• 2 مئی, 2024

جنگ بدر کا قصہ مت بھولو

آج کا اداریہ17 رمضان کی مناسبت سے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ جنگ بدر 17 رمضان المبارک کو لڑی گئی تھی۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

نہتے تین سو تیرہ بشر ذوق شہادت میں
خدا کے نام پر نکلے محمؐد کی قیادت میں
نہ کثرت تھی نہ شوکت تھی نہ کچھ سامان رکھتے تھے
فقط اخلاص رکھتے تھے فقط ایمان رکھتے تھے

حضرت قاضی عبدالرحیمؓ نے 17فروری 1904ء کی ڈائری میں لکھا کہ ’’آج رات حضرتؑ (حضرت مسیح موعودؑ) نے خواب بیان فرمایا۔ کسی نے کہا کہ جنگ بدر کا قصہ مت بھولو۔‘‘

(اصحاب احمد جلد ششم صفحہ 133)

گویا اللہ تعالیٰ، حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کے متبعین کوتاریخِ اسلام میں ہونے والی فتح عظیم جو فرقان عظیم کے نام سے بھی موسوم ہے کے واقعہ کوہمیشہ ذہن میں رکھنے، اس سے سبق لینے اور اس کے ذریعہ ترقیات پانے کی تلقین کرتا ہے۔ اور ہمارے پیارے امام ہمام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ گزشتہ کچھ عرصہ سے غزوہ بدر کے صحابہ کی سیرت پر خطبات ارشاد فرما رہے ہیں۔ اس کا ایک مقصد بجلی کی اس لہر کو اپنے اندر سرایت کرنا ہے جو صحابہ بدر میں تھی جس کا حضور ایدہ اللہ نے بدری صحابی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذکر میں فرمایا ’’جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جائے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے نتیجہ میں آپ کے ماننے والے (بدری صحابہ) بھی اشداء علی الکفارکے مصداق بن گئے‘‘

(خطبہ جمعہ 11 مارچ 2022ء)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں ہمیں جنگ بدر کی تاریخ اور اس میں شامل ہونے والے صحا بہ کے حالات کا علم پا کر ان جیسا مقدس وجود بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بدر کی تاریخ

جنگ بدر 17رمضان 2ھ کو بدر کے مقام پر لڑی گئی چونکہ مکہ کی معیشت کا دارومدار تجارت پر تھاجو شام کے ساتھ تھی۔ اور شام کی طرف جانے کا راستہ مدینہ کے قریب سے گزرتا تھا اس لئے ہر وقت کفار کو یہ خدشہ رہتا تھا کہ مسلمان ہمارا راستہ نہ روک دیں۔

اُدھر مسلمانوں کو یہ خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کہیں ہمیں نقصان نہ پہنچا دیں۔اس لئے آنحضور ﷺ قریش کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتے اور صحابہؓ کے بعض دستے بھی بھیجا کرتے تھے۔ایک دفعہ ابوسفیان تجارت کے بعد شام سے واپس جارہا تھا کہ کسی نے مسلمانوں کی طرف سے لوٹنے اور نقصان پہنچانے کی افواہ گرم کر دی۔ یہ خبر مکہ بھی پہنچی جہاں سے ابو جہل کی سرکردگی میں ایک ہزار افراد پر مشتمل اسلحہ سے لیس لشکر بدر کی طرف روانہ ہوا۔جب ابوسفیان کا قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا تو قریش مکہ نے ابوجہل کوواپس آنے کو کہا مگر ابو جہل نے ایک نہ سُنی اور بدر کے مقام پر پہنچ کر جنگی نقطہ نگاہ سے اس جگہ پر قبضہ کیا جو اہم تھی۔

اُدھر آنحضور ﷺ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دے رکھا تھا۔ 300 سے زائد صحابہؓ پر مشتمل ایک لشکر نے مدینہ کو چھوڑا۔ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ مقابلہ تجارتی قافلہ سے ہے یا اسلحہ سے لیس ایک لشکر کے ساتھ۔ مدینہ کے کچھ فاصلہ پر آنحضور ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ مہاجر صحابہ نے وفاداری اور جاں نثاری کا اظہار فرمایا۔ حضورؐ انصار صحابہؓ کی طرف سے انتظار فرما رہے تھے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کھڑے ہو کر وفاداری کا اظہار یوں کر کے ایک سنہری تاریخ رقم فرمائی کہ اے اللہ کے رسول! ہم موسیٰؑ کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ پائے گا جب تک ہماری نعشوں کو نہ روندے۔

ایک اور روایت میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول! جنگ تو معمولی شئے ہے آپ اگر سمندر میں کود جانے کا کہیں تو آپ اس پر بھی ہمیں تیار پائیں گے۔ تب آپؐ نے بدر کی طرف کوچ کرنے کا حکم صادر فرمایا اور دو تین روز کی مسافت کے بعد بدر مقام کے چشمہ کے قریب اسلامی لشکر اُتار دیا۔ یہ علاقہ ریتلا تھا۔ پاؤں دھنس دھنس جاتے تھے۔ جس سے صحابہ میں گھبراہٹ پیدا ہوئی۔

