• 11 مئی, 2024

فقہی کارنر

پردہ کی فلاسفی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غضِ بصر اور پردہ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فر مایا:۔
خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نا محرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور اُن کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور اُن کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور اُن کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تا کید ہے کہ ہم نا محرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہر گز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے اور ان کی خوش الحانی کی آواز یں اور اُن کے حسن کے قصے نہ سُنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے بلکہ ہمیں چاہیئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکر یں پیش آ ویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آ نکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فر مائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کاروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بد خطرات جنبش کر سکیں۔

اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قید یوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھاوے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہیئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آ جائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ343-344)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام ایک تاریخی خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2022