• 28 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط9 حصہ اول)

حیاتِ نورالدینؓ
طبیب بے مثال
قسط9 حصہ اول

اللہ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسے پاک وجود نوازے جو نہ صرف علم الادیان میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے بلکہ ان میں سے بعض علم الابدان میں بھی ماہر تھے۔ ان پا ک وجودوں میں سے حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ کا وجود سب سے نمایاں ہے۔آپؓ ایک عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ حاذق طبیب بھی تھے اور آپ کی تشخیص نہایت اعلیٰ ہوتی تھی۔آپ مریضوں کے لئے محض ایک طبیب نہ تھے بلکہ ان کیلئے بطور ایک مسیحا کے تھے۔انکی حیثیت کے مطابق انہیں نسخہ جات تجویز فرماتے تھے یہاں تک کہ انکی ذاتی ضروریات کا بھی آپؓ خیال رکھا کرتے تھے۔

آپ دوا کی قیمت تو لیتے ہی نہ تھے بلکہ اگر کسی شخص کے لئے غذا کے طور پر دودھ ڈبل روٹی تجویز فرماتے اور وہ کہتا کہ میں غریب آدمی ہوں خرید نہیں سکتا تو آپ اپنی گرہ سے اس کی خوراک کا انتظام فرماتے۔

(حیات نور مصنفہ شیخ عبدالقادر سوداگرمل صفحہ306)

حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ آپ کی طبی ذہانت کے بارے میں فرماتے ہیں
مولوی صاحب کا وجود ازبس غنیمت ہے۔ آپ کی تشخیص بہت اعلیٰ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بیمار کے واسطے دعا بھی کرتے ہیں ایسے طبیب ہر جگہ کہاں مل سکتے ہیں۔

(حیات نور مصنفہ شیخ عبدالقادر سوداگرمل صفحہ303 البدر 5 ستمبر 1907ء)

حضرت مسیح موعودؑ کا آپ کی طبابت کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین

آپؓ کی طبی خدمات کو حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1922ء کے موقع پر اپنی تقریر میں فرمایا کہ
ایک دفعہ گھر میں حضرت مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب) کا ذکر آیا تو آپؑ ان کا نام لے کر دیر تک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا ورد کرتے رہے اور فرمایا
مولوی صاحب بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں۔ ان کے ذریعہ کئی غریبوں کا علاج ہوجاتا ہے۔

(انوارالعلوم جلد3 صفحہ35)

آپ کے شہرہ عالم نسخہ جات آپ کی زندگی میں ہی آپؓ کے ایک تلمیذ خاص مفتی فضل الرحمٰن صاحب نے رسالہ طبیب حاذق میں1905ءمیں شائع فرمائے۔ پھر 1909ء میں اسے مجربات نورالدین کے نام سے 3جلدوں میں شائع کیا۔ اس کے بعد 1924 میں آپ نے بیاض نورالدین حصہ اول کے نام سے یہی کتا ب دوبارہ شائع فرمائی اور 1925 ء میں اس کا دوسرا حصہ شائع فرمایا۔

آپ نے طب کی ابتدائی تعلیم بھیرہ میں ہی حاصل کی اور کچھ عرصہ درس وتدریس میں مشغول رہے اس کے بعد لاہور دہلی رام پور میرٹھ بھوپال لکھنؤ اور دکن تک گھوم کر آپؓ نے اس زمانہ کے ماہر حکماء سے سبق لئے۔ آپ نے صرف اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ جدید طب کی کتب مصر وغیرہ ممالک سے بھی منگوا کر مطالعہ کیں۔

چنانچہ1899ء میں آپ ؓ نے مولوی غلام نبی صاحب کو بھوپا ل اور 1902ء میں آپ کومصر بھیجا کہ وہ طب جدید پر عربی کتب لے کر آئیں۔ اسی طرح ایک شخص کو استنبول کے کتب خانوں سے طبی نوادرات کو نقل کرنے پر مامور کیا۔

