• 17 مئی, 2024

فقہی کارنر

روزہ رکھنے کی عمر

حضرت مصلح موعود ؓ تحریر فر ماتے ہیں:۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہو گا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چائیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود ؑ نے اجازت دی تھی۔ اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جراٴت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آ ئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شائد اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اور نہ خدا تعالیٰ پر اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ385)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ بر طانیہ)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2022