• 19 مئی, 2024

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اچھوتے انداز اور قابل عمل زاویے
سورۃ النساء آیت 60 کی روشنی میں

گزشتہ دنوں مجھے اپنے حلقہ کی جماعت کے اجلاسِ عام میں آن لائن شمولیت کی توفیق ملی۔ اس اہم اجلاس میں انتظامیہ نے مجھے حقوق اللہ اور حقوق العبادپر گفتگو کرنے کاحکم دے رکھا تھا۔ اس ضروری اور مفید موضوع کو لے کر اگر میں چاہتا تو روائتی طورپرحقوق اللہ اورحقوق العباد پراسلامی تعلیم اوراس میں بیان ہونے والے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق بھی گنوا سکتا تھا لیکن جب اس مضمون پر خدا داد سوچوں کے دھارے کے سہارے غورکرتے قرآنِ کریم کی درج ذیل آیت کریمہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ

(النساء: 60)

ذہن میں آئی جس کا ترجمہ یہ ہے۔ اے مومنو !اللہ کی اطاعت کرواور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اولوالامر یعنی فرمانرواؤں کی بھی اطاعت کرو۔ اس آیت کریمہ میں بھی حقوق اللہ اورحقوق العباد ادا کرنے کی تاکید کا ذکر ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو اَطِیۡعُوا اللّٰہَ کے الفاظ میں حقوق اللہ اور رسول اللہ اور اُولِی الۡاَمۡرِ کی اطاعت میں حقوق العباد کا ذکر مضمر ہے۔ اب خاکسار مختلف حقوق کے بارے میں کچھ بیان کرے گا۔ اس آیت میں موجود حقوق کا مضمون ایک نئے انداز سے سامنے آئے گا۔

اطاعت کے حوالے سے حقوق اللہ

انسان کی یہی سوچ اپنے خالق کائنات کے حقوق کی ادائیگی کی طرف ہر دم دعوت دیتی ہے کہ انسان کو یاد رہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسےتمام سلامت اور فعال اعضاء کے ساتھ پیدا فرمایاہے۔ اس کی پیدائش اشرف المخلوقات کے طور پر ہوئی ہے،

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۵﴾

(التین: 5)


اسےکوئی جانور نہیں بنایا۔وہ بولتے ہیں اور اپنا مافی الضمیر بھی بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اگلے کا ما فی الضمیر سن کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہے، دیگر حسیات بھی ان میں ودیعت کی ہیں لیکن پھر بھی وہ اشرف المخلوقات کے درجہ پر نہیں گئے۔ اس پر صرف انسان کو ہی فائزکیا گیا ہے۔ ہمیں مناسب حال اعضاء کی بجائے معذور یا Handycap نہیں بنایا۔ مخلوقات میں سے سب سے بلند درجہ عطا ہونے کی یہ سوچ ہی انسان کو اپنے خالق کا شکر ادا کرنے کے قابل بناتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنے کا بہترین طریق عبادت ِ الٰہی یعنی نمازوں کی ادائیگی ہے۔ جو انسان پر اللہ کا پہلا حق ہے۔ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ

(الذاریات: 57)

ہمیں عبادات کے حق ادا کرنے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنی ہے۔تسبیح و تحمید اور ذکر الہٰی میں وقت گزارنا ہے۔ صدقات وخیرات اور زکوٰۃ ادا کرنی ہے۔

اس حوالے سے اپنے آقاومولٰی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ کی پاکیزہ زندگی، حسن اخلاق اورآپؐ کے مبارک طریق کو دیکھیں تو آپؐ کی خلوت کی عبادات کا یہ عالم تھا کہ نماز اور نوافل میں لمباوقت کھڑے ہونے کی وجہ سے آپؐ کے پاؤں متورم ہو جاتے۔ آپؐ اپنے خالق کے سامنے اسقدر گڑگڑاتے، عجزوبُکا کرتے کہ جیسے ہنڈیا سے ابلنے کی آواز آ رہی ہو۔جب پوچھا جاتا کہ جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہے تو آپ اتنی کیوں عبادت کرتے ہیں تو کیا ہی خوبصورت جواب ہوتا کہ کیا میں اپنے خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟

با جماعت نمازوں کی ادائیگی یوں تھی کہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ ہمارے ساتھ محوِ گفتگو ہوتے مگر جونہی اذان کی آواز سنائی دیتی فوراً وضو کر کےمسجد کی طرف چل دیتے اور یوں لگتا جیسےآپؐ ہمیں پہچانتے ہی نہیں۔ آخری بیماری میں بھی آپؐ دو صحابہؓ کے کندھوں کے سہارے نماز با جماعت کے لئے مسجد تشریف لاتےہیں، بعض اوقات کمزوری کی وجہ سے آ پ اپنے پیر زمین پر گھسٹتے جاتے۔ یہ سب کچھ اس اطاعت میں تھا جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بطور اپنے حق کی ادائیگی کے دے رکھا ہے۔ اور یہ مبارک طریق ہم سب کے لئے عمدہ نمونہ اورمشعل راہ بھی ہے۔

حقوق العباد کی ادائیگی

حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقوق العباد کو حقوق اللہ پر فوقیت دی ہے کہ اگر اللہ کا کوئی حق ادائیگی سے رہ جائے تو انسان اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے تو وہ معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن اگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کمی رہ جائے یا کسی اللہ کے بندے کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو جب تک زیادتی کا شکار ہونے والے شخص سے معافی نہ مانگی جائے خدا معاف نہیں فرمائے گا۔اس حوالے سے روزنامہ الفضل آن لائن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کےایک ارشاد کے مطابق ’’کتاب تعلیم کی تیاری‘‘ کے عنوان سے گزشتہ آٹھ دس ماہ سے ہر منگل کو ایک آرٹیکل شائع ہو رہا ہے جس میں بندے پر اللہ تعالیٰ کے حقوق، بندے کے اپنے نفس پر حقوق، اور بندے کے اپنے گردونواح کے بنی نوع کے حقوق، پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کر کے شائع کئے جا رہے ہیں جن سے الفضل آن لائن کی ویب سائیٹ پر موجود متعلقہ پرچوں کا مطالعہ کرکے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں۔ حقوق اللہ وحقوق العبادکا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔اس عمیق تعلق کو جہاں بہت سی مثالوں سے واضح اور عیاں کیا جا سکتا ہے وہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو زکٰوۃ، صدقات اورمالی قربانی کی جاتی ہےوہ بطور حقوق اللہ کی ادائیگی کے ہے۔ یہ بھی تو دراصل اور درحقیقت اللہ تعالیٰ کی غریب، مسکین ومجبوراور حقدار مخلوق کے لئے ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عیال اور کنبہ قرار دیا ہے۔ اس نظر سے دیکھاجائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی گویا حقوق اللہ کی ادائیگی ہی ہے۔

حقوق العباد کے حوالہ سے اطاعت رسولؐ اور اولوالامر کے مضمون میں سب سے پہلے بیعت کا مفہوم بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔بیعت کے معنی اپنے آپ کو اس بابرکت اور برگزیدہ شخصیت کے حق میں بیچ دینے کے ہیں جن کی بیعت کی جا رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ضمن میں گائے کی فروخت کی مثال دی ہےکہ اگر کوئی کسان اپنی گائے فروخت کر کے اس کے دام وصول کر کے اس کے دودھ پر اپنا حق جتائے تو اسے دیوانہ کہا جائے گا۔

بعینہٖ اپنا ہاتھ کسی روحانی بندے کے ہاتھ میں پکڑوا کر بیعت کر کے انسان دراصل یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میرا اب کچھ نہیں رہا سب کچھ تیرا ہے۔ میں نے بیعت کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور انعامات کی صورت میں دام وصول کر لئے ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی،جس نے میری اطاعت کی، اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس نےمیرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔

حضرت جنادہؓ کہتے ہیں کہ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سُننے اور بیعت کرنے پر بیعت کرتے تھے خواہ وہ بات پسند ہو یا ناپسند۔

(صحیح بخاری کتاب الفتن)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ
’’اطاعت صرف اپنے ذوق کے مطابق عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنے کا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادت یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

(تفسیرِ کبیر جلد دوئم صفحہ15)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’اطاعت یہ نہیں کہ خلیفۂ وقت کے یا نظام جماعت کے فیصلے جو اپنی مرضی کے ہوئے دلی خوشی سے قبول کر لیے اور جو اپنی مرضی کے نہ ہوئے اس میں کئی قسم کی تاویلیں کرنی شروع کر دیں اور اُ س میں اعتراض کرنے شروع کر دئیے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 2013ء)

صحابہ کی اطاعت کے اجتماعی واقعات

جنگِ بدر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ مشورہ طلب فرما رہے تھے کہ کیا جنگ مدینہ میں ٹھہر کر لڑی جائے یا شہر سے باہر نکل کر؟ تومکہ سے ہجرت کرکے آنے والے صحابہ نے تو مشورہ دے دیا۔اب مدینہ کے رہائشی انصار صحابہ کی باری تھی۔ حضرت مقداد بن اسودؓ انصار کی جانب سے کھڑے ہو کرعرض کرنے لگے۔ اے اللہ کے رسول ؐ!ہم حضرت موسٰیؑ کی قوم کی طرح ہر گز یہ نہیں کہیں گے کہ

فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ

(المائدہ: 25)

کہ اے محمدؐ! تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی۔دشمن آپ تک کوئی گزند پہنچانے کے لیے نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری نعشوں کو نہ روند لے اور اے رسول اللہ! اگر آپ سمندر میں چھلانگ لگانے کا حُکم بھی دیں گےتوہم وہ بھی کر گزریں گے۔

(سیرت الحلبیہ جلد اول صفحہ 453)

*حرمت شراب کی آیت نازل ہونے اور اس پر فوراً عمل پیرا ہونے کا واقعہ بھی اجتماعی اطاعت میں ایک ایمان والے کو جلا بخشنے کے لیے کافی ہے۔جب چند صحابہ حضرت طلحہ ؓ کے گھر بیٹھے شراب کے خم کےخم پئے جا رہے تھے کہ اچانک مدینہ کی گلیوں میں یہ صدا سُنائی دی کہ اے مومنو !آج سے شراب حرام کر دی گئی ہے تو پھر کیا تھا کہ وہ صحابہ شراب کے نشے میں مدہوش اور دُھت تھے، لیکن اطاعت کے اعلیٰ معیاروں پر قائم تھے۔ انہوں نے فوراً شراب کے مٹکے توڑ ڈالے اوردیکھتی آنکھوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ شراب مدینہ کی گلی کوچوں میں بہنے لگی۔ صحابہ نے یہ پوچھنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی کہ یہ کس کا حکم ہے اور کب نازل ہوا۔

(صحیح بخاری کتاب التفسیر)

اطاعت کے انفرادی واقعات

صحابہ ؓ کی سرکاردوعالم کی اطاعت کے حوالے سے حقوق کا جہاں تک تعلق ہےوہ بھی ایک الگ سے طویل اور ایمان افروز باب ہے۔ صحابہؓ کے واقعات کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حق ادا کرنے کے لیے بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔

*حضرت ابیّ ؓ ایک دفعہ نماز کی حالت میں تھے آنحضور ﷺ نے بلوا بھیجا آپؓ نے جلدی جلدی نماز ختم کر کے حاضری دے دی۔ آنحضور ﷺ نے حضرت ابّؓی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تم نے یہ حکم نہیں سُن رکھا کہ

اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ

(انفال: 25)

کہ اے مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کی پکار کا جواب دیا کروجب وہ تمہیں بلائے، تاکہ روحانی زندگی نصیب ہو۔

ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں وعظ فرما رہے تھے اور صحابہ کا اژدہام تھا جو وہاں موجود تھا۔ آنحضور ﷺ نے حاضر صحابہ ؓسے مخاطب ہو کر فرمایا بیٹھ جائیں۔حضرت عبدللہ بن رواحہؓ ابھی باہرہی تھے اور مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ آپ کے کانوں نے بھی یہ الفاظ سن لیے توپھر کیا تھا اپنے آقا ؐ کی اطاعت کا دم بھرنے والے اس جانثار نے فوراً حکم پر عمل کیا اور آپؓ باہر ہی زمین پر بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے ہی پرندے کے پھدکنے کی طرح مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔مسجد آنے والے دیگر صحابہ نے حضرت عبداللہ سے کہا بھی کہ اس حکم کے آپ مخاطب تو نہیں ہیں۔ آپؓ نے بڑے جلالی انداز میں فرمایا کہ میرے کانوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیٹھ جانے کا حکم سنا ہے اگر میری ابھی جان نکل جائے تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا کہ آپ نے حکم سنا اور تعمیل نہیں کی۔

(اصابہ جز4 صفحہ66)

اس دور آخرین میں کچھ ایسا ہی اطاعت سے بھرپور واقعہ دوہرایا گیا جس کو دیکھ کر دنیا بھر کے لوگ خصوصاً احمدی افراد کو ساڑھے چودہ سو سال قبل کا یہ واقعہ یاد آگیا۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو مسند خلافت پر متمکن ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب آپ نے مسجد فضل کے اندر کھڑے احباب کو بیٹھ جانے کا حکم فرمایا۔ لاؤڈ اسپیکر پر یہ حکم جب مسجد کے گرد ونواح میں کھڑے احباب نے سنا تو سب یک لخت بیٹھ گئے، یہ بھی نہ سوچا کہ حضور تو مسجد کے اندر ہیں یہ حکم اندر والوں کے لئے ہوگا، ٹھنڈے موسم میں یخ بستہ فرش اور سڑک پر جہاں بھی کھڑے تھے، خاموشی سے بیٹھ گئے گویا اٹھتی لہریں ایک لمحہ میں پُر سکون بہتا دریا بن گئیں۔ آنحضرت ﷺ کی دور آخر کی جماعت کے افراد کی اعلیٰ معیار کی اطاعت کا ایک اور واقعہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہوگیا۔ ایم ٹی اے کی Live نشریات کے ذریعے یہ اس دور کا اپنی نوعیت کا انوکھا اور خوبصورت واقعہ پوری دنیا میں ٹیلی کاسٹ کیا جارہا تھا، جس کی وجہ سے سب دنیا احمدیوں کی اطاعت خلافت کی گواہ بن گئی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔

آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم مختلف ارشادات، ہدایات اور چھوٹی چھوٹی باتیں بیان فرما کر اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت فرمایا کرتے تھے آپؐ نے صحابؓہ کو کسی کے آگے دست دراز کرنے سے منع فرما رکھا تھا۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اونٹ پر سوار تھے۔ آپؓ کے ہاتھ سے اونٹ کی نکیل (رسی) زمین پر آ گری۔ آپؓ نے اپنے ارد گردموجود صحابہؓ سے وہ رسی اُٹھا کر دینےکا مطالبہ نہیں کیا بلکہ خود اونٹ سے نیچے اتر کر اس رسی کو تھام لیااور آنحضور ﷺ کے حکم کی اطاعت کرکے ثواب کے مستحق ٹھہرے۔ ایک روایت میں چھڑی گرنے کا واقعہ کسی اور صحابی کی طرف منسوب ہے۔اور وہاں بھی اطاعت کا نمونہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق سمعنا واطعنا کی صورت میں صحابہؓ نے جو ادا کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآنی حکم

لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ

(الحجرات: 3)

یعنی اپنی آوازوں کو نبی ؐ کی آواز سے بلند نہ کرو۔ کے نزول کے بعد بعض بلند آواز رکھنے والے صحابہ گھر میں بیٹھ گئےتھے۔ کہیں غفلت میں آپ ؐ کی موجودگی میں آواز اونچی نہ ہو جائے۔ حضرت عمرؓ نے اپنی آواز کو اس حد تک دھیما کر لیا تھا کہ ساتھ کھڑےشخص کو بھی آواز سنائی نہ دیتی تھی، اس عمل کے پیچھے بھی اطاعت کا جذبہ موجزن تھا۔

ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ زوجہ محترمہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائی کی وفات کے تیسرےروزخوشبو بھی لگائی اور ہونٹوں وغیرہ کو رنگین بھی کیا۔ خواتین کے پوچھنے پر فرمایا کہ میں نے آقا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے کہ سوگ تین دن تک کا ہے۔ اللہ اللہ آپ ؐ کے گھر میں بھی اسی طرح کا اطاعت کا جذبہ تھا جیسا صحابہ میں تھا۔

اطاعت کے حوالہ سے حقوقِ رسولؐ کی بابت ایک اور واقعہ درج کر کے اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ حضرت عمر ؓ کے دور میں ایک خاتون متعدی بیماری جذام کی حالت میں طواف کر رہی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس کو دیکھ کر گھر بھجوا دیا کہ گھر میں بیٹھ جاؤ تمہیں طواف کا ثواب مل گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب حضرت عمرؓ کی وفات ہو گئی تو بعض خواتین نے اس مجذوم خاتون سے کہا کہ جس شخص نے تمہیں طواف کرنے سے روکا تھا وہ تو اب اس دنیا میں نہیں رہا اب تم جا کر طواف کر سکتی ہو۔ اس ایمان دار خاتون نے جواباً کہا کہ ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ اس خلیفہ کی زندگی میں تو میں اطاعت کروں اور ان کے وفات پا جانے کے بعد نافرمانی کروں، یہ ناممکن ہے۔‘‘

اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ اسلام آباد پاکستان سے مجھے دیکھنے کو ملا۔ جب خاکسار نے بطور مربی ضلع مکرم ڈاکٹر نقی الدین احمد مرحوم کو دوپہر 11 بجے کے قریب فون کیاتو پتہ چلا کہ وہ کلینک جانے سے قبل دو نفل ادا کر رہے ہیں۔ نفلوں کی ادائیگی کے بعد اُن کے فون پر خاکسار نے نفلوں کے بارے میں استفسار کیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ وہ دو نفل ہیں جو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ نے احباب جماعت کو پڑھنے کو کہے ہوئے ہیں۔ اور میں یہ ضرور ادا کرتا ہوں کہ میرے کانوں نے حضور رحمہ اللہ کی یہ ہدایت سُن رکھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ گو خلیفۃالمسیحؒ وفات پا چکے ہیں مگر آپ کی آواز پرموت نہیں آئی اور رات کلینک سے واپسی پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کے بتائے ہوئے دو نفل پڑھ کر سوتا ہوں (یہ واقعہ خلافت رابعہ کے دور کا ہے)

تو یہ ہیں وہ حقوق العباد جن کے ہم مکلف بنائے گئے ہیں تا ان کی روشنی میں حقوق اللہ کی ادائیگی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیار کے ہم وارث بنیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام ایک تاریخی خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2022