• 7 مئی, 2024

روح کی حقیقت

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:۔

وَیَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا

(بنی اسرئیل: 86)

ترجمہ:اور وہ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں تو (انہیں) کہہ (کہ) روح میرے رب کے حکم سے (پیدا ہوئی) ہے اور تمہیں (اس کے متعلق) علم سے کم ہی (حصہ) دیا گیا ہے۔

ہر یک جسم میں جتنے ذرات ہیں اسی قدر روحوں کا اس سے تعلق ہے اگر ایک قطرہ پانی کو خوردبین سے دیکھا جائےتو ہزاروں کیڑے اس میں نظر آتے ہیں ویسا ہی پھلوں میں اور بوٹیوں میں اور ہوا میں بھی کیڑے مشہود ومحسوس ہیں۔ بہرحال ہر یک جسم دار چیز کیڑوں سے بھری ہوئی ہے مگر کبھی وہ کیڑے مخفی ہوتے ہیں یا یوں کہو کہ بالقوہ پائے جاتے ہیں اور ممکن قوت سے حیز فعل میں آجاتے ہیں مثلًا جس اناج کو دیکھو تو بظاہر ایسا معلوم ہو گا کہ اس میں کوئی کیڑا نہیں اور پھر خودبخود اس کے اندر میں ہی سے کچھ تغیر پیدا ہو کر اس قدر کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں کہ گویا وہ سب جسم کیڑے ہی کیڑے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ ارواح کو اجسام سے ایک لازمی اور دائمی تعلق پڑا ہوا ہے۔

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ134۔135 حاشیہ)

روح کیا ہے

روح ہرگز جسم نہیں ہے جسم قسمت کو قبول کرتا ہےاور روح قابل انقسام نہیں۔

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزئن جلد2 صفحہ124 حاشیہ)

روح ایک لطیف نور ہے جو اس جسم کے اندر ہی سے پیدا ہو جاتا ہے جو رحم میں پرورش پاتا ہے۔ پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ اوّل مخفی اور غیرمحسوس ہوتا ہے پھر نمایاں ہو جاتا ہے اور ابتداء سے اس کا خمیر نطفہ میں موجود ہوتا ہے۔ بےشک وہ آسمانی خدا کے ارادہ سے اور اس کے اذن اور اس کی مشیت سے ایک مجہول الکنہ علاقہ کے ساتھ نطفہ سے تعلق رکھتا ہے اور نطفہ کا وہ ایک روشن اور نورانی جوہر ہے۔ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نطفہ کی ایسی جز ہے جیسا کہ جسم جسم کی جز ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر سے آتا ہے یا زمین پر گر کر نطفہ کے مادہ سے آمیزش پاتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا نطفہ میں مخفی ہوتا ہے جیسا کہ آگ پتھر کے اندر ہوتی ہے۔

روح کی دوسری پیدائش

جس قادرمطلق نے روح کو قدرت کاملہ کے ساتھ جسم میں سے ہی نکالا ہے اس کا یہی ارادہ معلوم ہوتا ہے کہ روح کی دوسری پیدائش کو بھی جسم کے ذریعے سے ہی ظہور میں لاوے۔ روح کی حرکتیں ہمارے جسم کی حرکتوں پر موقوف ہیں۔ جس طرف ہم جسم کو کھینچتے ہیں روح بھی بالضرور پیچھے پیچھے کھینچی چلی آتی ہے۔ اس لئے انسان کی طبعی حالتوں کی طرف متوجہ ہونا خدا تعالیٰ کی سچی کتاب کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے انسان کی طبعی حالتوں کی اصلاح کے لئے بہت توجہ فرمائی ہے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ322۔323)

انسانی روح کی پیدائش

انسانی روح کے پیدا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کا قانون قدرت یہ ہے کہ دو نطفوں کے ملنے کے بعد جب آہستہ آہستہ قالب تیار ہو جاتا ہے تو جیسے چند ادویہ کے ملنے سے اس مجموعہ میں ایک خاص مزاج پیدا ہو جاتی ہے کہ جو ان دواؤں میں فرد فرد کے طور پر پیدا نہیں ہوتی اسی طرح اس قالب میں جو خون اور دو نطفوں کا مجموعہ ہے ایک خاص جوہر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایک فاسفرس کے رنگ میں ہوتا ہے اور جب تجلی الٰہی کی ہوا کُن کے امر کے ساتھ اس پر چلتی ہے تو یکدفہ وہ افروختہ ہو کر اپنی تاثیر اس قالب کے تمام حصوں میں پھیلا دیتا ہے۔ تب وہ جنین زندہ ہو جاتا ہے پس یہی افروختہ چیز جو جنین کے اندر تجلی ربی سے پیدا ہو جاتی ہے اسی کا نام روح ہے۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ159)

ارواح حادث اور مخلوق ہیں

ارواح کا حادث اور مخلوق ہونا قرآن شریف میں بڑے قوی اور قطعی دلائل سے بیان کیا گیا ہے چنانچہ برعایت ایجازواجمال چند دلائل ان میں سے نمونہ کے طور پر اس جگہ لکھے جاتے ہیں۔

اوّل یہ بات بہ بداہت ثابت ہے کہ تمام روحیں ہمیشہ اور ہر حال میں خدائے تعالیٰ کی ماتحت اور زیرحکم ہیں اور بجز مخلوق ہونے کے اور کوئی وجہ موجود نہیں جس نے روحوں کو ایسے کامل طور پر خدائے تعالیٰ کی ماتحت اور زیرحکم کر دیا ہو سو یہ روحوں کے حادث اور محلوق ہونے پر اوّل دلیل ہے۔

دوم یہ بات بھی بہ بداہت ثابت ہے کہ تمام روحیں خاص خاص استعدادوں اور طاقتوں میں محدود اور محصور ہیں جیسا کہ بنی آدم کے اختلاف روحانی حالات و استعدادات پر نظر کر کے ثابت ہوتا ہے اور یہ تحدید ایک محدد کو چاہتی ہے جس سے ضرورت محدث کی ثابت ہو کر (جو محدد ہے) حدوث روحوں کا بہ پایۂ ثبوت پہنچتا ہے۔

سوم یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ تمام روحیں عجزواحتیاج کے داغ سے آلودہ ہیں اور اپنی تکمیل اور بقاء کے لئے ایک ایسی ذات کی محتاج ہیں جو کامل اور قادر اورعا لم اور فیاض مطلق ہو اور یہ امر ان کی مخلوقیت کو ثابت کرنے والا ہے۔

چہارم یہ بات بھی ایک ادنیٰ غور کرنے سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری روحیں اجمالی طور پر ان سب متفرق الٰہی حکمتوں اور صنعتوں پر مشتمل ہیں جو اجرام علوی و سفلی میں پائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا با اعتبار اپنے جزئیات مختلفہ کے عالم تفصیلی ہے اور انسان عالم اجمالی کہلاتا ہے یا یوں کہو کہ یہ عالم صغیر اور وہ عالم کبیر ہے پس ایک جزئی عالم کے بوجہ پائے جانے پُرحکمت کاموں کے ایک صانع حکیم کی صنعت کہلاتی ہے تو خیال کرنا چاہیے کہ وہ چیز کیونکر صنعت الٰہی نہ ہوگی جس کا وجود اپنے عجائبات ذاتی کی رو سے گویا تمام جزئیات عالم کی عکسی تصویر ہے اور یک جزئی کے خواص عجیبہ اپنے اندر رکھتی ہے اور حکمت بالغہ ایزدی پر بوجہ اتمّ مشتمل ہے۔

پنجم جس طرح بیٹے میں ماں اور باپ کا کچھ کچھ حلیہ اور خوبو پائی جاتی ہے اسی طرح روحیں جو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلی ہیں اپنے صانع کی سیرت و خصلت سے اجمالی طور پر کچھ حصہ رکھتی ہیں اگرچہ مخلوقیت کی ظلمت و غفلت غالب ہوجانے کی وجہ سے بعض نفوس میں وہ رنگ الٰہی کچھ پھیکا سا ہو جاتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ہر یک روح کسی قدر وہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اور پھر بعض نفوس میں وہ رنگ بد استعمالی کی وجہ سے بدنما معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس رنگ کا قصور نہیں بلکہ طریقہ استعمال کا قصور ہے۔ انسان کی اصلی قوتوں اور طاقتوں میں سے کوئی بھی بری قوت نہیں صرف بداستعمالی سے ایک نیک قوت بری معلوم ہونے لگتی ہے۔ اگر وہی قوت اپنے موقع پر استعمال کی جائے تووہ سراسر نفع رساں اور خیرمحض ہے اور حقیقت میں انسان کو جس قدر قوتیں دی گئی ہیں۔ وہ سب الٰہی قوتوں کے اظلال و آثار ہیں۔ جیسے بیٹے کی صورت میں کچھ کچھ باپ کے نقوش آ جاتے ہیں ایسا ہی ہماری روحوں میں اپنے رب کے نقوش اور اس کی صفات کے آثار آ گئے ہیں جن کو عارف لوگ خوب شناخت کرتے ہیں اور جیسے بیٹا جو باپ سے نکلا ہے اس سے ایک طبعی محبت رکھتا ہے نہ بناوٹی۔

اسی طرح ہم بھی جو اپنے رب سے نکلے ہیں اس سے فی الحقیقت طبعی محبت رکھتے ہیں نہ بناوٹی اور اگر ہماری روحوں کو اپنے رب سے یہ طبعی و فطرتی نہ ہوتا تو پھر سالکین کو اس تک پہنچنے کے لئے کوئی صورت اور سبیل نہ تھی۔

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ167تا169)

ارواح کو بقا ہے یا فنا

بجز انسان کے اور کسی حیوان اور کیڑے مکوڑے کی روح کو بقاء نہیں۔

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ620)

قرآن شریف یہ نہیں سکھلاتا کہ انسانی ارواح اپنی ذات کے تقاضا سے ابدی ہیں بلکہ وہ یہ سکھلاتا ہے کہ یہ ابدیت انسانی روح کے لئے محض عطیہ الٰہی ہے ورنہ انسانی روح بھی دوسرے حیوانات کی روحوں کی طرح قابل فنا ہے۔

(نسیم دعوت،روحانی خزائن جلد19 صفحہ382 حاشیہ)

اور یہ کہنا کہ اگر روح مخلوق ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ فنا بھی ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ روح بیشک فنا پذیر ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ جو چیز اپنی صفات کو چھوڑتی ہے اس حالت میں اس کو فانی کہا جاتا ہے۔ اگر کسی دوا کی تاثیر بالکل باطل ہو جائے تو اس حالت میں ہم کہیں گے کہ وہ دوا مر گئی ایسا ہی روح میں یہ امر ثابت ہے کہ بعض حالات میں وہ اپنی صفات کو چھوڑ دیتی ہے بلکہ اس پر جسم سے بھی زیادہ تغیرات واجب ہوتے ہیں انہیں تغیرات کے وقت کہ جب وہ روح کو اس کی صفات سے دور ڈال دیتی ہیں کہا جاتا ہے کہ روح مر گئی ہے کیونکہ موت اسی بات کا نام ہے کہ ایک چیز اپنی لازمی صفات کو چھوڑ دیتی ہے تب کہا جاتا ہے کہ وہ چیز مر گئی اور یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فقط انہیں انسانی روحوں کو بعد مفارقت دنیا زندہ قرار دیا ہے جن میں وہ صفات موجود تھے جواصل غرض اور علّت غائی ان کی پیدائش کی تھی یعنی خدائےتعالیٰ کی کامل محبت اور اس کی کامل اطاعت جو انسانی روح کی جان ہے اور جب کوئی روح خدا تعالیٰ کی محبت سے پر ہو کر اور اس کی راہ میں قربان ہو کر دنیا سے جاتی ہے تو اسی کو زندہ روح کہا جاتا ہے باقی سب مردہ روحیں ہوتی ہیں۔ غرض روح کا اپنی صفات سے الگ ہونا یہی اس کی موت ہے چنانچہ حالت خواب میں بھی جب جسم انسانی مرتا ہے تو روح بھی ساتھ ہی مر جاتی ہے یعنی اپنی صفات موجودہ کو جو بیداری کی حالت میں تھیں چھوڑ دیتی ہے اور ایک قسم کی موت اس پر وارد ہو جاتی ہے کیونکہ خواب میں وہ صفات اس میں باقی نہیں رہتیں جو بیداری میں اس کو حاصل ہوتی ہیں۔ سو یہ بھی ایک قسم موت کی ہے کیونکہ جو چیز اپنی صفات سے الگ ہو جائے اس کو زندہ نہیں کہہ سکتے۔

(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد23صفحہ 160۔161)

روحوں سے ملاقات

یہ بات ممکن تو ہے کہ کشفی طور سے روحوں سے انسان مل سکتا ہے مگر اس امر کے حصول کے واسطے ریاضات شاقہ اور مجاہدات سخت کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے خود آزمایا ہے اور تجربہ کیا ہے اور بعض اوقات روحوں سے ملاقات کر کے باتیں کی ہیں۔ انسان ان سے بعض مفید مطلب امور اور دوائیں وغیرہ بھی دریافت کر سکتا ہے۔ ہم نے خود حضرت عیسٰیؑ کی روح اور آنحضرتﷺ اور صحابہؓ سے بھی ملاقات کی ہے اور اس معاملے میں صاحب تجربہ ہیں۔ لیکن انسان کے واسطے مشکل یہ ہے کہ جب تک اس راہ میں مشق اور قاعدہ کی پابندی سے مجاہدات نہیں کرتا یہ امر حاصل نہیں ہو سکتا اور چونکہ ہر ایک کو یہ امر میسّر بھی نہیں آسکتا اس واسطے اس کے نزدیک یہ ایک قصہ کہانی ہی ہوتی ہے اور اس میں حقیقت نہیں ہوتی۔

(الحکم جلد12 نمبر36 مورخہ 2؍جون 1908 صفحہ8)

روح کی اقسام

روح تین قسم کی ہوتی ہے روح نباتاتی، روح حیوانی، روح انسانی۔

ان تینوں کو ہم برابر نہیں مانتے۔ ان میں سے حقیقی زندگی کی وارث اور جامع کمالات صرف انسانی روح ہے۔ باقی حیوانی اور نباتاتی روح میں بھی ایک قسم کی زندگی ہے۔ مگر وہ انسانی روح کی برابری نہیں کر سکتی۔ نہ ویسے مدارج حاصل کر سکتی ہے۔ اور نہ کمالات میں انسانی روح کی برابری کر سکتی ہے۔ کچھ تشابہ ہو تو اس باریک بحث میں ہم پڑنا مناسب نہیں سمجھتے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض خاص خاص صفات میں یہ روحیں انسانی روح سے مشابہت رکھتی ہوں مگر جس طرح انسان میں اور ان میں ظاہری اختلاف اور فرق ہے اسی طرح اختلاف روحانی بھی پایا جاتا ہے۔

(الحکم جلد12 نمبر35 مورخہ 30؍مئی 1908ء صفحہ6)

(توصیف احمد)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جولائی 2022