دوسری شرط بیعت
نفسانی جوشوں کے وقت مغلوب نہیں ہو گا
دوم۔ یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ189 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر 48)
؎تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا
نفسِ وحشی وجفاکش اگر رام نہ ہو
بانیٴ سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود ؑنے انسان کی دینی، روحانی، اخلاقی ترقیوں کی کلید دس شرائط بیعت بیان فرمائی ہیں۔
دوسری شرط بیعت میں 9قسم کی برائیوں سے بچتے رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ان برائیوں میں سب سے آخر میں نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہ ہونے کی نصیحت فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾
(آل عمران: 135)
ترجمہ: (یعنی) وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
ہمارے پیارے آقا سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ سے بھی اس کی تشریح کچھ یوں ہوتی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں:
لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ
(صحیح بخاری حدیث نمبر6114)
ترجمہ: پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے، بے قابو نہ ہوجائے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا کبھی غصہ میں مت آنااور یہ جملہ آپؐ نے کئی مرتبہ دہرایا کہ غصہ میں مت آؤ۔غصہ میں مت آؤ۔
حضرت اقدس مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام نفسانی جوشوں سے بچنے کے حوالہ سے فرماتے ہیں:
’’وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں۔ زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اور ہر ایک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو۔ اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں اور اپنے نبی کریم کے شکر گزار رہو، اُس پر درود بھیجو، کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانے کے بعدنئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی۔
(ضمیمہ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ525)
اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم صفت عفو (معاف کرنے والا) ہے۔
پیارے رسول، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر یہ خلق عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ آل عمران آیت نمبر 160میں فرماتا ہے:
ترجمہ: اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہوگیا اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دور بھاگ جاتے۔ پس ان سے عفو ودرگزر سے کام لے اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ دبانے اور معاف کر دینے کی خوبصورت تعلیم پیش فرمائی اور عفوودرگزر کی بے نظیر مثالیں نہ صرف اپنوں کے ساتھ بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی قائم فرمائیں۔
حضرت خدیجہؓ کے صاحبزادے ہند کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہ بیان کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور اس کی اغراض کی خاطر کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے۔ اسی طرح اپنی ذات کی خاطر نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے نہ بدلا لیا۔
اسلام کی تاریخ پیارے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو معاف کرنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے والی یہودیہ سے عفو کا سلوک کرنے، ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کو معاف کرنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کے نعش مبارک کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرنے والی ہندہ کو معاف کرنے اور دیگر بہت ساری مثالوں کے ساتھ روشن ہے۔ آپؐ جہاں دشمنان اسلام کو معاف فرماتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ حسن واحسان کا سلوک بھی فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں خادم کو دن میں ستر بار معاف کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرتدین کو معاف کرتے ہیں تو کہیں واجب القتل مجرموں کو معاف کرکے عفو درگزر کا شاندار نمونہ دکھاتے ہیں۔
اب تو طبی طور پر ماہرین بھی کہتے ہیں کہ جب لوگ نفرت، غصہ، اشتعال، بدلہ وانتقام جیسے منفی جذبات اپنے جسم میں لئے پھرتے ہیں تو اپنی صحت کا نقصان کرتے ہیں۔ ذہنی دباؤ اور دیگر ذہنی وجسمانی بیماریوں کا شکار ہو کر اپنا حال خراب کردیتے ہیں۔
پیارے آقا حضرت سیدنا مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس اگر ضرورت ہے تو اس چیز کی کہ ہم بیعت کرنے کے بعد اس کی تفصیلات جاننے کی کوشش کریں اور بیعت کے عہد کو سامنے رکھیں۔ اگر ہم بیعت کی شرائط میں بیان کردہ اخلاقی بہتری کی شرائط کو ہی سامنے رکھیں تو ہمارے اخلاقی معیار، معاشرتی تعلقات، کاروباری معاملات اور روزمرّہ کے لین دین کے معاملات، گھریلو اور عائلی معاملات، ان سب میں ایک غیر معمولی بہتری اور بلندی پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ان معیاروں سے بھی بہت دُور ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس تعلق سے اپنی شرائط میں جن باتوں کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ مثلاًکہ جھوٹ نہیں بولنا، ظلم نہیں کرنا، خیانت سے بچنا ہے۔ نفسانی جوشوں سے مغلوب نہیں ہونا۔ عام دنیا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں کی وجہ سے ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہیں دینی۔ تکبر نہیں کرنا۔ عاجزی اختیار کرنی ہے۔ ہمیشہ خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے۔ عموماً بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 11؍اگست 2017ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں‘‘ (جو سچائی سے روکتے ہیں) ’’تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا۔ کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں حرج نہیں (کوئی حرج نہیں) اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ360)
نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونے کی تلقین کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پہلے بھی مَیں نے بتایا کہ آجکل ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعے نفسانی جوشوں سے مغلوب ہونے کے بہت سے مواقع ہیں۔ پھر لڑائی جھگڑے، دنگا فساد بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان نفسانی جوشوں سے مغلوب ہوتا ہے۔ پس چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جو کسی بھی طرح نفسانی جوشوں کو ابھارنے والی یا ان سے مغلوب کرنے والی ہے ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا ایک احمدی کا فرض ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 2؍جنوری 2015ء)
؎پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے
ڈرتے رہو عقوبت رب العباد سے
جو متقی ہے اس کا خدا خود نصیر ہے
انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے
تقویٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے
عفت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
(مریم رحمٰن)