• 12 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام ایک تاریخی خط

ایڈیٹر کے نام ایک تاریخی خط
بھیرہ شہر کی روح پرور سیر

مکرم ابن ایف آر بسمل لکھتے ہیں :
5مارچ 2022ء کے الفضل میں پیشگوئی لیکھرام کے پورا ہونے پر آپ کا اداریہ ’’کل چلی تھی جولیکھو پہ تیغ دعا‘‘ اور مکرم چوہدری محمد امجدجمیل کا مضمون ’’ایک خدائی نشان اور تعارف خاندان‘‘ بہت پسند آئے اسی طرح پرنسپل جامعہ نائیجیریا مکرم عبد العظیم احمد کا مضمون بھی بڑا comprehensive معلوماتی اور ایمان افروز ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ’’تریاق القلوب‘‘ میں 270 گواہوں کے نام اور بعض کے بیان دئے ہیں۔ جنہوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کی تحریری شہادت دی۔ 191 ویں نمبر پر ’’الہ دین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور‘‘ اس عاجز کے پردادا تھے اس عاجز کے دادا اور پردادا خدا کے فضل سے بھیرہ کے صحابہ میں سے تھے۔ بھیرہ ایک قلعہ بند walled city ہے جس کے ارد گرد بیضوی شکل میں سڑک گھومتی ہے۔ جس پر شہر کے اندر داخل ہونے کے لئے مغلیہ آرکیٹکچر طرز کے آٹھ محرابی دروازے ہوتے تھے۔ احمدیت کے اعتبار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں اس شہر کو حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ کثرت سے یہاں حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ ہوئے ہیں۔ اس عاجز کے آباء و اجداد کا تعلق چونکہ بھیرہ سے ہے اور اس عاجز نے بھی میٹرک تک بھیرہ میں تعلیم حاصل کی تھی اس لئے عاجز بڑے وثوق سے عرض کرتا ہے کہ عالم تصور میں بھیرہ کے کسی دروازے سے داخل ہوں۔ آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا صحابیؓ نظر آجائے گا ۔ہر طبقہ اور ہر محلہ سے لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کی غلامی میں داخل ہوئے۔ ملتانی گیٹ (لالو والا دروازہ) سے شہر میں داخل ہوں تو قریب ہی بازار کے عقب میں گلی میں مسجد نور ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا آبائی گھر تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی طرف سے لاہوری گیٹ (گنج والا دروازہ) سے شہر میں داخل ہوں تو تقریباً بازار کے سنٹر میں ہی مسجد قاضیاں والی آجاتی ہے۔ یہ مسجد قاضی سید امیر حسین صاحب کی خاندانی مسجد تھی۔ اس کے قریب ہی محلہ حکیماں والا میں حضرت حکیم فضل دین صاحب کا گھر آتا ہے۔ محلہ مفتیوں والا بھی اس سے ملحق ہےجہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور حضرت مفتی فضل الرحمن صاحبؓ کا گھر تھا۔ چنیوٹی گیٹ (چک والا دروازہ) سے یہ زیادہ قریب پڑتا ہے ۔کابلی دروازہ (چڑی چوک والا دروازہ) سے داخل ہوں تو حضرت خان بہادر غلام حسین صاحبؓ گلگتی کی حویلی آجاتی ہے جو گلگت اور لداخ کے پولیٹیکل ایجنٹ رہے ہیں ۔کشمیری دروازہ (چٹی پلی والا دروازہ) سے داخل ہوں تو حضرت قریشی غلام حسین صاحبؓ  کا گھر آجاتا ہے جنہیں حضرت مسیح موعود ؑ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ہاتھ اپنی ہینڈ سٹک Hand Stick تحفہ کے طور پر بھیجی تھی جو ان کے پوتے قریشی احمد حسن صاحب مرحوم کےگھر میں محفوظ ہے۔

مغرب میں لوہارا موری والا دروازہ کے ساتھ مسجد فضل ہے۔ محلہ احمدیہ اور محلہ پراچگان ساتھ ساتھ ہیں وہاں بیسیوں گھر صحابہ کے تھے وہاں سے ایک صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہینڈ سٹکز بنا کر بھیجتے تھے۔

