ہر حکم ترا صورت خورشید عَلَم ہے
ہر بات تری لوح زمانہ پہ رقم ہے
کوثر سے لب خامہ کو دھو لوں تو کروں ذکر
حقّا کہ ترا ذکر ہی معراج قلم ہے
ہستی کا اعتبار مجھے ڈھونڈتا رہا
میں اڑ گیا ، غبار مجھے ڈھونڈتا رہا
میں ذات سے نکل کے ملا کائنات میں
لیکن کسی کا پیار مجھے ڈھونڈتا رہا
ہر منزل حیات سے گزرا ہوں یوں قمرؔ
اڑتا ہوا غبار مجھے ڈھونڈتا رہا
قمرؔ کون جانے ، کٹے کس طرح دن
فرشتے بتاتے رہے جرم گِن گِن
خطاؤں کا پُتلا ہوں مشہور لیکن
شفاعت کے چھینٹوں سے دھویا ہوا ہوں
قصہ نہیں ہے ذات کا ، ہے یہ سفر حیات کا
بخشا گیا تمہیں قمرؔ غم ساری کائنات کا
سارے جہاں کو ساتھ لو ، لے کر غمِ جہاں چلو
دنیا نئی بسائیں ہم ، ڈھونڈیں نیا جہاں چلو