قرآنی انبیاء
عظیم بادشاه
قسط 11
فلستی پہلوان کا خیال تھا کہ پورے لشکر میں سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ چلا چلا کر بنی اسرائیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اور تمام بنی اسرائیلی اس کی طاقت سے ڈرتے ہوئے خاموشی سے اس کی باتیں سن رہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان آگے بڑھا اور پہلوان سے مقابلے کا اعلان کیا۔ یہ داؤد تھے۔ جو بعد میں اللہ تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی اور بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔
بہادر اور شجاع حضرت داود علیہ السلام کی زندگی کے واقعات جنہیں اپنے خدا پر بہت زیادہ بھروسہ تھا۔
داؤد اپنے بھائیوں کی خیریت پوچھنے کے لئے میدان جنگ کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے والد نے انہیں کہا تھا کہ جاؤ اور اپنے دونوں بڑے بھائیوں کا حال دریافت کر کے آؤ جو بادشاہ کے لشکر میں شامل تھے اور اس وقت بنی اسرائیل کے دشمن فلستیوں سے لڑ رہے تھے۔ داؤد چونکہ ابھی نوجوان تھے اور جنگی امور سے واقف نہ تھے اس لئے جنگ پر نہ گئے تھے بلکہ گھر رہ کر اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ بھیڑ بکریوں کی رکھوالی کر رہے تھے اور انہیں چرانے کیلئے لے جایا کرتے تھے۔ میدان جنگ میں پہنچ کر وہ اپنے بھائیوں کا پتہ کرتے ہوئے ان تک پہنچے اور ان سے باتیں کرنے لگے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ فلستیوں کی طرف سے ایک پہلوان نکل کر بنی اسرائیلیوں کی فوج کو للکارنے لگا۔ یہ اونچا لمبا اور صحت مند پہلوان انتہائی طاقتور معلوم ہو رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اسے کوئی بھی شکست نہیں دے سکے گا۔
داؤد کو یہ دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ لشکر میں سے کوئی بھی اس پہلوان کے مقابلے پر جانے کو تیار نہ تھا (اس وقت کی جنگوں میں رواج یہ تھا کہ لڑائی شروع کرنے سے پہلے دونوں لشکر اپنے اپنے طاقتور سپاہی میدان جنگ میں بھیجے تھے جو ایک دو سرے کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے۔ اور اس انفرادی مقابلے کے بعد عام جنگ شروع ہوتی تھی اس طریقے کو مبارزت کہتے تھے۔سو وہ پہلوان مسلسل بنی اسرائیل کی فوج کو برا بھلا کہہ کر اپنا آدمی بھیجنے کیلئے کہہ رہا تھا لیکن ابھی کوئی ایک شخص بھی مقابلے کیلئے نہیں گیا تھا۔ یہ صورتحال خاصی تشویشناک تھی کیونکہ اس انفرادی مقابلے میں نہ نکلنے کا مطلب یہ تھا کہ بنی اسرائیلی اپنے دشمن کے مقابل پر کمزور ہیں اور اس کی وجہ سے فلستیوں کے حوصلے بلند ہو رہے تھے۔
بنی اسرائیلی لشکر کے سالار اور بادشاہ نے صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ اعلان کروا دیا کہ جو کوئی شخص اس پہلوان کو شکست دے گا میں اسے دولت سے مالا مال کر دوں گا اور نہ صرف یہ کہ اسے دولت ملے گی بلکہ میں اسے اپنا داماد بھی بنا لوں گا۔ یہ اعلان بڑی تیزی کے ساتھ تمام لشکر میں پھیل گیا اور لوگوں میں اس انعام کے چرچے ہونے لگے۔ نوجوان داؤد نے جب اس اعلان کو سناتو ان کی طبیعت میں بھی جوش پیدا ہوا۔وہ پہلے ہی اس پہلوان کی بد زبانی کی وجہ سے اسے جواب دینا چاہتے تھے اب جو عام اعلان ہوا تو یہ فورا بادشاہ کے پاس پہنچ گئے اور جا کر کہا۔ بادشاہ سلامت میں اس پہلوان سے مقابلہ کرنا چاہتا ہوں اور اسے اس کی بد زبانی کی سزادینا چاہتا ہوں۔
