ابتدائیہ
سورۃ المدثر میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے
وَثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ
(المدثر: 5)
ترجمہ؛ اور جہاں تک تیرے کپڑوں (یعنی قریبی ساتھیوں) کا تعلق ہے تُو انہیں بہت پاک کر۔
اس امر کی تشریح میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’وہ کون سے کپڑے ہیں جن کو نبی مضبوطی سے اپنے ساتھ لگا لیتا ہے اور جن کو پاک کرتا ہے۔ یہاں کوئی ظاہری کپڑے مراد نہیں بلکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے اور آپ کی مطہر صحبت سے پاک کیے جاتے تھے‘‘
(سورۃ المدثر ترجمہ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)
تعارف
آپ کا نام سمیہ تھا۔ آپ صحابیہ تھیں۔ صحابیات سے مراد وہ خواتین مبارکہ ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کر کے خواتین کے لیے رہتی دنیا تک عمدہ نمونے قائم کیے۔ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پہلی شہید خاتون ہیں جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام کی خاطر باوجود کمزوری اور بڑھاپے کے انتہائی ظلم وستم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان اپنے خالقِ حقیقی کے سپرد کر دی۔ ان کا نام سمیہ تھا اور تاریخ انہیں اُم عمار بن یاسر کے خوبصورت نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ اُم شہید، زوجہ شہید اور خود شہید تھیں۔ ابتدائی اسلام لانے والے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ دعویٰ نبوت کے تین سال بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ طور پر دین اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کر دیا تو کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم پر مخالفت کے باعث شدید ظلم و ستم شروع کر دیا جن میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے بے یار و مددگار مرد عورت سبھی شامل تھے۔ انہی عظیم ہستیوں میں سر فہرست نام حضرت سمیہ کا ہے جنہوں نے ان ظلم و ستم کا بڑی بہادری اور جرات سے مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ آپ کا شمار بلند پایہ صحابیات میں ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ کے ایک قبیلہ بنو مخزوم کے رئیس ابو حذیفہ بن المغیرہ کی کنیز تھیں۔
شادی
ابو حذیفہؓ نے اپنی کنیز سمیہ کی شادی یمن سے آئے ہوئے اپنے ایک دوست یاسر سے کر دی۔ اس طرح ان کے تین بیٹے حضرت عمار، حضرت عبداللہ اور حریث پیدا ہوئے۔ دو بیٹے حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تو اسلام لائے لیکن تیسرے بیٹے حریث کو اسلام سے قبل ہی کسی نے قتل کر دیا تھا۔
پیارے آقا ؐسے محبت
رحمت ِعالم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بچپن اور جوانی کا سارا دور آل یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے گزرا اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شخصیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا۔ اسی لیے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کا دعوی کیا تو اس خاندان نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یمن سے مکہ آئے ہوئے تھے اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ابھی تک بنی مخزوم کی غلامی میں تھیں اس لیے ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے لیکن اسلام اور پیارے آقا کی محبت میں وہ یہ سب کچھ برداشت کرتے۔
بہادرانہ قربانیاں
مسلمانوں کے لیے یہ بہت صبر آزما وقت تھا خصوصاً مکہ کا جو شخص اسلام قبول کرتا وہ مشرکین مکہ کے غضب کا نشانہ بنتا۔ اس معاملہ میں وہ قریبی رشتہ داروں کا بھی لحاظ نہ کرتے تھے۔ اس لیے حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کا خاندان جو بے بس اور مظلوم تھا ان پر بھی مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے لیکن ان کا ایمان پہاڑوں کی طرح مضبوط تھا جن کو نہ طوفان کی موجیں بہا سکیں اور نہ ہی تند و تیز ہوائیں ان کا کچھ بگاڑ سکیں۔ یہی حال ان کے بیٹوں کا تھا۔ ان مظلوموں کو لوہے کی زرہیں پہنا کر مکہ کی تپتی ریت پر لٹانا۔ ان کی پیٹھ پر گرم لوہے رکھنا اور پانی میں غوطے دینا کفار کا روز کا معمول تھا۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سمیہ اور ان کے خاندان کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے آل یاسر تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارا ٹھکانہ جنت ہو گا‘‘
