• 13 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 14)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 14

دعا بڑی دولت ہے

سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا کے ساتھ شقی سعید کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ شدید الاختفا امور مشبہ بالمبرم بھی دور کئے جاتے ہیں۔

الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے۔ یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے۔ اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں۔

چنانچہ آپ کے گیارہ بچے مر گئے مگر آپؐ نے کبھی سوال نہ کیا کہ کیوں؟ جو لوگ فقراء اور اہل اللہ کے پاس آتے ہیں۔ اکثر ان میں سے محض آزمائش اورامتحان کے لئے آتے ہیں۔ وہ دعا کی حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں اس لئے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔ عقلمند انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دعا نہ ہوتی تو اہل اللہ مر جاتے۔ جو لوگ دعا کے منافع سے محروم ہیں ان کو دھوکا ہی لگا ہوا ہے کہ وہ دعا کی تقسیم سے ناواقف ہیں۔

میرا جب سب سے پہلا لڑکا فوت ہوا۔ تو اس کو ایک سخت غشی کی حالت تھی۔ گھر میں اس کی والدہ نے جب دیکھا کہ حالت نازک ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو امید نہیں اب جانبر ہو۔ میں اپنی نماز کیوں ضائع کروں چنانچہ وہ نماز میں مصروف ہوگئے اور جب نماز سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا تو اس وقت چونکہ انتقال ہوچکا تھا میں نے کہا کہ لڑکا مر گیا ہے انہوں نے پورے صبر اور رضا کے ساتھ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا۔

خدا جس امر میں نامراد کرتا ہے اس نامرادی پر صبر کرنیوالوں کو ضائع نہیں کرتا۔اسی صبر کا نتیجہ ہے کہ خدا نے ایک کی بجائے چار لڑکے عطا فرمائے۔

الغرض دعا بڑی دولت ہے۔ بے صبر ہو کر دعا نہ کرے بلکہ دعاؤں میں لگا رہے یہاں تک کہ وہ وقت آجاوے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ226-227)

طاعون کا علاج

طاعون کا علاج توبہ و استغفار ہی ہے یہ کوئی معمولی بلا نہیں بلکہ ارادۂ الٰہی سے نازل ہوئی ہے یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری جماعت میں سے کسی کو نہ ہو۔ صحابہ میں سے بھی بعض کو طاعون ہوگئی تھی۔ لیکن ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے۔ وہ خد اکے فضل سے ضرور حصہ لے گا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کرلیں۔ جو زیادہ نہیں۔ وہ دو ہی رکعت پڑھ لے۔ کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درددل میں نہ ہو۔ اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہوسکتا ہے؟پس اس وقت اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کردیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کردیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کررہا ہے۔ پھر ایک اور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہیئے اور وہ یہ ہےکہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے۔ زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خدا تعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آجاتا ہے۔ جب خدا ڈیوڑھی میں آگیا تو پھر اندر آنا کیا تعجب ہے؟

(ملفوظات جلد سوم صفحہ245-246)

دعائیں کرنے کے لئے نصیحت

دیکھواب کام تم کرتے ہو۔ اپنی جانوں اور اپنے کنبہ پر رحم… کرتے ہو۔ بچوں پر تمہیں رحم آتا ہے جس طرح اب ان پر رحم کرتے ہو۔ یہ بھی ایک طریق ہے کہ نمازوں میں ان کے لئے دعائیں کرو۔ رکوع میں بھی دعا کرو۔ پھر سجدہ میں دعا کرو۔ کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے۔ اور عذاب سے محفوظ رکھے۔ جو دعا کرتا ہے وہ محروم نہیں رہتا۔ یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ دعائیں کرنے والا غافل پلید کی طرح مارا جاوے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خدا کبھی پہچانا ہی نہ جاوے۔ وہ اپنے صادق بندوں اور غیروں میں امتیاز کرلیتا ہے۔ ایک پکڑا جاتا ہے۔ دوسرا بچایا جاتا ہے۔ غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طورپر تم میں سچا اخلاص پیدا ہوجاوے۔

(الحکم جلد6 نمبر24 صفحہ5-6 پرچہ10جولائی 1902ء)

انبیاء اور دعا

انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں یہی رہا ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے دیئے جانے پر بھی اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر سچا ایمان رکھ کر بھی دعاؤں کے سلسلہ کو ہرگز نہ چھوڑتے تھے۔ اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کے غناء ذاتی پر بھی ایمان لاتے ہیں اور مانتے ہیں کہ خدا کی شان لایدرک ہے اور یہ سوء ادب ہے کہ دعا نہ کی جاوے۔ لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اضطراب سے دعا کررہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ حضور! اب دعا نہ کریں۔ خداتعالیٰ نے آپ کو فتح کا وعدہ دیا ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں مصروف رہے بعض نے اس پر تحریر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت بہت بڑھی ہوئی تھی۔ اور ہر کہ عارف ترباشد خائف تر باشد۔ وہ معرفت آپ کو اللہ تعالیٰ کے غناء ذاتی سے ڈراتی تھی۔ پس دعا کا سلسلہ ہرگز چھوڑنا نہیں چاہیئے۔

مسیح موعود کی دعاؤں کی عظمت

10اپریل 1902ء صبح کی سیر میں فرمایا کہ
میں آج کل طاعون سے قادیان کے محفوظ رہنے کے لئے بہت دعائیں کرتا ہوں اور باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں لیکن یہ سوء ادب اور انبیا کے طریق سے دور ہے کہ خدا کی لایدرک شان اور غناء ذاتی سے خوف نہ کیا جاوے۔ آج پہلے وقت ہی یہ الہام ہوا

دلم مے بلرزد چو یاد آورم
مناجات شوریدہ اندر حرم


شوریدہ سے مراد دعا کرنے والا ہے اور حرم سے مراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کردیا ہو۔ اور دلم مے بلرزد خدا کی طرف ہے۔ یعنی یہ دعائیں قوی اثر ہیں میں انہیں جلدی قبول کرتا ہوں۔ یہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحمت کا نشان ہے۔ دلم مے بلرزد بظاہر ایک غیر محل سا محاورہ ہوسکتا ہے۔ مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخاری میں ہے کہ مومن کی جان نکالنے میں مجھے تردد ہوتا ہے۔

توریت میں جو پچتانا وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں دراصل وہ اسی قسم کے محاورہ ہیں۔ جو اس سلسلہ کی ناواقفی کی وجہ سے لوگوں نے نہیں سمجھے۔ اس الہام میں خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے اور حرم کے لفظ میں گویا حفاظت کی طرف اشارہ ہے…

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 266-268 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2022