تم؟ بادشاہ نے حیرت سے کہا۔ تم جیسانوجوان جسے جنگی امور سے کچھ بھی واقفیت نہیں ہے۔ بھلا کیسے اس تجربہ کار پہلوان کامقابلہ کر سکتا ہے۔ جس نے ایک لمبی مدت تک داؤ پیچ سیکھے ہیں اور محنت کی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ داؤد نے جب بادشاہ کا جواب سنا تو کہا۔ بادشاہ سلامت! گو میں عمر میں چھوٹا ہوں اور میں مانتا ہوں کہ مجھے جنگ کے داؤ پیچ نہیں آتے لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ میں اس بد زبان پہلوان کو شکست دے سکتا ہوں کیونکہ میں جنگل میں اپنی بکریاں چرانے کیلئے جا تا ہوں اور بعض دفعہ ایسا بھی ہو تا ہے کہ کوئی شیر یا ریچھ ہمارے ریوڑ سے کوئی جانور اٹھا کر لے جا تا ہے۔ میں ایسی صورت میں اس شیر یا ریچھ سے مقابلہ کر کے اپنا جانور اس کے منہ سے چھین لا تا ہوں۔ بادشاہ سلامت ! اگر میں شیر کو شکست دے سکتا ہوں تو پھر اس پہلوان کو کیوں نہیں ہرا سکتا۔ یہ دلیل واقعی وزن رکھتی تھی اس لئے بادشاہ نے داؤ د کو اس پہلوان سے مقابلہ کرنے کی اجازت دے دی اور نہ صرف اجازت دی بلکہ انہیں تمام جنگی سازو سامان سے لیس بھی کر دیا۔
داؤد کو چونکہ ان چیزوں کے پہنے اور استعمال کرنے کا تجربہ نہ تھا اس لئے انہوں نے بادشاہ سے معذرت کے ساتھ ان تمام چیزوں کو اتار دیا اور اپنی لاٹھی لیکر پہلوان سے مقابلے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں سے انہوں نے چند پھر بھی اٹھا کر اپنے تھیلے میں رکھ لئے اور اپنی غلیل اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ پہلوان نے جب یہ دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکا جو مسلح بھی نہیں ہے صرف ایک لاٹھی ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس کی طرف آ رہا تھا تو اسے بہت غصہ آیا۔ اور وہ غصے میں آ کر داؤد کو برا بھلا کہنے لگا۔ اور کہنے لگا کہ تو میرے پاس تو آ۔ میں تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پرندوں کو کھلا دوں گا۔
داؤد نے جواباً اسے کہا کہ تجھے اپنی دنیاوی طاقت اور ہتھیاروں پر فخر ہے اور تو مجھے حقیر سمجھ رہا ہے لیکن میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ بنی اسرائیل کا خدا میرے ساتھ ہے وہ طاقتور ہاتھ میرے پیچھے ہے۔ وہ صرف مجھے غلبہ دے گا اور تجھے تباہ و برباد کر دے گا۔ یہ کہہ کر داؤد نے پھرتی کے ساتھ اپنی غلیل نکالی اور ایک پتھر اس میں رکھ کر نشانہ لیکر پہلوان کو مارا۔ یہ پتھر پہلوان کے ماتھے پر لگا اور پوری طاقت کے ساتھ اس کے ماتھے میں گھس گیا۔ یہ چوٹ اتنی شدید ثابت ہوئی کہ پہلوان لڑ کھڑا کر زمین پر گر گیا۔ داؤد آگے بڑھے اور انہوں نے اس کی میان میں سے تلوار نکال کر اس کا کام تمام کر دیا۔ پہلوان کا مرنا تھا کہ فلستیوں کے حوصلے پست ہو گئےاور بنی اسرائیلی پورے جوش اور جذبے کے ساتھ ان پر چڑھ دوڑے اور جنگ میں فتح حاصل کر لی۔
بادشاہ، داؤد سے بہت خوش تھا کیونکہ اس نوجوان کی وجہ سے اس کی ہاری ہوئی جنگ فتح میں تبدیل ہو گئی تھی اس نے داؤد کو بلا کر شاباش دی اور انعام و اکرام کا وعدہ کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تم اب ہمارے محل میں ہمارے ساتھ رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپ ساؤل کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے۔ بادشاہ کا ایک بیٹا جوآپ کا ہم عمر تھاآپ کا دوست بن گیا اور رفتہ رفتہ یہ دوستی گہری محبت میں تبدیل ہو گئی۔ وہ آپ کا بہت خیال رکھتا ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا اور یہ کوشش کر تا کہ کسی طرح بادشاہ کی نظر میں داؤد کا مقام پہلے سے بلند ہوتا جائے۔ یہی وجہ تھی بادشاہ بھی اب ہر معاملے میں آپ پر اعتماد کرنا شروع ہو گیا تھا اور آپ کو ایک جنگی دستے کا سالار بھی مقرر کر دیا تھا۔