اسی طرح ایک اور موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مظالم ہوتا دیکھ کر فرمایا ’’صبر کرو الٰہی آل یاسر پر مغفرت فرما دے اور تو نے ان کی مغفرت کر ہی دی‘‘
بوڑھے یاسر رضی اللہ عنہ یہ ظلم سہتے سہتے شہید ہو گئے لیکن مخالفین اسلام کو پھر بھی اس خاندان پر رحم نہ آیا۔ انہوں نے حضرت سمیہ اور انکےبیٹوں پرظلم کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔ ایک دن حضرت سمیہ دن بھر سختیاں برداشت کرنے کے بعد شام کو گھر آئیں تو ابو جہل نے ان کو گالیاں دینا شروع کر دیں اور پھر اس قدر ہوا کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو بھی برچھی مار کر شہید کر دیا۔پھر تیر مار کر آپکے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کر دیا۔ اب صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ باقی رہ گئے تھے۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روتے ہوئے اپنی والدہ کا واقعہ سنایا۔ آپ نے ان کو صبر کی تلقین کی اور فرمایا ’’اے اللہ آل یاسر کو کو دوزخ سےبچا‘‘
اس طرح سے بعثت کے چھٹے سال خواتین میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شہادت نصیب ہوئی۔
صابر و شاکر خاتون
مسلمان خواتین کی تاریخ میں ایسی کوئی خاتون نہیں ہے جس نے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جتنا صبر کیا ہو۔ انہوں نے صبر کو اپنی عادت بنا لیا تھا۔ بڑھاپے کی انتہا کو پہنچی ہوئی کمزور خاتون نے صبر و استقامت کی ایسی مثالیں چھوڑی ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی خوشبو ہمیشہ پھیلتی رہے گی۔ باوجود اس کے ان پر ظلم و ستم روا رکھے گئے لیکن وہ اپنے عقیدے سے ذرہ بھر بھی نہ ہٹیں اور چٹان کی مانند ڈٹی رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق فرمائے۔ آمین
صحابہ کا بلند مقام
یہ وہ بلند مقام ہے صحابہ اور صحابیات کا جن کے بارے میں قرآن نے خود گواہی دی ہے۔ سورۃ توبہ آیت نمبر 100 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔‘‘
ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔
اس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2017ء میں فرماتے ہیں ’’اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر ہے جو سبقت لے جانے والے ہیں جو روحانی مرتبہ میں سب کے اوپر ہیں اور اپنے ایمان کے معیاروں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اعمال بجا لانے والے ہیں باقی سب کو پیچھے چھوڑنے والے ہیں یہی لوگ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اور دوسروں کے لیے اپنے بعد آنے والوں کے لیے اپنی مثالیں بطور نمونہ چھوڑ گئے تاکہ دوسرے ان کی تقلید کریں۔
اسی طرح آپ مزید فرماتے ہیں کہ ایک حدیث کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے‘‘۔
(خطبہ جمعہ 15 دسمبر 2017ء)
حرف آخر
غلام صادق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ہی پیارا ارشاد ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کیا ہی بلند مقام پایا۔ ’’انصافاً دیکھا جائے کہ ہمارے ہادی کامل کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنے خدا اور رسول کے لیے کیا کیا جان نثاریاں کیں۔ جلا وطن ہوئے، ظلم سہے، طرح طرح کے مصائب برداشت کیے۔ جانیں دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔ پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جانثار بنا دیا تھا۔ وہ سچی محبت الٰہی کا جوش تھا جس کی شعاع ان کے دل پر پڑ چکی تھی۔ اس لیے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے آپ کی تعلیم تزکیہ نفس اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرا دینا شجاعت کے ساتھ صداقت کے لیے خون بہا دینا۔ اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی۔ یہ مقام صرف اور صرف آپ کے صحابہ کا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر 43،42)
دعا
آخر میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اطاعت کے مقام کو بلند رکھتے ہوئے صحابہ اور صحابیات کی عمدہ مثالوں کو پڑھنے، سمجھنے اور سیرت پر بھرپور عمل کی توفیق بخشے۔ جنت کے وہ اعلیٰ مقام ان کو بھی عطاء فرمائے اور ہمیں بھی نسلاً در نسلاً ان راہوں پر عمل کرتے ہوئے وہ بلند ترین مقام عطاء کرے۔ آمین
الٰہی دے ہمیں دنیا کی جنت
رضا کی عشق کی آلا کی جنت
بہشتِ برزخ و محشر عطاء ہو
خداوندا! ملے عقبیٰ کی جنت
(بخار دل صفحہ نمبر 248)
(منزہ ولی سنوری۔کینیڈا)