آنحضور ﷺ اپنے خیمہ میں گئے اور ساری رات یہ دعا کرتے رہے اَللّٰہُمَّ اِنْ اَھْلکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْارْضِ اَبَدًا کہ اے اللہ! اگر تو نے اس چھوٹے سے گروہ کو ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بشارت دی کہ فلاں فلاں دشمن فلاں فلاں جگہ مارا جائے گا۔ الٰہی تقدیر نے اپنا کام دکھلایا۔ تیز بارش ہوئی۔ریتلا علاقہ مضبوط ہوگیا اور چٹیل میدان میں چکنا پن آگیا جس پر دشمنوں کے پاؤں جم نہ سکے۔

اگلے روز رسول مکرم ﷺ نے مسلمانوں کے لشکر کی صف بندی ایسے رنگ میں کی کہ وہ دوگنی نظر آنے لگی۔ اُدھر ابوجہل نے اپنا ایک نمائندہ مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ لگانے کے لئے بھیجا۔ جس نے واپس جا کر مشورہ دیا کہ اُن سے مت لڑو۔ وہ 300 افراد نہیں وہ تو موتیں ہیں۔ جو مرجانے اور کٹ جانے یا مار دینے اور کاٹ دینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔

اگلے روز 17رمضان کو حق و باطل کی جنگ کا آغاز ہوا۔انفرادی مقابلے میں عتبہ، ولید اور شیبہ کے مقابل پرحمزہ، علی اور عبیدہ نکلے۔ کفار کو ہلاکت نصیب ہوئی اور انہی جگہوں پر وہ مارے گئے جن جگہوں کی نشان دہی اللہ تعالیٰ نے ایک روز قبل خواب میں آنحضور ﷺ کو فرمائی تھی۔

تب آپؐ نے خدا کے حکم پرایک مٹھی بھر ریت دشمنان اسلام کی طرف پھینکی۔ گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ اچانک تیز آندھی چلی اور آندھی کا رُخ دشمن کے مخالف تھا۔جو ان کی آنکھوں میں پڑ پڑ کر ان کو اندھا کر رہی تھیں۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے دائیں بائیں کھڑے دو بچے معوذ و معاذباز کی طرح ابو جہل کی طرف لپکے اور چٹ پٹ میں اسے قتل کر دیا۔

اب تو کفار مکہ کے پاؤں اکھڑ چکے تھے۔ وہ 70مقتول میدان میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور 70کفار کو قیدی بنا لیاگیا جبکہ مسلمانوں کے ایک درجن کے قریب سپاہی شہید ہوئے۔سازو سامان اور جنگجوؤں کا موازنہ کچھ یوں تھا۔

مسلمان

313 اصحاب بے سروسامانی کا عالم کہ انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔

60-70 سپاہی باقی مزدور، تاجر بوڑھے، بیمار بچپن اور جوانی کی دہلیز پر تھے۔

صرف تین تلواریں۔باقی کے پاس لکڑی کے ڈنڈے

صرف 2ڈھالیں

صرف دو گھوڑے چند اونٹ تھے

صرف6زرہیں

کفار

1ہزار جنگ جو

1ہزار تلواریں

700ڈھالیں

300زرہیں

100گھوڑے

بے شمار اونٹ

کفار نے مکہ پہنچ کر اپنی عورتوں کو مرنے والوں پر بین کرنے سے منع کر دیا تامسلمانوں کو خبر ملنے کی صورت میں وہ خوش نہ ہوں اور یوں اس ’’یوم الفرقان‘‘ کی وجہ سے مستقل طور پر مسلمانوں کی تمام عرب پر دھاک بیٹھ گئی اور جنگ بدر باقی ماندہ جنگوں (احد۔احزاب وغیرہ) میں کفار کی شکست کا موجب بنی۔

یہ مختصر سی تاریخ ہے غزوہ بدرکی۔

اللہ تعالیٰ نے آج کے دورکو بدر قرار دیا۔ یوم الفرقان قرار دیا اور الہاماً تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ جنگ بدر کے قصہ کو مت بھولو اور اُدھر الہاماً فرمایا وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّۃٌ کہ اللہ نے بدرمیں تمہیں نصرت پہنچائی جب تم بہت کمزور تھے۔ اور حقیقت میں درج ذیل اسباق جماعت احمدیہ کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کی فتح اور اس میں نصرت الٰہی کا ذکر سورۃ اٰل عمران آیت 124 میں وَلَقَدْ نَصَر کُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ کے الفاظ میں کیا ہے اور اس فتح کا ذکر جنگ اُحد کے ذکر کے درمیان کرنے کا مقصد یہ بیان کیاہے کہ فتوحات اور ترقیات تقویٰ کے ساتھ اور شکر ادا کرنے کے ساتھ ملا کرتی ہیں۔ اب جماعت احمدیہ کو جب کہ وہ کمزور ہے فتوحات تب ہی ملیں گی اگر تمام احمدی تقویٰ پر کاربند رہیں گے اور سابقہ فتوحات پر شکر خداوندی کو اپنا شیوہ بنائیں گے۔