کشمیر کی ملازمت کے دوران میں شاہی طبیب کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے کے باوجود آپ نے ایک معمولی پنڈت سے آریوویدک طب پڑھنا شروع کردی اور اس پنڈت کی آپ بہت عزت کیا کرتے تھے۔

(حیات نور مصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ241)

طبابت میں آپ ؓ کی سادگی

حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے پچاس سال خلق خدا کی مفت خدمت کی۔ ان کا مطب ایک کمرہ تھا۔ جس کے فرش پر کھجور کے پتوں کی چٹائی بچھی تھی۔ ایک طرف ان کی اپنی مسند تھی جس کے لئے دری کا مصلیٰ دوہرا کرکے بچھا ہوا تھا جس کے ساتھ چھوٹی میز پر قلمدان اور سفید کاغذ رہتے تھے۔ مریض باری باری آتے اپنی کیفیت سناتے اور نسخہ لے کر چلے جاتے۔ جو لوگ شفایاب ہوتے اپنی خوشی سے مصلیٰ کے نیچے کچھ رکھ جاتے۔ حضور نے کبھی توجہ نہیں کی کہ رکھنے والے نے پیسہ رکھا ہے یا سو کا نوٹ اور نہ ہی کسی سے کبھی کچھ طلب کیا جاتا۔

(بیاض نورالدین صفحہ21)

آسان اور جامع نسخہ جات

آپ کے نسخوں کا سب سے بڑا کمال ان کا مختصر جامع اور آسان ہونا ہے۔ سوزاک کے علاج میں طب یونانی میں اگرچہ بڑے بڑے طویل وعریض نسخے ہیں مگر آپ نےبھوپال کے ولی عہد کا علاج صرف قلمی شورہ اور آب کیلا سے کیا۔

(بیاض نورالدین صفحہ22)

ایلوپیتھی کا شوق

آپ یونانی ڈاکٹری اور ویدک تینوں علوم میں یکتائے زمانہ تھے۔

حضورؓ فرماتے ہیں
ان دنوں شریف مکہ کو سنگ مثانہ تھا۔ چونکہ فرانس کے ساتھ وہاں کے شریف کا تعلق تھا فرانس سے وہ آلہ جس سے پتھری پیس کر نکالتے ہیں منگوایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے اس کو پیس کر نکالا۔ اس کامیاب تجربہ سے مجھے ڈاکٹری طب کا بہت شوق ہوا۔

(مرقاۃ الیقین صفحہ117)

آپ کی شہرت ایک حاذق طبیب کے طور پر اس قدر تھی کہ ایک دفعہ وزیر اعظم جموں دیوان کرپا رام کا گزر پنڈدادنخان سے ہوا انہوں نے آپ کی شہرت سنی تو ریاست جموں وکشمیر کے راجہ رنبیر سنگھ سے آپ کی طبی قابلیت کا ذکر کیا۔ جس سے اس کے دل میں آپ کی عظمت قائم ہوگئی۔

بھیرہ کے ایک ہندو لالہ متھرا داس ریاست جموں کشمیر میں پولیس کے ملاز م تھے۔ ایک دفعہ وہ بھی سل میں بیمار ہوکر بھیرہ آئے۔ آپؓ نے اس کا علاج کیا وہ ٹھیک ہوگیا جس کا چرچا ہوا۔ اور بعد میں مہاراجہ رنبیر سنگھ نے لالہ متھراداس کو ہی بھجوایا تھا کہ جا کر حکیم صاحب کو جموں لے آؤ یہ 1876ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ86)

انہی دنوں آپ کو ایک خواب کی بنا پر کشمیر جانے کی تحریک ہوئی۔ ساتھ ہی مہاراجہ نے آپ کو نوکری کی پیش کش کردی جو آپؓ نے قبول فرمالی۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ98)