مسجد نور کی vicinity میں بیسیوں گھر صحابہ کے تھے حضرت مولوی دلپزیر صاحبؓ  کا گھر بھی قریب تھا جو کہ 40 کتب کے مصنف اور شاعر تھے۔ ہمارے آباء و اجداد بھی مسجد نور کے سامنے والی گلی میں رہتے تھے۔ شہر کے مڈل میں بازار کے اندر ایک شاندار گرودوارہ ہے۔ اس کے عقب میں حضرت منشی خادم حسین صاحبؓ  کا گھر تھا۔ محلہ شیش محل میں بھی ایک صحابی تھے حضرت شیخ محمد شفیع صاحبؓ جن کے ایک بیٹے شیخ محمد اکرم صاحبؓ مرحوم مسلم ٹاؤن لاہور کے صدر تھے اسی طرح حضرت حکیم عبد الجلیل صاحب جو خلافت ثانیہ میں شیخو پورہ شفٹ ہو گئے تھے ان کی اولاد در اولاد سویڈن، برطانیہ، کینیڈا میں پھیل چکی ہے۔

آرکیٹکچر کے دو ماہرین بھی صحابہ میں سے تھے۔ جنہیں انگلش گورنمنٹ نے وڈ کارونگ کے لئے ولائت بھجوایا تھا یہ واپس آکر ولیتئے مشہور ہو گئے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دو رضائی بھائی بھی مسجد نور کی vicinity میں رہتے تھے ایک بھائی حضرت حافظ غلام محی الدینؓ قادیان اور دوسرے حضرت حافظ محمد امینؓ جہلم شفٹ ہو گئے تھے۔ انہی رضائی بھائیوں کے پوتوں میں سے میجر ڈاکٹر عبد الحق مرحوم امیر ضلع گجرات اور مولانا جمیل الرحمن رفیق معروف ہوئے۔

بھیرہ کے بعض صحابہ کو مدرسہ احمدیہ اور ٹی آئی اسکول قادیان میں تدریس کا موقع ملا ۔حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ ،حضرت منشی خادم حسین صاحبؓ اور حضرت ماسٹر نور الہی صاحبؓ اور حضرت ماسٹر عبدالرؤف صاحبؓ وغیرہ (حضرت ماسٹر نور الہی صاحبؓ کے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پگڑی حاصل کی تھی جو ان کے پوتے کے پاس ہے) بھیرہ کے صحابہ کی اکثر اولادوں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی برکتیں دیں۔ ٹی آئی کالج کے وائس پرنسپل میاں عطا الرحمن صاحب بھی بھیرہ کے ایک صحابی حضرت میاں کرم دین صاحب ؓکے بیٹے تھے ۔آئی سپیشلسٹ میجرجنرل نسیم صاحب مرحوم کے نانا بھی بھیرہ کے صحابہ میں سے تھے اب تو بھیرہ کےکئی صحابہ کی اولادیں یورپ، امریکہ اور کینیڈا وغیرہ میں پھیل گئی ہیں۔

موٹر وے بننے سے بھیرہ پھر لائم لائٹ میں آرہا ہے۔ کاش جماعت احمدیہ کی رونقیں بھی واپس آجائیں۔ آپ نے جس لیکھرام ثانی کا ذکر کیا ہے اس کے تباہ شدہ جہاز کا scratch اس عاجز نے بھی دیکھا ہے جو عبرت کا نشان ہے۔

٭…٭…٭…٭

نوٹ از ایڈیٹر: مؤقر اخبار الفضل کے مستقل قاری ، الفضل سے عشق کی حد تک پیار کرنے والے ادیب ،نامہ نگار اور مضمون نویس مکرم ابن ایف آر بسمل نے آج بھیرہ شہر کی ایسی روحانی سیر کروائی کہ طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ ایک طرف طبیعت میں طراوٹ اور دوسری طرف افسوس کہ کاش اتنی تفصیل سے بھیرہ کا تعارف پہلے پڑھنے کو ملتا تو بھاگ کر جا کر دیکھ آتے۔

خاکسار نے بہت دفعہ فیملی کے ساتھ اور کئی دفعہ دوستوں کے ساتھ بھیرہ دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ اسلام آباد میں آٹھ سال مقیم رہا۔ اپنے عزیزوں سے ملنے منڈی بہاؤالدین جاتے اس راہ سے گزر ہوا ۔ مگر ارادہ ،ارادہ ہی رہا پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا جس کا آج مجھے بہت افسوس محسوس ہو رہا ہے۔

جو دوست آسانی سے بھیرہ وزٹ کر سکتے ہوں انہیں اپنی روح کی آسودگی اور ایمان کی بڑھو تڑی کے لئے ضرور جانا چاہئے۔ یہ اس عظیم شخصیت کی آماجگاہ رہی ہے جس کے متعلق مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’… اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘

(ترجمہ از عربی عبارت مندرجہ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ581-586)

یہ وہ روحانی وجود تھے جو اپنا تمام مال و اسباب اور جائیداد چھوڑ کر قادیان میں دھونی رما بیٹھےاور اسی کو اپنا وطن ثانی بنا لیا۔ اللہ ان سے راضی ہو ۔ آمین

پچھلا پڑھیں

دعا کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر