• 19 مئی, 2024

غلام احمد قادیانی میں حروف ابجد کے لحاظ سے تیرہ سو کا عدد پورا ہوتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آج بھی آپ دیکھ لیں کہ کفر کے فتوے ایک دوسرے پر لگاتے ہیں چاہے۔ جماعت احمدیہ کے لئے، کافر بنانے کے لئے، گالیاں دینے کے لئے ایک ہو جائیں، اکٹھے ہو جائیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے پر ان کے فتوے جو ہیں وہ قائم ہیں۔ پھر فرمایا: ’’اور یہ ایک عجیب اتفاق ہوگیاہے جس کی طرف نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ سے تیرہ سو برس بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح یہ عاجز بھی چودھویں صدی میں خداتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی لحاظ سے بڑے بڑے اہل کشف اسی بات کی طرف گئے کہ وہ مسیح موعود چودھویں صدی میں مبعوث ہوگا‘‘۔ فرمایا ’’اور اللہ تعالیٰ نے میرا نام غلام احمد قادیانی رکھ کر اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ اس نام میں تیرہ سو کا عدد پورا کیا گیا ہے‘‘۔ غلام احمد قادیانی میں حروف ابجد کے لحاظ سے تیرہ سو کا عدد پورا ہوتا ہے ’’غرض قرآن اور احادیث سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ آنے والا مسیح چودھویں صدی میں ظہور کرے گا اور وہ تفرقہ مذاہب اسلام اور غلبہ باہمی عناد کے وقت میں آئے گا‘‘۔

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ 254-258 حاشیہ)

پھر اپنی صداقت کا ایک اور ثبوت دیتے ہیں۔ فرمایا کہ:
’’فصوص الحکم میں شیخ ابن العربی اپنا ایک کشف یہ لکھتے ہیں کہ وہ خاتم الولایت ہے اور تَواَم پیدا ہو گا‘‘۔ (یعنی مسیح موعود)۔ ’’اور ایک لڑکی اُس کے ساتھ متولّد ہو گی۔ اور وہ چینی ہو گا۔ یعنی اُس کے باپ دادے چینی ممالک میں رہے ہوں گے۔ سو خدا تعالیٰ کے ارادے نے ان سب باتوں کو پورا کر دیا۔ مَیں لکھ چکا ہوں کہ میں تَواَم پیدا ہوا تھا‘‘ (جڑواں پیدا ہوا تھا) ’’اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی اور ہمارے بزرگ سمرقند میں جو چین سے تعلق رکھتا ہے رہتے تھے۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 313حاشیہ)

پھر آپ فرماتے ہیں:
’’مَیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ قرآنِ شریف کی رُو سے کوئی دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا اکمل اور اتم طور پر اُس صورت میں ثابت ہو سکتا ہے جبکہ تین پہلو سے اس کا ثبوت ظاہر ہو۔ اوّل یہ کہ نصوص صریحہ اُس کی صحت پر گواہی دیں، یعنی وہ دعویٰ کتاب اللہ کے مخالف نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ عقلی دلائل اُس کے مؤیّد اور مصدق ہوں۔ تیسرے یہ کہ آسمانی نشان اُس مُدّعی کی تصدیق کریں۔ سو ان تینوں وجوہ استدلال کے رُو سے میرا دعویٰ ثابت ہے۔ نصوصِ حدیثیہ جو طالبِ حق کو بصیرتِ کامل تک پہنچاتی ہیں‘‘۔ یعنی ان کا ثبوت جن سے اگرکوئی حق کا طالب ہے اور حق کا طالب ہونا شرط ہے، یہ نہیں کہ ڈھٹائی اور ضد ہو، تووہ اُس کو کامل بصیرت تک پہنچاتی ہیں، اُس کو حق دکھاتی ہیں ’’اور میرے دعویٰ کی نسبت اطمینانِ کامل بخشتی ہیں، اُن میں سے مسیح موعود اور مسیح بنی اسرائیلی کا اختلافِ حلیہ ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کے صفحہ 485 و 876 و 1055‘‘ (بخاری کی جس کتاب کا آپ نے حوالہ دیا اس میں یہ صفحات لکھے ہوئے ہیں لیکن بہر حال بخاری میں باب نزول عیسیٰ اور کتاب الانبیاء میں اس کا ذکرہے۔ جس میں دونوں کے مسیح بنی اسرائیل اور مسیح محمدی کے، مسیح موعود کے حلیے درج ہیں جو علیحدہ علیحدہ ہیں۔ فرمایا: ان حدیثوں ‘‘وغیرہ میں جو مسیح موعود کے بارے میں حدیث ہے جس میں یہ بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو عالَمِ کشف میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اُس میں اُس کا حلیہ یہ لکھا ہے کہ وہ گندم گوں تھا اور اُس کے بال گھونگر والے نہیں تھے بلکہ صاف تھے۔ اور پھر اصل مسیح علیہ السلام جو اسرائیلی نبی تھا، اُس کا حلیہ یہ لکھا ہے کہ وہ سرخ رنگ تھا جس کے گھونگر والے بال تھے۔ اور صحیح بخاری میں جا بجا یہ التزام کیا گیا ہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حلیہ میں گندم گوں اور سیدھے بال لکھ دیا ہے اور حضرت عیسیٰ کے حلیہ میں جا بجا سرخ رنگ اور گھونگر والے بال لکھتا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو ایک علیحدہ انسان قرار دیا ہے اور اُس کی صفت میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ بیان فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو علیحدہ انسان قرار دیا ہے۔ اور بعض مناسبات کے لحاظ سے عیسیٰ بن مریم کا نام دونوں پر اطلاق کر دیا ہے‘‘

فرمایا ’’اَور ایک اَور بات غور کرنے کے لائق ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسیح موعود کا ذکر کیا ہے، اُس جگہ صرف اسی پر کفایت نہیں کی کہ اُس کا حلیہ گندم گوں اور صاف بال لکھا ہے بلکہ اُس کے ساتھ دجّال کا بھی جا بجا ذکر کیا ہے۔ مگر جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلی کا ذکر کیا ہے، وہاں دجّال کا ساتھ ذکر نہیں کیا۔ پس اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں عیسیٰ بن مریم دو تھے۔ ایک وہ جو گندم گوں اور صاف بالوں والا ظاہر ہونے والا تھا جس کے ساتھ دجّال ہے۔ اور دوسرا وہ جو سرخ رنگ اور گھونگریالے بالوں والا ہے اور بنی اسرائیلی ہے جس کے ساتھ دجّال نہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شامی تھے اور شامیوں کو آدم یعنی گندم گون ہرگز نہیں کہا جاتا۔ مگر ہندیوں کو آدم یعنی گندم گون کہا جاتا ہے۔ اس دلیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ گندم گون مسیح موعود جو آنے والا بیان کیا گیا ہے وہ ہرگز شامی نہیں ہے بلکہ ہندی ہے۔ اس جگہ یاد رہے کہ نصاریٰ کی تواریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ گندم گوں نہیں تھے بلکہ عام شامیوں کی طرح سرخ رنگ تھے۔ مگر آنے والے مسیح موعود کا حلیہ ہرگز شامیوں کا حلیہ نہیں ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 299 تا 302 حاشیہ)

(خطبہ جمعہ 22؍مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2022