شروع میں آپ کو شاہی طبیب حکیم فدا محمد خان کا اسسٹنٹ لگایا گیا مگر کچھ ہی عرصہ میں آپ شاہی طبیب مقرر کردئے گئے اور تمام مدرسے اور شفا خانے آپ کے ماتحت کر دئے گئے۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر)

1876ء سے لیکر 1892 ء تک آپ ریاست جموں کشمیر میں شاہی طبیب رہے۔ اس دوران آپ کے طب کے حوالہ سے بے شمار واقعات ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ ابھی آئے گا۔

براہین احمدیہ چہار حصص کی اشاعت کے بعد آپ کا حضرت مسیح موعودؑ سے رابطہ ہوگیا تھا۔ لیکن قادیان میں مستقل ہجرت (جوکہ 1893۔1894 میں ہوئی) تک آپ وہیں بطور شاہی طبیب کام کرتے رہے۔

مکتوبات احمدیہ جلد 5 نمبر 2 جوکہ حضرت مسیح موعودؑر کے خطوط بنام حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب پر مشتمل ہے میں کئی ایسے خطوط ہیں جن میں آپؓ کی قادیان آمد سے قبل حضرت اقدس نے اپنے گھر والوں کے لئے آپ سے نسخہ جات اور ادویات طلب فرمائی ہیں۔ یہ نسخہ جات اور ادویات آپؑ کے خاندان اور دیگر احباب کے لئے بھی ہوتےتھے۔ اور جب آپ نے مستقل قادیان ہجرت کرلی تو آپ کو زیادہ قریب ہوکر حضرت اقدس کے خاندان کے علاج کا شرف ملا۔

حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کے پیارے بیٹے مرزا مبارک احمد صاحب کی بیماری میں آخری وقت تک آپؓ ان کا علاج کرتے رہے۔

(انوارالعلوم جلد7 صفحہ66)

1905 کے آخر میں جب حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ دہلی میں قیام پذیر تھے تو حضرت میر ناصر نواب صاحب بیمار ہوگئے۔ اس وقت حضور نے علاج کی غرض سے آپؓ کو بذریعہ تار قادیان سے بلوایا اور آپؓ نے انکا علاج کیا۔

پھر حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو اولادِ نرینہ کے لئے نسخہ نورِ نظر دیا جوکہ مجرب ثابت ہوا۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ198)

نسخہ نور نظر

(1)کلونجی 9ماشہ(2)کالی مرچ 6ماشہ(3)کچور 6ماشہ
(4)مجیٹھ 6ماشہ (5)مشک خالص3ماشہ

کل پانچ دوائیں ہیں۔ باریک پیس کر ایک رتی سے دو رتی تک تا ایام ولادت ہر ماہ دس دن (صرف ایک وقت) عورت کو کھلا دیا کریں۔ ان شاءاللہ تعالیٰ اولاد نرینہ ہوگی۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ198-199)

اکتوبر 1904ء میں آپ کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بیٹےعبد الرحیم کاتپ محرقہ کا علاج کرنے کی بھی توفیق حاصل ہوئی۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ276)

جموں میں بطور شاہی طبیب آپ کی خدمات

1879ء کے قریب کشمیر میں سخت قحط پڑا اور اس کے بعد ہیضہ کی خطرناک وبا پھوٹ پڑی اور ہزاروں لوگ لقمۂ اجل ہوئے۔ آپ نے اس وبا میں مخلوق خدا کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا جس پر آپ کو مہاراجہ نے ایک نہایت قیمتی خلعت بطور انعام پیش کی۔ 1880-81ء میں راجہ پونچھ کو پیچش کے شدید مرض سے مخلصی ہوئی اور کئی سال تک وہ آپ کو خطیر رقم بطور شکریہ بھجواتے رہے۔ 1886ء میں راجہ پونچھ کے بیٹے ٹکہ بلدیو سنگھ کو زلزلوں سے دماغی خلل ہوگیا جس کا آپ نے ایسا کامیاب علاج کیا کہ راجہ پونچھ نے ہزاروں روپے دیئے۔ بلکہ مہاراجہ جموں وکشمیر نے آپ کو سال بھر کی تنخواہ کے علاوہ مزید انعام بھی دیا۔