داؤد نے اپنے اعلیٰ اخلاق اور خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی محل میں موجود تمام لوگوں کے دل جیت لئے بلکہ محل پر ہی کیا موقوف تمام علاقے کے لوگ داؤد سے بہت خوش تھے۔ اور ان کے دلوں میں داؤد کے لئے محبت اور عزت روز بروز بڑھتی جا کو بنی اسرائیل کے عظیم بادشاہ اور اپنے ایک برگزیدہ نبی کے طور پر چن چکی تھی۔ اور اب دنیا کی کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو داؤدؑ سے روک نہیں سکتی تھی۔
دوسری جانب داود کی یہ بڑھتی ہوئی مقبولیت بادشاہ کو سیاسی اعتبار سے گراں بھی گزر رہی تھی اسلئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باہمی اعتماد کا رشتہ کمزور پڑتا چلا گیا جس کے نتیجے یں بالآخر داؤد شہر چھوڑ کر چلے گئے۔اور پھر یوں ہوا کہ ملک پر ایک مرتبہ پھر فلستیوں نے حملہ کر دیا۔ شدید جنگ ہوئی اور گو بادشاہ کی فوجوں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا لیکن اس مرتبہ ابتداء سے ہی فلستیوں کا پلہ بھاری تھا۔ اس لئے آہستہ آہستہ فوجیں پسپا ہونے لگیں۔بادشاہ اور اس کا بیٹا جو داؤد علیہ السلام کا قریبی دوست تھا اس جنگ میں مارا گیا۔ اس کے بعد داؤد حبرون چلے گئے اور وہاں بنی اسرائیل نے متفقہ طور پر آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ یہ قریباً 1050 قبل مسیح کی بات ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی طاقت دن بدن بڑھتی چلی گئی اور آپ ایک عظیم بادشاہ کے طور پر دنیا کے سامنے آئے۔ آپ کی حکومت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور آپ کو ترقیات پر ترقیات عطا ہوتی رہیں۔ گو بعض دفعہ فتنوں نے بھی آپ کی حکموت میں سر اٹھایا لیکن آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل اور خاص رہنمائی کی وجہ سے ان فتنوں پر قابو پا لیا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت فراست اور دانائی عطا کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی عقلمندی کی بناء پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بنی اسرائیل کی حکومت کو مضبوط خطوط پر استوار کیا۔ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہر لمحہ آپ کے ساتھ تھی۔ اس وقت بھی جب آپ بچے تھے اور جنگل میں بکریاں چرایا کرتے تھے اس وقت بھی جب آپ نوجوان تھے اور جنگ کے میدانوں میں دشمنوں سے نبرد آزما تھے۔ اور اس وقت بھی خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ تھا جب آپ تخت شاہی پر متمکن تھے۔ آپ کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قریباً ایک ہزار سال پہلے کا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت سلیمان آپ کے وارث بنے۔ سلیمان بادشاہت میں بھی آپ کے وارث تھے اور ان کی نیکی اور بزرگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نبوت کے مقام پر بھی سرفراز فرمایا۔
(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)