گیا۔ میرے ساتھ اس وقت میرا بھائی میاں عبدالرحمن صاحب مرحوم (یہ نہایت مخلص تہجد گزار احمدی تھے) مستری کرم الٰہی صاحب، بابو امام الدین صاحب جہلمی …. اور مستری عبدالستار صاحب مرحوم (وہ بھی پیغامی ہو گئے تھے۔) تھے ہم پانچوں بٹالہ اسٹیشن پر اُترے اور برائے نماز ایک مسجد میں گئے۔ وضو کر رہے تھے کہ ایک لڑکا اندر سے آیا۔ اس نے کہا کہ تختہ پڑھ لو۔ پہلے تو ہمیں سمجھ نہ آئی بعد اس تختہ کو دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا کہ کوئی مرزائی اور وہابی اس مسجد میں نہ آئے۔ چنانچہ ہم وہاں سے چلے گئے۔ باہر باغ میں جاکر نماز پڑھی۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ ہم قادیان میں کتنے دن رہے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جناب مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی امامت میں نماز مسجد مبارک میں پڑھتے رہے۔ روٹی لنگر سے کھاتے رہے۔ ہم پانچوں اکٹھے واپس چلے آئے۔ سن مجھے یاد نہیں کہ میں کس سن میں قادیان گیا۔ اس کے بعد حضرت صاحب کی موجودگی میں جو سالانہ جلسے ہوئے تھے اُن تمام پر میں قادیان گیا۔ اس آخری جلسہ پر بھی گیا۔ میرے ساتھ اس وقت اپنے گاؤں محمود آباد کے مستری کرم الٰہی صاحب چوہدری نظام الدین صاحب مرحوم ولد چوہدری جیون خاں صاحب بھی تھے۔ چوہدری نظام دین صاحب میرے ساتھ حضرت صاحب کی موجودگی میں جلسوں پر جاتے رہے۔ وہ پولیس میں ملازم تھے اور جلسہ کے لئے چھٹی رکھ لیتے تھے۔

جس وقت صبح سویرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لئے باہر تشریف لائے تو بہت مخلوق ساتھ ہو گئی۔ راستہ میں ہی ہجوم کی زیادتی کی وجہ سے حضرت صاحب ٹھہر گئے۔ سیالکوٹیوں نے جو بہت زیادہ تھے رستہ کا بندوبست کیا۔ دو رویہ قطاریں بنائیں تا حضرت صاحب درمیان سے گزر جائیں لیکن حضرت صاحب وہیں ٹھہرے رہے اور واپس چلے آئے۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ خطبہ جمعہ میں حضرت صاحب نے فرمایا کہ آج وہ میرا الہام پورا ہو گیا کہ لوگ تیرے پاس دور دراز سے آئیں گے لیکن گھبرانا نہیں۔ اس وقت میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب شاید حضرت صاحب کا آخری وقت قریب آگیا ہے اور فوراً میرے سامنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا کا اترنا اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانا کہ اب میرا آخری وقت قریب ہے نقشہ آگیا۔ اسی جلسہ کے بعد ہمارے بہت ہی پیارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے حقیقی مولا کریم کے پاس چلے گئے۔ پھر جلسہ کے ختم ہونے پر گھر چلا آیا۔

اس سے قبل ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت صاحب ایک گاؤں ارائیاں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ اس وقت بھی حضورؑ کے ساتھ بہت آدمی تھے۔ چونکہ حضور ؑ بہت تیز چلتے تھے۔ اس لئے دوڑ دوڑ کر ساتھ ملتے تھے۔ حضور ؑ اس گاؤں تک گئے پھر واپس تشریف لے آئے۔

میری عمر اس وقت قریباً پینسٹھ سال کی ہو گی میں ہر سال جلسہ سالانہ پر جاتا رہا۔ بوجہ غربت جلسوں کے درمیان میں نہ جاسکا۔ صرف اب حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وقت خلافت میں دو دفعہ نہیں جاسکا۔ ایک دفعہ بیمار تھا اور ایک دفعہ ویسے نہیں جاسکا۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر7 صفحہ206 تا 208)

آپ جماعت احمدیہ محمود آباد کے سیکرٹری تعلیم و تربیت رہے، اسی طرح ایک لمبا عرصہ امامت صلوٰۃ کے بھی فرائض سر انجام دینے کی توفیق پائی۔ آپ نے 28؍مارچ 1947ء کو وفات پائی، خبر وفات دیتے ہوئے ملک عبدالغنی صاحب امیر جماعت محمودآباد نے لکھا:
’’ہمارے بابا جی استاذی المکرم جناب میاں غلام حسن صاحبؓ صحابی و امام الصلوٰۃ جماعت احمدیہ محمود آباد ضلع جہلم بعمر تقریبًا 80 سال جنہیں حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ کے ساتھ ہی احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی (نوٹ: جیسا کہ اوپر بیان ہوا حضورؑ سے اخلاص رکھتے تھے لیکن بیعت 1903ء میں کی۔ ناقل) اور دن بدن اخلاص میں بڑھتے گئے۔ قریبًا 55 سال تک مسجد احمدیہ میں امامت کے اہم فرائض ادا کرنے کے بعد جماعت احمدیہ محمود آباد کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ حقیقی کے پاس چلے گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ جماعت کا ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر مرد اور عورت ان کے احسانات کے نیچے ہیں۔ گاؤں کے اکثر غیر احمدی اور ان کے بچے بھی ان کے شاگرد ہیں ….. 47/3/29 …. بعد تجہیز و تکفین و نماز جنازہ دفن کیے گئے۔‘‘

(الفضل 10؍اپریل 1947ء صفحہ2)

آپ کی وفات کے بعد آپ کے بڑے فرزند میاں عبدالسلام صاحب کو امام الصلوٰۃ مقرر کیا گیا۔

(الفضل 21؍اپریل 1947ء صفحہ5)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

سومایا پلی ہو سکا (Somaya Pilichowska)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2023