(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ88)

راجہ موتی سنگھ جی کا علاج

ایک دفعہ بہت شدید ہیضہ پھیلا وہاں کے راجہ باہونام ایک قلعہ میں تشریف لے گئے۔ اس سبب سے مجھے بھی وہاں جانا پڑا۔ راجہ موتی سنگھ جی بھی تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر ان کو ذوسنطاریا (Dysentery) کا شدید مرض لاحق ہوا۔ساتھ ہی ان کو پیچش بھی تھی اور وہ ہیضہ کے دن تھے۔ اس لئے اس قلعہ میں ان کو میرے طبی مشورہ کی ضرورت پڑی۔ بہت دنوں کی آمد ورفت سے ان کے ساتھ گہرا تعلق پیدا ہوگیا۔ انہوں نے جو رقم بطو ر شکریہ مجھ کو دی وہ سالہا سال برابر دیتے رہے۔آپ کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی شفا عطا فرمائی۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ102 مرقاۃ الیقین صفحہ167)

دوائی تجویز کرتے وقت آپ کا طریق

ایسی دوائیاں جو آسانی سے میسر نہ آسکتی ہوں آپ عموما استعمال نہ فرماتے تھے۔ 11جون 1912ء کو آپ ؓ نے ایک مریض سے فرمایا
ہر پیشہ میں میعاد کو دخل ہے ایک معمار کہہ سکتا ہے کہ میں مکان اتنے دنوں میں تیا کر دوں گا۔ ایک کلرک کہہ سکتا ہے کہ میں اتنے دنوں میں اس رجسٹر کی خانہ پری کر دوں گا۔ ایک درزی کہہ سکتا ہے کہ میں اتنے دنوں میں کپڑا سی کر تیا ر کر دوں گا۔ لیکن ایک طبیب یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اتنے دنوں میں مرض کو اچھا کر دوں گا۔ ہاں جاہل طبیب ایسا کہہ دیتے ہیں لیکن جس قدر اعلیٰ درجہ کا طبیب ہوگا اسی قدراس قسم کے دعوے سے ڈرے گا۔ ہم شوقین بھی اتنے ہیں کہ چین سے بھی دوائیں منگوا لیتے ہیں اور محتاط بھی اس قدر ہیں کہ بعض وہ دوائیں جو بڑی محنتوں اور صرف زر کثیر کے بعد میسر ہوئیں ان کو آج تک کسی مریض پر تجربہ نہیں کیا۔ صرف اس لئے کہ کوئی طبیب ایسا نہیں ملا جو ان کے متعلق اپنا ذاتی تجربہ اور طریق استعمال بیان کرسکے۔ بوٹیاں اور ایسی دوائیں جو سہل الحصول نہ ہوں ہم کبھی استعمال نہیں کرتے۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ556۔557)

کبھی کسی مریض کو سرسری طور پر نہ دیکھا

ایک دفعہ نیلا گنبد لاہور کے ایک سائیکل مرچنٹ نے اپنا بیمار بچہ آپ کو راستہ میں دکھایا اور آپ نے انہیں ایک مختصر سا نسخہ تجویز کردیا۔بچے کے گھر والوں کو خیال گزرا کہ بچہ کو بخار زیادہ ہوگیا ہے وہ شام کو پھر آگئے اور مزید تفصیل بتا کر آپ سے علاج چاہا۔ اس پر آپ نے فرمایا
نورالدین نے ساری عمر کسی مریض کو سرسری نہیں دیکھا۔ آپ وہی نسخہ دیں۔ ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گااور بچہ چار گھنٹے بعد ٹھیک ہوگیا۔

(بیاض نورالدین جدید ایڈیشن صفحہ26)

(جاری ہے)

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جولائی 2022