  • جس طرح آنحضور ﷺ نے ساری رات مسلمانوں کی حفاظت اور بقاکے لئے دُعا میں گزار دی۔ آج بھی جماعت احمدیہ کی حفاظت اور ترقی کے لئے دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔ نیز یہ دُعا کریں۔

اَللّٰہُمَّ اِنْ اَھْلکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْارْضِ اَبَدًا

  • صحابہ کی وفاداری کی طرح ہم میں ہر فردکو خلیفۃ المسیح کے ساتھ اپنے روحانی ہتھیاروں کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہوئے کھڑا ہونا ہوگا کہ دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری نعشوں کو نہ روند دے۔اوریہ اعلان پہلے سے بڑھ کر گھر گھر سے ہو رہا ہو کہ اے خلیفۃ المسیح !ہم آپ کے دائیں، بائیں اور آگے وپیچھے لڑنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔اور موسیٰؑ کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جاؤ! تم اور تمہارا رب لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔
  • مساوات اور برابری کا بھی سبق ملتا ہے جب آنحضورؐ کے چچا عباس کی مشکیں آسان کردی گئیں تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ باقی قیدیوں کی بھی مشکیں آسان کر دو۔
  • اس جنگ میں ایک ماں کا بچہ گم ہوگیا اور وہ سرگردان اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جب اپنے خدا سے دُور ہوجاتا ہے تو وہ اس کی تلاش میں اس ماں سے بھی بڑھ کر پریشان نظر آتا ہے۔
  • یہ جنگ درحقیقت خیمہ میں لڑی گئی تھی آج رمضان میں بھی خیمہ زن ہو کر عبادت کرنے اور دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔

ہر دینی کام میں اپنے اصحاب، colleagues سے مشورہ کر لینا چاہئے۔ کیونکہ یہ پہلا مشورہ تھا جو آنحضورﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا۔

کچھ عرصہ سے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بدری صحابہؓ کی جاں نثاری کے واقعات اور ان کی سیرت بیان فرما رہے ہیں اور یہ بھی ایک رنگ میں ’’جنگ بدر کے قصہ کو مت بھولو‘‘ کی تعمیل اللہ تعالیٰ کروا رہا ہے تاکہ ہمیں جنگ بدر میں شامل ہونے والے مبارک و مقدس روحوں کے قصّے یاد رہیں۔ ہم بھی ان کی ولولہ انگیز قیادت اور ان کی قربانیوں کو اپنے دلوں میں اُتاریں اور جو سبق اس جنگ سے مسلمانوں کے لئے ہیں ان کو حرز جان بنائیں اور فتوحات و ترقیات کی طرف بڑھتے قدموں میں اپنےنیک اعمال سے آسانی پیدا کریں۔

17 رمضان کو غزوہ بدر کے موقع پر ادارہ اور قارئین کی طرف سے اس عہدکا اعادہ کرنا مقصودہے کہ اے خلیفہ وقت! ہم بدری صحابہ کی طرح ہر قسم کی جانی، مالی اور بدنی قربانیاں پیش کرنے کو تیار ہیں۔ جب بھی دربار خلافت سے آواز بلند ہوگی ہم سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کہتے ہوئے حاضر ہوں گے۔ ہم احمدیت کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اوراپنی نسلوں کو پیش کریں گے ہم انصار، خدام، اطفال، ممبرات لجنہ اور ناصرات اپنے اپنے عہدوں کے مطابق اپنی زندگیاں پیش کرنے کوہر وقت تیار رہیں گے اور ہم ہر وقت 22،اپریل 2003ء کے نظارہ کو زندہ رکھیں گے جب مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی طرف سے پہلا حکم ’’بیٹھ جائیں‘‘ کے الفاظ میں فدائیان احمدیت کے کانوں میں پڑا تھا تو وہ Gressenhall Road اور Melrose Road پر ایک دوسرے پر گرتے پڑتے زمین پر بیٹھ گئے تھے۔ اے خلیفہ وقت! آپ بدری صحابہؓ کی طر ح ہمیشہ ہمیں جاں نثاروں میں پائیں گے۔

خدا خود جبرو استبداد کو برباد کر دے گا
وہ ہر سُواحمدی ہی احمدی آباد کر دے گا
صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہوگی
جہاں میں احمدیت کامیاب وکامران ہو گی

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
یہ لوگ تھے، عجیب شان تھی ان کی جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ سے وفا کے طریقے بھی سکھائے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کے طریقے بھی سکھائے۔ آنحضرت ﷺ کی باتوں کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرتے ہوئے کامل اطاعت کرنے کے طریقے بھی سکھائے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درجات بلند کرے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2022